قارون

ویکی شیعہ سے
قارون
کوائف
نام:قارون بن یصہر
مشہور اقارب:حضرت موسیؑ
وجہ شہرت:مال و دولت
محل زندگی:مصر


قارون بن یصْہُرَ بنی‌ اسرائیل کے مالدار اشخاص میں سے تھا جنہیں قرآن میں فرعون اور ہامان کے ساتھ بدکار لوگوں میں شمار کیا گیا ہے۔ شروع میں حضرت موسیؑ کے مخالفین میں سے تھا لیکن بعد میں آپ پر ایمان لے آئے اور بنی‌ اسرائیل کے ساتھ مصر کو خیرباد کہہ گیا۔ گزر زمان کے ساتھ قارون نے خدا کی نافرمانی شروع کی جس کی وجہ سے وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے چل بسے۔ توریت میں قارون کی داستان اور اس کا حضرت موسیؑ کے ساتھ ہونے والی کشمکش کا تذکرہ آیا ہے۔

تعارف

قارون بن یصْہُرَ[1] حضرت موسیؑ کے دور کے مشہور افراد میں سے ہے جن کا نام قرآن میں چار مقامات پر آیا ہے۔[2]

اگرچہ قارون بنی اسرائیل میں سے تھا[3] اور بعض منابع کے مطابق حضرت موسی کے بھتیجے تھے[4] جبکہ بعض منابع کے مطابق بہانجے تھے[5] لیکن وہ حضرت موسی کے مخالفین میں سے تھا۔ قرآن میں اسے فرعون اور ہامان کے ساتھ بدکاروں میں قرار دیتے ہیں: وَ لَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسی بَِایتِنَا وَ سُلْطَانٍ مُّبِینٍ*إِلی فِرْعَوْنَ وَ ہَامَانَ وَ قَارُونَ فَقَالُواْ سَاحِرٌ کذَّاب؛ (ترجمہ: اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا ہے، فرعون، ہامان اور قارون کی طرف تو ان سب نے کہہ دیا کہ یہ جادوگر اور جھوٹے ہیں)[6] بعض منابع قارون کو بنی‌ اسرائیل پر فرعون کا داروغہ قرار دیتے ہیں جس نے ان پر بہت زیادہ ظلم و ستم روا رکھا۔[7] بعض مفسرین قارون کو آیت: الَّذِینَ آذَوْا مُوسی (ترجمہ: جنہوں نے موسی کو اذیت پہنجائی)[8] کے مصادیق میں شمار کرتے ہیں[9]

قارون کی دولت

قرآن کریم میں قارونی کی دولت کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے: وَ آتَیناهُ مِنَ الْکنُوزِ ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِی الْقُوَّةِ؛ (ترجمہ: اور ہم نے بھی اسے اتنے خزانے دے دیئے تھے کہ ایک طاقت ور جماعت سے بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھ سکتی تھیں پھر جب اس سے قوم نے کہا کہ اس قدر نہ اتراؤ کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے)[؟–76][یادداشت 1] اسی طرح آیت: فَخَرَجَ عَلی قَوْمِہِ فی زِینَتِہِ؛ (ترجمہ: پھر قارون اپنی قوم کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ برآمد ہوا)[؟–آیہ 79۔] سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی مال و دولت کو آشکار کرنے اور اس پر فخر کرنے میں بھی کوئی پروا نہیں کرتا تھا۔ قرآن کی اس طرح کی تعبیرات نیز قارون کی دولت کے بارے میں نقل ہونے والی بہت سارے تاریخی حکایتوں نے اسے ایک دولتمند شخصیت کے طور پر ذکر کیا ہے۔

حضرت موسی پر ایمان

قارون نے بنی اسرائیل کی سرزمین موعود کی طرف کوچ کرنے سے پہلے حضرت موسیؑ پر ایمان لے آیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ یہودیوں میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل کیا یہاں تک کہ اسے توریت پر عبور رکھنے والا جانا گیا ہے۔[12] قارون اچھی آواز کا مالک تھا اور توریت کی خوبصورت انداز میں تلاوت کیا کرتا تھا۔[13] قارون نے بنی‌ اسرائیل کے ساتھ مصر کو خیرباد کہہ کر سرزمین موعود کی طرف حرکت کیا لیکن نافرمانی کی وجہ سے خدا نے انہیں سالہا سال بیابانوں میں سرگرداں رکھا۔[14]

نافرمانی اور خدا کا عذاب

گزر زمان کے ساتھ قارون نے خدا کی نافرمانی کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے وہ خداوند اور اس کے رسول یعنی حضرت موسیؑ کی غیض و غضب کا نشانہ بن گیا۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں قارون کا تذکرہ کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی سرکشی اور نافرمانی غرور اور تکبر کی وجہ سے تھا۔[15]

قرآن مجید میں جن عذاب میں قارون مبلا ہوئے ان کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے: فخََسَفْنَا بِہِ وَ بِدَارِہِ الْأَرْضَ؛ (ترجمہ: پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا)[؟–81]

ہاتھ سے بنے قالین پر بیابان سینا میں بنی‌اسرائیل کی سرگردانی کا منظر جس میں قارون کی داستان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

احادیث میں چند موارد کو قارون کی نافرمانی کا تجلی گاہ قرار دیا ہے:

  • زکات کی عدم ادائیگی اور حضرت موسی پر تہمت:

"جب بنی‌ اسرائیل پر زکات واجب ہوئی تو قارون حضرت موسی کے پاس آئے اور زکات دینے کی موافقت کی۔ لیکن جب گھر پہنچ کر زکات کا حساب کتاب کیا تو اسے بہت زیادہ پایا۔ اس پر اس نے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ کو جو اس کے حمایتی تھے، کو جمع کیا اور کہا:‌ اے بنی‌ اسرائیل! موسی نے تمہیں بہت سارے امور کا حکم دیا جس پر تم لوگوں نے اس کی پیروی کی اب وہ تم سے تمہارا مال بھی لینا چاہتا ہے، فلان فاحشہ عورت کو لے آؤ تاکہ اسے کچھ پیسے دے کر موسی کو متہم کیا جا سکے۔

موسی نے کہا: ... جو بھی زنا کرے حالنکہ اس کی بیوی بھی ہو تو اسے سنگسار کیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔

قارون نے موسی سے کہا: حتی اگر یہ کام آپ نے ہی انجام دیا ہو تو بھی؟!

موسی: جی حتی اگر اس کام کو میں بھی انجام دوں تو یہی حکم ہے۔

قارون: بنی‌ اسرائیل یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ نے فلان فاحشہ عورت سے زنا کیا ہے۔

موسی: اس عورت کو لے آؤ۔ اگر وہ ایسا کہیں تو میں مان لیتا ہوں۔ پھر اس عورت کو لائی گئی۔

موسی: جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کیا تم اسے قبول کرتی ہو؟

عورت: نہیں یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ پیسا دیا ہے تاکہ میں آپ کو متہم کروں۔ حضرت موسی نے ان پر نفرین کیا جس پر زمین نے انہیں نگل لیا۔[16]

  • توبہ کرنے والوں سے علیحدگی اور حضرت موسی کو اذیت دینا

"بنی‌ اسرائیل جس وقت سینا کے بیابانوں میں سرگرداں اور توبہ میں مشغول تھے تاکہ خدا ان کو معاف کرے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ قارون توبہ کرنے والوں سے جدا ہو گئے۔ حضرت موسی جو قارون کو دوست رکھتا تھا، ان کے پاس گئے اور اس سے کہا:‌ اے قارون! تمہاری قوم توبہ میں مشغول ہے اور تم ان سے الگ ہو گئے ہو؟ قوم سے جا ملو ورنہ تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ قارون نے حضرت موسی کا مزاق اڑایا اور آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کا حکم دیا۔ اس وقت زمین نے قارون کو اس کے مال دولت اور قصر سمیت نگل لیا۔[17]

اگرچہ قرآن اس حوالے سے خاموش ہے کہ یہ واقعہ مصر میں پیش آیا ہے یا صحرائے سینا میں، لیکن احادیث، تفاسیر اور توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون پر خدا کا عذاب صحرائے سینا میں نازل ہوا۔[یادداشت 2]

قارون توریت میں

توریت میں قارون کو "قورَح" کے نام سے یاد کیا ہے۔ توریت کے مطابق قارون اور اس کے پیروکار اس بات کے معتقد تھے کہ خدا بنی‌ اسرائیل میں موجود ہے اس بنا پر موسی اور ہارون کی نبوت کی کوئی ضرورت نہیں ہے: "(قارون) اسرائیل کی اولاد میں سے کچھ اشخاص یعنی 250 افراد کے ساتھ موسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے موسی اور ہاروں کے خلاف اجتماعات برپا کر کے ان سے کہا کرتے تھے کہ اب تمہیں فخر و مباہات کرنے کی ضرورت نہیں کیوں پوری قوم مقدس ہیں اور خود خدا بھی ان کے درمیان موجود ہے پس تم خدا کے قوم کے مقابلے میں کیسے اپنے آپ پر فخر و مباہات کر سکتے ہو؟"[19]

قارون اور اس کی قوم بنی اسرائیل میں ایک خاص مقام و مرتبے کے حامل تھے یہاں تک کہ خدا نے بھی بعض امور ان کے سپرد کئے تھے: "(حضرت موسی نے قارون اور اس کی قوم سے مخاطب ہو کر کہا) آیا کیا یہ بات تمہارے لئے کم ہے کہ خدا نے تمہیں بنی اسرائیل سے جدا کیا ہے اور تمہیں اپنے مقربین میں سے قرار دیا ہے اور تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ خدا کے مخلوقات کی خدمت کریں، خاص کر اے قارون تم اور تمہارے رشتہ دار خدا کے زیادہ مقرب ہیں؟ اب اس سے بڑھ کر کاہن ہونے کے خواہشمند بھی ہو؟"[20]

آخر کار خدا نے قارون اور اس کی قوم کو ان کی نافرمانی اور ان مشکلات کی وجہ سے جو انہوں نے کھڑی کی تھیں عذاب میں مبتلا کر دیا: ان کے پاؤں تلے زمین شق ہوئی اور قارون اور ان کے تمام پیروکاروں کو ان کے گھر بار اور مال و دولت سمیت نگل لی۔ جب وہ سب اپنے تمام دار و ندار کے ساتھ زندہ بگور اور نابود ہوئے تو زمین کا شگاف دوبارہ پر ہو گیا"۔[21]

نوٹ

  1. اس آیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض مفسرین لفظ "مَفاتِحَ" سے مراد قارون کے مال دولت پر مشتمل صندوق لیتے ہیں اس صورت میں آیت کا معنا یہ بنے گا کہ قارون اتنی مال و دولت کا مالک تھا کہ اس کے خزانوں سے بھرے ہوئے صندوقوں کو ایک طاقتور جماعت مشکل سے جابجا کر سکتے تھے۔[10] جبکہ بعض مفسرین اس سے مراد چابیاں لیتے ہیں اس صورت میں مراد یہ ہوگا کہ اس کے خزانوں کو چابیوں کو اٹھانے کیلئے ایک طاقتور جماعت کی ضرورت ہوتی تھی۔[11]
  2. بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ واقعات مصر میں پیش آیا اور قارون مصر ہی میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے: "بنی‌ اسرائیل صحرائے سینا میں سرگرداں زندگی بسر کر رہے تھے اور وہاں پر مال و دولت کمانے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ نیز بنی‌ اسرائیل صحرائے سینا میں خیموں میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ ان کے مل بیٹھنے نیز قضاوت وغیرہ کی جگہ بھی یہی خیمے تھے جبکہ قرآن کے اس جملے میں "فَخَسَفْنا بِہِ وَ بِدارِہِ الْأَرْضَ" سے پتہ چلتا ہے کہ قارون کسی مجلّل قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا لہذا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ قارون کا یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ طبری،۱۳۸۷ق، ج ۱،ص ۴۴۳
  2. سورہ قصص، آیات ۷۶ و ۷۹؛ سورہ عنکبوت، آیہ ۳۹؛ سورہ غافر، آیہ ۲۴.
  3. سورہ قصص، آیہ ۷۶.
  4. ابن أبی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۰۰
  5. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۴۱
  6. غافر،‌ ۲۳-۲۴.
  7. بغوی، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۵۴۳
  8. سورہ احزاب، آیہ ۶۹.
  9. زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ۱۴۰۷، ج۳، ص۵۶۳.
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴، ج۱۶، ص۱۵۳
  11. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج۸، ص۱۷۶.
  12. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج۸، ص۱۷۵.
  13. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷، ج ۱، ص۳۰۹.
  14. سورہ مائدہ، آیات ۲۴-۲۶.
  15. طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۲۳۲.
  16. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۴۴۷؛ ابن اثیر،‌ الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۰۵
  17. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴، ج۲، ص۱۴۵.
  18. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش،‌ ج۵، ص۳۱۲
  19. اعداد؛ ۱۶: ۲-۳.
  20. اعداد؛ ۱۶: ۹-۱۰.
  21. اعداد؛ ۱۶: ۳۱-۳۳

مآخذ

  • ابن ابی حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: الطیب، اسعد محمد، عربستان سعودی، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، چاپ سوم، ۱۴۱۹ق.
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر، ۱۳۸۵ق.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، تحقیق: المہدی، عبدالرزاق، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۰ق.
  • تورات،‌ ترجمہ انجمن کلیمیان ایران.
  • حافظ، شمس الدین محمد، دیوان حافظ شیرازی، تہران، جمہوری، ۱۳۷۹ش.
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت،‌دار الکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: قصیرعاملی، احمد،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، مدیریت حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۳۷۷ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ق.
  • طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق: ابراہیم، محمد أبو الفضل، بیروت،‌دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق.
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ق.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.