کنعان بن نوح
کنعان بن نوح حضرت نوح کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور کافروں کے ساتھ طوفان (عذاب الہی) میں غرق ہو گیا۔ قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیت نمبر 40 سے 47 تک حضرت نوح کے اس بیٹے سے متعلق ہے۔ اس داستان کی تفصیلات سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سارے مفسرین کے مطابق یہ حضرت نوح کا حقیقی بیٹا تھا لیکن حضرت نوح اپنے بیٹے کی کفریہ اعتقادات سے بے خبر تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی۔
تفصیلات
حضرت نوح کے چار بیٹے تھے جن کا نام سام، حام، یافث اور کنعان تھا۔ حضرت نوح کے بیٹوں میں سے صرف کنعان واحد شخص تھا جس نے اپنے والد کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا۔ کنعان نے اپنے والد پر ایمان نہیں لایا اور آخر طوفان کی شکل میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گیا اور دوسرے کافروں کے ساتھ غرق ہو گیا۔[1] حضرت نوح کے بیٹے کی داستان بھی دوسرے قصص کی طرح قرآن کریم میں اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے اس بنا پر اس کہانی اور حضرت نوح کے اس بیٹے کی خصوصیات سے متعلق تفصیلات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[2]
قرآن میں حضرت نوح کے بیٹے کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ صرف اس وقت کی ہے جب طوفان کی شکل میں عذاب الہی کا ظہور ہوا لیکن وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن وهن سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں طوفان سے بچنے کیلئے پہاڑ پر چڑھوں گا۔ حضرت نوح دوبارہ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طوفان عذاب الہی ہے جس سے کسی کو راہ فرار نہیں مگر یہ کہ خدا خود چاہے۔ اس موقع پر ایک موج اٹھتا ہے جو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور آخر کار حضرت نوح کا بیٹا غرق ہو جاتا ہے۔[3]
حضرت نوح کے بیٹے سے متعلق شبہہ
سورہ ہود کی آیت نمبر 46 کا یہ جملہ: قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ (ترجمہ: ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے) سے استناد کرتے ہوئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کنعان حضرت نوح کا بیٹا نہیں ہے۔ بعض لوگ مذکورہ آیت اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 10 جس میں حضرت نوح کی بیوی کی خیانت کا تذکرہ موجود ہے، سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نافرمان بیٹا حقیقت میں حضرت نوح کا نہیں بلکہ ان کی بیوی کی خیانت کی وجہ سے پیدا ہونے والا نامشروع بیٹا تھا۔[4] حالنکہ اکثر شیعہ اور سنی مفسرین سورہ ہود کی آیت نمبر 45 اور 46 کی تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس نظریے کے جعلی ہونے پر تاکیدد کرتے ہیں اور ان آیات میں موجود لفظ "فخانتاهما" سے مراد ان کی بیوی کی زناکاری اور فرزند نامشروع کی طرف اشارہ ہر گز نہیں ہے۔[5]
علامہ طباطبایی کے مطابق حضرت کا جو بیٹا طوفان میں غرق ہوا تھا وہ ان کا اپنا حقیقی بیٹا تھا۔ اس بات کو سورہ نوح کی آیت نمبر 42 میں اس جملے سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں حضرت نوح یوں اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں: یا بُنَی ارْکب مَّعَنَا کیونکہ اس طرح کے الفاظ کہنے والے کی شفقت اور مہربانی کے اوپر دلالت کرتا ہے اور باپ اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہ رہا ہوتا ہے کہ باپ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا خیرخواہ ہے[6]۔ تفسیر نمونہ، مجمع البیان اور تفسیر طبری میں بھی کنعان کو حضرت نوح کا حقیقی بیٹا قرار دینے والے نظریے کو صحیح نظریہ قرار دیتے ہیں۔[7]
حضرت نوح اور ان کے بیٹے کا کفر
اکثر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت نوح کے یہاں ان کے بیٹے کا کفر ثابت نہیں ہوا تھا اسلئے آپ اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔[8] کیونکہ اگر اپنے بیٹے کا کفر ان کے یہاں ثابت ہو چکا ہوتا تو وہ کبھی بھی انہیں کشتی میں سوار ہونے کی دعوت نہیں دیتا۔ کیونکہ خود حضرت نوح نے اس سے پہلے کفار پر نفرین کی تھی اور خدا سے ان کے اوپر عذاب نازل کرنے کی دعا کی تھی اور خدا سے یہ التجا کیا تھا کہ کافروں میں سے کسی ایک کو بھی روی زمین پر باقی نہ رکھا جائے۔ اس دعا سے اپنے بیٹے کو مستثنا کرنا نوح جیسے پیغمبروں کیلئے زیب نہیں دیتا۔[9]
بعض مفسرین حضرت نوح اور ان کے بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت نوح اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع نہیں تھا۔ کیونکہ اگر وہ اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع ہوتے تو بجائے اس کے کہے وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ [10] یہ کہتے وَلَا تَکن من الْکافِرِینَ کیونکہ پہلا جملہ جو قرآن میں بھی موجود ہے بلا اور عذاب میں شریک ہونے اور ان کے ساتھ ہمنشینی کے معنی میں ہے۔ اور اگر وہ اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع ہوتے تو کافروں کے ساتھ عذاب میں شریک نہ ہونا معنا نہیں رکھتا کیوں وہ خود بھی کافر ہے تو شریک نہ ہونا کیسا؟[11] علامہ طباطبایی معتقد ہیں کہ آیتوں کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے نوح کو ان کے اہل و عیال کو نجات دینے کا وعدہ دیا تھا اور چونکہ حضرت نوح اپنے بیٹے کے کفر سے مطلع نہیں تھا اسلئے سورہ ہود کی آیت نمبر45 میں اس وعدے کی یاد آوری کرتا ہے۔[12]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۱۳؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۴۲؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۸-۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص ۱۹۱۔
- ↑ بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۰۔
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۴۲-۴۸۔
- ↑ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۹؛ بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج ۴، ص۱۷؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۱۷؛ طبری، تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۶۶۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۴۶۔
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش،ج۹، ص۱۱۷؛ ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۸؛ طبری،تفسیر الطبری، ۱۴۱۲ق، ج ۱۲، ص۳۲؛آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔
- ↑ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۶۱؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص: ۳۵۰؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ۱۱۵؛ آلوسی،روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۶، ۲۶۶۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰۔
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۴۲۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۴۶، جوادی آملی، سیرہ پیامبران در قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۲۷۳۔
- ↑ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص: ۳۵۰- ۳۵۱۔
مآخذ
- قرآن کریم
- ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،دار الفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸ق۔
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق۔
- انزابی نژاد، رضا، «زندگی پیامبران و قصص قرآن در ادبیات فارسی (۲) نوح استوارترین مرد حق»، نشریہ پژوہشہای فلسفی دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی تبریز، شمارہ ١١٩، پاييز ١٣۵۵ش۔
- بیومی مہران، محمد، بررسی تاریخی قصص قرآن، ترجمہ مسعود انصاری، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۸۳ش۔
- پرتوی، مہدی، «ریشہہای تاریخی امثال و حکم»، نشریہ ہنر و مردم، شمارہ ۹۶ و ۹۷، مہر و آبان ۱۳۴۹ش۔
- جوادی آملی، عبداللہ، سیرہ پیامبران در قرآن، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۹ش۔
- دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ش۔
- دہخدا، علی اکبری، امثال و حکم، تہران، امیرکبیر، ۱۳۸۳ش۔
- ذوالفقاری،حسن، داستانہای امثال، تہران، مازیار،۱۳۸۵ش،چاپ دوم۔
- طباطبایی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، مترجم: موسوی، محمد باقر، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم،نوبت چاپ: ۵، ۱۳۷۴ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ: حسین نوری و محمد مفتح، تہران، نشر فراہانی، ۱۳۵۲ش۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن(تفسیر الطبری)، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ق۔
- مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ ۱، ۱۳۷۴ش۔
- مولانا، جلال الدین بلخی، مثنوی معنوی، تصحیح و مقابلہ موسوی، نشر طلوع، ۱۳۷٢ش۔