تَصدیق تلاوت یا «صَدَقَ اللہ» کہنا تلاوت قرآن کے آداب میں سے ہے۔ اس عبارت کا مطلب قرآن کی تلاوت شدہ آیات میں خدا کے ارشاد کی تصدیق کرنا ہے۔ بعض محققین کے مطابق تصدیق تلاوت کے واجب ہونے پر کوئی معتبر حدیث وارد نہیں ہوئی لیکن کلام خدا کی تصدیق ذاتا مستحسن ہونے کی بنا پر ایک پسندیدہ عمل ہے۔

حرم امام حسینؑ کے ایک دروازے پر صدق اللہ العلی العظیم کی تصویر

شیعہ قراء تلاوت کے آخر میں معمولاً "صدق اللہ العَلیُّ الْعَظیم" کہتے ہیں؛ لیکن اہل‌ سنت قراء کے یہاں "صَدَقَ اللہُ العظیم" کہنا رائج ہے۔ شیعہ اور اہل سنت قراء کے یہاں معمول عبارتوں میں فرق کا شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے فتوؤں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مذکورہ عبارت میں "العلی" کا کلمہ حقیقت میں خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ‌ ہوا ہے اور اس سے مراد امام علیؑ کا نام ہرگز نہیں ہے۔

"صَدَقَ اللہ" کی تعبیر قرآن میں سورہ آل‌ عمران آیت نمبر 95، سورہ احزاب آیت نمبر 22 اور سورہ فتح آیت نمبر 27 میں آئی ہے اور "العلی العَظیم" کی تعبیر سورہ بقرہ اور سورہ شوری میں آئی ہے۔ "العلی العظیم" کی جگہ خدا کے کسی اور صفت جیسے "العَظیم"، "السَمیع العَلیم" اور "الرَحیم الغَفور" کا استعمال بھی تلاوت کی تصدیق میں جائز ہے۔ احادیث اہل بیتؑ میں تصدیق تلاوت کی دیگر اقسام کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔

مفہوم اور اہمیت

صَدَقَ اللہُ العَظیم یا صَدَقَ اللہُ العَلی العَظیم (اردو: اللہ تعالی نے سچ کہا) اور ان سے مشابہ دیگر عبارتوں کو قرآن کی تلاوت کے آخر میں پڑھنا تلاوت کی تصدیق اور اس کے آداب میں شمار کئے جاتے ہیں۔[1]ان عبارتوں کو تلاوت کے اختتام کے اعلان کے طور تلاوت کے آخر میں ادا کئے جاتے ہیں۔[2]

لبنان کے شیعہ عالم دین سید محمد حسین فضل‌ اللہ تصدیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ تلاوت کے آخر میں «صَدَق اللہ» کہنا خدا کے کلام کے صحیح ہونے میں شک کو رفع کرنے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے کلام کی سچائی اور خدا کے وعدوں کے محقق ہونے کا اقرار ہے۔[3]

صَدَقَ اللہُ العَظیم یا صَدَقَ اللہُ العَلیُّ العَظیم؟

موجودہ دور میں شیعہ قرّاء کے یہاں «صَدَقَ اللہ العَلی العَظیم» اور اہل‌ سنت قرّاء کے یہاں «صدق اللہ العظیم» کہنا رائج ہے۔[4] تصدیق کی نوعیت میں مذکورہ اختلاف شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے فتوؤں کے اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہے یعنی کوئی فقہی اختلافی مسئلہ‌نہیں ہے؛ بلکہ یہ چیز صرف قاریوں کے ذاتی تمائلات کی وجہ سے ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ قاری کی شناخت کے ملاک کی شکل اختیار کر گئی ہے۔[5]

اسی طرح کہا گیا ہے کہ تصدیق کی نوعیت میں موجود اس اختلاف کا امام علیؑ کے نام کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ مذکورہ عبارات میں «العَلی» خدا کے صفات میں سے ایک صفت ہے۔ [6] چنانچہ رواق الحجّاج کی رپورٹ کے مطابق بعض مصری اہل سنت قاری جیسے حصّان، محمود رمضان، طوخی اور بدر حسین وغیرہ بھی کبھی کبھار اپنی تلاوت‌ کے آخر میں "صَدَقَ اللہُ العَلی العَظیم" پڑھتے تھے۔[7]

«صدق اللہ» کی تعبیر قرآن کی سورہ آل عمران آیت نمبر 95، سورہ احزاب آیت نمبر 22 اور سورہ فتح آیت نمبر 27 میں آئی ہے جن میں خدا نے پیغمبر اکرمؐ اور دوسرے مؤمنوں کو اپنے کلام کی تصدق کرنے کی سفارش کی ہے۔[8] «قاموس قرآن» کے مطابق قرآن میں لفظ «العلی» آٹھ مرتبہ اور «عظیم» چھ مرتبہ خدا کے صفت کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔[9] اسی طرح یہ دو صفت آیۃ الکرسی اور آیت مشورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔[10]

بعض شیعہ فقہاء جیسے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ‌ ای اہل سنت کے یہاں رائج تصدیق (صدق اللہ العظیم) پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں[11] لیکن بعض دوسرے فقہاء شیعوں کے یہاں رائج تعبیر کے علاوہ دوسری صورتوں کی ممانعت کرتے ہیں۔[12] اسی طرح فریقین کے یہاں رائج عبارتوں کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ بھی تصدیق کرنا جائز ہے۔[13] مثال کے طور پر «العلی العَظیم» کی جگہ اللہ کے کسی اور صفت جیسے «العظیم»، «الْعَزِیزُ الْحَکیم»، «السَّمِیعُ الْعَلِیم»، «الْحَکیمُ الْخَبِیر»، «الْعَلِیمُ الْحَکیم»، «الْعَزِیزُ الرَّحِیم»، «الرَّحِیمُ الْغَفُور» کہنا بھی جائز ہے۔[14]

صدق اللہ کہنے کے بارے میں فقہاء کے فتوے

بعض شیعہ اور اہل سنت علماء بعض آیات اور احادیث نیز قاعدۂ تسامح سے استناد کرتے ہوئے تصدیق تلاوت کو مستحب سمجھتے ہیں۔[15] اس سلسلے میں دار الافتاء‌ المصریہ کہتے ہیں: تصدیق خدا کا ذکر ہے، دوسری طرف سے خدا نے سورہ احزاب آیت نمبر 41 میں مؤمنوں کو ذکر کی سفارش کی ہیں۔ پس تصدیق خدا کے یہاں مورد قبول اور مستحب ہے۔[16]

لیکن بعض شیعہ محققین قرآنی، حدیثی، تاریخی اور فقہی مستندات کی چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصدیق تلاوت کے مستحب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔[17] اس سلسلے میں وہ تلاوت کے آخر میں تصدیق کی سفارش کرنے والی احادیثی کو بعض مخصوص آیات یا عبادی اعمال کے ساتھ منحصر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ احادیث تمام آیات کو شامل نہیں کرتی ہیں۔[18] بعض اہل‌ سنت علماء بھی اس بات کے قائل ہیں۔[19] ان کے مطابق تصدیق تلاوت صرف ایک مستحسن عمل اور تلاوت کے آداب میں سے ہے۔[20]

بعض سَلَفی علماء کہتے ہیں کہ چونکہ خدا نے ہمیں تصدیق تلاوت سے نہی نہیں کی لھذا یہ ایک جائز عمل ہے؛[21] اس کے مقابلے میں وہابی اور اہل‌ سنت علماء اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ اور دیگر صحابہ سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی، تصدیق تلاوت کے بِدعت اور حرام ہونے کے قائل ہیں۔[22]

نماز میں صدق اللہ کہنا

بعض شیعہ مراجع تقلید کے مطابق اگر کوئی شخص واجب نماز میں حمد یا سورہ کے اختتام پر «صَدَقَ اللہ» کہے تو اس پر نماز کے بعد سجدۂ سہو بجا لانا واجب ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں احتیاط واجب کی بنا پر سجدہ سہو بجا لائیں۔[23] اسی طرح بعض فقہاء کے مطابق اگر کوئی شخص واجب نماز میں عمدا یہ کام کرے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔[24]

احادیث میں صدق اللہ کا تاریخی پس منظر

احادیث اور علماء کے کلمات میں قرآن کی تلاوت کے اختتام پر ادا کئے جانے والی بعض عبارتوں کی سفارش ہوئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  1. صَدَقَ اللہ العَلیُّ العَظیم: علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہیں جس کے مطابق ایک شخص نے آپ سے قرآن کی تلاوت کے آغاز اور اختتام کے بارے میں سوال کیا اس پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: قرآن کی ابتداء «بسمِ اللہ الرَّحمن الرَّحیم» سے اور اختتام «صَدَقَ اللہ العَلی العَظیم» پر ہے۔[25] شیعہ مرجع تقلید آیت‌ اللہ سیستانی اس بات کے معتقد ہیں کہ تصدیق کی یہ کیفیت بہتر ہے؛ کیونکہ «علی» و «عظیم» کی دو صفت قرآن میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں صفات کا ایک ساتھ استعمال کرنا خدا کی زیادہ تعظیم کا باعث ہے۔[26]
  2. صَدَقَ اللہُ العَظیم: شیخ عباس قمی مفاتیح‌ الجنانمیں امام صادقؑ سے اعمال اُمّ داوود نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں قرآن کی سورتوں کی تلاوت کے بعد «صدق اللہ العظیم» کہنا اعمال ام‌داوود میں سفارش ہوئی ہے۔[27]
  3. صَدَقَ اللہُ و رَسُولُہ: شیخ طوسی تہذیب‌الاحکام میں امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سورۂ شمس تلاوت کرنے والوں کو سفارش کرتے تھے کہ اس سورت کو «صدق اللہُ و صَدَق رَسولُہ» (یعنی خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا) کی عبارت کے ساتھ اختتام تک پہنچائیں۔[28]
  4. صَدَقَ اللہُ عزّوجل: کلینی کتاب کافی میں نقل کرتے ہیں کہ امام سجادؑ سورۂ قدر کی ابتدائی آیت کی تلاوت کے بعد «صدق اللہ عَزَّوَجَلّ» (یعنی اللہ تعالی نے سچ کہا) کہہ کر تصدیق کرتے تھے۔[29]
  5. صَدَق اللہُ العَلّی العَظیم و بَلَغ رسولُہ الکریم اللّہم انفَعنا بہ و بارِک لنَا فیہ و الحَمدُللہ ربِّ العالَمین (اللہ تعالی نے سچ کہا، خدا قرآن کے وسیلے سے ہمیں فائدہ پہنچائیں اور جو اس قرآن میں ہے اسے ہمارے لئے مبارک قرار دے اور تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں جو عالمین کا پروردگار ہے): نراقی نے جامع‌ُ السَّعادات میں اس عبارت کو تلاوت قرآن کے اختتام پر ذکر کئے ہیں اور اسے آداب تلاوت قرآن میں شمار کئے ہیں۔[30]

حوالہ‌ جات

  1. «آداب تلاوت قرآن»، سایت البُلدان۔
  2. «پایان دادن بہ قرائت قرآن با گفتن «صدق اللہ العظیم» چہ حکمی دارد؟»، سایت اسلام کوئست۔
  3. «لماذا نقول بعد تلاوۃ القرآن "صدق اللہ العلی العظیم"؟»، موقع اذاعۃ طہران۔
  4. «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی۔
  5. «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی۔
  6. «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی۔
  7. «صدق اللہ العظیم، صدق اللہ العلی العظیم»، سایت رواق الحجّاج۔
  8. قرشی، قاموس قرآن، 1361ھ، ج 5، ص18 و 38۔
  9. قرشی، قاموس قرآن، 1361ھ، ج 5، ص18 و 38۔
  10. قرشی، قاموس قرآن، 1361ھ، ج 5، ص18 و 38۔
  11. «فرق «صدق اللہ» با علی و بدون علی از نظر رہبر انقلاب»، خبرگزاری مشرھ۔
  12. «پایان دادن بہ قرائت قرآن با گفتن «صدق اللہ العظیم» چہ حکمی دارد؟»، سایت اسلام کوئست۔
  13. «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی۔
  14. «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی۔
  15. «ما ہو المستند فی ختم التلاوۃ القرآنیۃ بقول: (صدق اللہ العلی العظیم)، ولیس (صدق اللہ العظیم)؟»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  16. «ہل قول صدق اللہ العظیم بعد انتہاء قراءۃ القرآن بدعۃ؟»، موقع القاہر 24۔
  17. «دلیل ختم قرآن بہ صدق اللہ العلی العظیم»، ‌ الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  18. «دلیل ختم قرآن بہ صدق اللہ العلی العظیم»، ‌ الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  19. «حکم قول صدق اللہ العظیم بعد قراءۃ القرآن»، موقع صدی البلد۔
  20. «دلیل ختم قرآن بہ صدق اللہ العلی العظیم»، ‌ الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ؛ «حکم قول صدق اللہ العظیم بعد قراءۃ القرآن»، موقع صدی البلد۔
  21. «حکم قول صدق اللہ العظیم عند الانتہاء من قراءۃ القرآن»، سایت إسلام أون لاین ؛ «حکم التزام قول صدق اللہ العظیم عقب التلاوۃ»، ‌سایت اسلام ویب۔
  22. الدویہجری شمسی، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء، رئاسۃ إدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتاء، ج4، ص150؛‌ المسند، فتاوی اسلامیہ لأصحاب الفضیلۃ العلماء، 1415ھ، ج4، ص17۔
  23. مکارم، «حکم گفتن صدق اللہ پس از پایان سورہ در نماز»، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  24. نوری ہمدانی، «گفتن صدق اللہ بعد از حمد یا سورہ در نماز»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  25. مجلسی، بحارالانوار، 1412ھ، ج57، ص243۔
  26. «أیہما أصح "صدق اللہ العلی العظیم" أم "صدق اللہ العظیم"؟»، موقع الکوثر۔
  27. قمی، کلیات مفاتیح‌الجنان، اسوہ، ج1، ص144‌؛ مجلسی، بحارالانوار، 1412ھ، ج 95، ص400۔
  28. طوسی، تہذیب الأحکام، 1365ہجری شمسی، ج2، ص297۔
  29. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص248۔
  30. نراقی، جامع السعادات، الاعلمی، ج3، ص369۔

مآخذ

  • «حکم التزام قول صدق اللہ العظیم عقب التلاوۃ»، سایت اسلام ویب، تاریخ درج مطلب:‌ 5 شوال 1431ھ، تاریخ مشاہدہ: 21 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «آداب تلاوت قرآن»، سایت البُلدان، تاریخ درج مطلب: 23 جولای 2021م، تاریخ مشاہدہ:‌ 27 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «أیہما أصح "صدق اللہ العلی العظیم" أم "صدق اللہ العظیم"؟»، موقع الکوثر، تاریخ درج مطلب:‌ 2 مارس 2019م، تاریخ مشاہدہ: 26 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «حکم قول صدق اللہ العظیم بعد قراءۃ القرآن»، موقع صدی البلد، تاریخ درج مطلب:‌ 23 اُکتبر 2019م، تاریخ مشاہدہ:‌ 26 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «حکم قول صدق اللہ العظیم عند الانتہاء من قراءۃ القرآن»، سایت إسلام أون لاین، تاریخ مشاہدہ:‌ 21 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «صدق اللہ العظیم، صدق اللہ العلی العظیم»، سایت رواق الحجّاج، تاریخ مشاہدہ:‌ 26 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «صدق اللہ العلی العظیم یا صدق اللہ العظیم؟»، سایت انجمن گفتگوی دینی، تاریخ مشاہدہ:‌ 26 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «لماذا نقول بعد تلاوۃ القرآن "صدق اللہ العلی العظیم"؟»، موقع اذاعۃ طہران، تاریخ درج مطلب 30 می‌2020ء، تاریخ مشاہدہ:‌ 26 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • الدویش، محمد بن عبدالرزّاق، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء، ریاض، رئاسۃ إدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتا، بی‌تا۔
  • المسند، محمد بن عبدالعزیز، فتاوی إسلامیہ لأصحاب الفضیلۃ العلماء، ریاض،‌ دار الوطن للنشر، 1415ھ۔
  • رستم نژاد، چرا در صدق اللہ العلی العظیم از فعل ماضی (گذشتہ) استفادہ شدہ است؟، برنامہ پرسمان قرآنی، پخش شدہ در شبکہ جہانی ولایت، 6 آذر 1400ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیہ، 1365ہجری شمسی۔
  • قرشی، سیدعلی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1361ہجری شمسی۔
  • «فرق «صدق اللہ» با علی و بدون علی از نظر رہبر انقلاب»، خبرگزاری مشرھ، تاریخ درج مطلب: 31 فروردین 1395ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 30 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، کلیات مفاتیح‌الجنان، قم، اُسوہ، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، مؤسسۃ التاریخ العربی، 1412ھ۔
  • نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، بیروت، الاعلمی، بی‌تا۔
  • «ما ہو المستند فی ختم التلاوۃ القرآنیۃ بقول: (صدق اللہ العلی العظیم)، ولیس (صدق اللہ العظیم)؟» الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ، تاریخ درج مطلب:‌ 12 می‌2014م، تاریخ مشاہدہ:‌22 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «ہل قول صدق اللہ العظیم بعد انتہاء قراءۃ القرآن بدعۃ؟»، موقع القاہر 24، تاریخ مشاہدہ:‌ 24 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «دلیل ختم قرآن بہ صدق اللہ العلی العظیم»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ، تاریخ درج مطلب: 17 ژوئن 2020م، تاریخ مشاہدہ:‌ 22 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «پایان دادن بہ قرائت قرآن با گفتن «صَدَقَ اللہ العَظیم» چہ حکمی دارد؟»، سایت اسلام کوئست، تاریخ درج مطلب:‌ 3 دی 1397ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ:‌ 25 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • مکارم، «حکم گفتن صدق اللہ پس از پایان سورہ در نماز»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ مشاہدہ:‌ 24 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • نوری ہمدانی، «گفتن صدق اللہ بعد از حمد یا سورہ در نماز»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 8 مرداد 1396ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ 24 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔