سورہ فاتحہ یا حمد قرآن کریم کی پہلی سورت ہے جسے ام الکتاب کا لقب ملا ہے۔ اسکا شمار مکی سورتوں میں سے ہوتا ہے اور پہلے پارے میں واقع ہے۔ یہ مختصر سورتوں یا [سُوَرِ قصار] میں شمار ہوتی ہے گو کہ روایات اور احادیث کے مطابق، معنوی لحاظ سے بہت عظیم اور قرآن کی اساس اور بنیاد ہے۔ سورہ حمد تمام واجب اور مستحب نمازوں میں پڑھی جاتی ہے اور اس کا مضمون توحید اور حمد خداوندی پر مشتمل ہے۔
- | سورۂ فاتحہ | بقرہ | |||||||||||||||||||||||
|
اس سورت کی فضیلت میں کہا گیا ہے کہ اس کا نزول، امتِ اسلامی پر عذاب نازل نہ ہونے کا باعث بنا۔ سورہ حمد کو واجب نمازوں میں پڑھنا، بیمار پر دم کرنا اور میت کو قبر میں رکھتے ہوئے پڑھنا مستحب ہے۔
معرفی
- اسماء اور ان کی علت
اس سورت کا اصل نام فاتحۃ الکتاب ہے؛ اس لئے کہ یہ قرآن کریم کی پہلی سورت ہے اور قرآن کو اسی سورت سے کھول دیا جاتا ہے اور پہلی وہ سورت ہے جو ایک ساتھ پوری سورت پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی ہے۔[1] اس سورت کی اہمیت کے پیش نظر اس کے 20 سے زیادہ نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور نام، حمد، سبع المثانی، ام القرآن، کنز، اساس، مناجات، شفاء، دعا، کافیہ، وافیہ، راقیہ (پناہ دینے والا)۔[2]
- ترتیب و محل نزول
سورہ حمد دو مرتبہ ـ ایک بار بعثت کے ابتدائی دنوں مکہ میں اور ایک بار قبلہ تبدیل ہونے کے بعد مدینہ میں نازل ہوا ہے؛ اور اسی بنا پر اس کو "مثانی" بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ پہلی مرتبہ مکہ میں نازل ہوئی ہے لہذا اس کو مکی سورتوں کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ یہ سورت مصحف کی ترتیب اور جمع قرآن کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی سورت اور نزول کے لحاظ سے پانچویں سورت ہے۔ نیز پہلی وہ سورت ہے جو پوری سورت ایک ہی دفعے میں نازل ہوئی ہے۔[3]
- تعداد آیات و کلمات
سورہ فاتحہ سات آیات، 29 کلمات (الفاظ) اور 143 حروف پر مشتمل ہے۔ یہ سورت حجم اور الفاظ کے لحاظ سے قرآن کی چھوٹی سورتوں یعنی "مفصلات" میں سے ہے اور مفصلات میں بھی سور قصار میں سے ہے۔ یہ سورت احادیث کی رو سے اگرچہ مختصر سورت ہے لیکن معنی کے لحاظ سے بڑی اور عظیم، ام الکتاب اور قرآن کی اساس اور بنیاد ہے۔[4]
اہمیت
مسلمانوں کی دینی و علمی و ثقافتی زندگی میں سورہ حمد کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ سورت ہر روز کی پنجگانہ نمازوں میں شیعہ فقہ کے مطابق 10 مرتبہ اور اہل سنت فقہ کے مطابق 17 مرتبہ پڑھی جاتی ہے[5] ہر نماز کی ابتدا میں اس سورت کو پڑھنے کی دلیل کو امام رضاؑ نے اس سورت میں دنیوی اور اخروی خیر و حکمت کا یکجا جمع ہونا قرار دیا ہے اور ایسی جامعیت کسی اور کلام میں نہیں ہے۔[6]
مضمون
اس سورت کا اصلی مضمون توحید، اللہ کا شکر، عبادت، مدد مانگنا اور ان سے ہدایت طلب کرنا ہے۔[7] اسی طرح اس سورت میں اللہ تعالی کے اوصاف، اللہ تعالی کے صالح بندوں کے اوصاف و نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور ہدایت و صراط مستقیم کے مسئلے کو دعا کے سانچے میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ گمراہی اور غلط راستے پر چلنے والوں سے نفرت کا اظہار بھی ہوا ہے۔[8] اس سورت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک حصے میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کیا ہے اور دوسرے حصے میں بندوں کی احتیاج اور نیاز کو بیان کیا ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ: میں نے سورہ حمد کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کیا ہے؛ اس میں سے کچھ میرے لئے ہے اور کچھ میرے بندوں کے لیے۔[9]
اللہ کی تعریف اور عبادت کے آداب | |||||||||||||||||||||||
دوسرا گفتار؛ آیہ ۵-۷ اللہ کے سامنے بندوں کی ذمہ داریاں | پہلا گفتار؛ آیہ ۲-۴ اللہ کا عبادت کی لیاقت پر دلیلیں | مقدمہ؛ آیہ ۱ تمام کمالات کے مالک خدا کے نام | |||||||||||||||||||||
پہلی ذمہ داری؛ آیہ ۵ اللہ کی بندگی | پہلی دلیل؛ آیہ ۲ اللہ کی وسیع ربوبیت | ||||||||||||||||||||||
دوسری ذمہ داری؛ آیہ ۵ اللہ سے مدد مانگنا | دوسری دلیل؛ آیہ ۳ اللہ کی بےنہایت رحمت | ||||||||||||||||||||||
تیسری ذمہ داری؛ آیہ ۶-۷ اللہ سے ہدایت کی درخواست | تیسری دلیل؛ آیہ ۳ اللہ کی ہمیشگی رحمت | ||||||||||||||||||||||
چوتھی دلیل؛ آیہ ۴ قیامت میں اللہ کی مالکیت | |||||||||||||||||||||||
احکام
- سورہ حمد کا سیکھنا[11]، صحیح پڑھنا[12] اور واجب اور مستحب نمازوں کی پہلی اور دوسری رکعت میں قرائت کرنا واجب ہے۔[13]
- نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں نمازی کی مرضی ہے کہ وہ سورہ حمد پڑھے یا تسبیحات اربعہ پڑھے۔ لیکن ان دونوں میں سے کونسا افضل ہے اس بارے میں اختلاف ہے۔[14]
- نماز کی پہلی رکعت میں سورہ حمد سے پہلے «أَعُوذُ باللّهِ مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِیمِ» کہنا مستحب ہے۔[15] جبکہ نماز کے دوران سورت کے آخر میں آمین کہنا حرام اور نماز باطل ہونے کا باعث ہے۔[16]
- جن مستحب نمازوں میں کوئی خاص قرائت ذکر ہوئی ہے ان میں صرف سورہ حمد پڑھنا بھی جائز ہے۔[17]
- بہت سارے موارد میں سورہ حمد کی تلاوت مستحب ہے؛ جیسے مریض پر دم کرنا،[18]میت کو قبر میں اتارتے ہوئے،[19] اور حائر حسینی سے تربت اٹھاتے ہوئے۔[20]
نماز امام زمانہ میں «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ»
تفصیلی مضمون: نماز امام زمان
بعض احادیث میں ایسی نماز پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے جس میں «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» والی آیت کو 100 مرتبہ تکرار کیا جاتا ہے اور یہ نماز نماز امام زمان سے مشہور ہے جس کی ہر رکعت کے سورہ حمد میں اس آیت کو 100 مرتبہ تکرار کیا جاتا ہے۔[21] قطب الدین راوندی اور سید بن طاووس نماز امام زمان کی حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔[22]
تفاسیر
تمام تفاسیر میں سورہ فاتحہ کی تفسیر بھی شامل ہے؛ علاوہ ازیں اس پر مفصل اور مستقل تفاسیر بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
- العروة الوثقی در تفسیر سورہ حمد [لیتھو چھَپائی]، تالیف: شیخ بہائی۔ [23]
- اعجازالبیان فی تفسیر امالقرآن، تالیف: صدرالدین قونوی؛ تصحیح: جلالالدین آشتیانی۔ [24]
- پرتوی از: تفسیر سورہ حمد، یا، لمعۃ فی تفسیر الحمد، تالیف: محمدکاظم (عمادالدین) جزائری [25]
- تفسیر سورہ مبارکہ حمد، اثر سید عزالدین حسینی زنجانی۔ [26]
- فاتحہالکتاب: تفسیر سورہ شریفہ حمد، اثر عبدالحسین دستغیب. [27]
- تفسیر سورہ حمد، اثر امام خمینی.[28]
فاتحہ خوانی
چونکہ پیغمبر اکرمؐ اور اہلبیتؑ کی احادیث میں مردوں کے لیے قرآن کی تلاوت کرنے کی تاکید ہوئی ہوئی ہے،[29] اس لئے مرحومین کی برسی، مجالس ترحیم اور قبور پر جانے والے افراد بعض سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ لیکن ایسے موقعوں پر زیادہ تر سورہ حمد پڑھی جاتی ہے تو اس لیے ان پروگراموں کو بھی فاتحہ خوانی کہا گیا ہے۔ بعض اوقات مجالس ترحیم کو بھی فاتحہ خوانی کا نام دیا جاتا ہے۔
فضیلت اور خواص
اس سورت کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق جبرئیل امین پیغمبر اکرمؐ سے کہتے ہیں کہ اس سورت کی وجہ سے امتِ اسلامی پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔[30] ایک اور روایت کے مطابق اس سورت کو ہر درد کی دوا قرار دیا ہے۔[31] امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ سورہ حمد عرش الہی کے خزانوں میں سے ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے نبیؐ سے مختص کیا ہے جس میں دوسرے کسی پیغمبر کو شریک نہیں کیا ہے۔ سوائے بسم اللہ کے جس میں صرف سلیمان پیغمبر شریک ہیں... جو بھی محمد و آل محمد کی محبت کے عقیدے کے ساتھ پڑھے تو ہر ایک حرف کے بدلے ایسا حسنہ اسے دیا جائے گا جو دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے...[32]
پیغمبر اکرمؐ نے سورہ فاتحہ کو سب سے بہترین سورت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث نبوی کے مطابق سورہ فاتحہ کی تلاوت کا ثواب دو تہائی قرآن تلاوت کرنے اور تمام مومنین کو صدقہ دینے کے برابر ہے۔[33] امام جعفر صادقؑ نے بھی سورہ فاتحہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو بھی اس کی تلاوت کرے گا اللہ اس پر دینا اور آخرت کی خیر تک پہنچنے کا راستہ کھول دے گا۔ اور آپؑ نے اسی طرح پھر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کا اسم اعظم اس سورت میں تقسیم ہوا ہے۔[34] شیخ مفید اپنی کتاب الاختصاص میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ سے کسی نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی ثواب کا پوچھا ہے تو اس کے جواب میں آپؐ نے اس کی تلاوت کی ثواب کو تمام آسمانی کتابوں کی تلاوت کے برابر قرار دیا ہے۔[35]
متن سورہ
سورہ فاتحہ
|
ترجمہ
|
---|---|
الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ (3) مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (7) |
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ (2) جو (سب پر) بڑا مہربان (اور خاص بندوں پر) نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (3) جزا و سزا کے دن کا مالک (و مختار) ہے۔ (4) (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ (5) ہمیں سیدھے راستے کی (اور اس پر چلنے کی) ہدایت کرتا رہ۔ (6) راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام و احسان کیا نہ ان کا (راستہ) جن پر تیرا قہر و غضب نازل ہوا۔ اور نہ ان کا جو گمراہ ہیں۔ (7) |
پچھلی سورت: — | سورہ فاتحہ | اگلی سورت:سورہ بقرہ |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۲۷.
- ↑ خرم شاہی، «سورہ فاتحہ»، ج۲، ص۱۲۳۶.
- ↑ محققیان، «سورہ حمد»، ص۷۲۵؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۲۷.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ فاتحہ»، ج۲، ص۱۲۳۶.
- ↑ قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژہ نامہ: بہاءالدین خرمشاہی، ذیل سورہ فاتحہ۔
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۱۰.
- ↑ محققیان، «سورہ حمد» ص۷۲۶.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ فاتحہ»، ج۲، ص۱۲۳۶.
- ↑ صدوق، امالی، ۱۳۷۶ش، ص۱۷۴؛ مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۷.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۳۰۰.
- ↑ علامہ حلّى، تذكرة الفقہاء، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۱۳۵.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۲۸۴-۲۸۶.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۳۱۹-۳۳۱.
- ↑ امام خمينى، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۵۵۹، مسئلۂ۱۰۱۷.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۲-۱۱.
- ↑ طباطبايى يزدى، العروة الوثقى، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۵۰۱.
- ↑ طباطبايى يزدى، العروة الوثقى، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۷.
- ↑ طباطبايى يزدى، العروة الوثقى، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۱۹.
- ↑ حرّ عاملى، وسائل الشيعة، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۵۳۱.
- ↑ سید ابن طاووس، جمال الأسبوع، چاپ اول، ص۲۸۰؛ سید بن طاووس، مہج الدعوات، ص۲۹۴؛ کفعمی، البلد الأمین، ۱۴۱۸ق، ص۱۶۴؛ قطب الدین راوندی، الدعوات، ۱۴۰۷ق، ص۸۹.
- ↑ سید ابن طاووس، جمال الأسبوع، چاپ اول، ص۲۸۰؛ سید بن طاووس، مہج الدعوات، ص۲۹۴؛ قطب الدین راوندی، الدعوات، ۱۴۰۷ق، ص۸۹.
- ↑ العروة الوثقی در تفسیر سورہ حمد۔
- ↑ اعجازالبیان فی تفسیر امالقرآن۔
- ↑ پرتوی از تفسیر سورہ حمد، یا، لمعہ فی تفسیر الحمد۔
- ↑ تفسیر سورہ مبارکہ حمد۔
- ↑ فاتحہ الکتاب: تفسیر سورہ شریفہ حمد۔
- ↑ http://opac.nlai.ir/opac-prod/search/briefListSearch.do?command=FULL_VIEW&id=597218
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ١٤٠٣ق/١٩٨٣م، ج۹۹، ص۳۰۰.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰، ج۱، ص۱۵۸.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۹۷.
- ↑ صدوق، الامالی، ۱۴۱۳ق، ۱۷۶.
- ↑ طبرسى، مجمع البيان فى تفسير القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۸۸.
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق،ج۴، ص۳۳۰.
- ↑ شیخ مفيد، الإختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۳۹.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- حرّ عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعۃ إلى تحصيل مسائل الشريعۃ، قم: قم: مؤسسہ آل البيت،چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
- حلّى، حسن بن يوسف بن مطہر اسدى، تذكرۃ الفقہاء، قم: مؤسسہ آل البيت، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
- خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، قم: نشر نشرا، چاپ اول، ۱۳۹۲شمسی ہجری۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
- سید ابن طاووس، رضی الدین علی، جمال الأسبوع بکمال العمل المشروع، قم: دار الرضی، چاپ اول، بیتا.
- طباطبايى يزدى، سيدمحمدكاظم، العروۃ الوثقى فيما تعم بہ البلوى(المحشّٰى)، قم: دفتر انتشارات اسلامى، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
- قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶شمسی ہجری۔
- قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژہ نامہ، بہاءالدین خرمشاہی، تہران، جامی، نیلوفر، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الدعوات(سلوۃ الحزین)، قم، انتشارات مدرسہ امام مہدی(عج)، ۱۴۰۷ھ۔
- کفعمی، ابراہیم بن علی، البلد الأمین و الدرع الحصین، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۸ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، تحقیق سيدابراہيم ميانجي و محمدباقر بہبودی، دارالاحیاء التراث، ١٤٠٣ق/١٩٨٣م.
- مفيد، محمد بن محمد، الإختصاص، تحقیق علی اکبر غفارى و محمود محرمى زرندى، قم، المؤتمر العالمى لالفيۃ الشيخ المفيد، ۱۴۱۳ھ۔
- مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔
- موسوى خمينى، سيد روح اللہ، توضیح المسائل(مُحَشّی)، تحقیق سيد محمد حسين بنى ہاشمى خمينى، قم: دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔
- نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار إحياء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
- نوری طبرسی، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
- منبع بخش احکام: فرہنگ فقہ فارسی