تفسیر الصافی (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(تفسیر صافی سے رجوع مکرر)
تفسیر الصافی
مشخصات
مصنفملا محسن فیض کاشانی
موضوعتفسیر قرآن کریم
زبانعربی
تعداد جلد7 جلد


تفسیر الصافی، ملا محسن فیض کاشانی (1007-1091 ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی قرآن کی تفسیر ہے۔ جس میں روائی روش کے تحت قرآن کی تفسیر كی گئی ہے۔ اختصار اور جامعیت کی خصوصیات کے پیش نظر یہ تفسیر ہر دور میں مورد توجہ رہی ہے۔ فیض کاشانی نے اس کتاب میں مختلف انظار بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام صافی انتخاب کیا ہے۔

یہ تفسیر کلامی، عرفانی اور ادبی ابحاث پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے اسی تفسیر کا خلاصہ بنام الاصفیٰ کی صورت میں کیا ہے۔

سبب تالیف

فیض کاشانی مقدمے میں تفسیرنگاری اور تفاسیر پر کم لکھے جانے کے اعتراض کے بعد لکھتے ہیں :بہرحال میں نے ابھی تک اس قدر تعداد میں تفاسیر لکھے جانے کے باوجود ان میں مہذب اور وافی و کافی بیان سے مزین تشنگان کو سیراب کرنے والی تفسیر نہیں پائی اور میں امیدوار ہوں کہ یہ تفسیر اسی صنف سے قرار پائے کہ جس کا انتظار ہے نیز ایسی تفسیر ہو کہ جو غیر شفاف اور نامفہوم روایات میں سے صحیح روایات پر مشتمل ہو ۔[1]

روش مؤلف

تفسیر صافی میں فیض کاشانی تفسیر بیضاوی سے بہت زیادہ متاثر ہے یہانتک کہ اگر کسی جگہ بیضاوی سے کسی آیت کے ذیل میں کوئی روایت مذکور نہیں ہوئی تو وہاں بیضاوی کی اصل عبارت یا معمولی سی تبدیلی کے ساتھ اسکی عبارت ذکر کرتا ہے ۔[2]

فیض کاشانی نے مقدمہ لکھنے کے بعد اور اصل تفسیر شروع کرنے سے پہلے اپنی تفسیر کے مقدمات کے عنوان سے بارہ مقدمے ذکر کئے ہیں کہ جو التفسیر و المفسرون میں محمد ہادی معرفت کے بقول تفسیر کے ابتدائی بہترین مقدمات میں سے ہیں کہ جنہیں مصنف نے بہترین وجہ کے ساتھ ترتیب دیا اورایسے ضروری مطالب پر مشتمل ہیں کہ ہر مفسر کا ان سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔

مقدمات کے مطالب درج ذیل ہیں :

  • پہلا مقدمہ : فضیلت قرآن، روایات اہل بیت کی روشنی میں اس سے تمسک کرنے اور ان کے دشمنوں کے متعلق.
  • دوسرا مقدمہ: قرآن کے ظاہر و باطن کا تمام علم اہل بیت جانتے ہیں ۔
  • تیسرا مقدمہ: کل قرآن اولیاءاللّه کی شان اور انکے دشمنوں کے متعلق نازل ہوا ہے ۔
  • چوتھا مقدمہ:علوم قرآن سے مربوط مطالب پر مشتمل جیسے تفسیر و تأویل، ظاہر و باطن، محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ و...۔
  • پانچواں مقدمہ : تفسیر بالرأی کا مفہوم اور اس سے ممنوعیت کا بیان ۔
  • چھٹا مقدمہ: عدم تحریف قرآن.
  • ساتواں مقدمہ: قرآن ہر چیز کے بیان میں ہے ، اصول معارف دینی اور قواعد شرعی اس میں بیان ہوئے ہیں۔
  • آٹھواں مقدمہ: مختلف قراتیں ا ور انکا اعتبار ۔
  • نواں مقدمہ:قرآن کا دفعی اور تدریجی نزول ۔
  • دسواں مقدمہ: شفاعت قرآن ، تلاوت کا ثواب اور اسکی حفاظت۔
  • گیارھواں مقدمہ :تلاوت قرآن اور اسکے آداب۔
  • بارھواں مقدمہ: اصطلاحات کا بیان اور اس کتاب کی تفسیری روش۔.[3]
علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیرتفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ
سنی تفاسیرتفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ
تفسیری رجحان
تقابلی تفسیرعلمی تفسیرعصری تفسیرتاریخی تفسیرفلسفی تفسیرکلامی تفسیرعرفانی تفسیرادبی تفسیرفقہی تفسیر
تفسیری روشیں
تفسیر قرآن بہ قرآنتفسیر رواییتفسیر عقلیتفسیر اجتہادی
اقسام تفسیر
ترتیبی تفسیرموضوعی تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر
اسباب نزولناسخ و منسوخمحکم و متشابہتحدیاعجاز قرآنجری


تفسیر صافی کے مآخذ

فیض کاشانی نے نقل روایات میں تفسیری اور غیر تفسیری متعدد مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ روایات کو سند کے حذف کے ساتھ بیان کیا ہے نیز کئی موارد میں حوالہ بھی ذکر کیا ہے۔ بعض مقامات پر مکمل روایت سے اجتناب کرتے ہوئے صرف مطلوبہ حصے کو ذکر کیا ہے اور بعض جگہوں پر روایات کی تحلیل، جمع یا توجیہ بھی ذکر کی ہے۔

تفسیر کے مآخذ اور ان کے ذکر کے مقامات کی تعداد:

اس بنا پر بیشتر روایات تفسیر قمی، تفسیر عیاشی، کافی و تفسیر مجمع البیان سے مذکور ہیں ۔ [4]

آراء اور اقوال

تفسیر صافی ان تفاسیر میں سے ہے کہ جس پر تمام متاخرین نے اپنی کتب میں اعتماد کیا ہے مثلا علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اس سے استشہاد کیا ہے۔ اس حقیقت کو تفسیر میزان میں تتبع کرنے والا با آسانی کو جان لے گا۔ یہ بات میزان کے مؤلف کے نزدیک تفسیر صافی کی منزلت، مقام اور اس پر اعتماد کرنے پر دلالت کرتی ہے۔[5]

محمد هادی معرفت لکھتے ہیں: تفسیر صافی مجموعی طور پر ایک نفیس اور ارزشمند تفسیر ہے کہ جس میں آیات کی تفسیر اور تاویل میں اہل بیت کی تقریبا تمام روایات ذکر ہیں۔ اگرچہ بعض موارد میں مربوط و غیر مربوط مباحث ایک جگہ اکٹھا ذکر ہوئے ہیں۔[6]

سید محمد علی ایازی کہتے ہیں: یہ تفسیر دوسری تفاسیر کے مقابلے میں مختصرہے گذشتہ زمانے میں حوزہ کے طلبا اور علما میں اسے پذیرائی حاصل رہی اور وہ اس سے اپنی تحقیقات میں استناد کرتے رہے۔ یہانتک کہ حوزۂ علمیہ کے درسی متون میں شامل رہی۔[7]

محمد حسین ذہبی نیز لکھتے ہیں: تفسیر صافی ایسی کتاب ہے جس کے مؤلف نے قرآن کو امامیہ کے اصول مذهب کے مطابق پیش کیا ہے۔ اس کتاب کا مقام اور حیثیت مذہب امامیہ اثنا عشریہ کی دوسری کتابوں کی مانند ہے کہ وہ معتقد ہیں کہ دوسرے تمام افراد کی نسبت معانی قرآن کے اسرار سے زیادہ آگاہ اور دانا تر ہیں۔[8]

تفسیر صافی سے متعلق علمی آثار

ملا محسن فیض نے خود تفسیر صافی کا الاصفیٰ کے نام سے خلاصہ کیا۔[9]

تفسیر صافی شروع سے ہی علما میں مورد توجہ رہی اسی بنا پر اس پر تعلیقے لگائے گئے اور اسے فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ مثلا:

  1. حاشیۂ ملا آقا خوئی تبریزی (متوفا 1307 ھ)
  2. حاشیۂ سید صدر الدین یزدی
  3. حاشیۂ ملا عبد الرضا دماوندی (متوفا 1160 ھ)
  4. حاشیۂ میرزا محمد علی طباطبائی وامق یزدی (زبان عربی) (متوفا 1240 ھ)
  5. حاشیۂ میرزا محمد تویسرکانی۔ تفسیر صافی کی شرح ہے جس کا اصل نسخہ مؤلف کے ہاتھ سے لکھا ہوا کتابخانۂ نجف اشرف میں موجود ہے۔
  6. حسن زادہ آملی کہتے ہیں: تفسیر روان جاوید (۵ جلد) مولف مرزا محمد ثقفی تفسیر صافی کا ترجمہ ہے۔
  7. ترجمۂ تفسیر صافی: مترجم سبحانی
  8. ترجمۂ محمد باقر ساعدی خراسانی کہ نشر صفا تہران نے 1405 ھ میں طبع ہوا۔ یہ 368 صفحات پر مشتمل تھا۔
  9. حاشیۂ دہگردی: تألیف سید ابو القاسم حسینی 14 و اوائل قرن 15 ھ کے امامیہ علما میں سے ہیں۔[10]

کتاب کے خطی نسخے اور طباعت

اہمیت اور علمائے اسلامی کے درمیاں رائج ہونے کی بنا پر تفسیر صافی کے فراوان نسخے موجود ہیں اور یہ چاپ ہونے والی پہلی تفسیر ہے۔

  • پہلی مرتبہ تبریز (ایران) سے 1269 ھ میں دو جلدوں کی صورت میں طبع ہوئی۔ اس کا ناشر دار الطباعہ محمد مہدی تبریزی تھا۔
  • چاپ دیگر: تبریز سے ہی خط محمد رحیم ہمدانی میں مطبعہ محمد تقی تبریزی نے سنہ 1272 ھ میں شائع کی۔
  • چاپ سنگی: سنہ 1274 ھ بمبئی (ہندوستان)
  • چاپ دیگر: ایران میں ابو الحسن شعرانی کی تصحیح کے ساتھ کتاب فروشی اسلامیہ (تہران ایران) نے نشر کی۔
  • چاپ بیروت (لبنان): مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات نے سنہ 1399 ھ میں طبع ہوئی۔[11]

حوالہ جات

  1. فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج۱، ص۱۳.
  2. سید محمدعلی ایازی، فیض کاشانی و مبانی و روش‌ ہای تفسیری او.
  3. فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج۱، ص۱۳ و ۱۴.
  4. حمیدرضا فہیمی‌ تبار، تفسیر صافی و زمینہ ہای اجتہاد در آن.
  5. فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج۱، ص۶.
  6. معرفت، تفسیر و مفسران، ج ۲، ص ۲۰۷.
  7. ایازی، شناخت‌ نامہ تفاسیر، ص۲۰۲.
  8. ذہبی، التفسیر و المفسرون، ج۱، ص۱۵۹.
  9. دائرة المعارف تشیع، ج‌۴، ص‌۵۴۲.
  10. کتابخانہ دیجیتال نور.
  11. سید محمد علی ایازی، فیض کاشانی و مبانی و روش‌ ہای تفسیری او.

منابع

  • فیض کاشانی، محسن، التفسیر الصافی، قم، مؤسسہ الہادی، ۱۴۱۶ ق
  • معرفت، محمد ہادی، تفسیر و مفسران، قم، مؤسسہ فرہنگی التمہید، ۱۳۸۰
  • ذہبی، محمد حسین، التفسیر و المفسرون، دار الکتب الحدیثہ، ۱۳۹۶ ق
  • ایازی، سید محمد علی، شناخت نامہ تفاسیر، کتاب مبین، ۱۳۷۸ ش