سورہ قلم
سورہ قلم یا نون و القلم قرآن کی 68ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 29ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ خدا نے اس کی پہلی آیت میں لفظ "قلم" کی قسم کھائی ہے۔ سورہ قلم کے مضامین میں مشرکین کے بے جا تہمتوں کے مقابلے میں پیامبر اکرمؐ کو تسلی اور صبر کی تلقین، مشرکین کی پیروی سے ممانعت اور قیامت کے دن مشرکین کے عذاب کی یاد آوری پر مشتمل ہے۔ اس سورت کی مشہور آیتوں میں آیت "و ان یکاد" اور آیت خُلق عظیم ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ کو خلق عظیم کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ قلم کو اپنی واجب یا مستحب نمازوں میں پڑھے تو یہ شخص فقر و تنگ دستی اور فشار قبر سے محفوظ رہے گا۔
ملک | سورۂ قلم | حاقہ | |||||||||||||||||||||||
|
تعارف
- نام
اس سورہ کو اس بناء پر کہ اس کا آغاز لفظ "قلم" کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا نے قلم اور اس سے لکھنے والی چیزوں کی قسم کھائی ہے، سورہ قلم کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ سورت حرف مقطعہ میں سے "ن" سے شروع ہوتی ہے اس بنا پر اس کا دوسرا نام سورہ نون یا نون و القلم ہے۔[1]
- ترتیب اور محل نزول
سورہ قلم مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے اس کا شمار دوسرے نمبر پر آتا ہے جبکہ ترتیب مُصحَف کے اعتبار سے اس کا شمار 68ویں نمبر پر آتا ہے اور یہ سورہ ہے 29ویں پارے میں واقع ہے۔[2]
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ قلم 52 آیات، 301 کلمات اور 1288 حروف پر مشتمل ہے۔ اس کا شمار مُفَصّلات میں ہوتا ہے اور حجم کے اعتبار سے نسبتا چھوٹی سورتوں میں سے ہے۔ نیز اس کا شمار حروف مقطعہ اور قسم سے شروع ہونے والی سورتوں میں بھی ہوتا ہے۔[3]
اسی طرح اس سورت کو ممتحنات میں سے بھی جانا گیا ہے[4] کیونکہ مضامین کے اعتبار سے یہ سورت سورہ ممتحنہ کے ساتھ مماثلت رکھاتی ہے۔[5] [یادداشت 1]
مضامین
اس سورت کے مضامین کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:[6]
- پیغمبر اکرمؐ کی خاص صفات کا بیان اور آپ کے خلق عظیم کا پیکر قرار دینا،
- مشرکین اور پیغمبر اکرمؐ کے دشمنوں کی بری صفات کا ذکر،
- "اصحاب الجنّۃ" کی داستان اور مشرکین کو خبردار،
- قیامت اور اس دن مشرکین کے عذاب کی یادآوری،
- مشرکین کے مقابلے میں پیغمبر اکرمؐ کو صبر و استقامت کی تلقین اور مشرکین کی پیروی سے ممانعت۔
پیغمبر اکرم پر جنون کی تہمت لگانے والوں کو انتباہ | |||||||||||||||||||||||||||||||||
خاتمہ؛ آیہ ۵۱-۵۲ جنون کا الزام، قرآن کے مقابلے میں شکست کی وجہ سے تھا | تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۴-۵۰ پیغمبر کے دشمنوں پر عذاب کا حتمی ہونا | دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۴-۳۳ پیغمبر کے دشمنوں کی ناکامی اور ذلت | پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۱۳ پیغمبر پر لگائے گئے الزام کا غلط ہونا | ||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا مطلب؛ آیہ ۳۴-۴۱ مومنوں اور کافروں کے انجام کا ایک جیسا نہ ہونا | پہلا مطلب؛ آیہ ۱۴-۱۶ آخرت میں قرآن اور پیغمبر کے منکروں کی ذلت و رسوائی | پہلا مطلب؛ آیہ ۱-۷ پیغمبر کے مجنون نہ ہونے پر دلائل | |||||||||||||||||||||||||||||||
دوسرا مطلب؛ آیہ ۴۲-۴۳ قیامت میں کافروں کی ذلت کی ایک مثال | دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۷-۳۲ مغرور کافروں کی دنیا میں ذلت کی مثال بخیل باغبان کی طرح | دوسرا مطلب؛ آیہ ۸-۱۳ مخالفین کے مقابلے میں پیغمبر کی ذمہ داری | |||||||||||||||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ ۴۴-۴۷ ضدی کافروں پر تدریجی عذاب | تیسرا مطلب؛ آیہ ۳۳ کافروں پر آخرت میں بڑا عذاب | ||||||||||||||||||||||||||||||||
چوتھا مطلب؛ آیہ ۴۸-۵۰ کافروں پر عذاب کا وقت آنے تک صبر کی ضرورت | |||||||||||||||||||||||||||||||||
تاریخی واقعات
- اصحاب الجنۃ کی داستان (آیت 17-33)
سورہ قلم کی آیت نمبر 17 کے بعد ایک مالدارں گروہ کا تذکرہ ہوتا ہے جو یمن میں سرسبز و شاداب باغ کے مالک تھے۔ یہ باغ اصل میں ایک بوڑے شخص کا تھا جس کی آمدنی سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق استفادہ کرتا تھا اور مابقی کو نیازمندوں میں تقسیم کرتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں باغ کے محصول سے نیازمنوں کو محروم کرنے اور پورے محصول کو اپنے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی اس بخل کی وجہ سے ایک رات آسمانی بجلی(صاعقہ) کی وجہ سے یہ باغ جل کر راکھ بن گیا۔ ان میں سے انہیں خدا کی طرف بلایا پھر وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور سب نے توبہ کیا۔ آیت نبمر 33 کے آخر میں اس داستان کی یاآوری کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غرور اور غریبوں کو فراموش کرنے کا انجام ایسا ہوا کرتا ہے۔[8]
مشہور آیتیں
- وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ، وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (ترجمہ: اور جب کافر ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی (تیز و تند) نظروں سے آپ(ص) کو (راہِ راست) سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔ حالانکہ وہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔) (آیت 51-52)
سورہ قلم کی آیت نمبر 51 اور 52 جو "آیت و ان یکاد" کے نام سے معروف ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے ان آیات کی مختلف سائن بورڈ بنا کر اپنے گھروں یا دفاتر میں نصب کئے ہوئے ہوتے ہیں، کیونکہ اس حوالے سے یہ معروف ہے کہ یہ آیتیں نظر بد سے محفوظ رہنے کیلئے نہایت مؤثر ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں شہید مطہری جیسے اشخاص چشم زخم سے محفوظ رہنے کیلئے ان آیات کی تاثیر کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان آیات کو گھروں یا دفاتر میں آویزاں کرنے کو اس مسئلے سے بے ربط قرار دیتے ہیں۔[9]
- وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (ترجمہ: اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔) (آیت 4)
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت اگرچہ پیغمبر اکرمؐ کے اخلاق کی تعریف کرتی ہے لیکن غالبا اس میں آپ کے اخلاق کے سماجی پہلو پر تاکید کرتی ہے جو لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ مربوط ہوا کرتا ہے مثلا حق ثابت قدم رہنا، لوگوں کی اذیت و آزار کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا، لوگوں کی خطاؤوں درگذر اور ان کو معاف کرنا، سخاوت، مدارا، تواضع اور ان جیسی دوسری صفات۔[10] علامہ طباطبایی تفسیر المیزان کی چھٹی جلد کے آخر میں پیغمبر اکرمؐ کی جسمی اور روحانی اوصاف سے متعلق 183 احادیث نقل کرتے ہوئے ان کی تشریح کی ہیں۔[11] من جملہ ان احادیث میں آیا ہے کہ رسول خداؐ کو جنابت کے سوا کوئی چیز قرآن کی تلاوت کرنے منع نہیں کر سکتی تھی۔[12]
فضیلت اور خواص
امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ قلم کو اپنی واجب یا مستحب نمازوں میں پڑھے تو یہ شخص فقر و تنگ دستی اور فشار قبر سے محفوظ رہے گا۔[13] ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس سورت کی تلاوت کا ثواب ان لوگوں کی طرح ہے جنہیں خدا نے صبر (یا عقل) کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر اس سورت کو کسی چیز پر لکھ درد والی دانوں پر رکھی جائے تو اسی وقت دانتوں کی درد سے شفا ملے گی۔[14]
متن اور ترجمہ
سوره قلم
|
ترجمہ
|
---|---|
ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿1﴾ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿2﴾ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿3﴾ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿4﴾ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿5﴾ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴿6﴾ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿7﴾ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ ﴿8﴾ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿9﴾ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿10﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ ﴿11﴾ مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿12﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ ﴿13﴾ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ﴿14﴾ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿15﴾ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ﴿16﴾ إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿17﴾ وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿18﴾ فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿19﴾ فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ ﴿20﴾ فَتَنَادَوا مُصْبِحِينَ ﴿21﴾ أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ ﴿22﴾ فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ ﴿23﴾ أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ ﴿24﴾ وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴿25﴾ فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ ﴿26﴾ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿27﴾ قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿28﴾ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿29﴾ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ ﴿30﴾ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ﴿31﴾ عَسَى رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴿32﴾ كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿33﴾ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿34﴾ أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ﴿35﴾ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿36﴾ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ ﴿37﴾ إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا يَتَخَيَّرُونَ ﴿38﴾ أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ﴿39﴾ سَلْهُم أَيُّهُم بِذَلِكَ زَعِيمٌ ﴿40﴾ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ﴿41﴾ يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿42﴾ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ﴿43﴾ فَذَرْنِي وَمَن يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴿44﴾ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ ﴿45﴾ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴿46﴾ أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿47﴾ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿48﴾ لَوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاء وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴿49﴾ فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿50﴾ وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ ﴿51﴾ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴿52﴾ |
نون! قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔ (1) کہ آپ(ص) اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔ (2) اور بےشک آپ(ص) کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہو نے والانہیں ہے۔ (3) اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔ (4) عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ (5) کہ تم میں سے کون جُنون میں مبتلا ہے۔ (6) بےشک آپ(ص) کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ سے بھٹکا ہواکون ہے؟ اور وہی انہیں خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔ (7) تو آپ(ص) جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں۔ (8) وہ (کفار) تو چاہتے ہیں کہ آپ(ص) (اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں) ڈھیلے پڑجائیں تو وہ بھی (مخالفت میں) ڈھیلے ہو جائیں۔ (9) اور آپ(ص) ہرگز ہر اس شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت (جھوٹی) قَسمیں کھانے والا ہے (اور) ذلیل ہے۔ (10) جو بڑی نکتہ چینی کرنے والا (اور) چلتا پھرتا چغل خور ہے۔ (11) کارِ خیر سے بڑا منع کرنے والا، حد سے بڑھنے والا (اور) بڑا گنہگار ہے۔ (12) سخت مزاج ہے اور ان (سب بری صفتوں) کے علاوہ وہ بداصل بھی ہے۔ (13) یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ وہ مالدار اور اولاد والا ہے۔ (14) جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ (15) ہم عنقریب اس کی سونڈ (نا ک) پر داغ لگائیں گے۔ (16) ہم نے ان (کفارِ مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے۔ (17) اور انہوں نے کوئی استثناء نہیں کیا تھا (انشاء اللہ نہیں کہا تھا)۔ (18) پھر (راتوں رات) جب کہ وہ لوگ ابھی سوئے ہوئے تھے آپ(ص) کے پروردگار کی طرف سے ایک آفت چکر لگا گئی۔ (19) تو وہ (باغ) کٹی ہوئی فصل کی طرح ہوگیا۔ (20) پس انہوں نے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو آواز دی۔ (21) کہ اگر تم نے پھل توڑنا ہے تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف چلو۔ (22) تو وہ اس حال میں چل پڑے کہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہتے جاتے تھے۔ (23) کہ خبردار! آج تمہارے پاس اس باغ میں کوئی مسکین نہ آنے پا ئے۔ (24) اور وہ اس (مسکین کو کچھ نہ دینے) پر قادر سمجھ کر نکلے۔ (25) اور جب باغ کو (برباد) دیکھا تو کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ (26) بلکہ ہم محروم ہو گئے ہیں۔ (27) جو ان میں سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ (خدا کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے؟ (28) (تب) انہوں نے کہا کہ پاک ہے ہمارا پروردگار بےشک ہم ظالم تھے۔ (29) پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم لعنت ملامت کرنے لگے۔ (30) (اور) کہنے لگے وائے ہو ہم پر! بےشک ہم سرکش ہو گئے تھے۔ (31) امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمیں اس (باغ) کے بدلے اس سے بہتر باغ عطا کر دے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (32) اسی طرح عذاب آتا ہے اور آخرت کا عذاب تو (اس سے بھی) بہت بڑا ہے کاش کہ یہ لوگ جانتے۔ (33) بےشک پرہیزگاروں کیلئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت و آسائش کے باغات ہیں۔ (34) کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مانند کر دیں گے؟ (35) تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ (36) کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو؟ (37) کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو؟ (38) یا کیا تم نے ہم سے کچھ قَسمیں لی ہیں کہ قیامت میں تمہارے لئے وہی کچھ ہے جس کا تم حکم لگاؤ گے (فیصلہ کرو گے؟) (39) ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون ان (بےبنیاد باتوں) کا ضامن ہے؟ (40) یا انکے کچھ آدمی (ہمارے) شریک ہیں؟ تو اگر وہ سچے ہیں تو پھر اپنے وہ شریک پیش کریں۔ (41) (وہ دن یاد کرنے کے لائق ہے) جب پنڈلی کھولی جائے گی (یعنی سخت وقت ہوگا) اور ان (کافروں) کو سجدہ کیلئے بلایا جائے گا تو (اس وقت) وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ (42) ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہوگی حالانکہ انہیں اس وقت (بھی دنیا میں) سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی جب وہ صحیح و سالم تھے۔ (43) پس (اے رسول(ص)) آپ(ص) مجھے اور اس کو چھوڑ دیں جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے ہم انہیں اس طرح بتدریج تباہی کی طرف لے جائیںگے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ (44) اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں۔ بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔ (45) کیا آپ(ص) ان سے کوئی اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبےجاتے ہیں؟ (46) یا کیا ان کے پاس غیب ہے سو جسے وہ لکھ رہے ہیں؟ (47) پس آپ(ص) اپنے پروردگار کے فیصلے تک صبر کریں اور مچھلی والے (جنابِ یونس(ع)) کی طرح نہ ہوں جب انہوں نے اس حال میں (اپنے پروردگار کو) پکارا کہ وہ غم و غصہ سے بھرے ہوۓ تھے (یا مغموم تھے)۔ (48) اگر ان کے پروردگار کا فضل و کرم ان کے شاملِ حال نہ ہوتا تو انہیں اس حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا کہ وہ مذموم ہوتے۔ (49) مگر ان کے پروردگار نے انہیں منتخب کر لیا اور انہیں (اپنے) نیکوکار بندوں سے بنا دیا۔ (50) اور جب کافر ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی (تیز و تند) نظروں سے آپ(ص) کو (راہِ راست) سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔ (51) حالانکہ وہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔ (52) |
پچھلی سورت: سورہ ملک | سورہ قلم | اگلی سورت:سورہ حاقہ |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۷۔
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۸۔
- ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۸۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰و۵۹۶۔
- ↑ فرہنگنامہ علوم قرآن، ج۱، ص۲۶۱۲۔
- ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۷۷ش، ج۵، ص۲۴۳؛ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۸-۱۲۵۷
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۷۷ش، ج۵، ص۲۴۸-۲۵۱۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۷ش، ج۲۷، ص۶۳۱ - ۶۳۲۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۱۹، ص۳۶۹۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۱م، ج۶، ص۳۰۲-۳۳۸۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۱م، ج۶، ص۳۳۷۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۹۔
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۴۵۱۔
نوٹ
- ↑ 16 سورتوں کو ممتحنات کہا جاتا ہے اور یہ نام سیوطی نے تجویز کیا ہے۔رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۹۶ وہ سورتیں یہ ہیں: فتح، حشر، سجدہ، طلاق، قلم، حجرات، تبارک، تغابن، منافقون، جمعہ، صف، جن، نوح، مجادلہ، ممتحنہ اور تحریم (رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰۔)
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، بہ تحقیق بنیاد بعثت، قم، بنیاد بعثت، ۱۴۱۵ق۔
- خرمشاہی، بہاء الدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، انتشارات ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۲ش۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، تحقیق: صادق حسن زادہ، قم، ارمغان طوبی، ۱۳۸۲ش۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، جلد ۶، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۱م۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، جلد ۱۹، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۳م۔
- فرہنگنامہ علوم قرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ دہم، ۱۳۸۷ش۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، علی بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، چاپ چہارم، ۱۳۷۷ش۔