مصحف

ویکی شیعہ سے

مُصْحَف اس چیز کو کہا جاتا ہے جس پر قرآن مکمل طور پر لکھی ہوئی ہو۔ یہ لفظ اس وقت قرآن کے لئے استعمال ہونا شروع ہوا جب اسے موجودہ شکل میں جمع کر کے کتابی شکل دی گئی۔ تاریخ میں آیا ہے کہ قرآن کی قرأت میں اختلاف سے بچنے کے لئے خلیفہ سوم کے حکم پر قرآن کے تمام نسخوں کو یکساں کر کے مصحف واحد معین کیا گیا۔ مصحف کے خاص احکام ہیں؛ مثلا یہ کہ اسے نجس نہیں کیا جا سکتا، اگر نجس ہو جائے تو اسے پاک کرنا واجب ہے اسی طرح مصحف کے الفاظ کو بغیر وضو یا غسل کے چھونا حرام ہے۔

مفہوم شناسی

مُصحَف لغت میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جس میں مختلف صحیفے جمع کئے گئے ہوں؛ یعنی وہ چیز جس کے دونوں طرف جلد لگی ہوئی ہو اور ان کے درمیان اوراق کو جمع کر کے محفوظ کیا گیا ہو۔[1] مُصحَف کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ہے؛ لیکن اسی مادے سے دوسرے الفاظ مثلا "صُحُف" آٹھ بار قرآن میں آیا ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسی جیسے انبیاء کی کتابوں نیز لوح محفوظ اور نامہ اعمال کو صحف کہا گیا ہے۔[یادداشت 1] "صُحُف" صحیفہ کا جمع ہے اور صحیفہ اس صفحے کو کہا جاتا ہے جس پر لکھا جاتا ہے۔[2] بعد میں قرآن کے لئے لفظ مصحف استعمال کیا جانے لگا۔[3]

قرآن کے لئے لفظ مصحف کا استعمال

مُصحَف کا نام یا اصطلاح قرآن مجید کے لئے اس وقت سے استعمال کرنا شروع ہوا جب اسے موجودہ کتابی شکل دی گئی؛ دوسرے لفظوں میں جب پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد قرآن کو اکھٹا کر کے کتابی شکل دی گئی تو اس وقت اسے "مُصحَف" کا نام دیا گیا۔[4] محمد باقر حجتی قرآن کو مصحف کہنے کے بارے میں لکھتے ہیں: "اہل سنت تاریخی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو مصحف کا نام حضرت ابوبکر کی خلافت کے دور میں ہی دیا گیا تھا"۔ وہ اس سلسلے میں موجود مختلف احادیث کو نقل کرنے کے بعد اس نظریے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔[5]

مصحف واحد کی تدوین

پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ اور آپ کی رحلت کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے پاس قرآن کے مختلف نسخے موجود تھے۔[6] قرآنی علوم کے محقق محمود رامیار نے ان میں سے بعض نسخوں اور ان کے صاحبان کی طرف اشارہ کیا ہے، من جملہ ان میں امام علیؑ، پیغمبراکرمؐ کے چچا حضرت حمزہ، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوایوب انصاری کے نسخے قابل ذکر ہیں۔[7]

ان نسخوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں میں قرآن کی قرأت میں اختلاف پیدا ہوتے تھے۔ چنانچہ کوفہ، بصرہ، دمشق اور شام کے رہنے والے ہر ایک مخصوص نسخے کو قبول کرتے تھے اور صرف اسی کو صحیح مانتے تھے۔ خلیفہ سوم نے قرآن کے ان نسخوں کی وجہ سے لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے حکم دیا کہ جس کسی کے پاس بھی قرآن کا کوئی نسخہ یا آیت یا قرآن کا کوئی حصہ مکتوب شکل میں موجود ہو اسے جمع کیا جائے۔ اس کے بعد ان تمام نسخوں میں سے ایک مشترک نسخہ تیار کر کے اسے باقی نسخوں کے لئے اصل اور مرجع قرار دیا گیا۔ اور مختلف نسخوں میں پیش آنے والے اختلاف میں قریش کی قرأت کو اصل قرار دے کر اسے مقدم کیا گیا(کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے)۔ جب مطلوبہ نسخہ تیار ہوا تو حضرت عثمان نے اس سے مزید نسخے تیار کرنے کا حکم دیا اور ان میں سے ہر ایک نسخے کو اسلامی ممالک کے مختلف گوشہ و کنار میں بھیجا اور اختلاف سے بچنے کے لئے باقی موجودہ نسخہ جات کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ یوں کئی سال کے اندر(تقریبا سنہ 28ھ) قرآن کریم سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ ناس تک 114 سورتوں پر مشتمل کتاب کی شکل اختیار کر گیا۔[8]

مخصوص احکام

فقہ میں مصحف کے لئے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں:

  • مصحف کو چھونا

قرآن کے الفاظ کو چھونے کے لئے وضو واجب ہے۔[9] اس حکم میں قرآن کی آیت، الفاظ یا حرف میں کوئی فرق نہیں یہانتک کہ اگر یہ چیزیں کسی اور کتاب میں بھی آئی ہوں۔[10] لیکن اگر قرآن کو کسی اور زبان میں ترجمہ کریں تو اسے بغیر وضو کے چھونا جائز ہے، سوائے لفط جلالہ کے جو کسی بھی زبان میں ہو بغیر وضو کے چھونا جائز نہیں ہے۔[11]بچوں اور دیوانوں کو قرآن کے الفاظ کے ساتھ چھونے سے روکنا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ یہ کام قرآن کی بے احترامی کا موجب ہو تو اس کام سے روکنا واجب ہے۔[12] اسی طرح مجنب پر بھی غسل کے بغیر قرآن کو چھونا حرام ہے۔[13]

البتہ وضو یا غُسل کے بغیر قرآن کے حاشیے اور سطروں کے درمیان خالی جگہے کو چھونا جائز، لیکن مکروہ ہے۔[14] اسی طرح قرآن ساتھ رکھنے، قرآن کو پڑھنے یا لکھنے نیز قرآن کے حاشیے کو چھونے کے لئے وضو یا غسل کرنا مستحب ہے۔[15]

  • مصحف کو نجس‌ کرنا

مصحف کو نجس‌ کرنا حرام ہے[16] اور اگر نجس ہو جائے تو اسے فورا پاک کرنا واجب ہے۔[17]اسی طرح اگر قرآن کا کوئی ورقہ بیت الخلاء میں گر جائے تو اسے وہاں سے نکالنا واجب ہے اور اگر نکالنا ممکن نہ ہو تو احتیاط بلکہ بہتر ہے اس بیت الخلاء کو استعمال نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ ورقہ خودبخود ختم ہو جائے۔[18]

  • کافر کے ہاتھ میں دینا

کہا گیا ہے کہ قرآن کو کافر کے ہاتھ میں دینا حرام ہے اور اگر اس کے ہاتھ میں ہو تو اس سے قرآن کو واپس لینا واجب ہے۔[19] البتہ بعض فقہاء جیسے آیت‌اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کے مطابق اگر اسلام کے بارے میں تحقیق یا تبلیغ کے لئے ہو تو یہ کام جائز ہے۔[20]

  • مصحف کا ارث میں ملنا

میت کا قرآن، انگوٹھی، تلوار اور سلے ہوئے کپڑے اگرچہ نہ پہنا ہو اس کے بڑے بیٹے کو ملے گا اگرچہ مذکورہ اشیاء ایک سے زیادہ ہو مثلًا دو قرآن یا دو انگوٹھی ہو تو یہ بھی بڑے بیٹے ہی کا ہو گا۔[21]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. "صُحُفِ إِبْرَ‌اہِیمَ وَمُوسَیٰ" (سورہ اعلی، آیہ ۱۹)، سانچہ:حدی (سورہ نجم، آیہ ۳۶)، "الصُّحُفِ الْأُولَیٰ" (سورہ طہ، آیہ ۱۳۳)، "صُحُفٍ مُّکرَّ‌مَۃٍ": (مقدس خطوط، لوح محفوظ یا کتب انبیا) (سورہ عبس، آیہ ۱۳)، "صُحُفًا مُّنَشَّرَ‌ۃً": (کھلے خطوط) (سورہ مدثر، آیہ ۵۲)، "وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَ‌تْ" (سورہ تکویر، آیہ ۱۰)، "صُحُفًا مُّطَہَّرَ‌ۃً": (پاکیزہ خطوط) (سورہ بینہ، آیہ ۲)۔

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ صحف؛ راغب اصفہانی، مفردات، ذیل واژہ صحف۔
  2. رامیار، تاریخ قرآن، ص۹۔
  3. رامیار، تاریخ قرآن، ص۱۰۔
  4. خرمشاہی، قوام الدین، مصحف، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۲۰۶۵۔
  5. حجتی، محمدباقر، تاریخ قرآن کریم، ص۴۶۲ بہ بعد؛ بہ نقل خرمشاہی، قوام الدین، مصحف، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۲۰۶۶۔
  6. ایازی، مصحف امام علی(ع)، صص۱۸۰-۱۸۱۔
  7. رامیار، تاریخ قرآن، صص۳۳۴-۳۳۵۔
  8. خرمشاہی، قوام الدین، مصحف، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۲۰۶۵-۲۰۶۶۔
  9. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۳۴ و ص۳۳۷، مسئلہ ۳۔
  10. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۳۴ و ص۳۳۸، مسئلہ ۷ و ۸۔
  11. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۴۲، مسئلہ ۱۷۔
  12. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۴۱، مسئلہ ۱۵۔
  13. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۴۸۱۔
  14. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۴۲، مسئلہ ۱۶۔
  15. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۳۴۵۔
  16. امام خمینی، توضیح المسائل (مُحَشّیٰ)، مسئلہ ۱۳۵۔
  17. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۱۸۲، مسئلہ ۲۱۔
  18. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۱۸۳، مسئلہ ۲۶۔
  19. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، ج۱، ص۱۸۲، مسئلہ ۲۳۔
  20. توضیح المسائل آیت‌اللہ مکارم شیرازی، مسئلہ ۱۴۰۔ توضیح المسائل آیت‌اللہ فاضل لنکرانی، مسئلہ ۱۴۰۔
  21. امام خمینی، توضیح المسائل (مُحَشّیٰ)، مسئلہ ۲۷۸۰۔

مآخذ

  • ابن منظور، لسان العرب، [بی‌جا]، دارالفکر، [بی‌تا]۔
  • ایازی، سیدمحمدعلی، مصحف امام علی(ع)، در دانشنامہ امام علی(ع)، ج۱۲، زیر نظر علی اکبر رشاد، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • خمینی، سیدروح‌اللہ، توضیح المسائل (محشیٰ)، بہ تحقیق و تصحیح سیدمحمدحسین بنی‌ہاشمی خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ق۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • راغب اصفہانی، ابوالقاسم، المفردات فی غریب القرآن، بیروت،‌ دار العلم، ۱۴۱۲ق۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، ۱۳۶۹ش۔
  • طباطبایی یزدی، محمدکاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (المُحشّی)، بہ تحصیح و تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ق۔