سوره مُلْک یا تَبارَ‌ک قرآن کی 67ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو پارہ نمبر 29 میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام "ملک‌" اور "تبارک" رکھنے کی وجہ ان دونوں الفاظ کا اس سورت کی پہلی آیت میں موجود ہونا ہے۔ سورہ ملک کا اصل مقصد معاد اور خدا کی ربوبیت کی عمومیت کو بیان کرنا ہے جو تمام عالمین کو شامل کرتی ہے۔ اس سورت کا آغاز خدا کی فرمانروائی، حاکمیت اور قدرت مطلقہ پر خدا کو تبریک و تحسین سے ہوتا ہے اور دوسری آیت میں موت اور حیات کی آفرینش کو خدا کی جانب سے امتحان اور انتخاب اصلح کے معیار کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔
پہلی اور دوسری آیت اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں۔ اس سورت کی تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص رات کے وقت سورہ ملک کی تلاوت کرے خدا اسے شب قدر کی شب بیداری کا ثواب عطا کرے گا۔

تحریم سورۂ ملک قلم
ترتیب کتابت: 67
پارہ : 29
نزول
ترتیب نزول: 77
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 30
الفاظ: 335
حروف: 1388

اجمالی تعارف

نام‌:

اس سورت کا نام "ملک‌" اور "تبارک" رکھنے کی وجہ ان دونوں الفاظ کا اس سورت کی پہلی آیت میں موجود ہونا قرارد دیا جاتا ہے۔[1] تبارک کے معنی خدا کی طرف سے بہت زیادہ برکات کے نزول کے ہیں۔[2] اس سورت کے دیگر اسامی میں "مانعہ" (منع کرنے والی)، واقیہ (محفوظ رکھنے والی)، منجیہ (نجات دینے والی) اور منّاعہ (بہت منع کرنے والی) وغیره شامل ہیں۔ قاریوں کا حفظ کرنا اور اس سورت پر عمل کرنے والوں کا عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہنا ان اسامی کی علت قرار دیتے ہیں[3] جن کی طرف احادیث میں اشارہ ہوا ہے۔[4]

محل اور ترتیب نزول:

سورہ ملک مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول نزول کے اعتبار یں 77ویں جبکہ مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 67ویں سوره ہے اور 29ویں پارے میں واقع ہے۔[5]

آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات:

سورہ ملک 30 آیات[یادداشت 1] 330 کلمات اور 1300 حروف پر مشتمل ہے[6] اور حجم کے اعتبار سے اس کا شمار سور مفصلات میں ہوتا ہے اور ایک پارے کے نصف کے برابر ہے۔[7] یہ سورت سورہ طور کے بعد اور سورہ حاقہ اور ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی ہے اور اس میں کوئی مدنی آیت نہیں ہے۔[8] سورہ ملک کا آغاز سورہ فرقان کی طرح لفظ "تبارک الذی" سے ہوتا ہے اور سور ممتحنات میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے،[9] جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ محتوائی طور پر سورہ ممتحنہ کے ساتھ تناسب رکھنے کی وجہ سی انہیں سور ممتحنہ کہا جاتا ہے۔[10] [یادداشت 2]

مفاہیم

سورہ ملک کا اصل مقصد خدا کی ربوبیت کی عمومیت کو بیان کرنا اور معاد سے لوگوں کو ڈرانا ہے۔[11] اس سورت کا آغاز خدا کی فرمانروائی، حاکمیت اور قدرت مطلقہ پر خدا کو تبریک و تحسین سے ہوتا ہے اور دوسری آیت میں موت اور حیات کی خلقت کو خدا کی جانب سے امتحان الہی اور انتخاب اصلح کے معیار کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔[12]

تفسیر نمونہ میں سورہ ملک کے مطالب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  1. مبدأ و معاد، خدا کے صفات اور خلقت کے شگفت انگیز نظام، خاص کر آسمانوں، ستاروں، زمین اور اس کی نعمتوں، پرندوں، جاری پانی اور کان، آنکھ اور دیگر شناخت کے ابزار کے بارے میں بحث و گفتگو۔
  2. معاد اور عذاب دوزخ نیز دوزخ کے عذاب پر موکل پہرہ داروں کا جہنمیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بحث۔
  3. کافروں اور ظالموں کو دنیوی اور اخروی عذاب کے مختلف انواع سے ڈرانا۔[13]
سورہ ملک کے مضامین[14]
 
 
 
 
کائنات اور انسانی زندگی پر اللہ کی حکمرانی اور تدبیر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا گفتار؛ آیہ ۱۵-۳۰
انسانی زندگی میں اللہ کی تدبیری کی نشانیاں
 
دوسرا گفتار؛ آیہ ۶-۱۴
انسان کے انجام میں اللہ کی ربوبیت کے عقیدے کی تأثیر
 
پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۵
کائنات پر اللہ کی فرمانروائی کی دلیلیں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلی نشانی؛ آیہ ۱۵-۱۸
انسان کے استفادے کے لیے زمین تیار کرنا
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۶-۱۱
اللہ کی ربوبیت کے منکروں کی سزا اور اس کی علت
 
پہلی دلیل؛ آیہ ۱
دنیا کا اللہ کی ہمیشہ لطف سے وابستہ ہونا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسری نشانی؛ آیہ ۱۹
آسمان پر پرندوں کی پرواز
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۲
ربوبیت الہی کے عقیدے کا اجر
 
دوسری دلیل؛ آیہ ۲
انسان کی حیات و ممات کی حکیمانہ تخلیق
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسری نشانی؛ آیہ ۲۰-۲۲
انسانوں کے لیے اللہ کی مدد
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۳-۱۴
انسانی عقائد سے اللہ کا علم
 
تیسری دلیل؛ آیہ ۳-۵
ہم آہنگ اور بامقصد نظام کائنات
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھی نشانی؛ آیہ ۲۳
انسان میں سماعت، بصارت اور تعقل کی طاقت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچویں نشانی؛ آیہ ۲۴-۲۷
انسان کا اللہ کی طرف جانا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹی نشانی؛ آیہ ۲۸-۲۹
مومنوں پر اللہ کی رحمت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ساتویں نشانی؛ آیہ ۳۰
زمین پر پانی جاری کرنا


آیت نمبر 13 کی شأن نزول

سورہ ملک کی آیت نمبر 13 وَأَسِرُّ‌وا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُ‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌؛ (ترجمہ: اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔)[؟؟] کی شأن نزول کے بارے میں ابن عباس سے یوں نقل ہوا ہے: یہ آیت بعض مشرکوں یا منافقوں کے بارے میں ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ناروا روا رکھتے تھے اور آپ کی شأن میں گستاخی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ آہستہ بات کرو تاکہ محمدؐ اور ان کے اصحاب کے کانوں تک یہ باتیں نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن جبرئیل آنحضرت کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور قرآن نے بھی اس نکتے پر زیادہ تأکید کی ہے کہ تم چاہے آہستہ بولیں یا بلند آواز کے ساتھ خدا تمہارے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔[15]

مشہور آیات

سورہ ملک کی ابتدائی دو آیتیں اس کی مشہور اور معروف آیتوں میں سے ہیں:

آیت تبارک (1)

تَبَارَ‌كَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌﴿1﴾»
 (ترجمہ: بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔)[؟؟]

علامہ طباطبایی لفظ "تبارک" جو کہ اس آیت کی ابتداء میں آیا ہے کو ہر اس چیز کے بارے میں جو فراوان خیر و برکت کا منشاء قرار پاتی ہے۔[16] اس آیت میں خداوند عالم کی ذات کا مبارک ہونا پوری کائنات پر اس کی مالکیت اور حاکمیت اور ہر چیز پر اس کی قدرت اور سلطنت کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے خدا کو زوال ناپذیر اور بابرکت ذات کے طور پر معرفی کرتے ہیں۔[17]
"بیدہ الملک" کی تعبیر اس آیت میں نمام کائنات پر خدا کی تسلط اور قدرت کی طرف اشارہ ہے اس طرح کہ خدا کائنات میں ہر طرح کی تغیر اور تبدیلی لانے چاہے لا سکتے ہیں اور اسے جس طرح بھی چاہے چلا سکتے ہیں اور اس کی قدرت میں اس حوالے سے کسی قسم کی بھی محدودیت ­ہیں ہے۔۔[18]

آیت آزمایش (2)

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ‌ ﴿2﴾»
 (ترجمہ: جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔)[؟؟]

آزمایش (لِيَبْلُوَكُمْ) سے مراد

اس آیت میں انسان کی موت اور حیات کی خلقت جو کہ خدا کی مالکیت اور حاکمیت کے دائرے میں آتی ہے، کے اہداف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خدا کی طرف سے ہونے والے امتحانات اور آزمائیشیں ایک قسم کی تربیت ہے جو انسان کو میدان عمل میں آنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ وہ پختہ، تجربہ کار اور پاک و پاکیزہ ہو کر خدا کی قربت حاصل کرنے کی لیاقت اور شائستگی پیدا کرے۔ اس بنا پر کائنات ایک وسیع میدان ہے تمام انسانوں کیلئے اور موت و حیات اس امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہے اور اس کا ہدف نیک کردار، کامل معرفت، خالص نیت اور ہر نیک کام کی انجام دہی ہے۔[19]

فضیلت اور خواص

سورہ ملک کی تلاوت کرنے کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ جو شخص رات کے وقت سورہ ملک کی تلاوت کرے اسے خدا شب قدر کی شب بیداری کا ثواب عطا کرے گا۔[20] رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ آپؐ ہر رات سونے سے پہلے اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[21] ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوا ہے کہ سورہ ملک قیامت کے دن اس کی تلاوت کرنے والے کی طرف سے مجادلہ کرتی ہے اور اس کے لئے مغفرت اور بخشش کا مطالبہ کرتی ہے۔[22]

امام باقرؑ سے بھی ایک حدیث نقل ہوئی ہے کہ سورہ ملک عذاب قبر سے مانع بنتی ہے۔ میں نماز عشاء کے بعد اسے بیٹھ کر تلاوت کرتا ہوں اور میرے والد گرامی امام سجادؑ دن رات اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[23]

بعض احادیث میں اس سورت کی تلاوت کے لئے بعض خواص کا ذکر آیا ہے جن میں امن و امان[24] شفاعت و بخشش،[25] قبر کی وحشت سے دوری[26] اور مرنے والوں کی مغفرت [27] وغیره شامل ہیں۔

متن اور ترجمہ

سوره ملک
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿1﴾ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿2﴾ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ ﴿3﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِأً وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿4﴾ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ ﴿5﴾ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿6﴾ إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ ﴿7﴾ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ﴿8﴾ قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴿9﴾ وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿10﴾ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿11﴾ إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴿12﴾ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿13﴾ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴿14﴾ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴿15﴾ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ ﴿17﴾ وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴿18﴾ أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ ﴿19﴾ أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ ﴿20﴾ أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ ﴿21﴾ أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿22﴾ قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿23﴾ قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿24﴾ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿25﴾ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴿26﴾ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ ﴿27﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَن مَّعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَن يُجِيرُ الْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿28﴾ قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿29﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاء مَّعِينٍ ﴿30﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (1) جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔ (2) جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے تم خدائے رحمٰن کی تخلیق میں کوئی خلل (اور بےنظمی) نہیں پاؤ گے پھر نگاہ اٹھا کر دیکھو تمہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟ (3) پھر دوبارہ نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نگاہ تھک کر (ناکام) تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔ (4) بےشک ہم نے قریبی آسمان کو (تاروں) کے چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیطانوں کو سنگسار کرنے (مار بھگانے) کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کیلئے دہکتی ہوئی آگ کا عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔ (5) اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کفر (انکار) کیا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ (6) جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو وہ اس کی زوردار (اور مہیب) آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی۔ (7) (گویا) وہ غیظ و غصہ سے پھٹی جاتی ہوگی جب اس میں کوئی گروہ جھونکا جائے گا تو اس کے دارو غے ان سے پو چھیں گے کہ تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا (ہادی) نہیں آیا تھا؟ (8) وہ کہیں گے ہاں بےشک ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا مگر ہم نے (اسے) جھٹلایا اور کہا کہ اللہ نے کوئی بھی چیز نازل نہیں کی تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔ (9) اور کہیں گے کاش ہم (اس وقت) سنتے یا سمجھتے تو (آج) دوزخ والوں میں سے نہ ہو تے۔ (10) پس وہ (اس وقت) اپنے گناہ کا اعتراف کر لیں گے پس لعنت ہوان دوزخ والوں پر۔ (11) بےشک جو لوگ اپنے پروردگار سے اَن دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور بڑا اجر و ثواب ہے۔ (12) اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ (13) کیا جس نے پیدا کیا ہے وہ نہیں جانتا حالانکہ وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ (14) وہ (اللہ) وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کر دیا تاکہ تم اس کے کاندھوں (راستوں) پر چلو اور اس (اللہ) کے (دئیے ہو ئے) رزق سے کھاؤ پھر اسی کی طرف(قبروں سے) اٹھ کر جانا ہے۔ (15) کیا تم اس (اللہ) سے بےخوف ہو گئے جس (کی حکومت) آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پھر وہ ایک دم تھر تھرانے لگے۔ (16) کیا تم اس بات سے بےخوف ہو گئے ہو کہ آسمان والا تم پر پتھر بر سانے والی ہوا بھیج دے پھر تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہوتا ہے؟ (17) اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی (حق کو) جھٹلایا تھا تو میری سخت گیری کیسی تھی؟ (18) کیا یہ لوگ اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھتے جو پروں کو پھیلائے ہوئے (اڑتے ہیں) اور وہ (کبھی ان کو) سمیٹ بھی لیتے ہیں انہیں (خدا ئے) رحمٰن کے سوا اور کوئی (فضا میں) تھامے ہوئے نہیں ہے بےشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ (19) آخر وہ کون ہے جو خدائے رحمٰن کے مقابلہ میں تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے؟ کافر لوگ بالکل دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ (20) (بتا‎ؤ) وہ کون ہے جو تمہیں روزی دے اگر وہ (اللہ) اپنی روزی روک لے؟ بلکہ یہ لوگ سرکشی اور (حق سے) نفرت پر اڑے ہوئے ہیں۔ (21) بھلا جوشخص منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہو وہ زیادہ ہدایت یافتہ (اورمنزلِ مقصود پر زیادہ پہنچنے والا) ہے یا وہ جو سیدھا راہِ راست پر چل رہا ہے؟ (22) آپ(ص) کہہ دیجئے! وہی تو (خدا) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (و دماغ) بنا ئے۔ (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (23) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور (قیامت کے دن) تم اسی کے پاس اکٹھے کئے جاؤ گے۔ (24) اور وہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کہ (بتا‎ؤ) یہ وعدہ وعید کب پوراہوگا؟ اگر تم سچے ہو۔ (25) آپ(ص) کہہ دیجئے کہ (اس کا) علم تو بس اللہ کے پاس ہے اور میں تو صرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ (26) پس وہ جب اس (قیامت) کو قریب آتے دیکھیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور (ان سے) کہاجائے گا کہ یہی وہ ہے جس کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔ (27) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ کیا تم نے غور کیا ہے اگر (تمہاری خواہش کے مطابق) خدا مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا (ہماری خواہش کے مطابق) ہم پر رحم فرمائے (بہرحال) کافروں کو دردناک عذاب سے کون پناہ دے گا؟ (28) آپ(ص) کہہ دیجئے! وہ خدائے رحمان ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور اسی پر توکل (بھروسہ) کرتے ہیں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے؟ (29) آپ(ص) کہیے! کیا تم نے غور کیا ہے کہ اگر تمہارا پانی زمین کی تہہ میں اترجائے تو پھر تمہارے لئے (شیریں پانی کا) چشمہ کون لائے گا؟ (30)

پچھلی سورت: سورہ تحریم سورہ ملک اگلی سورت:سورہ قلم

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. صفوی، «سورہ ملک»، ص۸۱۳۔
  2. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۴۸۔
  3. صفوی، «سورہ ملک»، ص۸۱۳۔
  4. رجوع کریں:‌ میبدی، كشف الاسرار و عدۃ الابرار، ۱۳۷۱ش، ج۱۰، ص۱۷۰؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳۳(ہى المانعۃ، ہى المنجيۃ تنجيہ من عذاب القبر)۔
  5. خرمشاہی، «سورہ ملک»، س۱۲۵۷۔
  6. صفوی، «سورہ ملک»، ص۸۱۳۔
  7. خرمشاہی، «سورہ ملک»، ج۲، س۱۲۵۷۔
  8. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰و۵۹۶۔
  9. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰و۵۹۶۔
  10. فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ج۱، ص۲۶۱۲۔
  11. صفوی،‌«سورہ ملک»، ص۸۱۴.
  12. خرمشاہی، «سورہ ملک»، ج۲، ص۱۲۵۷
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۱-۳۱۲.
  14. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  15. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۲.
  16. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۴۸.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۶.
  18. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۴۸.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۶-۳۱۷.
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۶
  21. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۳۰۶.
  22. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۳۶۶
  23. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳۳
  24. صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۹.
  25. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۴۶
  26. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۴۳۳
  27. بحرانی، البرهان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۴۳۳

نوٹ

  1. مکہ اور مدینہ کے بعض قاریوں کے مطابق سورہ ملک 31 آیات پر مشتمل ہے؛ کیونکہ یہ حضرات آیت نمبر کے اس حصے کو "بَلی قَدْ جاءَنا نَذِيرٌ" ایک علیحدہ آیت شمار کرتے ہیں لیکن دوسرے قراء اسے آیت نمبر 9 کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ (طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۸۱۔)
  2. قرآن مجید کی 16 سورتیں ہیں جنہیں سیوطی سور ممتحنات کا نام دیتے ہیں۔ (رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۹۶) وه سورتیں یہ ہیں: فتح، حشر، سجدہ، طلاق، قلم، حجرات، تبارک، تغابن، منافقون، جمعہ، صف، جن، نوح، مجادلہ، ممتحنہ اور تحریم۔ (رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰۔)

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۵ق۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، ۱۳۹۲ش۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ ملک»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۲ش۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بكر، الدّرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، كتابخانہ عمومى حضرت آيت اللہ العظمى مرعشى نجفى( رہ)، ۱۴۰۴ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشريف الرضي للنشر، ۱۴۰۶ق۔
  • صفوی، سلمان، «سورہ ملک»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، ۱۴۰۷ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
  • میبدی، احمد بن محمد، كشف الاسرار و عدۃ الابرار( معروف بہ تفسير خواجہ عبداللہ انصارى)، تہران، امیرکبیر، ۱۳۷۱ش۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام‏، ۱۴۰۸ق۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔

بیرونی روابط