مندرجات کا رخ کریں

اللہ

ویکی شیعہ سے
(الله سے رجوع مکرر)

اللّٰہ دین اسلام میں خدا کا خاص اور سب سے مشہور نام ہے۔ علمائے اسلام کے عقیدے کے مطابق اللّٰہ تمام صفات کمالیہ کا جامع نام اور اسم اعظم ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن اور دعاؤں میں اس نام کا سب سے بلند مقام ہے اور یہی نام توحید، شہادتین اور آیات قرآن کا محور ہے۔ لفظ "اللّٰہ" خاص طور پر صرف خدا کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غیرِ خدا کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کلمہ قرآن میں دو ہزار سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔

مفسر قرآن جعفر سبحانی کے مطابق زیادہ تر محدثین اور مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ "اللّٰہ" اَلَہَ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے "لائق عبادت"۔ تاہم اس کے دوسرے معانی بھی بیان کیے گئے ہیں، جیسے حیرت، خوف، اعتماد اور سکونِ قلب وغیرہ۔

حرم امام حسینؑ میں لفظ اللہ کے نقش کے آثار نمایاں ہیں۔

اسلامی عرفان میں "اللّٰہ" سلسلہ اسمائے الہی کا سرآغاز اور باقی سب اسماء کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی ثقافت اور معاشروں میں لفظ "اللّٰہ" کے مختلف استعمالات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی دور کے سِکّوں پر لفظ اللہ کندہ کیا جاتا تھا، مقدس مقامات جیسے ائمہ معصومینؑ اور امام زادوں کے حرم اور مساجد کے مختلف حصوں پر لکھا جاتا ہے اور بعض اسلامی ممالک جیسے ایران، آذربائیجان اور عراق کے قومی پرچموں اور دیگر قومی نشانات پر بھی لفظ اللہ درج ہے۔

اسلامی ثقافت میں نامِ اللّٰہ کا مقام

اللّٰہ خدا کا خاص[1] اور دین اسلام میں خدا کا سب سے مشہور نام ہے۔[2] علمائے اسلام کے نزدیک یہ نام توحید اور اخلاص کا محور ہے اور قرآن و ادعیہ میں سب سے بلند مقام رکھتا ہے۔[3] ان کے مطابق "اللّٰہ" کا صرف ایک ہی مصداق ہے اور یہ ایسا نام ہے جو خدا کی تمام صفاتِ کمالیہ کا جامع نام ہے اور غیرِ خدا کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔[4] اسی وجہ سے "اللّٰہ" کو مسلمانوں کی آسمانی کتاب اور نہج البلاغہ میں خدا کے بارے میں مباحث کا محور قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قرآن میں تمام صفاتِ کمالیہ "اللّٰہ" کے لیے ثابت کی گئی ہیں۔[5]

لفظ "اللّٰہ" اسلام کے دو بنیادی شعائر، یعنی شہادتین کا مرکز ہے؛ پہلی شہادت (گواہی) میں سوائے اللہ کے ہر معبود کی نفی کی جاتی ہے اور دوسری شہادت میں حضرت محمدؐ کو "اللّٰہ" کے پیغمبر اور رسول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔[6]

قرآن میں "اللّٰہ" کے ساتھ ساتھ "رَبّ" اور "اِلٰہ" بھی خدا کے عام اور مشہور ناموں میں شمار ہوتے ہیں۔[7] لفظ "اللّٰہ" کے قرآن میں استعمال کی تعداد مختلف آراء کے مطابق؛ 2699[8]2702 ،[9] اور 2807 بار بتائی گئی ہے۔[10]

بہت سے علمائے اسلام "اللّٰہ" کو اسمِ اعظم سمجھتے ہیں۔[11] اس کی ایک دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ "اللّٰہ" توحید کی بنیاد ہے۔ کافر جب یہ لفظ کہتا ہے تو کفر سے ایمان کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ "لا اِلٰہَ اِلّا الرحمن" کہے تو وہ دائرہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل نہیں ہوتا۔[12]

فارسی اور (اردو) زبان میں خدا (اور پروردگار) لفظ "اللّٰہ" کا مترادف ہے۔[13] یہ لفظ یہودیت، مسیحیت اور زرتشتیت کی کتابوں کے متأخر تراجم میں بھی ان الفاظ کے ترجمے کے طور پر آیا ہے: "یَہوہ"، "تئوس" اور "اہورا مزدا"۔[14] یہ بھی کہا گیا ہے کہ لفظ "اللّٰہ" اسلام سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھا اور قرآن کے سورہ زخرف آیت نمبر 87 اور سورہ لقمان آیت نمبر 25 میں اس لفظ کے نزولِ قرآن سے پہلے کے استعمال کا ذکر موجود ہے۔[15]

لغوی معنی و مفہوم

بعض علما کے نزدیک "اللّٰہ" ایک عربی لفظ ہے،[16] جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی اصل عبرانی یا سریانی ہے۔[17] بعض کے مطابق "اللّٰہ" "اَلْاِلٰہ" سے ماخوذ ہے لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے دوسرے ہمزے کو حذف کیا گیا اور یہ لفظ "اللّٰہ" کی شکل اختیار کر گیا۔[18] ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ لفظ "لاہ" سے لیا گیا ہے، جس پر الف اور لام داخل ہوئے تو "اللّٰہ" بنا۔[19] یہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ آیا "اللّٰہ" مشتق ہے اور کسی اور لفظ سے ماخوذ ہے یا غیرمشتق۔[20] فخر رازی کے مطابق زیادہ تر فقہا اور اصولیین اسے غیرمشتق مانتے ہیں۔[21] لیکن جو علما اسے مشتق سمجھتے ہیں، انہوں نے اس لفظ کے مشتق منہ کے بارے میں مختلف احتمالات ذکر کیے ہیں،[22] جن میں سے چند یہ ہیں:

حضرت امام علیؑ کے حرم کے میناروں پر لفظ اللہ کندہ ہے۔
  • "اللّٰہ" کا ماخذ اَلَہَ ہے، جس کا مطلب ہے "لائق عبادت ذات"۔[23] مفسر قرآن جعفر سبحانی کے بقول زیادہ تر محدثین اور مفسرین نے اسی رائے کو قبول کیا ہے[24] اور یہ معنی روایات میں بھی آیا ہے۔[25]
  • "اَلِہَ" یا "وَلَہَ" سے مشتق ہے، جس کا مطلب ہے "حیران ہونا"، کیونکہ عقلیں اس کی ذات کو سمجھنے سے عاجز اور متحیر ہیں۔[26]
  • "اِلَہَ" سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "سختی اور بھروسہ کرنا"، کیونکہ لوگ مشکلات میں اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں[27] اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔[28]
  • "اِلَہَ" سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی "آرام و سکون" کے ہیں؛ کیونکہ "اللّٰہ" کی یاد دلوں کے لیے سکون کا باعث ہے۔[29]
  • "لاہَ" سے لیا گیا ہے جس کے معنی "پوشیدہ ہونا" ہیں، کیونکہ خدا عقل و وہم اور خیالات سے پوشیدہ ہے۔[30]

عرفانِ اسلامی میں "اللّٰہ"

علم عرفان کے ماہرین کے مطابق اسلامی عرفان میں اسمائے الٰہی کا ایک خاص ترتیب وار نظام ہے۔ اسمائے الہی کا سرآغاز اور جامع نام اللّٰہ ہے۔ اس کے بعد چار بنیادی اسماء (اوّل، آخر، ظاہر اور باطن) اور پھر سات اسماء آتے ہیں، جن کا سرچشمہ "اللّٰہ" ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ اسمائے جزوی تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا عرفان میں تمام اسماء آخرکار "اللّٰہ" کی طرف لوٹتے ہیں۔[31]

لفظ "اللّٰہ" کے استعمالات

لفظ "اللّٰہ" ایران کے پرچم اور قومی نشان میں استعمال ہوا ہے،[32] اسی طرح جمہوری آذربائیجان کے قومی نشان میں بھی۔[33] عراق کے پرچم اور قومی نشان میں بھی "اللّٰہ اکبر" لکھا گیا ہے۔[34] یہ لفظ تنہا یا مرکب شکل میں اسلامی دور کے سکّوں پر بھی کندہ کیا جاتا رہا ہے۔[35] لفظ اللہ کو مختلف مقدس مقامات جیسے حرم اور مساجد میں بھی یہ مختلف انداز میں لکھا جاتا ہے۔ متعدد خطاطوں نے لفظ "اللّٰہ" کو مختلف اسالیب اور خطوط میں تحریر کیا ہے:

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کیجیے: فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج1، ص143؛ طباطبایی، المیزان فی تفسر القرآن، 1390ھ، ج1، ص18؛ سبحانی، منشور جاوید،1390شمسی، ج2، ص119۔
  2. کفعمی، المقام الاسنی، 1412ھ، ص25۔
  3. کفعمی، المقام الاسنی، 1412ھ، ص25و26۔
  4. صافی گلپایگانی، الہیات در نہج البلاغہ، 1386شمسی، ص36۔
  5. صافی گلپایگانی، الہیات در نہج البلاغہ، 1386شمسی، ص33-36۔
  6. پاکتچی، «اللہ»، ص73۔
  7. مصباح یزدی، خداشناسی، 1396شمسی، ص58۔
  8. روحانی، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم، 1372شمسی، ج2، ص244-262۔
  9. صافی گلپایگانی، الہیات در نہج البلاغہ، 1386شمسی، ص34۔
  10. کاشفی، جواہر التفسیر، 1379شمسی، ص357؛ آشتیانی، تفسیر سورہ فاتحۃ الکتاب، 1377شمسی، ص63۔
  11. کاشفی، جواہر التفسیر، 1379شمسی، ص357و361؛ کفعمی، المقام الاسنی، 1412ھ، ص26؛ خمینی، مصباح الہدایہ، 1392شمسی، ص 12و13؛ آشتیانی، تفسیر سورہ فاتحۃ الکتاب، 1377شمسی، ص64۔
  12. کاشفی، جواہر التفسیر، 1379شمسی، ص361؛‌ آشتیانی، تفسیر سورہ فاتحۃ الکتاب، 1377شمسی، ص64۔
  13. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395شمسی، ص228۔
  14. پاکتچی، «اللہ»، ص73۔
  15. طباطبایی، المیزان فی تفسر القرآن، 1390ھ، ج1، ص18؛ سبحانی،‌ منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص116و117۔
  16. فخر رازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج1، ص148؛ سبحانی، منشور جاوید،1390شمسی، ج2، ص116۔
  17. ملاحظہ کیجیے: فخر رازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج1، ص148؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص116۔
  18. ملاحظہ کیجیے:‌ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص195و196؛‌ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج1، ص27؛ طباطبایی، المیزان فی تفسر القرآن، 1390ھ، ج1، ص18؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص118۔
  19. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج1، ص27؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91۔
  20. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص117۔
  21. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج1، ص143۔
  22. ملاحظہ کیجیے:‌ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج1، ص55-57۔
  23. ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص195؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج1، ص27؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج1، ص57؛‌ طباطبایی، المیزان فی تفسر القرآن، 1390ھ، ج1، ص18۔
  24. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص117۔
  25. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص87؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص221۔
  26. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91؛ طباطبایی، المیزان فی تفسر القرآن، 1390ھ، ج1، ص18۔
  27. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص118۔
  28. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج1، ص55و56۔
  29. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2، ص118۔
  30. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص91: ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج1، ص56؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج2،‌ ص118۔
  31. یزدان‌پناہ، مبانی و اصول عرفان نظری، 1389شمسی، ص455-460؛ امینی‌نژاد و دیگران، مبانی و فلسفہ عرفان نظری، 1390شمسی، ص237-240۔
  32. «طرح پرچم ایران؛ بازتاب گفتمان انقلابی و اسلامی»،‌ خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
  33. «لفظ مقدس اللہ در مرکز آرم حکومتی جمہوری آذربایجان»، خبرگزاری آران۔
  34. «پرچم عراق و سیر تحول آن»، وبگاہ عراق‌یار۔
  35. ملاحظہ کیجیے: سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکہ‌ہای اسلامی تا شکل‌گیری حکومت صفویان»، ص9-11، 19، 22 و 23۔

مآخذ

  • آشتیانی، جلال‌الدین، تفسیر سورہ فاتحہ الکتاب، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تصحیح محمدمہدی ناصح و محمدجعفر یاحقی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • امینی‌نژاد، علی و دیگران، مبانی و فلسفہ عرفان نظری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • پاکتچی، احمد، «اللہ»، در دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج10، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
  • «پرچم عراق و سیر تحول آن»، وبگاہ عراق‌یار، تاریخ درج مطلب: 24 آبان 1399شمسی، تاریخ بازدید: 28 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ سوم، 1381ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، توحید در قرآن (از سلسلہ تفاسیر موضوعی جلد دوم)، بہ کوشش حیدرعلی ایوبی، قم، مرکز بین المللی نشر اسراء، 1395ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، مصباح الہدایۃ الی الخلافۃ و الولایۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • روحانی، محمود، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم (فرہنگ آماری کلمات قرآن کریم)، مشہد، آستان قدس رضوی، 1372شمسی/1414ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • ‌سرافرازی، عباس، «شعائر شیعی بر سکہ‌ہای اسلامی تا شکل‌گیری حکومت صفویان»، فصلنامہ شیعہ‌شناسی، شمارہ 51، آبان 1394ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویہ، التوحید، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول،‌ 1398ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیاء‌التراث العربی، بی‌تا۔
  • ‌ صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، الہیات در نہج البلاغہ، قم، بوستان کتاب، 1386ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • ‌«طرح پرچم ایران؛ بازتاب گفتمان انقلابی و اسلامی»،‌ خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج مطلب: 25 تیر 1399شمسی، تاریخ بازدید: 27 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ/1999ء۔
  • کاشفی، ملاحسین، جواہر التفسیر، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 1379ہجری شمسی۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المقام الأسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی، تحقیق فارس الحسون، قم، موسسہ قائم آل‌محمد(عج)، 1412ق/1370ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • «لفظ مقدس اللہ در مرکز آرم حکومتی جمہوری آذربایجان»، خبرگزاری آران، تاریخ درج مطلب: 29 مرداد 1396شمسی، تاریخ بازدید: 28 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدى، محمدتقى، خداشناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشى و پژوہشى امام خمینى، 1396ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • یزدان‌پناہ، سید یداللہ، مبانی و اصول عرفان نظری، نگارش سید عطا انزلی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ دوم، 1389ہجری شمسی۔
  • یزدی، محمدکاظم، العروۃ‌ الوثقی مع التعلیقات، قم، مدرسۃ علی بن ابی‌طالب(ع)، 1428ھ/1326ہجری شمسی۔