مسبحات
مُسَبِّحات، قرآن کی ان سورتوں کو کہا جاتا ہے جن کی ابتداء خدا کی تسبیح و تقدیس سے ہوتی ہے۔ مسبحات میںسورہ اسراء، سورہ حدید، سورہ حشر، سورہ صف، سورہ جمعہ، سورہ تغابن اور سورہ اعلی شامل ہیں، جن کا آغاز سبح یا اس کے مشتقات کے ساتھ ہوتا ہے۔ البتہ یہ کہ مسبحات میں یہ تمام سورہ شامل ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ اصول دین کے بارے میں بحث ان سورتوں کے مشترکات میں سے ہے۔
مـَنْ قَرَأَ الْمُسَبِّحَاتِ كُلَّهَا قَبْلَ أَنْ يَنَامَ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِمَ وَ إِنْ مَاتَ كَانَ فِي جِوَارِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ (ص) (ترجمہ: جو شخص رات کو سونے سے پہلے مسبحات کی تلاوت کرے، اسے قائم آل محمد کو درک کئے بغیر موت نہیں آئے گی اور موت آنے کی صورت میں وہ رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا۔)
مآخذ، صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۱۳۷۳ش، ص۱۳۸
وجہ تسمیہ
مُسَبِّحات قرآن کریم کی ان سورتوں کو کہا جاتا ہے جن کی ابتداء خدا کی تسبیح سے ہوتی ہے۔[1] تسبیح کے معنی تنزیہ[2] و تقدیس کے ہیں اور خدا کی تسبیح سے مراد، خدا کو ہر بدی و زشتی سے دور سمجھنا ہے۔[3]
مصادیق
مسبحات کی فضیلیت بیان کرنے والی احادیث میں ان سورتوں کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی تعداد کے بارے میں علماء، مفسرین اور ماہرین علوم قرآن کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
- سات سورہ: اِسراء، حَدید، حَشْر، صَفْ، جمعہ، تَغابُن، اَعْلی۔[4] یہ تمام سورہ س ب ح یا اس کے مشتقات سے شروع ہوتے ہیں۔[5]
- پانچ سورہ: سورہ حدید، سورہ حشر، سورہ صف، سورہ جمعہ، سورہ تغابن۔ یہ تمام سورہ سبح یا یسبح سے شروع ہوتے ہیں۔[6]
- چھ سورہ: حدید، حشر، صف، جمعہ، تغابن، اعلی۔[7] یہ تمام سورہ بسم اللہ کے بعد سَبَّحَ، یسَبِّحُ و سبِّح سے شروع ہوتے ہیں۔ سید علی قاضی طباطبائی اپنے شاگردوں سے سفارش کرتے تھے کہ وہ ان ۶ سورہ کی مسبحات کے عنوان سے ہر شب تلاوت کیا کریں۔[8]
- نو سورہ: آیت اللہ معرفت (1309۔1385 ھ ش) محقق علوم قرآنی مسبحات میں ان سات (7) مشہور سوروں کے علاوہ سورہ فرقان و سورہ ملک کو بھی شامل کرتے ہیں۔[9]
مشترکہ خصوصیات
بعض خصوصیات اور مضامین ان تمام سوروں میں مشترک ہیں جو درج ذیل ہیں:
- اصول دین کا شامل ہونا: ان سوروں کے مضامین اصول دین یعنی توحید، عدل، امامت، نبوت اور قیامت پر مشتمل ہیں۔[10]
- سورہ اسراء کی مرکزیت: قرآنی علوم کے بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ ان سورتوں کے مضامین کے درمیان ایک خاص قسم کا رابطہ پایا جاتا ہے اور اس درمیان سورہ اسراء کو مرکزیت حاصل ہے۔ ان محققین کے مطابق مسبحات میں شامل تمام سورتیں ایک مستقل کتاب کی طرح ہیں گویا ان کا مقدمہ سورہ اسراء ہے اور دوسری سورتیں گویا اس کتاب کے ابواب ہیں اور سورہ اعلی اس کتاب کا آخری نتیجہ ہے۔[11]
- وسعت زمانی: ان سورتوں کی تیسری مشترکہ خصوصیت ترتیب نزول کے اعتبار سے ان سورتوں کا پورے دوران نبوت پر محیط ہونا ہے۔ ان سورتوں میں سے سورہ اعلی ساتویں نمبر پر اور سورہ اسراء پچاسویں نمبر پر مکہ میں نازل ہوئیں جبکہ سورہ حديد، حشر، صف، جمعہ اور تغابن مدینہ میں بالترتیب چورانوے ویں سے ایک سو دسویں نمبر پر نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہیں۔[12]
فضیلت
- ایک آیت ہزار آیتوں سے بہتر: معتبر منابع میں منقول احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ہر رات سونے سے پہلے ان سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے اور آپ کا فرمان ہے: "مسبحات میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے"۔[13]
- امام زمانہؑ کو درک کرنا: امام محمد باقرؑ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: مـَنْ قَرَأَ الْمُسَبِّحَاتِ كُلَّهَا قَبْلَ أَنْ يَنَامَ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِمَ وَ إِنْ مَاتَ كَانَ فِي جِوَارِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ (ص) (ترجمہ: جو شخص رات کو سونے سے پہلے مسبحات کی تلاوت کرے اسے قائم آل محمد کو درک کئے بغیر موت نہیں آئے گی اور موت آنے کی صورت میں وہ رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا)۔[14]
حوالہ جات
- ↑ حریرى، فرهنگ اصطلاحات قرآنى، ۱۳۸۴ش، ص۱۸۵.
- ↑ جوهری، الصحاح، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۷۲(ذیل واژه سبح).
- ↑ دغیم، موسوعة مصطلحات علم الکلام الاسلامی، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۳۱۰.
- ↑ فیض کاشانى، الوافی، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۱۷۵۶؛ حجتی، پژوهشی در تاریخ قرآن، ۱۳۷۷ش، ص۱۰۵؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۵۹۶.
- ↑ حسن زاده، هزار و یک نکتہ، ۱۳۶۵ش، ص۶۰۵
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۱۴۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۳، ص۲۹۲.
- ↑ حسن زاده آملی، رسالہ نور على نور، ۱۳۷۱ش، ص۲۹؛ جوادى آملى، «تفسیر سوره حشر»، ص۷.
- ↑ حسن زاده، هزار و یک نکتہ، ۱۳۶۵ش، ص۶۰۵.
- ↑ معرفت، التمهید فی علوم القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۲۹۳.
- ↑ آل رسول-اعتصامی، سورہ شناسی مسبحات، ص۵۲.
- ↑ آل رسول-اعتصامی، سورہ شناسی مسبحات، ص۵۲.
- ↑ آلرسول-اعتصامی، «سورہ شناسی مسبحات»، ص۵۲.
- ↑ سیوطی، الدر المنثور فی تفسیر بالمأثور، دار الفکر، ج۶، ص۱۷۰؛ قرطبی، الجامع الحكام القرآن، ۱۳۶۴ش، ص۲۳۵.
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ۱۳۷۳ش، ص۱۳۸.
مآخذ
- آل رسول، سوسن اور اعتصامی، سیدہ زہرا، سورہ شناسی مسبحات، فصلنامہ فدک، سال۱، ش۱، بہار ۱۳۸۹ش، ص۵۲.
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش.
- زرکشی، بدر الدین، البرہان فی العلوم القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۵ق.
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر بالمأثور، بیروت، دار الفکر، بیتا.
- سیوطی، جلال الدین، الإتقان فی علوم القرآن، قم، منشورات الرضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش.
- صدوق، محمد بن بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمہ علی اکبر غفاری، تہران، انتشارات صدوق، چاپ دوم، ۱۳۷۳ش.
- طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، چاپ پنجم، ۱۴۰۳ق.
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع الحكام القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش.
- مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش.
- معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۶ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوازدہم، ۱۳۷۱ش.