انقطاع وحی

ویکی شیعہ سے

اِنقطاع وحی یا فَترَت وحی، پیغمبر اسلامؐ کی حیات مبارکہ کے اس دوران کو کہا جاتا ہے جس میں آپؐ پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک اہم ترین دور بعثت کے ابتدائی ایام ہیں؛ مختلف منابع میں اس کا دورانیہ بارہ دن سے تین سال تک بیان کیا گیا ہے۔ اس دور میں رسول خداؐ کا تمسخر اڑایا جاتا اور آپؐ کو بے حد تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ واقعہ افک، تحویل قبلہ نیز روح اور اصحاب کہف کی بابت یہودیوں کے سوالات کے بعد بھی کچھ مدت کے لیے فترت جاری رہی اور وحی منقطع رہی۔

معنی و مفہوم

روایات کے مطابق بعثت کے آغاز میں رسول خداؐ پر مختصر مدت کے لیے وحی کا نزول بند ہوگیا؛ یہ ماجرا آپؐ اور آپ کے ماننے والوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔[1]اس دوران کو اصطلاح میں «فترت وحی» بھی کہا جاتا ہے.[2]مدت انقطاع وحی 12 دن سے 3سال تک ذکر کیا گیا ہے۔[3] تاریخی منابع کے مطابق یہ دوران حضورؐ پر بہت گراں گزرتا تھا؛[4]اس دوران مشرکین پیغمبر اسلامؐ کو اذیت و آزار پہنچاتے تھے اور عام مسلمانوں میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔[5] ایک روایت میں آیا ہے کہ انقطاع وحی کے دوران اگرچہ حضرت جبرئیل پیغمبرؐ پر نازل نہیں ہوتے تھے لیکن حضرت اسرافیل کا آپؐ کے ساتھ رابطہ برقرار رہتا تھا۔[6]

انقطاع وحی کے مواقع

انقطاع وحی کے مواقع اور اس کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، اس سلسلے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:[7]

بعثت کی ابتدا میں

مفسرین کا کہنا ہے کہ آغاز بعثت کے بعد وحی نازل ہونے میں مختصر مدت دیر ہوگئی؛ علوم قرآن کی اصطلاح میں اس دوران کو «فترت وحی» کہا جاتا ہے.[8]مفسرین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ بعثت کے ابتدائی ایام میں وحی منقطع ہوئی لیکن سورہ علق کی دوسری آیت کے نزول کے ساتھ انقطاع وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔[9] بعض دیگر محققین کے مطابق انقطاع وحی کا سلسلہ سورہ ضحی کے نزول کے ساتھ ختم ہوگیا۔[10]

دیگر مواقع

بعض احادیث میں فترت وحی کے کچھ دوسرے مواقع بھی بیان ہوئے ہیں۔ من جملہ ان مواقع میں سے ایک بعثت کے ساتویں سال جب یہودیوں نے روح انسانی، ذوالقرنین اور اصحاب کہف کے بارے میں پیغمبر خداؐ سے سوالات کیے۔ پیغمبر خداؐ نے فرمایا: میں کل ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں، لیکن اگلے دن وحی نازل نہیں ہوئی اور 15 دن کے بعد حضرت جبرئیلؑ سورہ کہف لیکر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔[11] اسی طرح بعض دیگر احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ تحویل قبلہ کے سلسلے میں 17 مہینے وحی نازل ہونے کا انتظار کرتے رہے، لیکن تحویل قبلہ سے متعلق آیتیں ڈیڑھ سال کے بعد نازل ہوئیں۔[12] واقعہ افک کے بعد بھی نزول وحی کا سلسلہ رک گیا، واقعہ افک میں عائشہ پر بہتان لگایا گیا تھا اور اس کی بریت پر آیات نازل ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔[13]

حوالہ جات

  1. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص73.
  2. بهادری، «فترت وحی»، ص52.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه،‌1374ہجری شمسی، ج27،‌ص96؛ رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص72.
  4. انصاری، مسعود، «فترت وحی»، ص1545.
  5. طبری، تاریخ، 1403ھ، ج2، ص52.
  6. معرفت، التمهید، 1417ھ، ص67.
  7. معرفت، تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص33.
  8. مکارم شیرازی،‌ تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج27، ص96.
  9. معرفت، تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص33.
  10. انصاری، مسعود، «فترت وحی»، ص1545.
  11. نکونام، «پژوهشی درباره فترت وحی»، ص97.
  12. سیوطی، درالمنثور، ج1، ص141، به نقل از بهادری، فترت وحی، ص57.
  13. رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، ص76.

مآخذ

  • انصاری، مسعود، «فترت وحی»، در مجموعه مقالات دانشنامه قرآن، تهران، نشر دوستان، 1377ہجری شمسی.
  • بهادری، آتنا، «فترت وحی یا طبیعت وحی»، مجله حدیث و اندیشه، شماره 3، بهار و تابستان 1386ہجری شمسی.
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تهران، مؤسسه انتشارات امیرکبیر، 1369ہجری شمسی.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، بیروت، اعلمی، 1403ھ.
  • فرهنگ‌نامه علوم قرآنی، تهران، پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، 1394ہجری شمسی.
  • معرفت، محمدهادی، تاریخ قرآن، تهران، انتشارات سمت، 1383ہجری شمسی.
  • معرفت، محمدهادی، تلخیص التمهید، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1417ھ.
  • مکارم شیرازی،‌ ناصر،‌ تفسیر نمونه، قم، دارالكتب الإسلاميه، 1374ہجری شمسی.
  • نکونام، جعفر، «پژوهشی درباره فترت وحی»، مجله صحیفه مبین، شماره 27و28، پاییزو زمستان 1381ہجری شمسی.