سورہ دُخانقرآن مجید کی 44ویں سورت ہے جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور 25ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اس لئے دخان کا نام دیا گیا ہے کہ اس کی دسویں آیت میں کافروں کے لیے دخان (دھواں) نام کے عذاب کا تذکرہ ہوا ہے۔ سورہ دخان میں قرآن شب قدر میں نازل ہونے نیز قرآن پر شک کرنے والے کفار کو عذاب دینے کا کہا گیا ہے۔ اس سورت میں حضرت موسی، بنی اسرائیل اور فرعون کا واقعہ بھی ذکر ہوا ہے۔
اس سورت کی تلاوت کے ثواب کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ جو بھی شب جمعہ اس سورت کی تلاوت کرے گا، اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے،
تعارف
نام
اس سورت کو دخان (دھواں) کہا گیا ہے کیونکہ اس کی 10 سے 15 تک کی آیات میں کافروں کے لئے عذاب دخان کا ذکر ہے۔[1]
ترتیب اور محل نزول
سورہ دخان مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی 64ویں سورت ہے۔ قرآن مجید کے موجودہ مصحف میں یہ 44ویں سورت ہے[2] اور قرآن کے 25ویں پارے میں واقع ہے۔
آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ دخان میں 59 آیات، 346 کلمات اور 1475 حروف ہیں۔ یہ سورت حروف مقطعہ سے شروع ہونے والی سورتوں میں سے ہے اور اسی لئے اسے حم سے شروع ہونے والی سورتوں میں سے شمار کیا ہے۔ حجم و کمیت کے لحاظ سے سور مثانی کے زمرے میں آتی ہے اور ایک حزب [ایک چوتھائی سورت] سے کچھ چھوٹی ہے۔[3]
مضمون
تفسیر المیزان میں کہا گیا ہے کہ سورہ دخان کا اصل مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا ہے جو قرآن کی حقانیت میں شک و تردید کرتے ہیں۔ سورہ دخان میں کہا گیا ہے کہ قرآن اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے شب قدر میں نازل ہوا ہے؛ لیکن کافر اپنی خواہشات کے اسیر ہو کر اس میں شک کرتے ہیں۔ پھر انہیں دنیوی اور اخروی عذاب میں مبتلا ہونے کی دھمکی دی گئی ہے.[4]تفسیر نمونہ کے مطابق دوسری مکی سوتورں کی طرح زیادہ سورہ دخان میں بھی تر عقائد کے بارے میں کہا گیا ہے۔ توحید، معاد اور قرآن اس سورت کے محوری مضمون ہیں؛ اس کے علاوہ کافروں پر عذاب، حضرت موسی، بنی اسرائیل اور فرعون کا واقعہ اور خلقت کا فلسفہ بھی اس میں بیان ہوئے ہیں۔[5]
نتیجہ؛ آیہ ۵۸-۵۹ قرآن کے مخالف عذابِ الہی کا انتظار کریں
تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۴-۵۷ آیاتِ الہی کی مخالف کا اخروی عذاب
دوسرا گفتار؛ آیہ ۹-۳۳ آیاتِ الہی کی مخالفت کا دنیوی عذاب
پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۸ قرآن کی خصوصیات
پہلا مطلب؛ آیہ ۳۴-۴۲ کافروں کو دنیا اور آخرت میں عذاب کی حقانیت
پہلا مطلب؛ آیہ ۹-۱۶ عذاب سب قریش کو شامل ہوگی
پہلا مطلب؛ آیہ ۱-۲ قرآن حقائق کو واضح کرتا ہے
دوسرا مطلب؛ آیہ ۴۳-۵۰ کافروں اور گناہگاورں پر اخروی عذاب
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۷-۳۳ قومِ فرعون کی ہلاکت
دوسرا مطلب؛ آیہ ۳-۵ اللہ کی طرف سے شب قدر میں نزولِ قرآن
تیسرا مطلب؛ آیہ ۵۱-۵۷ آخرت میں اہلِ تقوی کو اجر
تیسرا مطلب؛ آیہ ۶-۸ قرآن اللہ کی رحمت ہے
تاریخی روایات اور واقعات
حضرت موسی اور بنیاسرائیل کا واقعہ: حضرت موسی کی رسالت، مؤمنوں کو مصر سے خارج ہونے کا حکم، دریا عبور کرنا، فرعونیوں کا غرق ہونا، بنی اسرائیل کی نجات اور ان کا دنیا والوں پر برتری۔ (آیات 15-32)
فضیلت اور خواص
پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث کے مطابق جو بھی شب جمعہ اس سورت کی تلاوت کرے گا، اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے۔[7]اسی طرح امام صادقؑ سے منقول ہے کہ جو شخص اپنی واجب یا مستحب نمازوں میں سورہ دخان پڑھے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اسے مؤمنوں کے ساتھ محشور کرے گا، عرش الہی کے زیر سایہ قرار دے گا، اعمال کے حساب و کتاب میں آسانی کرے گا اور اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا۔[8]مَفاتیحُ الجِنان میں رمضان المبارک کی 23ویں رات (شب قدر) کے اعمال میں سے ایک سورہ دخان کی تلاوت کو ذکر کیا ہے۔[9]
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
حا۔ میم۔ (1) قَسم ہے اس کتابِ مبین کی۔ (2) ہم نے اس (کتاب) کو ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں نازل کیا ہے بےشک ہم (عذاب سے) ڈرانے والے رہے ہیں۔ (3) اس(رات) میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ (4) ہمارے(خاص) حکم سے بےشک ہم ہی (ہر کتاب اور رسول(ع) کے) بھیجنے والے ہیں۔ (5) خاص تمہارے پروردگار کی رحمت سے یقیناً وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (6) جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ (7) اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا بھی پروردگار ہے۔ (8) مگر وہ لوگ تو شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ (9) آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک کھلے ہوئے دھویں کے ساتھ آئے گا۔ (10) جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ ایک دردناک عذاب ہوگا۔ (11) (اس وقت کفار بھی کہیں گے) اے ہمارے پروردگار! ہم سے یہ عذاب دور فرما۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ (12) اب ان کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگی؟ جبکہ ان کے پاس کھول کر بیان کرنے والا رسول(ع) آچکا۔ (13) پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہا کہ یہ تو سکھایا ہوا ایک دیوانہ ہے۔ (14) بےشک (اگر) ہم کچھ وقت کیلئے یہ عذاب ہٹا بھی دیں تو تم لوگ لوٹ کر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے تھے۔ (15) جس دن ہم سخت پکڑ پکڑیں گے اس دن ہم پورا بدلہ لیں گے۔ (16) ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمایا تھا اور ان کے پاس ایک معزز رسول(ع)ایا تھا۔ (17) (اوران سے کہاتھا کہ) اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو میں ایک امانت دار رسول(ع) ہوں۔ (18)
اور یہ کہ تم اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس واضح دلیل (سند) پیش کرتا ہوں۔ (19) اور میں نے اپنے اور تمہارے پروردگار سے پناہ مانگ لی ہے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ (20) اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو پھر مجھ سے الگ ہی رہو۔ (21) پس اس (رسول) نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ یہ بڑے مجرم لوگ ہیں۔ (22) (ارشاد ہوا) تم میرے بندوں کو ہمراہلے کر راتوں رات نکل جاؤ کیونکہ تمہاراتعاقب کیا جائے گا۔ (23) اور تم سمندر کو اس کے حال (سکون) پہ چھوڑ دو۔ بیشک وہ (دشمن) ایسا لشکر ہے جو غرق ہو نے والا ہے۔ (24) وہ کتنے باغ اور چشمے چھوڑ گئے۔ (25) اور کھیتیاں اور عمدہ مقامات۔ (26) اور آرام و راحت کا ساز و سامان جس میں وہ خوش و خرم رہتے تھے۔ (27) اور ہم نے ان چیزوں کا وارث ایک قوم کو بنا دیا۔ (28) پس ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی ان کو مہلت دی گئی۔ (29) اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات دی۔ (30) جو فرعون کی طرف سے تھا بےشک وہ سرکش اور حد سے نکل جا نے والوں میں سے تھا۔ (31) اور ہم نے جان بوجھ کر ان کو تمام جہانوں والوں پر ترجیح دی۔ (32) اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں عطا کیں جن میں کھلی ہوئی آزمائش تھی۔ (33) بیشک یہ لوگ کہتے ہیں۔ (34) کہ بس ہماری یہی پہلی موت ہی ہے اس کے بعد ہم (دوبارہ) نہیں اٹھائے جائیں گے۔ (35) اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ داداؤں کو لاؤ۔ (36) (قوت کے لحاظ سے) یہ بہتر ہیں یا قومِ تبع اور ان سے پہلے ہم نے ان کو ہلاک کر دیا کہ وہ مجرم تھے۔ (37) ہم نے آسمانوں کو، زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل کے طور پر پیدانہیں کیا۔ (38) ہم نے ان کو پیدا نہیں کیا مگر حق (و حکمت) کے ساتھ مگر ان کے اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے۔ (39)
بےشک فیصلہ کا دن (قیامت) ان سب کا طے شدہ وقت ہے۔ (40) جس دن کوئی دوست کسی دوست کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ (41) مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے بےشک وہ بڑا غالب (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (42) بیشک زقوم کا درخت۔ (43) گنہگار کی غذا ہوگا۔ (44) پگھلے ہوئے تانبےکی طرح پیٹوں میں جوش کھائے گا۔ (45) جس طرح گرم کھولتا ہوا پانی ہے۔ (46) اس کو پکڑو۔اور اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم کے وسط تکلے جاؤ۔ (47) اور پھر اس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب انڈیل دو۔ (48) مزا چکھ تُو تو بڑا معزز اور مکرم ہے۔ (49) یہ وہی ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔ (50) بےشک جو پرہیزگار لوگ ہیں وہ امن و سکون کی جگہ پر ہوں گے۔ (51) یعنی باغوں میں اور چشموں میں۔ (52) وہ سندس و اسبترق (باریک اور دبیز ریشم) کے کپڑے پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (53) یہ بات اسی طرح ہے اور ہم ان کی گوری رنگت اور بڑی آنکھوں والی عورتوں (حوروں) سے شادی کریں گے۔ (54) وہ اس میں بڑے امن و سکون کے ساتھ ہر قِسم کے میوے طلب کریں گے۔ (55) وہ وہاں پہلے والی موت کے سوا موت کامزہ نہیں چکھیں گے اور اللہ نے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیا ہے۔ (56) یہ سب کچھ آپ کے پروردگار کے فضل و کرم سے ہوگا اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ (57) پس ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان پر بالکل آسان بنا دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (58) (اچھا) آپ انتظار کیجئے! یقیناً وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ (59)