علوم قرآن، قرآن سے مربوط علوم کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے قرآن کی ماہیت، مربوطہ تاریخی واقعات، تفسیری طریقہ کار اور قرآن پر کئے گئے مطالعات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن کا وحیانی ہونا اور اس کے متن کی اصلیت کا اثبات نیز قرآن پر کئے گئیے اعتراضات کا جواب علوم قرآن کی اہمیت پر دلیل ہے۔ علوم قرآن کو معارف قرآنیہ یعنی تفسیر سے جدا اور اس پر مقدم فرض کیا جاتا ہے۔

علوم قرآن سے بحث کی ابتداء بعض قرآنی آیات اور پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی احادیث سے ہوئی ہے۔ مُصحَف تفسیری امام علیؑ کو اس سلسلے کی پہلی تحریر جانی جاتی ہے جس میں علوم قرآن سے متعلق کئی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ علوم قرآن کا تدریجی سفر کئی مراحل پر مشتمل ہے، پہلی اور دوسری صدی ہجری کو مونوگرافی، تیسری اور چوتھی صدی ہجری کو باقاعدہ علوم قرآن کی تدوین جبکہ آٹھویں اور دسویں صدی ہجری کو تثبیت اور عروج کا مرحلہ قرار دیا جاتا ہے۔

علوم قرآن میں شیعہ طرز تفکر کے عروج کا آغاز پانچویں صدی ہجری سے ساتویں صدی ہجری میں سیدِ مرتضی، شیخ صدوق، شیخ مفید اور فضل بن حسن طَبْرسی جیسے علماء کے مباحث سے ہوتا ہے۔ علوم قرآن کے اصلی مباحث اور موضوعات میں وحی، نزول قرآن، اسباب نزول، قراء سبعہ، فضائل سور، تجوید، محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ، اعجاز قرآن، ترتیب نزول، کتابت قرآن، مکی اور مدنی سورتیں، تاریخ قرآن، تحریف‌ناپذیری قرآن اور حروف مقطعہ شامل ہیں۔

اہمیت

علوم قرآن کے شیعہ نظریہ پرداز آیت اللہ معرفت اس علم کو قرآن فہمی یعنی تفسیر پر مقدم سمجھتے ہیں؛[1] کیونکہ معارف قرآنیہ کا فہم و ادراک اور قرآن کا وحیانی ہونے ک اثبات ان علوم کے سیکھنے پر موقوف ہے۔[2] معاصر مترجم و محقق قرآن محمد علی کوشا کے مطابق قرآن اور اس کے مسائل کی شناخت کی بحث صدر اسلام سے ہی چلی آرہی ہے اور بہت سارے بزرگوں اور دانشوروں نے اس سلسلے میں علمی کاوشوں کو بروئے کار لائے ہیں۔[3]

علوم قرآن کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے مختلف دلائل پیش کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ یوں ہے: قرآن کے وحیانی ہونے کو ثابت کرنا، قرآن کے متن کی اصالت اور تحریف ناپذیری کو ثابت کرنا، قرآنی کی تفسیر اور معارف قرآنیہ کے فہم و ادراک میں کلیدی کردار اور قرآن پر کئے گئے اعتراضات کے مقابلے میں قرآن کا دفاع۔[4] علوم قرآن کے بعض مباحث کا دوسرے اسلامی علوم جیسے تاریخ و سیرت، حدیث، ادبیات، کلام، تفسیر، فقہ اور اصول فقہ کے بعض حصوں کا آپس میں مرتبط ہونا یا ایک دوسرے میں تداخل ہونے کو بھی علوم قرآن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے دوسرے دلائل میں شمار کئے جاتے ہیں۔[5]

مفہوم‌ شناسی

علوم قرآن ایک اصطلاح ہے جسے قرآن اور اس کے مختلف ابعاد کی شناخت سے مربوط مسائل پر اطلاق کیا جاتا ہے۔[6] علوم قرآن میں وحی، نزول قرآن، سورتوں اور آیات کی ترتیب نزول، اسباب نزول، کاتبان وحی، مصحف عثمانی، کتابت قرآن، قراء سبعہ، حجیت و تحریف‌ ناپذیری، اعجاز، تفسیر، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ اور قرآن پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دینا وغیرہ جیسے مباحث شامل ہیں۔[7] ان تمام باتوں کے باوجود بعض علماء کا خیال ہے کہ علوم قرآن کسی خاص موضوع تک منحصر نہیں بلکہ اس کے موضوعات مختلف علل اسباب اور قرآن سے متعلق نو ظہور سوالات اور اعتراضات پر موقوف ہوتا ہے۔[8]

قرآن سے مربوط دیگر علوم کے ساتھ فرق

قرآن سے مربوط علوم کو تین حصوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں: 1۔ قرآن کے مضامین یعنی معارف قرآنیہ سے بحث جیسے عقاید، اخلاق اور احکام[9] وغیرہ سے بحث کرنے کو تفسیر موضوعی سے تعبیر کی جاتی ہے،[10] 2۔ مقدماتی علوم جیسے صرف، نحو، منطق اور بلاغت وغیرہ جو قرآن کے الفاظ اور معانی کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں،[11] اور 3۔ علوم قرآن۔[12]

علوم قرآن کے مباحث کا آغاز

قرآن کے بارے میں بحث و مباحثہ کا آغاز نزول قرآن کی ابتداء ہی سے ہوا تھا۔ محقق قرآن محمد علی مہدوی‌ راد کے مطابق تحریف ناپذیری قرآن، نزول قرآن، وحی، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ سے مربوط قرآنی آیات منجملہ ان مباحث میں سے ہیں جن کے بارے میں خود قرآن میں بحث ہوئی ہے۔[13]

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ دوسرے اسلامی علوم کی طرح علوم قرآن بھی قرآنی آیات کے علاوہ احادیث سے بھی استخراج کئے جاتے ہیں۔[14] اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ نے فضائل قرآن، قرآن کا سات حروف پر نازل ہونا وغیرہ جو علوم قرآن کے مباحث میں سے ہیں، کے بارے میں اپنی احادیث میں اشارہ کئے ہیں۔[15]

ابن‌ ندیم مصحف امام علیؑ کو پہلی تحریر قرار دیتے ہیں جس میں علوم قرآن سے مربوط مباحث زیر بحث لائے گئے ہیں۔[16] کہتے ہیں کہ ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ اور اسباب نزول جیسے مباحث اس کتاب میں زیر بحث قرار دئے گئے ہیں۔[17]

مراحل

آیت اللہ معرفت کے مطابق علوم قرآن نے مختلف صدیوں میں مختلف مراحل طے کئے ہیں:[18]

مرحلہ مونوگرافی

پہلی اور دوسری صدی ہجری کو علوم قرآن میں مونوگراف کی تألیف کا دور تصور کیا جاتا ہے[19] اور اس دور میں تحریر کی گئی اہم تحریروں میں ابوالاسود دوئَلی کے شاگرد یحیی بن یَعْمر کی کتاب، کتابٌ فی القرائہ، ابوالحسن بصری کی کتاب، کتاب عدد آی القرآن، امام سجادؑ کے شاگرد اَبان بن تَغلِب کی کتاب غریب القرآن، اور مقاتل بن سلیمان کی کتاب الآیات المتشابہات کا نام لیا جا سکتا ہے۔[20]

مرحلہ تدوین علوم قرآن

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کو علوم قرآن کی تدوین کا مرحلہ قرار دیا جاتا ہے اس دور میں قرآن کے بارے میں ادبی اور کلامی مباحث اپنی عروج پر پہنچ گئی تھی۔[21] یحیی بن زیاد فرّاء، ابن‌ قتیبہ دینوری، امام رضاؑ کے صحابی حسن بن علی بن فضال، عمر بن بحر جو جاحظ کے نام سے مشہور تھا، احمد بن موسی بن مجاہد (شیخ القراء بغداد) وغیره منجملہ ان مشہور افراد میں سے ہیں جنہوں نے ان دو صدیوں میں علوم قرآن میں فعالیت کی ہیں۔[22]

صبحی صالح کے مطابق علوم قرآن کے بارے میں پہلی کتاب تیسری صدی ہجری میں محمد بن خلف بن المرزبان کی کتاب "کتاب الحاوی فی علوم القرآن" ہے[23] اسی طرح ابوبکر محمد بن قاسم بن بشار انباری (متوفی: 328ھ) کی کتاب، "عَجائبُ علومِ القرآن" اس سلسلے میں چوتھی صدی ہجری کی تصنیف ہے۔[24]محققین کے مطابق کتاب عجائب علوم القرآن میں پہلی بار علوم قرآن کے بعض مسائل جیسے فضائل قرآن، قرآن کا سات حروف پر نازل ہونا، مَصاحف کی تدوین اور سورتوں، آیات اور کلمات کی تعداد وغیرہ کے بارے میں بحث کی ہے۔[25]

اس دور میں قرآن کی ماہیت اور قرآن کے بارے میں بعض کلامی اعتراضات اٹھائے گئے۔ اسی طرح یہ دور قرآن کے بارے میں اعتزلی تفکر کے پروان چڑھنے اور قراء سبعہ کی شہرت کا دور بھی قرار پایا ہے۔[26]

علوم قرآن کی کیا ضرورت تھی؟

علوم قرآن کے محقق احمد پاکتچی کے مطابق یہ علم اس وقت رفتہ رفتہ وجود میں آیا جب مختلف اسلامی علوم کے علماء نے کلامی، فقہی اور فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے قرآن کی تفسیر کرنا شروع کیا جن میں سے ہر تفسیر کا مخاطب اسی علم کے علماء ہوا کرتے تھے ایسے میں علوم قرآن کے ماہرین نے مختلف تفاسیر کے درمیان کوئی مشترک زبان تلاش کر کے قرآن کی مختلف تفاسیر کو یکساں کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ قرآن کی تفسیر سب کے لئے قابل فہم قرار پائے۔[27]

عروج

علوم قرآن میں ادبی اور شیعہ تفکر کے عروج کا دور پانچویں سے ساتویں صدی ہجری کو قرار دیا گیا ہے۔ مشہور شیعہ علماء منجملہ سیدِ مرتضی، شیخ صدوق، شیخ مفید، سیدِ رضی، قطب راوندی، فضل بن حسن طَبْرسی اور سید بن طاووس نے اس دور میں علوم قرآن پر کام کیا۔[28] اس دور سے تفاسیر کے مقدمے میں علوم قرآن کے مباحث کو منعکس کرنا شروع کیا؛ اس سلسلے میں منجملہ مَجمع‌ البیان، اَلتِّبیان، تفسیر صافی، آلاءُالرحمن اور اَلْبیان وغیره کا نام لیا جاتا سکتا ہے۔[29]

تثبیت اور وسعت

آٹھویں سے دسویں ہجری میں علوم قرآن کو توسیع دے کر ایک جامع علم کے عنوان سے معرفی کیا گیا۔[30] اس دور میں محمد بن عبداللہ زرکشی کی کتاب البرہان فی علومِ القرآن اور جلال الدین سیوطی کی کتاب اَلاِتقان فی علوم القرآن جیسی اہم کتابیں منظر عام پر گئیں۔[31]

زوال

گیارہویں سے تیرہویں صدی ہجری کو سیوطی کے قلمی آثار کی شہرت اور علوم قرآن کے زوال کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس دور میں قرآن کی فہرست‌ نویسی پر کام ہوا۔ اسی طرح اخباریت کے عروج پیدا کرنے کی وجہ سے علوم قرآن سے متعلق بعض حدیثی مجموعے تدوین کئے گئے منجملہ ان میں علامہ مجلسی کی کتاب بحارالانوار کو قرآنی آیات کی سب سے مفصل‌ موضوعی فہرست کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔[32]

عروج دوبارہ

چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کو علوم قرآن کے دوبارہ عروج پانے کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور تحریف قرآن اور اس پر ہونے والے اعترضات کے بارے میں محدث نوری کی کتاب فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب کی تدوین سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے علوم قرآن میں تحول رونما ہوا اور آیت اللہ معرفت کی کتاب اَلتَّمہید فی علومِ القرآن جیسی اہم تصانیف منظر عام پر آگئی۔ قرآن پر ہونے والے اعتراضات کا جواب اور ایگناتس گلدزیہر، تئودور نولدکہ، آرتور جفری اور توشی‌ہیکو ایزوتسو جیسے مستشرقین اور محمد ارکون اور نصر حامد ابوزید وغیره جیسے دینی روشنفکروں کا علوم قرآن جانب راغب ہونا اس دور کی اہم خصوصیات میں سے ہیں۔[33]

موضوعات

قرآن کے بارے میں مورد بحث قرار پانے والے اصلی مباحث اور موضوعات جن میں سے ہر ایک کسی خاص علم کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ہیں: وحی، نزول قرآن، اسباب نزول، قراء سبعہ، فضائل قرآن، تجوید، محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ، اعجاز قرآن، سورتوں کی ترتیب نزول، قرآن کی جمع آوری، مکی اور مدنی سورتیں، تاریخ قرآن، تحریف‌ ناپذیری قرآن اور حروف مقطعہ۔

وحی

انبیاء کا خدا کی جانب سے پیغام دریافت کرنے کے لئے عالم غیب کے ساتھ ہونے والے رابطے کو وحی کہا جاتا ہے۔[34] مفسرین کے مطابق انبیاء پر تین طرح سے وحی ہوتی ہے؛ خدا کا بلاواسطہ انبیاء سے بات کرنا، غیر انسانی واسطوں کے ذریعے بات کرنا جیسے جبرئیل اور «پردے کے پیچھے» سے بات کرنا۔[35]

اعجاز قرآن

اعجاز قرآن سے مراد ترکیب، لفظ اور متن وغیرہ کے اعتبار سے قرآن کریم کی مافوق بشر خصوصیات کو کہا جاتا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی اور شخص ان جیسے امور پر قادر نہیں ہے۔[36] قرآن اپنی اعجاز کو ثابت کرنے کے لئے اپنے مخالفین کے ساتھ تَحَدّی یعنی چلینج کرتا ہے[37] اور ان کو قرآن جیسی کوئی کتاب[38] یا چند سورے[39] یا ایک سورت[40] لانے کا چلینج کرتا ہے۔

اسباب نزول

اَسبابِ نُزول یا شَأن نزول ان اشخاص، واقعات اور مواقع کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن کی آیات یا آیت نازل ہوئی ہے۔[41] قرآن کی آیات کی تفسیر میں اسباب نزول کا اہم کردار ہوتا ہے۔[42] مسلمان علماء نے اسباب نزول کے بارے میں مستقل کتابیں تحریر کی ہیں۔ قرآن کی تمام آیات کا شأن نزول نہیں ہوتا اور بعض قرآنی محققین کے مطابق اسباب نزول کی مجموعی تعداد تقریبا 460 ہے۔[43] شیعہ مفسرین اور بعض اہل‌ سنت مفسرین نے اسباب نزول کی بحث میں امام علیؑ اور اہل‌ بیتؑ کی فضائل کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے اسباب نزول پر خاص توجہ دی ہیں۔[44]

نزول قرآن

نزول قرآن قرآنی آیات کا وحی کے ذریعے حضرت محمدؐ پر نازل ہونے کو کہا جاتا ہے۔[45] قرآن دفعی اور تدریجی دو مرحلوں میں نازل ہوا اور قرآن کا صرف تدریجی صورت میں نازل ہونے کی بحث علوم قرآن کے اختلافی مباحث میں سے ہے۔ محمد ہادی معرفت جیسے محققین قرآن کے صرف تدریجی نزول پر اعتقاد رکھتے ہیں؛[46] لیکن ان کے مقابلے میںعلامہ طباطبائی جیسے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن تدریجی اور دفعی دور طریقوں سے نازل ہوا ہے۔[47]

فضائل قرآن

فضایل سُوَر ان احادیث کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو قرآن کی سورتوں کے فضائل، اہمیت اور ان کی تلاوت کے دنیوی اور اخروی اجر و ثواب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[48] فضائل سور کا اصل مقصد مسلمانوں کو قرآن کی قرائت اور اس میں غور و فکر کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔[49] شیعہ اور اہل سنت حدیثی مجموعوں میں قرآنی سورتوں کے فضائل کے بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں۔[50] خود قرآن میں بھی بعض سورتوں کے فضائل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[51]

قراء سبعہ

قُرّاء سَبْعہ قرآن کے ان سات قاریوں کو کہا جاتا ہے جو دوسری صدی ہجری میں زندگی گزارتے تھے جن کے درمیان قرآن کے بعض کلمات کو پڑھنے اور تلفظ کرنے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان افراد نے اپنی قرأت کو بعض تابعین سے سیکھے اور ان تابعین نے بھی کسی صحابہ سے سیکھے ہیں۔[52]

اہل‌ سنت کے مشہور علماء قراء سبعہ کی قرائتوں کو متواتر قرار دیتے ہیں اور شیعوں میں بھی بعض فقہا منجملہ علامہ حلی اور شہید ثانی نے ان قرائتوں کو متواتر اور ان میں سے ہر ایک کو نماز میں پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔[53]

محکم و متشابہ

مُحْکَم و مُتَشابہ قرآن کی دو قسم کی آیات کی طرف اشارہ ہے: محکم ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معانی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان کے علاوہ کسی اور معانی کا احتمال نہیں دیا جاتا اور ان میں کوئی شکوک و شبہات نہیں پایا جاتا۔ ان کے مقابلے میں بعض آیات ہیں جن کے ظاہری معانی میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں اور ان کے حقیقی معانی ان کے ظاہری معانی سے حاصل نہیں ہوتے۔[54] اہل‌ سنت کے ایک گروہ نے متشابہات کے علم کو صرف خدا کے ساتھ مختص قرار دیا ہے؛[55] لیکن محمد ہادی معرفت جیسے بعض محققین کا کہنا ہے کہ سورہ آل‌عمران کی آیت نمبر 7 کے مطابق آیات متشابہ میں پوشیدہ حقائق تک رسائی علم کے متلاشی حقیقی علماء کے لئے ممکن ہے۔[56]

ناسخ و منسوخ

ناسخ و منسوخ قرآن‌ کی دو قسم کے آیات کو کہا جاتا ہے۔ ناسخ آیت منسوخ آیت کے حکم کو نسخ اور ختم کرتی ہے اور ناسخ آیت کے نازل ہونے کے ساتھ منسوخ آیت پر عمل کرنے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔[57] قرآنی محققین اور فقہاء کے مطابق نسخ قرآن اور سنت دونوں میں امکان پذیر ہے اسی طرح قرآن کو قرآن کے ذریعے، قرآن کو سنت کے ذریعے، سنت کو سنت اور سنت کو قرآن کے ذریعے نسخ کرنا سب جائز اور نمونے بھی موجود ہیں۔[58]

حوالہ جات

  1. معرفت، آموزش علوم قرآن، 1387ہجری شمسی، ص10۔
  2. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص21؛ کوشا، «علوم قرآنی»، ص939۔
  3. کوشا، «علوم قرآنی»، ص939۔
  4. باقری، «علوم قرآن؛ چیستی، چرایی و چگونگی»، ص50-54۔
  5. نصیری، «فلسفہ علوم قرآن»، ص229-235۔
  6. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص6۔
  7. زرقانی، مناہل العرفان، دار احیا التراث العربی، ج1، ص20۔
  8. باقری، «علوم قرآن؛ چیستی، چرایی و چگونگی»، ص46-47۔
  9. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص84۔
  10. معرفت، علوم قرآنی، 1381ہجری شمسی، ص7
  11. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص84۔
  12. موسوی دارابی، نصوص فی علوم القرآن، 1422ھ، ص9-17۔
  13. مہدوی راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص86-87۔
  14. نصیری، «فلسفہ علوم قرآن»، ص226۔
  15. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص87۔
  16. ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص45-46۔
  17. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص292-293؛ رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص370-371؛ ایازی، «مصحف امام علیؑ»، ص167 و 177-178۔
  18. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص7-8۔
  19. نصیری، «فلسفہ علوم قرآن»، ص22 8؛
  20. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص8؛ مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص88۔
  21. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص88۔
  22. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص89-93۔
  23. صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 2000م، ص124۔
  24. صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 2000م، ص122۔
  25. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص88۔
  26. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص90-93۔
  27. پاکتچی، تاریخ تفسیر قرآن، 1392ہجری شمسی، ص114-119۔
  28. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص93-97۔
  29. نصیری،« فلسفہ علوم قرآن»، ص226-227۔
  30. نصیری،« فلسفہ علوم قرآن»، ص228۔
  31. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص15-16؛ مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص97-100۔
  32. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص100-102۔
  33. مہدوی‌راد و معرفت، «علوم قرآن»، ص102-109۔
  34. طباطبایی، وحی یا شعور مرموز، 1377ہجری شمسی، ص104
  35. قمی، تفسیر القمی، 1367ہجری شمسی، ج2، ص279؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج18، ص74؛ مطہری، نبوت، 1373ہجری شمسی، ص81-84
  36. معرفت، آموزش علوم قرآنی، 1387ہجری شمسی، ص159-159۔
  37. مؤدب، «اعجاز قرآن»، ص197۔
  38. سورہ اسراء، آیہ 88۔
  39. سورہ ہود، آیہ 13۔
  40. سورہ بقرہ، آیہ23۔
  41. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت علیہم السلام، 1389ہجری شمسی، ص154-155۔
  42. زرقانی، مناہل العرفان، بیروت، ج1، 102۔
  43. حاجی میرزایی، «اسباب نزول»، ص192۔
  44. معرفت و لسانی فشارکی، «اسباب النزول»، ص127۔
  45. حکیم، علوم القرآن، 1417ھ، ص25۔
  46. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج1، ص114۔
  47. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص15-18۔
  48. نصیری، «چگونگی تعامل با روایات فضایل و خواص آیات و سور»، ص52 –53
  49. اقبال، فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، 1385ہجری شمسی، ص219۔
  50. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص596؛ صدوق، ثواب الاعمال، 1406ھ، ص103؛ مالک بن انس، الموطا، 1425ھ، ج1، ص202۔
  51. سورہ اسراء، آیہ82، سورہ طہ، آیہ124۔
  52. معرفت، آموزش علوم قرآن، 1387ہجری شمسی، ص84-92۔
  53. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج3، ص141؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، 1419ھ، ج3، ص305۔
  54. معرفت، آموزش علوم قرآن، 1387ہجری شمسی، ص112۔
  55. صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 2000م، ص282۔
  56. معرفت، آموزش علوم قرآن، 1387ہجری شمسی، ص117۔
  57. طباطبایی، قرآن در اسلام، 1376ہجری شمسی، ص41۔
  58. حاجی میرزایی، «ناسخ و منسوخ»، ص2199۔

مآخذ

  • ابن‌ندیم، محمد بن إسحاھ، الفہرست، بیروت، دارالمعرفۃ، 1417ھ۔
  • اقبال، ابراہیم، فرہنگ نامہ علوم قرآن، تہران، امیرکبیر، 1385ہجری شمسی۔
  • ایازی، سید محمدعلی، «مصحف امام علیؑ»، در دانشنامہ امام علی ؑ، ج12، زیر نظر علی‌اکبر رشاد، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
  • باقری، علی‌اوسط، «علوم قرآن؛ چیستی، چرایی و چگونگی»، در نشریہ قرآن شناخت، شمارہ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • بستانی، قاسم، و زہرا چنانی و سیما آلبوغبیہجری شمسی،«اعتبار سنجی روایات فضائل قرائت قرآن نزد شیعہ»، مجلہ مطالعات فہم حدیث، سال پنجم، شمارہ اول، پیاپی نہم، پاییز 1397۔
  • پاکتچی، احمد، تاریخ تفسیر قرآن کریم، تہران، دانشگاہ امام صادقؑ، 1392ہجری شمسی۔
  • حاجی‌میرزایی، فرزاد، «اسباب نزول»، در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، جلد اول، تہران، انتشارات دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • حاجی‌میرزایی، فرزاد، «ناسخ و منسوخ»، در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، جلد دوم، تہران، انتشارات دوستان-ناہید، 1377ش
  • حکیم، محمدباقر، علوم القرآن، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1417ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، أعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم، بی‌جا، 1408ھ۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
  • زرقانی، محمد عبدالعظیم، مناہل العرفان فى علوم القرآن‏، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فى علوم القرآن‏، بیروت، دارالمعرفۃ، 1410ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الإتقان فی علوم القرآن‏، بیروت، دار الکتاب العربی‏، 1421ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، ج3، قم، مؤسسۃ آل البیت ؑ لإحیاء التراث، 1419ھ۔
  • صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، بیروت، دارالعلم للملایین، 2000م۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، قرآن در اسلام، مصحح: محمدباقر بہبودی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، 1376ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، وحی یا شعور مرموز، قم، دارالفکر، 1377ہجری شمسی۔
  • عابدینی، ناصر، «معناشناسی نزول در قرآن با تاکید بر واژگان بیانگر نزول قرآن»، نشریہ حسنا، شمارہ 21، 1393ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، موسسہ آل البیت، 1414ھ۔
  • فتح‌الہی، ابراہیم، «روش‌شناسی علوم قرآن از منظر فلسفہ علم»، در دوفصلنامہ نامہ حکمت، شمارہ 1، 1386ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، 1363ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • کوشا، محمدعلی، «علوم قرآنی»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، 1396ہجری شمسی۔
  • مؤدب، سید رضا، «اعجاز قرآن»، در دانشنامہ علوم قرآن، زیر نظر علی‌اکبر رشاد، جلد دوم، تہران، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
  • مالک بن انس، موطأ الإمام مالک، ابوظبی، مؤسسہ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ و الإنسانیۃ، 1425ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، قرآن‌شناسی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمينی(رہ)، 1385ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، التحقيق في كلمات القرآن الكريم‌، تہران، وزارت ارشاد، 1368ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، نبوت، تہران، نشر صدرا، 1373ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآنی، قم، موسسہ فرہنگى انتشاراتى التمہيد، 1387ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مرکز انتشاراتی التمہید، 1428ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، محمدعلی لسانی فشارکی، «اسباب النزول»، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، جلد ہشتم، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • موسوی دارابی، سید علی، نصوص فی علوم القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1422ق
  • مہدوی‌راد، محمدعلی و حامد معرفت، «علوم قرآن، در دانشنامہ علوم قرآن، ج1، زیر نظر علی‌اکبر رشاد، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
  • ناصحیان، علی‌اصغر، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت علیہم‌السلام، مشہد، دانشگاہ علوم رضوی، 1389ہجری شمسی۔
  • نصیری، علی، «چگونگی تعامل با روایات فضایل و خواص آیات و سور»، مجلہ علوم حدیث، سال بیست و یکم، شمارہ اول، 1395ہجری شمسی۔
  • نصیری، علی، «فلسفہ علوم قرآن»، در نشریہ قبسات، شمارہ 39-40، 1385ہجری شمسی۔