اَلْجامعُ الْمُسْنَد الصّحیح الْمُخْتَصَر مِنْ اُمور رَسول اللّہ وَ سُنَنہ و اَیّامِہ، صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہے۔ ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری (194-256 ھ) کی تالیف ہے۔ اسے اہل سنت کی سب سے معتبر حدیث کی کتاب سمجھا جاتا ہے نیز صحاح ستہ میں سے ایک ہے۔

صحیح بخاری
مشخصات
مصنفابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری
موضوعحدیث
زبانعربی
تعداد جلد6

صحیح بخاری 97 کتاب اور 3450 باب پر مشتمل ہے اور ابن صلاح کے مطابق تکراری احادیث کو شمار کیا جائے تو 7275 احادیث اور اگر انہیں الگ کیا جائے تو 4000 احادیث پر مشتمل ہے۔

بخاری کے قول کے مطابق، اس کے زمانے میں حدیثی تدوین شدہ مجموعے صحیح اور غیر صحیح احادیث پر مشتمل تھے اسی لئے اس نے صحیح احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنے کا ارادہ کیا اور اس کام میں اس کو تشویق کرنے والا اس کا استاد اسحاق بن ابراہیم حنظلی ہے جو کہ ابن راہویہ سے مشہور تھا۔[1]

مؤلف

ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری 13 شوال 194 ھ موجودہ ازبکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوا اور سمرقند کے نزدیک خَرتَنگ نامی دیہات میں 256 ھ میں وفات پائی۔ ان کے والد اسماعیل بن ابراہیم حدیث میں اپنے دور کے عالم سمجھے جاتے تھے جو جوانی میں ہی بخارا میں وفات پاگئے۔ بخاری چار مرتبہ بخارا سے شہر بدر ہوئے۔ ان میں سے ایک اس فتوی کے بعد ہوئے جب فتوا دیا کہ اگر دو بچے ایک بھیڑ کا دودھ پی لیں تو وہ محرم ہوجائں گے۔ اس فتوے پر شہر کے علماء اور عوام اس کے خلاف ہوگئے اور انہیں شہر بدر کیا۔[2]

دوسری بار تب شہر بدر ہوا جب قرآن کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کیا تو اہل سنت کے عالم دین محمد بن یحیی الزہلی نے پہلے اسے نیشاپور سے نکالا اور پھر بخارا سے بھی خارج کرنے کے لیے بخارا کے امیر سے درخواست کی اور بخاری کے بارے میں کہا: مَنْ ذہبَ بَعْدَ ہذا إلی مُحمد بن اسماعیل البُخاری فاتّہمُوہ: ایسی غلط باتوں کے بعد بھی اگر کوئی اسماعیل بخاری کی سمت چلا جائے تو اسے متہم سمجھا کرو۔[3]

اس کا دادا (مغیرہ) بخارا کے حاکم کے توسط مسلمان ہوا اور وہاں سکونت اختیار کی۔ اور 16 سال کی عمر میں مکہ جاکر علم حدیث سیکھا پھر مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں احادیث جمع کرنے کے لئے چلا گیا اور جب بخارا واپس پہنچا تو چھ لاکھ احادیث اپنے ساتھ لے آیا تھا مگر ان میں سے صرف 7275 حدیث کو معتبر سمجھتے ہوئے اپنی مشہور کتاب صحیح بخاری میں شامل کیا۔

اہم کتب حدیث
شیعہ
اصول کافیمن لایحضرہ الفقیہتہذیب الاحکاماستبصارکمال الدین و تمام النعمہنہج البلاغہصحیفہ سجادیہ
سنی
صحیح بخاریصحیح مسلمسنن ابی داوودسنن ابن ماجہسنن ترمذیسنن نسائی


کتاب کی خصوصیات

بخاری نے اس کتاب کو لکھنے میں سولہ سال لگا لئے اور اس کی احادیث کو چھ لاکھ میں سے چن لیا۔[4]۔ یہ کتاب اہل سنت کی احادیث کے مجامع میں سے ایک ہے۔ مجامع حدیثی کی اصطلاح ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جو عقیدے اور فقہی موضوعات کو شامل ہو اور یہ خصوصیت صحیح بخاری میں بھی پائی جاتی ہے۔ صحیح بخاری ۹۷ کتاب و ۳۴۵۰ باب پر مشتمل ہے اور ابن صلاح کے مطابق تکراری احادیث کو شمار کیا جائے تو 7275 احادیث اور اگر انہیں الگ کیا جائے تو انکے اور یحیی بن شرف نووی کے مطابق 4000 احادیث پر مشتمل ہے۔ لیکن ابن حَجَر کے مطابق 2761 احادیث پر مشتمل ہے۔[5] اس کے علاوہ بخاری کی احادیث کی تعدا مختلف روایات میں باہم مختلف بیان ہوئی ہیں؛ مثلاً فِربری کی روایت میں 300 حدیث ابراہیم ابن معقِل نسفی زیادہ ہیں اور نسفی کی روایت میں حماد بن شکار نسوی کی روایت سے سو عدد احادیث کم ہیں۔[6]

بخاری کا معیار

بخاری نے احادیث کے انتخاب کے لئے حدیث صحیح ہونے کو معیار قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے «شرط بخاری» سے مشہور ہوا ہے۔ اس معیار کے مطابق وہ اس حدیث کو صحیح سمجھتا ہے جس کا سلسلہ سند ایک مشہور صحابی سے متصل ہونے تک جتنے بھی راوی ہیں ان کی وثاقت کے بارے میں بزرگ محدثین کا اتفاق نظر ہو۔ اور سند بھی مقطوع نہ ہو بلکہ متصل ہو۔[7] اسی بناپر بخاری نے صحیح احادیث کو انتخاب کرنے کے لئے سند کا متصل ہونا،اتقان اور رجال کی وثاقت نیز حدیث کے متن یا سند میں کوئی اشکال یا ضعف (عدم علل) نہ ہونے کو معیار قرار دیا ہے۔ابن حجر کی طرف سے احادیث میں کی گئی تقسیم بندی [8] کے مطابق یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تمام احادیث میں مذکورہ شرط کی رعایت نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے بعض احادیث جو اس کے شرط کے معیاروں پر نہیں اترتی تھیں ان کو مختلف الفاظ یا تعبیر میں لے آیا ہے۔[9] بخاری نے بہت ساری ایسی احادیث جو ان کے معیار اور شرط پر تو پورا اترتی تھیں لیکن اس کے مذہب سے موافق نہیں تھیں ان کو بھی نہیں لایا ہے اور حاکم نیشابوری نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں ایسی احادیث کو لے آیا ہے جو بخاری یا مسلم کے معیار یا شرط کے مطابق ہوں اور ان دونوں نے نقل نہ کیا ہو

فصل بندی

صحیح بخاری فقہی کتابوں کے مطابق مختلف فصلوں میں تقسیم ہوئی ہے لیکن اس میں دیگر مطالب اور ابواب بھی پائے جاتے ہیں جیسے آغاز خلقت، بہشت، دوزخ، پیغمبران، پیغمبر اکرمؐ اور تفسیر قرآن۔ اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ہر باب کا عنوان اس باب کی احادیث سے بخاری کے استنباط کے مطابق رکھا گیا ہے۔[10] اور یہ عناوین چونکہ مشکل اور مجمل احادیث کی تفسیر، تبیین اور تاؤیل پر مشتمل ہیں اس لئے انہیں فقہ بخاری بھی کہا جاسکتا ہے۔[11] بخاری اس کتاب میں صرف ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فقیہ کے طور پر بھی ظاہر ہوا ہے اسی وجہ سے بعض احادیث کو مختلف ابواب کی وجہ سے حدیث کو تکرار یا تقطیع کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھی فقہی اور حکمی نکات اور آیات الاحکام کو بھی لایا ہے اور بعض ابواب میں تو کوئی ایک آیہ یا حدیث بھی ذکر نہیں کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے معیار کے مطابق اس باب میں اس کی اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں ملی ہے۔[12]

معلّق احادیث

صحیح بخاری کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں معلق احادیث پائی جاتی ہیں، معلق سے مراد یہ ہے کہ حدیث کے سلسلہ سند کی ابتدا سے ایک یا چند افراد کو حذف کرے۔ ابن حجر موقوف احادیث (وہ احادیث جو پیغمبر اکرمؐ کی طرف اسناد دئے بغیر کسی صحابی سے نقل ہوجائے) کے بارے میں کہتا ہے کہ بخاری نے ایسی احادیث، جو صحابہ اور تابعین کے فتووں پر مشتمل ہوں یا آیات کی تفسیر ہوں ان کو بھی اختلافی موارد میں اپنا مدعی ثابت کرنے کے لئے بیان کیا ہے اگرچہ جو شرط حدیث کو انتخاب کرنے کے لئے خود اس نے بیان کیا ہے ان میں وہ شرط نہیں پائی جاتی ہو۔ لہذا، اس کتاب کو تدوین کرنے کا اصل ہدف ان احادیث کی جمع آوری کرنا تھا جو بخاری کی نظر میں صحیح اور مستند ہوں (اور اس کے مذہب کے منافی بھی نہ ہوں) اور معلق اور موقوف احادیث بھی مبہم اور مجمل نکات کی تفسیر کرنے کے لئے بیان ہوئی ہیں۔[13] ابن حجر نے «تعلیق التعلیق» کے نام سے ایک کتاب میں ان تمام احادیث کی سند کو بخاری کی دیگر تالیفات سے مدد لیتے ہوئے تکمیل کرنے کی کوشش کی ہے جن کو صحیح بخاری میں مرفوع یا موقوف شکل میں بیان کیا ہے۔[14]

اہل سنت میں کتاب کا مقام

بخاری نے جیسے ہی کتاب کو مکمل کیا اسے بزرگوں اور ائمۂ حدیث جیسے؛ احمد بن حنبل، علی بن مَدینی اور یحیی بن معین، کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے صرف چار احادیث کے علاوہ باقی سب کو صحیح قرار دیا۔ [15] اہل سنت علما کے ہاں صحیح بخاری کا بڑا مقام ہے اور تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب، صحیح بخاری اور اور اس کے بعد صحیح مسلم ہے۔[16] اس کے باوجود شافعی اور بعض دیگر علما نے سے سے زیادہ صحیح کتاب («اصحّ الکتب»)، مالک بن انس کی «المُوَطَّأ» کو قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے الموطا کو «اصل اول» اور صحیح بخاری کو «اصل دوم» نام رکھا ہے۔ابن حجر[17] نے شافعی کی بات کی توجیہ میں کہا ہے کہ یہ انہوں نے اس وقت کہی ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم نام کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ بہرحال اہل سنت میں صحیح بخاری کے مانند کوئی دوسری مشہور کتاب نہیں ہے اور بعض نے تو اس کے بارے میں اتنا غلو کیا ہے کہ اسے قرآن کے برابر میں قرار دیا ہے۔[18] وجدی کے بقول[19] بعض لوگ دوسروں کو قرآن مجید کی طرح صحیح بخاری کی تلاوت کرنے کے لئے پیسے دیتے تھے تاکہ آسمانی خیرات اور برکات نازل ہوجائیں۔ صحیح بخاری کی مقبولیت اور اعتبار اس پر لکھی جانے والی متعدد شروحات اور تعلیقات سے بھی واضح ہوتی ہے۔

بخاری کی شروحات

مکہ میں چھپنے والی صحیح بخاری کے مقدمے کے مطابق اب تک 59 شرحیں صحیح بخاری پر لکھی گئی ہیں جن میں سے 11 شروحات چھپ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ 29 افراد نے اس پر حاشیہ لکھا ہے اور 16 نفر نے اس پر مقدمہ اور 15 نفر نے خلاصہ لکھا ہے۔ یہ کتاب مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کی مشہور شرحیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اعلام السنن : امام ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن خَطّاب البستی الخطابی (متوفی ۳۳۸) کی شرح؛[20]

۲) فتح الباری شرح صحیح البخاری حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲) علم حدیث کے ماہروں نے اس کتاب کو سب سے بہترین شرح قرار دیا ہے؛[21]

۳) عمدۃ القاری فی شرح البخاری تألیفِ محمود بن احمد عینی (متوفی ۸۵۵)؛

۴) ارشاد السّاری فی شرح البخاری از احمد بن محمد بن ابی بکر قسطلانی (متوفی ۹۲۳)؛

نقد

صحیح بخاری کو تقدس کے حلقے نے ایسا گھیر رکھا ہے کہ اس میں موجود احادیث کی صحت اور ان کے راوی اور سند میں خدشہ ظاہر کرنے کی بہت ہی کم لوگوں جرات کرتے ہیں۔ ابو الحسن مقدسی کے بقول صحیحین (= صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں موجود احادیث کے راوی ہر قسم کے عیب اور نقص سے بری ہیں۔[22] اسی لئے بہت سارے حافظوں نے کسی تامل اور غور فکر کے بغیر تمام احادیث کو مان لئے ہیں بلکہ ان احادیث کے سامنے مکمل طور پر تسلیم ہونے کو ایمان کے اصول اور اسلام کے ارکان میں سے قرار دیا ہے۔[23] ذہبی بعض احادیث کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر صحیح بخاری کی عظمت نہ ہوتی تو میں کہتا تھا کہ یہ احادیث، جعلی ہیں۔ [24] امام الحرمین کے بقول کہ اگر کویی شخص قسم کھائے کہ صحیحین کی تمام احادیث واقع کے مطابق اور رسول خداؐ کا کلام ہیں تو اس کا قسم صحیح ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔[25]

اس کے باوجود اہل سنت کے بعض بزرگ علما جیسے؛ حافظ دار قطنی، نے اس پر نقد کیا ہے اور اس کی تمام احادیث صحیح ہونے کے عقیدے پر اعتراض کیا ہے۔[26] ابن حجر کا کہنا ہے کہ حفّاظ نے صحیحین کی ۱۱۰ حدیث کو نقد کیا ہے جن میں سے ۳۲ حدیث کو دونوں کتابوں میں اور ۷۸ حدیث کو صرف بخاری نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کی احادیث کے 80 راوی غیر قابل اعتماد قرار دئے گئے ہیں۔ [27] لیکن محمد رشید رضا کے نظرئے کے مطابق اس کتاب میں نقد کے قابل احادیث اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔[28]۔ ان انتقادات میں سے اکثر انتقادات جیسے دارقطنی کے اشکالات بخاری کے اسناد کے رجال پر وارد ہیں۔

شیعہ ائمہ اور ان کے اصحاب سے حدیث نقل نہ کرنا

بخاری امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے معاصر تھے، لیکن اس کتاب میں ایک حدیث بھی ان دو اماموں سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔ بخاری اہلبیتؑ کی اولاد اور اصحاب میں سے بھی بہت ہی کم حدیث نقل کرتا ہے جبکہ ان میں بہت سارے بزرگ علما اور محدثین موجود تھے۔

بعض احادیث جو ان کی شرط پر پورا اترتی تھیں انہیں نقل کرنا چاہیے تھا لیکن صرف اس وجہ سے کہ سند میں شیعہ ائمہؑ یا ان کے اصحاب میں سے کوئی راوی موجود تھا اس لئے ان روایات کو نقل ہی نہیں کیا ہے۔ اور صرف چند انگشت شمار احادیث جو امیرالمؤمنینؑ ، امام حسن مجتبیؑ ، امام سجادؑ اور امام باقرؑ علیہم السّلام سے روایت کی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بعض خوارج اور ناصبی جیسے عکرمہ، عمران بن حطان اور عروہ سے احادیث نقل کیا ہے در حالیکہ اہل سنت کے بہت سارے محدثوں نے ان کی جرح اور تضعیف کی ہے۔[29][30][31][32]

مزے کی بات یہ ہے کہ جو احادیث امام سجادؑ سے نقل کیا ہے وہ امیرالمؤمنین علیؑ کی مذمت میں ہیں۔[33]

ابوہریرہ جو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ تین سال سے کم عرصہ معاصر رہا ہےان سے ۴۴۶ حدیث، عبداللہ بن عمر سے ۲۷۰ حدیث، عایشہ سے ۲۴۲ حدیث، ابوموسی اشعری سے ۵۷ حدیث اور انس بن مالک سے ۲۰۰ سے زیادہ حدیث نقل کیا ہے لیکن حضرت علیؑ جو کہ مدینۃ العلم کے دروازہ ہیں اور بعثت سے پہلے سے لیکر آنحضرتؐ کی رحلت تک آپؐ کے ساتھ تھے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق آپ نَفسِ پیغمبرؐ تھے ان سے صرف ۱۹ حدیث اور پیغمبر اکرمؐ کی دختر ارجمند حضرت زہراؑ سے صرف ایک حدیث نقل کیا ہے۔ [34]

بہت ساری احادیث کی تقطیع یا تکرار

صحیح بخاری کی ایک اور خصوصیت جسے بعض نے اس کتاب کی کمزوری اور ضعف قرار دیا ہے وہ بہت ساری احادیث کو تقطیع یا تکرارِ کرنا ہے۔ ابن حجر عسقلانی[35] کے کہنے کے مطابق، مراکش کے بعض علماء اور ابوعلی نیشابوری نے اگر صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فوقیت دی ہے تو اسی وجہ سے ہے اور مسلم احادیث کے الفاظ کو نقل کرنے میں بہت دقیق تھے کیونکہ مسلم، احادیث کو تقطیع نہیں کرتے تھے۔[36]

احادیث کے الفاظ نقل کرنے میں رعایت نہ کرنا

وہ احادیث کے الفاظ نقل کرنے میں مقید نہیں تھے بلکہ بعض اوقات حدیث کے معنی کو اپنے الفاظ میں نقل کیا ہے۔ [37]۔ ابورَیہ نے اس بارے میں بعض روایات سے استناد کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری جس جلسے میں حدیث سنتا تھا وہیں پر نہیں لکھتے تھے بلکہ اپنے ذہن پر اعتماد کرتے تھے۔اور ابن حجر کہتا ہے کہ بخاری نے بعض دفعہ ایک حدیث ہی کو ایک ہی سند سے دو مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ [38]

بعض احادیث کا متن صحیح نہ ہونا

صحیح بخاری کی بعض احادیث کا متن مخدوش اور مورد اعتراض ٹھہرا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ محمد رشید رضا[39] کے کہنے کے مطباق اس کتاب کی بہت ساری احادیث دوسری احادیث کے مفہوم سے متعارض اور متضاد نظر آتی ہیں اور ابن حجر نے اگرچہ اسے دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کی بعض توجیہات قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسند احادیث کی کتابوں میں جعلی احادیث کا ہونا ناقابل قبول ہے لیکن بعض ایسی احادیث موجود ہیں جن میں جعلی ہونے کے قرائن اور شواہد دیکھے جاسکتے ہیں؛ جیسے پیغمبر اکرمؐ کو سحر ہونا، جسے جَصّاص اور شیخ محمد عَبدُہ جیسے علما نے رد کیا ہے اور اسی طرح کی بعض دیگر احادیث۔ بعض شافعی علما اور اہل سنت کی دیگر مذاہب کے علما نے بھی صحیحین کی بعض احادیث جو ابن جوزی کی الانتصار جیسی کتابوں میں آئی ہیں، ان کو قابل استناد نہیں سمجھا ہے۔[40]

صحیح بخاری کی بعض روایات

اکثر اہل سنت کے ہاں قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری دوسری برترین کتاب سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں بعض ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو دفاع کے قابل نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر بعض احادیث پیش کرتے ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث میں نقل کرتا ہے: اگر تم میں سے کسی کے برتن میں کوئی مکھی گر پڑے تو مکھی کے پورے بدن کو اس میں ڈبو دین۔ کیونکہ مکھی کے ایک پَر میں درد ہے اور دوسرے پَر میں شفا۔ [41]
  • پیغمبر اکرمؐ وحی کے آغاز جب تک ورقۃ ابن نوفلِ عیسائی نے آپ کا نبوت پر فائز ہونے کی تصدیق نہیں کرتے ہیں آپ اپنی نبوت پر یقین نہیں کرتے تھے۔[42]
  • پیغمبر اکرمؐ نے بعض آیات کو بھول کر قرآن میں شامل نہیں کیا تھا پھر کسی مسلمان کی قرآئت سے آپ کو یاد آیا۔[43]
  • قیامت کے دن جب حضرت ابراہیمؑ سے شفاعت کی درخواست ہوتی ہے تو آپ کہتے ہیں کہ میں نے تین مرتبہ جھوٹ بولا ہے اس لئے شفاعت کے لئے کسی اور کے پاس جائیں۔[44]
  • کسی بندر کو زنا کرنے پر سنگسار کیا۔[45]
  • ملک الموت اللہ تعالی کی طرف سے حضرت موسیؑ کی روح قبض کرنے جاتا ہے اور حضرت موسیؑ ان کو تھپڑ رسید کرتے ہیں۔!![46]
  • ایک چیونٹی کسی نبی کو کاٹتی ہے اور وہ پیغمبر ان تمام چیونٹیوں کو جلانے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ تعالی اس کام کی وجہ سے ان کو محکوم کرتا ہے۔ [47] سنن ترمذی میں اس پیغمبر کا نام حضرت موسی بتایا گیا ہے۔
  • بخاری نے ایک حدیث کتاب التفسیر اور کتاب الجنائز میں نقل کیا ہے جس کا مضمون یہ ہے: جب عبداللہ بن اُبی دنیا سے چل بسا تو اس کا بیٹا رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے ان کے باپ کے جنازے پر نماز پڑھنے کی درخواست کی تو حضرت عمر نے پیغمبر اکرمؐ پر اعتراض کیا کہ کیوں اس جنازے پر نماز پڑھتے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے اختیار دی ہے اور کہا ہے:«اسْتَغْفِرْ لَہمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَہمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہمْ سَبْعینَ مَرَّۃ فَلَنْ یغْفِرَ اللّہ لَہمْ»(توبہ/ ۸۰) اسی وقت آیہ نازل ہوئی: «وَ لا تُصَلِّ عَلی أَحَد مِنْہمْ ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلی قَبْرِہ» (توبہ/۸۵)۔ اس حدیث کے مطابق اللہ تعالی نے عمر کے مقابلے میں اپنے پیغمبر کو مغلوب کیا ہے۔ اسی لئے اگرچہ اس حدیث کو بخاری نے اپنی کتاب کی کئی جگہوں پر اسے نقل کیا ہے لیکن بعض علماء جیسے ابوبکر باقلانی، امام الحرمین جوینی، ابو حامد غزالی، امام داوودی وغیرہ نے نے ان احادیث کی سند مخدوش جانتے ہوئے اسے باطل قرار دیا ہے۔[48][49]

حوالہ جات

  1. خطیب بغدادی، ج ۲، ص۸؛ابن حجر عسقلانی، ۱۴۰۸، ص۵
  2. المبسوط، ج ۵، ص۱۳۹، کتاب النکاح، باب الرضاع
  3. سیر اعلام النبلاء، ج۱۰، ص۱۱۳
  4. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۴۹۰۔
  5. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۴۶۵، ۴۷۸۔
  6. حاجی خلیفہ، ج ۱، ستون ۵۴۵
  7. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۷
  8. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۶
  9. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۳۴۶
  10. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۶
  11. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۱۱
  12. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۶
  13. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۱۶، ۳۴۴-۳۴۵
  14. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۱۷۷۱
  15. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۴۹۱
  16. حاجی خلیفہ، ج ۱، ستون ۵۴۱؛ قسطلانی، ج ۱، ص۱۹؛ ابن حجر ہیتمی، ص۹؛ نَوَوی، ج ۱، ص۱۲۰
  17. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۸
  18. حیدر، ج ۱، جزء ۱، ص۷۸
  19. ج ۳، ص۴۸۲
  20. کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، ج ۱، ستون ۵۴۵
  21. مراجعہ کریں: صالح، ص۳۹۷
  22. قسطلانی، ج ۱، ص۲۱
  23. ابوریہ، ص۳۰۵
  24. ابن حجر عسقلانی، ۱۴۰۴، ج ۸، ص۱۴۶
  25. نووی، ج ۱، ص۱۲۷
  26. ابوریہ، ص۳۱۲-۳۱۳
  27. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۹
  28. تفسیر المنار،ج ۱۰، ص۶۷۱
  29. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۴۲۴۴۳۲
  30. الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، ج ۳، ص۱۷۸-۱۸۰
  31. شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۵، ص۹۳
  32. روضات الجنّات خوانساری، ج ۷، ص۲۷۹۲۸۰
  33. صحیح بخاری، باب فی الارادۃ و المشیۃ، ج۹، ص۱۳۷
  34. علم حدیث، ص۳۵۲ ۳۵۳
  35. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۱۰
  36. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص۱۲۱۳
  37. ابوریہ، ص۳۰۰
  38. ابوریہ، ص۳۰۰
  39. ابوریہ، ص۳۰۲ المنار سے منقول
  40. ابوریہ، ص۳۰۶
  41. إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِی إِنَاءِ أَحَدِکمْ فَلْیغْمِسْہ کلَّہ، ثُمَّ لِیطْرَحْہ، فَإِنَّ فِی أَحَدِ جَنَاحَیہ شِفَاءً، وَفِی الآخَرِ دَاءً صحیح البخاری، باب اذا وقع الذباب فی الاناء، ج۷، ص۱۴۰
  42. صحیح بخاری، باب کان بدء الوحی، ج۱، ص۷
  43. صحیح بخاری، باب و قول اللہ و صل علیہم، ج۸، ص۷۳
  44. صحیح بخاری،باب ذریۃ من حملنا مع نوح، ج۶، ص۸۴
  45. صحیح بخاری، ج۴، ص۲۳۸، باب بنیان الکعبہ، باب القسامۃ فی الجاہلیہ
  46. أُرْسِلَ مَلَک المَوْتِ إِلَی مُوسَی عَلَیہمَا السَّلاَمُ، فَلَمَّا جَاءَہ صَکہ، فَرَجَعَ إِلَی رَبِّہ صحیح بخاری، باب وفات موسی، ج۴، ص۱۵۷
  47. قَرَصَتْ نَمْلَة نَبِیا مِنَ الأَنْبِیاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْیۃ النَّمْلِ، فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَی اللَّہ إِلَیہ: أَنْ قَرَصَتْک نَمْلَة أَحْرَقْتَ أُمَّة مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ صحیح بخاری، باب اذا حرق المشرک،ج۴، ص۶۲
  48. ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ۸ / ۲۵۵ ۲۵۶
  49. عمدۃ القاری: ۱۸ / ۲۷۴

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت ۱۳۸۵-۱۳۸۷/۱۹۶۵-۱۹۶۷؛
  • ابن ابی یعلی، طبقات الحنابلۃ، بیروت (بی تا۔)؛
  • ابن تیمیہ، منہاج السنۃ، مصر ۱۳۳۱؛
  • ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، چاپ عبد الوہاب عبد اللطیف، قاہرہ ۱۳۸۵/۱۹۶۵؛
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، مصر ۱۳۲۸؛
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴؛
  • ابن حجر عسقلانی، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، بیروت، ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
  • ابن خلدون، مقدمۃ ابن خلدون، بغداد (بی تا۔)؛
  • ابن خلکان، وفیات الاعیان، قم ۱۳۶۴ ش؛
  • ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، بیروت ۱۴۰۵؛
  • ابن عماد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، بیروت (بی تا۔)؛
  • احمد بن علی خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، بیروت (بی تا۔)؛
  • احمد بن محمد قسطلانی، ارشاد الساری فی شرح البخاری، بولاق ۱۳۰۵؛
  • اسد حیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳؛
  • السرخسی الحنفی، شمس الدین ابوبکر محمد بن أبی سہل (متوفی۴۸۳ھ)، المبسوط،‌ دار المعرفۃ – بیروت۔
  • خلیل بن ایبک صفدی، کتاب الوافی بالوفیات، ج ۲، چاپ س۔ دیدرینغ، ویسبادن ۱۳۹۴/۱۹۷۴؛
  • شمس الدین أبو عبد اللہ الذہبی (المتوفی: ۷۴۸ ھ)، سیر اعلام النبلاء، دار الحدیث- القاہرۃ،۱۴۲۷ ھ
  • صبحی صالح، علوم الحدیث، بیروت ۱۹۶۵؛
  • عبد الحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنّۃ والادب، ج ۹، بیروت ۱۳۹۷/۱۹۷۷؛
  • عبد الوہاب بن علی سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبری، مصر (بی تا۔)؛
  • مالک بن انس، اَلمُوَطَّأ، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱؛
  • محمد فرید وجدی، دائرۃ معارف القرن الرابع عشر/ العشرین، بیروت (بی تا۔)؛
  • محمد باقر بن زین العابدین خوانساری، روضات الجنّات فی احوال العلماء والسادات، قم ۱۳۹۰-۱۳۹۲؛
  • محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳؛
  • محمد بن احمد ذہبی، تذکرۃ الحفّاظ، بیروت ۱۹۵۶؛
  • محمّد بن اسماعیل، بخاری (م ۲۵۶)، صحیح البخاری، تحقیق: محمد زہیر بن ناصر،‌ دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۲ق
  • محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، مقدمۃ محمد منیر دمشقی، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶؛
  • محمد بن جعفر کتانی، الرسالۃ المستطرفۃ، قاہرہ (بی تا۔)؛
  • محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مصر ۱۳۶۷؛
  • محمد صادق نجمی، سیری در صحیحین، قم ۱۳۵۱ ش؛
  • محمود ابو ریہ، اضواء علی السنۃ المحمّدیۃ، مصر (تاریخ مقدمہ ۱۳۷۷/۱۹۵۷)؛
  • مصطفی بن عبداللہ حاجی خلیفہ، کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰؛
  • ہاشم معروف حسنی، دراسات فی الحدیث و المحدثین، بیروت ۱۳۹۸/۱۹۷۸؛
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، چاپ ووستنفلد، لایپزیگ ۱۸۶۶۱۸۷۳، چاپ افست تہران ۱۹۶۵۔
  • یحیی بن شرف نَوَوی، شرح صحیح مسلم، ج ۱، چاپ خلیل میس، بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷؛

بیرونی روابط