علامہ محمد باقر مجلسی
محمد باقر بن محمد تقی (1037-1110 ھ) علامہ مجلسی و مجلسی ثانی کے نام سے معروف، عالم اسلام کے مشہور ترین فقہاء، محدثین اور صفویہ دور حکومت کے با اثر شیعہ علما میں شمار ہوتے تھے۔
عالم اسلام کے مشہور فقیہ، محدث اور صفویہ دور کے موثر عالم دین | |
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی مجلسی |
لقب/کنیت | علامہ مجلسی |
نسب | خاندان ابو نعیم اصفہانی |
تاریخ ولادت | 1037ھ |
آبائی شہر | اصفہان |
تاریخ وفات | 1110ھ |
مدفن | مسجد جامع اصفہان |
نامور اقرباء | محمد تقی مجلسی • ملا صالح مازندرانی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | محمد تقی مجلسی • ملا صالح مازندرانی • فیض کاشانی • سید علی خان مدنی • ملا خلیل قزوینی وغیرہ۔ |
شاگرد | آفندی اصفہانی • سید نعمت اللہ جزایری • ملا محمد رفیع گیلانی • میر محمد حسین خاتون آبادی وغیرہ۔ |
تالیفات | بحار الانوار • مرآة العقول • حلیۃ المتقین • ملاذ الاخبار • جلاء العیون وغیرہ۔ |
خدمات | |
سیاسی | قضاوت |
سماجی | شیخ الاسلام کا منصب |
علامہ مجلسی کا حدیث نگاری کی طرف زیادہ رجحان تھا اور عقیدے کے اعتبار سے اخباریوں کے زیادہ نزدیک تھے۔ آپ کی سب سے مشہور تالیف بحار الانوار، احادیث کا ایک بہت بڑا خزینہ ہے جس نے احادیث کی احیاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر مشہور آثار میں مرآة العقول، حق الیقین، زاد المعاد، تحفۃ الزائر، عین الحیات، حیات القلوب، جلاء العیون، حلیۃ المتقین وغیرہ شامل ہیں۔
متعدد قلمی آثار اور شاگردوں کی تربیت کے ذریعے انہوں نے شیعہ ثقافت اور اپنے بعد آنے والے علما کی علمی روش پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ صفویہ دور حکومت میں سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ ہر خاص و عام میں نہایت مقبول تھے یہاں تک کہ شاہ سلیمان صفوی کے دور میں آپ شیخ الاسلامی کے مقام پر فائز ہوئے اور سلطان حسین صفوی کے دور کی با اثر شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
ولادت اور نسب
علامہ مجلسی سنہ 1037 ہجری میں اصفہان میں پیدا ہوئے۔[1] ان کی ولادت صفویہ کے دور میں شاہ عباس اول کی بادشاہی کے آخری سال میں ہوئی۔ ان کے والد علامہ محمد تقی مجلسی (مجلسی اول)، اپنے زمانے کے نامور اکابرین اور مجتہدین میں سے تھے اور شیخ بہائی، ملا عبداللہ شوشتری اور میر داماد جیسے برجستہ علماء کے شاگرد رہے ہیں۔ آپ کی والدہ صدر الدین محمد عاشوری قمی کی بیٹی اور علم و فضیلت کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ آپ کی 3 زوجات تھیں جن سے آپ کے 4 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں۔[3]
مجلسی خاندان
علامہ مجلسی کا خاندان حالیہ صدیوں کے انتہائی شہرۂ آفاق شیعہ خاندانوں میں سے ہے اور اس خاندان میں آج تک 100 سے زیادہ جلیل القدر اور بزرگ علما گذرے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے دادا ملا مقصود علی بڑی شاندار مجالس پڑھا کرتے تھے یا یہ کہ انھوں نے اپنے اشعار میں اپنا تخلص مجلسی رکھا تھا اسی وجہ سے ان کا خاندان مجلسی کہلانے لگااور اسی عنوان سے مشہور ہوا۔[4] دوسری نقل یہ ہے کہ علامہ محمد باقر کے والد محمد تقی اصفہان میں مجلس نامی گاؤں میں رہتے تھے اس وجہ سے یہ خاندان مجلسی کے عنوان سے مشہور ہوا۔[5]
ان کے جد امجد مشہور حافظ و محدث ابو نعیم اصفہانی ہیں۔ آپ کے دادا ملا مقصود علی ایک پرہیزگار شاعر اور عالم فاضل سمجھے جاتے ہیں۔[6] ان کی دادی محدث بزرگوار شیخ کمال الدین درویش محمد بن شیخ حسن نطنزی اصفہانی کی بیٹی تھیں۔ ملا محمد باقر کے دو بھائی میرزا عزیز اللہ مجلسی اور ملا عبداللہ مجلسی تھے اور محدث نوری (میرزا حسین نوری) نے ان دونوں کی مدح کی ہے۔ آمنہ بیگم علامہ مجلسی کی نامی گرامی ہمشیرہ ہیں جو اپنے زمانے کی عالمہ خواتین میں سے تھیں اور ملا صالح مازندرانی کی شریک حیات تھیں۔[7]
علمی مقام و منزلت
علامہ مجلسی اسلامی علوم میں اس قدر شہرت رکھتے ہیں کہ ان کی علمی مرتبت ہرگز بیان اور توضیح کے محتاج نہیں ہے۔ وہ ان بزرگوں میں سے ہیں جو خاص جامعیت سے بہرہ مند ہیں۔ وہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، رجال اور درایہ جیسے علوم ميں سرآمد روزگار تھے۔ بحار الانوار نامی عظيم مجموعے پر اجمالی سی نظر سے اس نکتے کا بآسانی ادراک کیا جاسکتا ہے۔
ان علوم نے فلسفہ اور منطق اور ریاضیات جیسے عقلی علوم نیز ادب، لغت، جغرافیہ، طبّ، نجوم اور علوم غریبہ وغیرہ کے ساتھ مل کر علامہ مجلسی کو ممتاز اور بے مثل شخصیت میں تبدیل کردیا ہے۔
مشکل روایات اور احادیث کے سلسلے میں علامہ کی باریکی بینی اور نکتہ سنجی بہت عمدہ ہے؛ روایات، احادیث اور آیات کے ذیل میں علامہ کے بیانات و توضیحات بہت باریک بینانہ اور عمدہ ہیں اور ان میں خطا بہت کم پائی جاسکتی ہے۔ علامہ روایات اہل بیت(ع) کے علاوہ فقہ میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے اگرچہ ان کے فقہی مجلدات ابھی تک قلمی مسودات کی صورت میں ہیں۔
اقوال علما
کہا گیا ہے کہ محمد باقر مجلسی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے صفوی کے دور میں علم حدیث کی نشر و اشاعت کا اہتمام کیا۔[8]
شیخ حر عاملی کہتے ہیں:
- انھوں نے اپنی باریک بینی کو تمام علوم کے لئے وقف کردیا اور اپنے عمیق افکار کو ان [علوم] کی ترویج کی راہ میں بروئے کار لایا ہے۔[9]
محمد بن علی اردبیلی انہیں عظيم عبارتوں کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔[10]
میرزا محمد تُنِکابُنی کہتے ہیں:
عبد العزیز دہلوی، سنی علماء میں سے ہے جس نے شیعہ عقائد کے رد میں قلم فرسائی کی ہے، لکھتا ہے:
- اگر شیعہ مذہب کو محمد باقر مجلسی کا مذہب کہا جائے تو بجا ہے، وہی ہیں جنہوں نے اس مذہب کو رونق بخشی ہے جبکہ اس سے قبل اس کی عظمت اس قدر نہ تھی۔[12]
اساتذہ اور مشائخ
میرزا حسین نوری نے اپنی کتاب الفیض القدسی فی ترجمۃ العلامۃ المجلسی میں لکھا ہے کہ علامہ مجلسی نے علماء کی ایک جماعت سے فیض حاصل کیا ہے۔ انھوں نے 18 افراد کے نام ذکر کئے ہیں:[13]
- ان کے والد ماجد محمد تقی مجلسی متوفیٰ 1071ھ۔
- صاحبِ کتابِ شرح اصول کافی ملا صالح مازندرانی متوفیٰ 1081ھ۔
- تفسیر صافی، المحجۃ البیضاء اور الوافی کے مفسر، مؤلف و مصنف ملا محسن فیض کاشانی متوفیٰ 1081ھ۔
- صحیفۂ سجادیہ کی شرح ریاض السالکین کے مؤلف، سید علی خان مدنی متوفیٰ 1118ھ۔
- الصافی فی شرح الکافی کے مؤلف ملا خلیل قزوینی متوفیٰ 1018ھ۔
- وسائل الشیعہ کے مؤلف شیخ حُرِّ عاملی متوفیٰ 1104ھ۔
- ملا محمد طاہر قمی متوفیٰ 1098ھ۔
- میرزا رفیع الدین نائینی متوفیٰ 1099ھ۔
- ملا حسن علی تستری (شوشتری) متوفیٰ 1029ھ۔
- امیر محمد قاسم قہپایی
- محمد شریف رویدشتی اصفهانی متوفیٰ 1087ھ۔
- امیر شرف الدین حسینی شولستانی متوفیٰ 1060ھ۔
- علامہ شیخ علی متوفیٰ 1103ھ۔
علامہ کے شاگرد اور راوی
بعض علماء نے کہا ہے کہ علامہ مجلسی کے مکتب میں 1000 سے افراد نے زانوئے تلمذ تہہ کیا[14] اور ان کے تمام شاگرد اپنے حلقوں کے نامور علماء اور اپنے زمانے کے أعلام اور اکابرین میں سے تھے۔ میرزا حسین نوری نے ان میں سے 49 افراد کے نام ذکر کئے ہیں۔[15]
- ریاض العلماء و صحیفہ ثالثہ سجادیہ کے مؤلف میرزا عبداللہ افندی اصفہانی متوفیٰ 1137 ہجری
- صاحب کتاب الانوار النعمانیۃ، سید نعمت اللہ جزایری متوفیٰ 1112 ہجری۔
- صاحب کتاب عوالم العلوم، شیخ عبداللہ بحرانی متوفیٰ 1127 ہجری۔
- رجالی کتاب جامع الرواۃ کے مؤلف محمد بن علی اردبیلی متوفیٰ 1101 ہجری۔
- میرزا محمد مشہدی صاحب تفسیر کنز الدقائق متوفیٰ 1125 ہجری۔
- ملا محمد رفیع گیلانی
- میر محمد حسین خاتون آبادی
- سید ابو القاسم خوانساری
- ملا محمد سراب تنکابنی
سیاسی، علمی اور ثقافتی خدمات
- صوفیوں کے اعتقادات کے خلاف جدوجہد اور صوفیہ کا مقابلہ۔[16]
- فقہ، تفسیر، کلام، حدیث، تاریخ، دعا جیسے موضوعات پر مختلف کتب نیز حدیث کے بے مثل دائرۃ المعارف بحار الانوار کی کی تصنیف و تالیف۔ انھوں نے بحار الانوار میں روایات و احادیث کو اکٹھایا کیا اور ان کو ابواب میں مرتب کیا۔[17]
- بعض دینی حوالہ جاتی کتب کی سادہ اور عام فہم فارسی میں تالیف یا ترجمہ، عام لوگوں کے مطالعے کے لئے۔[18]
- انتہائی سہولت کے ساتھ لوگوں کے دینی مسائل حل کرنے کے لئے فتاویٰ اور ان کے سوالات کے جوابات دینا۔[19]
- مذہبی اصلاحات کرنا، گناہ کے مراکز اور بت خانوں کے خلاف جہاد کرنا اور نشہ آور اشیاء کی ممانعت کرنا۔[20]
- نماز جمعہ اور نماز جماعت کو عام کرنا اور وعظ و خطابت کی مجالس کا اہتمام کرنا۔[21]
- شاہ سلطان سلمان اور شاہ سلطان حسین کے زمانے میں قضاء اور شیخ الاسلامی کے عہدے قبول کرنا اور اپنے اثر و نفوذ کو بروئے کار لا کر شیعہ تعلیمات اور اصولوں کو ترویج دینا۔[22]
- عوامی جھگڑوں اور تنازعات کو حل کرنا۔[23]
تألیفات
علامہ مجلسی نے مختلف موضوعات میں ستر عناوین کے تحت فارسی اور عربی زبانوں میں کتابیں تالیف کی ہیں۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ کے مؤلف شیخ آقا بزرگ طہرانی نے لکھا ہے کہ علامہ کی تالیف کردہ کتب کی تعداد 169 مجلدات تک پہنچتی ہے۔
- 110 جلدوں پر مشتمل مجموعۂ حدیث بحار الانوار جس کو عظیم شیعہ دائرۃ المعارف کہا گیا ہے۔
- 26 جلدوں پر مشتمل مرآة العقول في شرح الکافی شیخ کلینی۔
- 16 مجلدات پر مشتمل شیخ طوسی کی کتاب تہذیب الاحکام کی شرح، ملاذ الاخیار في فهم تهذيب الاخبار 16 مجلدات۔
- الوجیزة فی الرجال
- عقائد کے موضوع پر فارسی زبان میں حق الیقین۔
- فارسی زبان میں مہینوں اور ایام کی دعاؤں اور اعمال پر مشتمل کتاب زاد المعاد۔
- شرح الاربعین.
- زیارات پر مشتمل فارسی زبان کی کتاب تحفۃ الزائر۔
- فارسی زبان میں آیات و احادیث معصومینؑ سے مأخوذ مواعظ اور حکمتوں پر مشتمل کتاب عین الحیات۔
- قرآن اور دعا اور ان کی تلاوت و قرائت کے فضائل اور ثواب کے سلسلے میں کتاب مشکاة الانوار۔
- حیاة القلوب انبیاء کے حالات زندگی، رسول خداؐ کی حیات و سیرت کے سلسلے نیز امامت کے بارے میں۔
- چودہ معصومین کی تاریخ و مصائب کے بارے میں کتاب جلاء العیون۔
- آداب معاشرت، اور روزمرہ فردی اور معاشرتی زندگی کے آداب و مستحبات کے سلسلے میں فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب حلیۃ المتقین۔[24]
- الفرائد الطریقیہ فی شرح الصحیفۃ السجادیۃ۔
- ربیع الاسابیع۔
- رسالۂ الدیات۔
- رسالۃ الاعتقاد۔
- رسالۃ الاوزان۔
- رسالۃ الشکوک۔
- مقباس المصابیح۔
- المسائل الهندیہ۔
- صراط النجاة.[25]
وفات
محمد باقر مجلسی 27 رمضان سنہ 1110 ھ میں 70 سال کی عمر میں شہر اصفہان میں دنیا سے رخصت ہوئے۔[26] علامہ اپنی وصیت کے مطابق اصفہان کی مسجد جامع کے ساتھ اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔ بعض شعراء نے ان کی تاریخ وفات کے بارے اشعار کہے ہیں:[27]
ماه رمضان چه بیست و هفتش کم شد٭٭٭تاریخ وفات باقر اعلم شد
ترجمہ: ماہ رمضان کی ستائیسویں تاریخ باقر اعلم کی وفات کی تاریخ ٹھہری
حوالہ جات
- ↑ اعیان الشیعہ، ج9، ص182. ریحانۃ الادب، ج5، ص196.
- ↑ الذریعۃ، ج1، ص151. بحار الانوار، ج102، ص105.
- ↑ کرمانشاہی، مرآت الاحوال جہان نما، ص۱۲۲. مجلسی، بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۱۰۵- ۱۴۳.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص105.
- ↑ خدمات علامہ مجلسی، مکتب اسلام، سال 47، شماره 7، ص50.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص105.
- ↑ ریاض العلماء، ج5، ص407.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص107 و 108.
- ↑ بحارالانوار، ج107، ص104.
- ↑ جامع الرواة، ج2، ص78: حرف میم کےذیل میں لکھتے ہیں: محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی الملقب مجلسی مد ظلہ العالی، ہمارے استاد اور شیخ اور اسلام اور مسلمانوں کے شیخ، خاتم الجتہدین امام علامہ محقق مدقق، جلیل القدر، عظیم الشان، اعلی منزلت، یگانۂ روزگار اور اہنے دہر میں منفرد، ثبت اور عین، کثیر العلم، بہترین تصانیف کے مالک، ان کی شان بلند ہے اور قدر عظیم ہے، رتبہ اتنا ممتاز ہے، علوم نقلیہ اور عقلیہ پر اتنا عبور رکھتے ہیں اور اتنے باریک بین، صائب الرائے، معتبر، عادل اور امانت دار ہیں اور اس قدر صاحب شہرت ہیں کہ ان کے لئے کسی ذکر و بیان کی ضرورت نہیں ہے اور اس قدر بلند ہیں کہ الفاظ ان کی بلندی کا احاطہ نہیں کرتے۔۔۔
- ↑ قصص العلماء، ص205.
- ↑ بحوالۂ: محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج9، ص183.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص76 – 83.
- ↑ الکنی و الالقاب، ج3، ص147. بحارالانوار، ج102، ص13.
- ↑ بحارالانوار، ج102، ص83 – 104.
- ↑ لؤلؤ البحرین، ص55.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص28.
- ↑ عین الحیاه، ص4.
- ↑ بحار الانوار، ج102، ص28.
- ↑ الکنی و الالقاب، ج3، ص148.
- ↑ الکنی و الالقاب، ج3، ص148. روضات الجنات، ص131.
- ↑ مستدرک الوسائل، ج3، ص408.
- ↑ مستدرک الوسائل، ج3، ص408. الکنی و الالقاب، ج3، ص149.
- ↑ اس کتاب کا اردو ترجمہ تہذیب الاسلام کے عنوان سے بر صغیر میں شائع ہو چکا ہے۔
- ↑ اعیان الشیعہ، ج9، ص183.
- ↑ الکنی و الالقاب، ج3، ص149.
- ↑ الکنی و الالقاب، ج3، ص149.
مآخذ
- امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات۔
- تهرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الأضواء، 1403 ہجری۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403 ہجری۔
- مدرس، محمد علی، ریحانہ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تهران، خیام، 1369 ہجری شمسی۔
- افندی، عبد الله بن عیسی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، خیام۔
- کرمانشاهی، آقا احمد، مرآت الاحوال جهان نما، قم، انصاریان، 1373 ہجری شمسی۔
- تنکابنی، میرزا محمد، قصص العلماء۔
- قمی، عباس، الکنی والألقاب، تهران، صدر۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، لولو البحرین۔
- مجلسی، محمد باقر، عین الحیاة، قم، جامعہ مدرسین۔
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان۔
- نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسایل، بیروت، آل البیت، 1408 ہجری۔