نمرود

ویکی شیعہ سے
نمرود
کوائف
نام:نَمرود بن کَنعان
مشہور اقارب:حضرت نوحؑ (اجداد میں سے تھے)
وجہ شہرت:حضرت ابراہیم کے دور میں بابل کا بادشاہ
محل زندگی:بابِل


نَمرود بن کَنعان، حضرت ابراہیمؑ کے دور میں بابِل کا بادشاه تھا۔ قرآن کریم میں نمرود کا نام صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا لیکن سورہ بقرہ اور سورہ انبیاء میں اس کا ذکر آیا ہے۔ وہ بت پرست تھا اور اس کی سلطنت میں بت‌ پرستی رائج تھی۔ اس زمانے کے کاہنوں نے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ عنقریب ایک لڑا پیدا ہوگا جس کا نام ابراہیم ہے جو بت پرستی کا مقابلہ اور نمرود کی سلطنت کو ختم کردے گا۔ نمرود نے ابراہیم کے خوف سے تمام نو مولود بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا لیکن ابراہیم کی ولادت نمرود اور اس کے کارندوں پر مخفی رہی۔

نمرود نے بتوں کی توہین اور انہیں توڑنے کے جرم میں حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا لیکن حضرت ابراہیم محفوظ رہے۔ اس کے بعد نمرود نے حضرت ابراہیم کو آزاد کر دیا اور خدا کی بارگاہ میں قربانی پیش کی لیکن خدا پر ایمان لانے کیلئے تیار نہیں ہوا۔

بعض مصادر کے مطابق نمرود خدا کو ڈھونڈنے اور اس سے مقابلہ کرنے کیلئے عقابوں کو آسمان کی طرف گیا لیکن ناامید زمین پر لوٹ آیا۔ نمرود کے حکم سے ایک مینار بنایا گیا جس کی بلندی آسمان تک جا پہنچتی تھی۔ یہ مینار مینار بابل کے نام سے مشہور ہے۔ آخر کار خدا کے حکم سے ایک مچھر ناک کے راستے نمرود کے سر میں داخل ہوگیا جو اس کی ہلاکت کا باعث بنا۔

زندگی‌ نامہ

نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوح، جو حضرت ابراہیمؑ کے دور میں بابِل کا بادشاہ تھا۔ بعض مورخین نمرود کو حام بن نوح کا پوتا قرار دیتے ہیں۔ نمرود حضرت ابراہیم کے چچا "آزر" کا چچا زاد بھی تھا۔[1] ایرانی، نمرود کو فریدون کے لقب سے یاد کرتے تھے۔[2] بعض مصادر میں اسے حضرت ابراہیم کے دور کے فرعون کے نام سے بھی یاد کئے ہیں۔[3] نمرود کا نام بُخْتُ‌النَّصر کے ساتھ پوری دنیا پر حکومت کرنے والے واحد مشرک کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔[4]

ان کی بادشاہت کی مدت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اس حوالے سے بعض نے 400 سال[5] اسے کے بعد 270 سال[6] اور سب سے کم 69 سال ذکر کئے گئے ہیں۔[7]

نومولود بچوں کا قتل عام

نمرود کی بادشاہت کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک نومولود بچوں کا قتل عام تھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس دور کے کاہنوں نے یہ پیشن گوئی کی کہ بابل میں عنقریب ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کا نام ابراہیم ہوگا جو بت پرستی اور نمرود کی بادشاہت کے خاتمے کا باعث بنے گا۔[8] اس پیشن گوئی کے بعد نمرود نے تمام حاملہ عورتوں کو جمع کرنے اور ان سے پیدا ہونے والا نومولود بچہ ہونے کی صورت میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔[9] بعض تاریخی مصادر کے مطابق نمرود نے ابراہیم کو دنیا میں آنے سے روکنے کیلئے چار سال کی مدت میں تقریبا 7 ہزار بچوں کو قتل کروایا۔[10]

ان تمام سختیوں کے باوجود حضرت ابراہیم مخفیانہ طور پر پیدا ہوئے۔ جب حضرت ابراہیم کی ماں کو درد زہ کا احساس ہوا تو شہر سے باہر چلی گئی اور ایک غار میں بچہ جننے کے بعد غار کا دروازہ بند کر کے شهر واپس آگئی۔ آپ کی والدہ ہر روز اپنے بچے کو دودھ دینے کیلئے مخفیانہ طور پر وہاں جایا کرتی تھی۔[11]

بعض تاریخی مصادر میں حضرت ابراہیم کی ولادت کے حوالے سے آیا ہے کہ نمرود نے نومولود بچوں پر صحیح نگرانی کرنے کی خاطر اپنے سمیت نمام مردوں کو شہر سے باہر نکال دیا اور تمام عورتوں پر کڑی نگرانی شروع کیا۔ ایک دن نمرود اپنے وزیر "آزر" کو کسی کام سے شہر روانہ کرنے پر محبور ہوا۔ اسے شہر روانہ کرنے وقت تاکید کی کہ وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائے گا۔ لیکن "آذر" شہر میں داخل ہونے کے بعد اپنی بیوی کے پاس چلا گیا جس سے اس کی بیوی حاملہ ہو گئی۔ اس نے اپنی بیوی کو شہر سے دور کسی غار میں لے گیا اور وہاں اسے کھانے پینے اور دیگر ضروری چیزیں مہیا کیا گیا۔ کجھ عرصہ بعد جب نمرود کو کاہنوں کی پیشن گوئی کے غلط ہونے کا یقین ہوا اور وہ دوسرے مردوں کے ساتھ شہر واپس لوٹ آئے تو اسی زمانے میں حضرت ابراہیم غار میں متولد ہوئے تھے۔[12] البتہ یہ بات اس مبنا کے مطابق درست ہے جس کے تحت "آذر" حضرت ابراہیم کا باپ ہو نہ کہ چچا۔

یکتا پرستی کی مخالفت

نمرود چونکہ بت پرست تھا اور اس نے اپنی سلطنت میں بت‌ پرستی کو رائج کیا ہوا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے توحید کی دعوت دینا شروع کیا تو اس نے حضرت ابراہیم کی مخالفت کی۔ نمرود کا محل مختلف قیمتی پتھروں کے بنائے ہوئے قیمتی بتوں سے بھری ہوئی تھی۔ نمرود بتوں کی پوجا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی خدائی کا دعوا کرتا تھا۔ حضرت ابراہیم مختلف طریقوں کو لوگوں کو توحید اور یکتا پرستی کی طرف دعوت دیتے تھے۔

حضرت ابراہیم کے ساتھ مجادلہ

جب حضرت ابراہیمؑ نے مخفیانہ طور پر بتوں کو توڑ دیا تو آپ کو نمرود کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم نے نمرود کی ربوبیت کی رد اور خدا کی وحدانیت کو ثابت کرنے کی قصد سے نمرود سے مناظرہ کیا۔ یہ مناظرہ لوگوں کے سامنے برگزار ہوا اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں سورہ بقرہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[13] اس مناظرے میں حضرت ابراہیم نے کہا میرا خدا لوگوں کی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ اس کے جواب میں نمرود نے بھی کہا میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔ نمرود اپنی اس بات کو ثابت کرنے کیلئے دو قیدی لانے کا حکم دیا پھر ان میں سے ایک کو آزاد کرنے اور دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیا گویا جسے آزادی دی اسے زندگی عطا کی گئی اور جسے قتل کیا اسے موت دی گئی۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم نے کہا میرا خدا سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تم بھی خدا ہو تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔ نمرود حضرت ابراہیم کے اس درخواست کا جواب نہ دے سکا۔ قرآن میں اسی بات کو کافر کے مبہوت ہونے سے تعبیر کیا ہے۔[14]

مفسرین نمرود کے پہلے جواب کو ایک قسم کا مغالطہ قرار دیتے ہیں جس کے ذریعے نمرود لوگوں کو دھوکا دینا چاہتا تھا۔ لیکن حضرت ابراہیم نے دوسرے مرحلے میں نمرود کے اس قسم کے مغالطے کو رد کرنے اور اسے لاجواب کرنے کیلئے دوسری درخواصت سامنے رکھ دیا جس میں نمرود کیلئے کسی مغالطے کی کنجائش نہیں تھی۔[15]

حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکنا

حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکنے کا منظر

نمرود کو جب مناظرے میں شکست ہوئی تو اس نے حضرت ابراہیم کو ان کے خداؤوں کی بے حرمتی اور انہیں توڑنے کے جرم میں سزا کے طور پر اسے آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کیا۔[16] نمرود اور بت پرستوں کے اس فیصلے کا تذکرہ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 68 میں ہوا ہے۔ نمرود نے اس مقصد کیلئے ایک خاص جگہ تیار کرنے اور لوگوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابراہیم کو جلانے کیلئے لکڑیاں جمع کرنا لوگوں کیلئے اتنا مقدص اور حائز اہمیت قرار دیا گیا تھا کہ عورتیں اپنی حاجات کی برآوری اور بیماریوں کی شفا یابی کیلئے بطور نذر لکڑیاں جمع کرنے لگی۔[17] تاریخی مصادر کے مطابق بابل کے مکینوں نے حضرت ابراہیم کو جلانے کیلئے ایک طولانی مدت تک لکڑیاں جمع کی تھیں۔[18]

جب لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی تو اس کی حرارت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی بھی اس کی قریب نہیں جا سکتا تھا اسی بنا پر حضرت ابراہیم کو اس آگ میں پھینکنے کیلئے منجنیق کا استعمال کرنا پڑا۔[19] قرآن کے مطابق جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا گیا تو خدا کی طرف سے آگ کو ٹھنڈا ہونے اور حضرت ابراہیم کو نہ جلانے کا حکم ملا یوں یہ آگ حضرت ابراہیم کیلئے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی۔[20]

اس واقعہ کے چند دن بعد جب نمرود کا اس جگہے سے گزر ہوا تو اس وقت بھی آگ کے شعلے بلند تھے لیکن اس وقت اس کی تعجب انتہا کو پہنچی جب اس نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم آگ کے شعلوں کے درمیان صحیح و سالم بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے حضرت ابراہیم کو تزدیک سے دیکھنے کیلئے ایک بلند و بالا مینار تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ اس پر جا کر آگ کے شعلوں کے درمیان حضرت ابراہیم کو دیکھا جا سکے۔ جب نمرود کو یقین ہوا کہ آگ نے حضرت ابراہیم کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس وقت اس نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ تمہارا خدا بہت بڑا ہے جس نے تجھے آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ اب کیا آپ آگ کے شعلوں کے درمیان سے باہر آ سکتے ہو؟ حضرت ابراہیم نے کہا کیوں نہیں، میں باہر آ سکتا ہوں۔ تمرود نے دوبارہ کہا اگر آپ آگ کے اندر بیٹھے رہو تو کیا آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا؟ حضرت ابراہیم نے کہا: نہیں۔ اس پر نمرود نے حضرت ابراہیم سے باہر آنے کی درخواصت کی جس پر حضرت ابراہیم آگ سے باہر آگئے جبکہ آگ اس وقت بھی شعلہ ور تھی۔[21]

حضرت ابراہیم کو آزاد کرنا اور راہ خدا میں قربانی پیش کرنا

نمرود نے جب یہ معجزہ دیکھا تو حضرت ابراہیم کو آزاد کر دیا اور خدا کی راہ میں 4 ہزار گائیں پر مشتمل قربانی پیش کی۔ حضرت ابراہیم نے کہا جب تک ربوبیت کے دعوے سے توبہ کرکے خدا پر ایمان نہیں لاؤ گے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوگی۔[22]

خدا سے لڑنے کیلئے پرواز

تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ نمرود خدا کی تلاش اور ان سے لڑنے کیلئے اپنے پالتوں عقابوں کے ذریعے آسمان کی طرف پرواز کیا۔ آخر کار وہ زیادہ بلندی سے ڈرتے ہوئے خدا کو پیدا کئے بغیر واپس زمین پر آگیا۔ تاریخی مصادر میں نمرود کے محل پرواز کو بیت‌المقدس اور اس کے دوبارہ زمین پر بیٹھنے کی جگہ کو جبل‌ الدخان ذکر کیا ہے۔[23]

مینار بابل

بعض تاریخی مصادر میں نمرود کے آسمان کی طرف پرواز کرنے کی داستان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان مصادر میں آیا ہے کہ تمرود نے خدا سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک بلند و بالا مینار بنانے کا کہا جو مینار بابل کے نام سے مشہور ہوا جو کچھ مدت بعد خدا کے حکم سے نابود ہوا۔ بعض مفسرین کے مطابق سورہ نحل کی آیت نمبر 26 میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں خدا نے کافروں کے اس عمارت کو تباہ کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے جسے لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔[24]

انجام

آسمانوں میں خدا کی جستجو سے جب نمرود ناامید ہوا تو ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور اسے یکتا پرستی کی نصیحت کرتے ہوئے کہا اے ضعیف انسان! خدا سے ڈرو اور اس کی نافرمانی سے بچو کیونکہ خدا کی قدرت اور طاقت تم اور تمہاری فوج سے کہیں زیادہ ہے اگر وہ چاہے تو تجھے اپنی سب سے ضعیف مخلوق کے ذریعے ہلاک کر دے گا۔[25]

اس موقع پر نمرود نے اپنے علاوہ کسی اور کی بادشاہی سے انکار کرتے ہوئے خدا سے مقابلے کا تقاضا کیا۔ فرشتے نے اسے اپنی لشکر جمع کرنے کیلئے تین دن کی مہلت دے دیا۔ تین دن کے بعد خدا کے حکم سے مچھروں نے نمرود کی سپاہیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کی ساری فوج فرار کر گئی۔ کچھ مدت بعد وہی فرشتہ دوبارہ نمرود کے پاس آیا اور اسے اس کے لشکر کی شکست کی یادآوری کرتے ہوئے خدا پر ایمان لانے کا کہا اور قبول نہ کرنے کی صورت میں موت واقع ہونے کی دھمکی بھی دے دیا۔ نمرود نے اس دفعہ بھی قبول نہیں کیا۔ خدا نے ایک مچھر کو نمرود پر مسلط کیا جو ناک کے راستے نمرود کے دماغ میں داخل ہو گیا۔ نمرود کے سر میں شدید درد شروع ہوگیا اور درد کی شدت یہاں تک تھی کہ وہ اپنے آپ اپنے سر پر مارنے لگتا جس سے مچھر کچھ لمحے کیلئے آرام سے بیٹھ جاتا یوں اسے بھی آرام ملتا۔ اس کے بعد جو بھی نمرود کے پاس آتا اس کی احترام میں ہاتھ کا بوسہ لینے کی بجائے اسے آرام اور سکون دینے کی خاطر اس کے سر پر ہتھوڑی کے کئی وار رسید کرتا تھا۔[26] تاریخی مصادر کے مطابق یہ حالت 40 سال تک جاری رہی اس کے بعد نمرود دنیا سے چل بسا۔[27]

حوالہ جات

  1. بلعمی، تاریخنامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۸۸۲۔
  2. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۷۱ش، ص۳۰۔
  3. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۷۱ش، ص۳۱۔
  4. ابن‌اثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۴۸۔
  5. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۴۸۔
  6. مقدسی، آفرینش و تاریخ،۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۴۳۔
  7. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت،‌ ج۱، ص۸۲۔
  8. ابن‌خلدون، العبر تاریخ ابن خلدون، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۳۲۔
  9. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۲؛ طبری، تاریخ، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۷۳۔
  10. جوزجانی، طبقات ناصری تاریخ ایران و اسلام، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۷۔
  11. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۲؛ طبری، تاریخ، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۷۳۔
  12. طبری، تاریخ، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۷۳۔
  13. سورہ بقرہ، آیہ ۲۵۸۔
  14. سورہ بقرہ، آیہ ۲۵۸۔
  15. مرکز فرہنگ و معارف قرآن کریم، دایرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۱۹۷۔
  16. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۷۹-۱۸۰۔
  17. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۸۰۔
  18. بلعمی، تاریخنامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۳۷۔
  19. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۳۔
  20. سورہ انبیاء، آیہ ۶۹۔
  21. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۸۲۔
  22. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۸۲۔
  23. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۲۱۷-۲۱۸؛بلعمی، تاریخ‌نامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۴۷-۱۴۸۔
  24. مرکز فرہنگ و معارف قرآن کریم، دایرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۴۵۰۔
  25. بلعمی، تاریخ‌نامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۴۹-۱۵۰۔
  26. بلعمی، تاریخ‌نامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۴۹-۱۵۰؛ابن اثیر، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۶۱۔
  27. مرعشی نجفی، سیدمہدی، حوادث الایام، قم، تولی، ۱۳۸۵ش / نسخہ الکترونیکی در پایگاہ اینترنتی شبکہ الامامین الحسنین للتراث و الفکر الاسلامی، ص۲۱۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، أبوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن‌اثیر، عزالدین علی، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، ترجمہ ابوالقاسم حالت و عباس خلیلی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، العبر تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • بلعمی، محمد بن محمد، تاریخنامہ طبری، تحقیق: محمد روشن، تہران، سروش، چاپ دوم، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • جوزجانی، منہاج‌الدین سراج، طبقات ناصری تاریخ ایران و اسلام، تحقیق: عبدالحی حبیبی، تہران، دنیای کتاب، چاپ اول، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داود، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشرنی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • ابن‌اثیر، أبوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ ششم، ۱۳۷۱ہجری شمسی، ج۱، ص۲۳۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن کریم، دایرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔