ابلیس

ویکی شیعہ سے

ابلیس اس جن یا فرشتے کا نام ہے جس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اللہ کے درگاہ سے نکال دیا گیا۔ اکثر مفسرین اسے جنات میں سے اور کچھ مفسرین اسے فرشتہ سمجھتے ہیں۔

ابلیس کا لفظ قرآن پاک میں گیارہ مرتبہ آیا ہے جس میں نو مرتبہ آدم اور سجدے کی بحث میں ذکر ہوا ہے۔[1] جبکہ شیطان اور شیاطین اٹھاسی(۸۸) مرتبہ قرآن میں آیا ہے جن میں سے اکثر مقامات پر ابلیس کے معنا میں ہے۔

وہ آدم کو حکم سجدہ کی نافرمانی کی وجہ سے لعن خدا کا مستحق ہوا اور نکال دیا گیا؛ پھر اس کی قیامت تک رہنے کی درخواست کی بنا پر خدا نے اسے وقت معین تک رہنے کی مہلت دی۔ ابلیس نے قسم اٹھائی کہ وہ دی گئی مہلت تک فرزندان آدم کو گمراہ کرنے کی مکمل سعی کرتا رہے گا۔ وہ اس سلسلے میں انسانوں کو صرف بدی کی طرف دعوت دے گا لیکن کسی کو اس کام پر مجبور نہیں کرے گا۔ آخر کار اس کے پیروکار جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

لفظی معنا

لغوی اعتبار سے اِبلیس لفظ کے متعلق دو رائے موجود ہیں:

  • بعض لغوی[2] و مفسّران،[3] لفظ ابلیس کو «افعیل» کے وزن پر کہتے ہیں کہ جسے (ب ل س) مشتق کیا گیا ہے۔ یہ لفظ لغت میں یأس، حزن، عاجز ہونے، سکوت اور ناامیدی سے پیدا ہونے والے حزن، پشیمانی، حیران کے معنا میں آیا ہے اس اعتبار سے اسے ابلیس کہا گیا ہے کہ وہ ہر طرح کی خیر یا رحمت الہی مایوس ہے۔ [4] اس اساس پر ابلیس کا غیر منصرف ہونا اس وجہ سے ہے کہ عربی زبان میں کم نظیر اور غیر عربی الفاظ سے مشابہت رکھتا ہے۔[5]
  • اکثر لغوی اس لفظ کو غیر عربی زبان کا لفظ سمجھتے ہیں اور اسکے غیر منصرف ہونے کا سبب عَلَم اور غیر عربی ہونا کہتے ہیں۔[6]

دیگر اسما

بعض روایات کی روشنی میں ابلیس کا نام حارث (حَرَث) تھا کہ جسے طویل عبادت کی وجہ عزازیل (یعنی عزیز خدا) کہا جاتا تھا۔ پس حیرانی اور تعجب کی بنا پر اس کا نام ابلیس ہوا اور سجدے سے انکار کے بعد شیطان نام پڑ گیا۔[7]

اسکے دیگر اسما «ضریس، سرحوب، المتکوّن اور المتکوّز» ہیں۔[8] زرتشتی اسے «انگْرَ مَینیو» angra maienyo کہتے ہیں۔ ابلیس کی کنیت اور القاب: اَبو مُرّه (ابو قره)، ابو کردوس، ابو لبینی (اسکی بیٹی کا نام)[9] نائل، ابو الحسبان، ابو خلاف، ابو دجانہ.[10]

شیطان کے ساتھ ارتباط

ابلیس کا لفظ قرآن پاک میں گیارہ مرتبہ آیا ہے جس میں نو مرتبہ آدم اور سجدے کی بحث میں ذکر ہوا ہے۔[11] جبکہ شیطان اور شیاطین اٹھاسی(۸۸) مرتبہ قرآن میں آیا ہے جن میں سے اکثر مقامات پر ابلیس کے معنا میں ہے۔ شیطان اسم جنس ہے اور ہر شریر، متمرد اور فریب کار کا نام ہے۔ محققین کے مطابق قرآن کریم میں آنے والے اکثر مقامات پر لفظ ابلیس سے مراد یا کم سے کم اس کا واضح ترین مصداق ابلیس ہی ہے۔[12] بعض نے تصریح کی ہے کہ شیطان اکثر ابلیس کے معنا میں استعمال ہوا ہے۔[13] اور غلبہ کی وجہ سے اس کا عَلَم(نام) ہو گیا ہے۔[14] بعض کے نزدیک الشیطان ہر جگہ ابلیس کا مترادف ہے۔[15]

ماجرائے ابلیس

اس واقعے کی اکثر تفصیلات سورہ اعراف کی آیات میں کچھ اسطرح بیان ہوئی ہیں:

جب خدا نے بشر کو مٹی اور پانی سے خلق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی تو فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ابلیس کے علاوہ تمام فرشتوں نے اسے سجدہ کیا اور ابلیس نے تکبر کیا۔ خدا نے جب اس نافرمانی کا سبب ہوچھا تو اس نے جواب دیا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ میں آگ سے خلق ہوا ہوں اور وہ مٹی کی مخلوق ہے۔ خدا نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیااور اس پر نفرین کی۔ ابلیس نے روز بَعث تک کی مہلت مانگی تو خدا نے اسے ایک معین دن تک کی مہلت دی۔[16]؛مہلت ملنے کے بعد ابلیس نے قسم اٹھائی اور کہا: میں مخلص انسانوں کے سوا تمام انسانوں کو راہ خدا سے گمراہ کروں گا اس کے بدلے میں خدا نے اسے اور اسکے پیروکاروں کو وعدہ جہنم دیا۔ قرآن میں دیگر دو مقامات پر ابلیس کی پیروی کرنے کے متعلق دو قوموں کی جانب قرآن میں اشارہ موجود ہے: پہلا مقام: سورہ سبأ،۲۰ کہ قوم سبا۔دوسرا مقام: سورہ شعراء، ۹۵ میں ابلیس اور اسکے پیروکاروں کے کام کی انتہا کے بارے میں روز جزا کی خبر مذکور ہے۔

علامہ مجلسی نے جلد ۶۰ بحار الانوار ۱۷۷ پر ایک روایت معصومین سے ابلیس اور شیطان کے باہمی ارتباط کا ذکر کیا ہے۔(ر.ک:ابلیس در روایات)

کفر ابلیس

سورہ بقرہ ، ۳۴ اور ص، ۷۴ میں آیا ہے: و کَانَ مِنَ الکفِرین. مفسرین میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفرِ عناد یا کفرِ جهالت ہے۔ بعض اس آیت:لاَقعُدَنَّ لَهم صِرَاطَکَ المُستقِیمَ (اعراف، ۱۶)( میں راستے میں بیٹھ کر انہیں گمراہ کروں گا) اور اس آیت: لَاُغوِینَّهُم... (ص/ ۳۸، ۸۲) کی بنا پر اسے حق واضلال سے آگاہ سمجھتے ہیں، اور اس کے کفر کو کفر عناد پر حمل کرتے ہیں۔ جبکہ ایک گروہ اس دلیل: علم کی موجودگی میں شقاوت کے اختیار کرنے کے محال ہونے کی وجہ سے اس کے کفر کو کفر جہالت کہتے ہیں۔[17]

کلام الہی میں فعل ماضی کے ساتھ کفر ابلیس کی وضاحت مختلف آرا و نظریات کا موجب بنی ہے: ۱. جیسا کہ آیت سے ظاہری معنا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابلیس تمرد سے پہلے کافر تھا۔ اس نظریے کی بنیاد پر اس کی طولانی عبادت ایمان و اخلاص کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ریا، نفاق اور اپنے آپ کو فرشتوں کی صف میں شامل کرنے کیلئے تھی۔[18] اس آیت: لَم أَکنْ لِاَسجُدَ لِبشر خَلقتَهُ مِن صَلصال مِن حَمإ مَسنون (حجر،۳۳) سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سجدے کے حکم صادر ہونے سے پہلے ہی کافر تھا۔[19] مزید آیات کے ظواہر، ابلیس کی فرشتوں سے مشہور گفتگو کہ جس میں اسکی طرف سے خلقت کی حکمت کے متعلق شبہات، تکلیف کا فائدہ، ... جیسے نکات اٹھائے گئے، تمام نکات کو مفسرین اسکے حکم خدا کی سر پیچی سے پہلے ہی اس کے کفر کی تائید سمجھتے ہیں۔[20]
ابلیس، پہلے مؤمن تھا لیکن اس نے بعد میں کفر اختیار کیا۔ یہ نظریہ چند صورتوں میں بیان ہوا ہے:

  • اگرچہ ابلیس ایمان رکھتا تھا لیکن خدا علم ازلی کی بنیاد پر مستقبل میں اسکے کافر ہو جانے سے آگاہ تھا۔ اس بنا پر ابلیس علم خدا میں کافروں کے زمرے میں سے تھا۔ اسی وجہ سے قرآن میں اس کے کفر کو فعل ماضی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [21]
  • ابلیس کے ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے کو کَانَ مِن الکَفرینَ کی تعبیر سے بیان کرنا اگرچہ معمولی مدت کیلئے ہی ہے لیکن ایسا طرز تکلم جائز اور عربی میں رواج رکھتا ہے۔
  • ابلیس مؤمن تھا اور کافر ہوا لہذا جملہ: کَانَ مِن الکَفرینَ صار من الکفرین(وہ کافر ہو گیا) کے معنا میں ہے۔[22]

ابلیس اور دیگر ادیان

قدیم ایام سے وجود شیطان اور شریر طاقتوں کے متعلق ادیان اور مختلف مذاہب میں بحثیں جاری ہیں ۔اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں مقدس ادیان اور پہلے کے مذاہب میں ابلیس کی حقیقت اور اس کے مقابلہ کرنے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ۔بہت سے مقامات پر اگر ایک دوسرے کے مشابہ مطالب مذکور ہیں تو بعض مقامات مختلف مقامات بھی مذکور ہیں ۔

زرتشت

یہودیت اور مسیحیت

یہودیوں اور مسیحیوں میں بھی ابلیس ایک منفور اور منفی چیز کو سمجھا گیا ہے اگرچہ سفر خلقت میں آدم و حوّا اور ان کے بہشت سے نکالے جانے میں فریب کا عامل کہا گیا ہے؛[23] البتّه عہد جدید میں سانپ کو صریح طور پر ابلیس کہا گیا ہے اگرچہ آسمانوں سے اس کے نکالے جانے کا واقعہ مختف بیان ہوا ہے۔[24] کتاب مقدّس میں ابلیس شیطان کامترادف آیا ہے۔[25] اور فرشتہ ایک نامعلوم گہرا کنواں سمجھا گیا ہے کہ جسے عبرانی زبان میں ابدون اور یونانی زبان میں اپولیون نابود کرنے والے کے معنا میں آیا ہے۔ [26] اسی طرح بار بار اس کے وسوے اور فریب کاریوں سے آگاہ کیا گیا ہے،[27] اور ان خصوصیات کے ساتھ اسے رئیس دیوہا، [28] رئیس ارواح ناپاک،[29] پلد طاقتوں کا رئیس،[30] سے تعبیر کیا گیا ہے،وہ شروع سے ہی قاتل تھااور حقیقت سے نفرت کرتا تھا اور اس کے وجود میں حقیقت کا ذرہ پیدا نہیں کیا جا سکتا،ذاتی لحاظ سے وہ جھوٹا بلکہ تمام جھوٹوں کا سرغنہ،[31] پہلے کے تمام کافروں کو باپ،[32] اور وہ اپنے لقمے کی تلاش اور نگلنے کیلئے آپ کی دشمنی میں ایک بھوکے شیر کی مانند چاروں طرف گھوم رہا ہے[33] کتاب مقدس میں ابلیس کو فرشتہ کہا گیا ہے [34] اور وہ ایک وسیع قدرت کا مالک ہے کہ اور اس کی قدرت کا احاطہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اسے دنیا کا فرمانروا،[35] گناہوں سے پر دنیا کا حاکم [36] جنون کا موجب [37] اور صرع[38] جیسے ناموں سے یاد کیا گیا ہے اور اس کی توانائی کی طرف یوں اشارہ ہوا کہ اس کی شکل و ہیئت نورانی فرشتے کی مانند ہے کہ جس کے ذریعے وہ آپ کو دھوکا دے گا،[39] کتاب مقدّس نے قساوت قلبی کو اس کے قبضہ کا سبب بیان کیا[40] اور انسانوں کو اس طرح سفارش کی ہے : شیطانی وسوسوں اور اس کی چالاکیوں کا مقابلہ اور سامنا کرنے کیلئے اپنے آپ کو خدائی ہتھیاروں سے لیس کریں۔؛[41] اسی طرح شیطانی دام میں گرفتاری سے بچنے کیلئے دوسروں کی بخشش ،[42] وسوسۂ شیطانی سے نجات کیلئے ازدواج[43] بے ایمان لوگوں سے میل جول [44] خداوند کے سہارے کو اختیار کرنے اور اس پر باقی رہنے[45] کو شیطان سے مقابلے کی صورتیں بیان کی گئی ہیں نیز جہنم کی آگ کو شیطان اور شریر روحوں کا اصلی ٹھکانہ کہا گیا ہے۔ [46]

ہالیوڈ سینما میں شیطان کا چہرہ

مسیحی انجیل کی فکر شیطان کو غیر معمولی توانائیوں کا حامل ایک طاقتور فرشتہ لیکن موجودہ دنیا کے فرمانروا کا راندہ ہوا بیان کرتی ہے۔[47] ہایلیوڈ کے متعدد رائٹر اور پروڈیوسروں نے اپنے آثار میں اسے خدا کے مقابلے میں ایک مستقل قدرت کے طور پر نمایاں کیا نیز شیطان پرستی کیلئے مقدمات فراہم کئے اور اسے تقویت بخشی ہے۔ یہ فکر مکمل طور پر اسلامی فکر کے مخالف ہے جس میں شیطان ایک ایسا ضعیف موجود ہے جو کسی پر قبضہ و سلطہ نہیں رکھتا ہے۔

شیطان پرستی

شیطان پرستی ایک عام معنا کے مطابق : شیطان کی اطاعت کرنا اور اسے معبود سمجھ کر اس کی پرستش کرنا ہے۔ آجکل شیطان پرستی کے نام سے مختلف گروہ موجود ہیں۔ اس قسم کے افکار کوئی نئے افکار نہیں بلکہ ان افکار کا ہزاروں سال کا سابقہ ہے اور بعض اس کی دلیل انسانوں کی جانب سے ہزاروں سال پہلے سے ہر طاقتور اور قدرت مند موجود کی پرستش یا شر و خیر کے نام سے دو خداؤں کے وجود کی فکر کو سمجھتے ہیں اور اسے شیطان پرستی کا ریشہ سمجھتے ہیں۔

بعض کو صرف ضد دینی اور ضد اخلاقی رفتار کی وجہ سے شیطان پرست کہا جاتا ہے اور حقیقت میں وہ لوگ شیطان کو ایک غیر معمولی طاقت اور قدرت کے طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ وہ خدا کو اپنا محور قرار دینے کی بجائے اپنی ذات کو محور قرار دیتے ہیں ۔بعض لوگ شیطان کو خدا سے زیادہ بڑا طاقتور اور قدرتمند ایک موجود سمجھتے ہیں اور اسکی پرستش کا قائل ہیں۔ اکثر شیطان پرستوں کا محور سحر اور جادو ہے۔[48]

حقیقت ابلیس

ماہیت و حقیقت کے لحاظ سے ابلیس جنّ ہے یا ملائکہ، اس کے متعلق اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

جن ہونا

حسن بصری اور قتاده نے ابن زید کی روایت میں ،بلخی، رمانی[49] اور بہت سے دیگر علما جیسے سید مرتضی، ابوالفتوح رازی،[50] زمخشری،[51] قمی،[52] سید قطب[53] و مغنیہ،[54] نے ابلیس کو جن کہا ہے۔

شیخ مفید، شیعوں کو اس رائے کا پابند سمجھتے ہیں۔[55] فخر رازی اسے معتزلہ سے منسوب کرتا ہے۔[56] اس رائے کے بہت سے قائلین کئی روایات سے بھی استفاد کرتے ہیں۔[57][58]

اس اعقتاد کے قائلین روایات [59] کے علاوہ درج ذیل دلائل ذکر کرتے ہیں:

  1. قرآن کی واضح آیت کے مطابق وہ جنوں میں سے تھا: فَسجَدوا إِلاَّ إِبلیس کَانَ مِن الجِنِّ فَفَسقَ عَن أَمرِ رَبِّهِِ (کہف، ۵۰)
  2. انسان کی خلقت مٹی سے اور جن کی خلقت آگ سے ہوئی ہے۔(حجر، ۲۶ و ۲۷) روایات کے مطابق ملائکہ نور، ہوا اور روح سے خلق ہوئے ہیں۔[60] اور ابلیس نے اپنی خلقت خود آگ سے بیان کی: خَلقتَنِی مِن نَار و خَلقتَهُ مِن طِینِ (ص،۷۶) پس اس ابنیاد پر ابلیس جنات میں سےہے جو آگ سے خلق ہوا۔
  3. ابلیس کہ جس نے استکبار کیا اور آخرکار خدا کی نافرمانی کی۔ وہ ملائکہ سے نہیں ہو سکتا کیونکہ ملائکہ معصوم ہیں اور وہ کبھی حکم الہی سے سر پیچی نہیں کرتے ہیں۔[61]

اس نظریے کے مطابق سجدے کے حکم میں اس کا شامل ہونا یا ملائکہ سے اسے جدا کرنا اس بات کو بیان نہیں کرتا کہ وہ فرشتوں میں سے تھا،کیونکہ یہ استثنا یا تو منقطع ہے یعنی اس استثنا کے مطابق ابلیس فرشتوں کی جنس میں سے نہیں ہے، اور ایسا کلام عرب میں رائج اور متداول ہے اور اس کے کئی فوائد ہیں ؛ یا یہ استثنا متصل ہے لیکن درج ذیل ادلہ کی بنا پر ابلیس کو فرشتوں میں سے شمار کیا گیا:

  1. فرشتوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے باب تغلیب کی رعایت کرتے ہوئے ابلیس پر فرشتے کا اطلاق ہوا ہے۔[62]
  2. ابلیس کثرت عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے ملائکہ میں شمار ہونے لگا اور ان سے بالا تر مقام پر فائز ہوا جب فرششتوں کو سجدے کا حکم ہوا تو ابلیس جو کہ جنات میں سے تھا اور فرشتوں سے برتر مقام رکھنے کی وجہ سے سجدہ کرنے کے حکم میں ملائکہ کی نسبت سجدے کا زیادہ سزاوار ہے۔[63]
  3. فسجدواِ کے لفظ میں اگرچہ جمع کی ضمیر فرشتوں اور جنات سب کی طرف لوٹتی ہے؛ لیکن خداوند نے ملائکہ کے عظمت و بلند مقام و منزلت کی وجہ سے صرف ملائکہ کا ذکر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کے سامنے تذلل اور خضوع کا اظہار کریں۔ جب یہ جان لیا کہ اعلی مراتب کے حاملین کو سجدے کا حکم دیا گیا تو کم تر مرتبے والوں کو بدرجہ اولی سجدے کا حکم ہے۔[64]

فرشتہ ہونا

ابن عبّاس، ابن مسعود، قتاده، سعید بن مسیب، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، شیخ طوسی، بیضاوی نیز دیگر ایک جماعت ابلیس کو ملائکہ میں سے سمجھتے ہیں۔[65] آلوسی نے اس نظریے کو صحابہ اور تابعین کی طرف زیادہ نسبت دی ہے۔[66] اس نظریے کے قائلین کے دلائل :

اس نظریے کے قائلین نے اسے دھتکارے جانے سے پہلے ابلیس دنیاوی فرشتوں کا سربراہ، زمین اور دنیا کا سلطان اور بہشت کا خززانہ دار[67] شمار کیا ہے۔اس نظرئے کے صاحبان روایات،[68] کے علاوہ و إِذ قُلنَا لِلملَائِکةِ اسجُدوا (بقره،۳۴) جیسی آیات کے ظاہر سے استناد کرتے ہوئے کہا: اگر ابلیس ملائکہ میں سے نیں تھا تو سجدے کا حکم اسے شامل نہیں ہو سکتا تھا لہذا (اس یعنی مجھے تو حکم ہی نہیں دیا گیا) سجدہ نہ کرنے کا بہانہ کر سکتا تھا؛ اسی طرح چند آیات میں سے ابلیس کو جدا کرنا اسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا؛ اس صورت (یعنی وہ فرشتہ تھا) کے علاوہ ضروری ہے کہ استثا کو منقطع مانیں کہ جس کا لازمہ یہ ہے کہ اسے مجاز پر حمل کریں اور ایسا کرنا ظاہر کے خلاف ہے نیز یہ مستلزم[69] ہے کہ عمومات کو تخصیص لگائیں اور یہ عذر ابلیس کو جن ماننے سے لازم آتے ہیں لہذا اس سے بہتر ہے ہم اسے ملائکہ میں شمار کریں ۔[70]

اس نظر کے قائلین کَانَ مِنَ الجِنِّ (کہف، ۵۰) کے مقابلے میں کہتے ہیں:

بعض معتقد ہیں کہ جنات اور فرشتوں کی نوع میں کسی قسم کا تفاوت نہیں ہے بلکہ جن ملائکہ کی ایک قسم ہے۔ اس نظریے کا شاید قدیم ترین مآخذ ابن عبّاس کی اس روایت کو کہا جائے: ابلیس ملائکہ میں سے تھا اور اس کا نام جن تھا اور ملائکہ میں سے صرف یہ گروہ آگ سے خلق ہوا تھا جسے نارالسموم کہتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ فرشتے سے معصیت کس طرح سر زد ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن سے صرف بعض فرشتوں کی عصمت سمجھی جاتی ہے تمام فرشتوں کی عصمت قرآن سے ماخوذ نہیں ہے۔[71] اور اس جماعت کے جن نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ فرشتے جنت یا جہنم کے خزانہ دار ہونے کی وجہ سے نظروں سے پوشیدہ ہیں اس لئے انہیں جن کہا جاتا ہے۔[72]
بعض کے بیان کے مطابق ابلیس ابتدا میں ملائکہ میں سے تھا نافرمانی کے بعد مسخ ہوا اور جنات میں ہو گیا[73] ان قائلین کے مطابق کَانَ مِنَ الجِنِّ (کہف،۵۰) وہ جنات میں سے ہو گیا کے معنا میں ہے۔شاید اسے زمخشری کے کلام پر منطبق کیا جا سکتا ہے پس اس بنا پر اس آیت فَاخرُج مِنهَا میں خروج کا معنا پہلی خلقت سے خروج کیا جائے ،یعنی وہ پہلے زیبا نورانی اور سفید تھا اور (نافرمانی کے بعد) اسے سیاہ، بدصورت اور ظلمت میں تبدیل کر دیا گیا۔ [74]

ابلیس کی خلقت اور مہلت کا فلسفہ

خدا کی جانب سے آدم کو سجدے کی نافرمانی اور اللہ کی جانب سے دھتکارے جانے کے بعد ابلیس نے خدا سے درخواست کی کہ اسے قیامت تک کی مہلت دی جائے۔اللہ نے جواب میں اسے ایک معین وقت تک مہلت دی قرآن اس روداد کو سورہ حجر کی ۳۶ تا ۳۸ کی آیات میں یوں بیان کرتا ہے:

قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ؛
اس نے کہا :اے میرے پروردگار!لوغوں کے زندہ کئے جانے تک مجھے مہلت دے۔اس نے جواب دیا:تو وقت معلوم تک مہلت حاصل کرنے والوں میں سے ہے۔

بعض حدیثی منابع میں منقول روایات کے مطابق ابلیس کی طولانی عبادتوں کے بدلے میں اسے مہلت دی گئی ہے۔[75]

شیعہ تفسیری آثار میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ جب خدا اس بات سے آگاہ تھا کہ ابلیس سے صرف شر ہی پھوٹنا تھا تو خدا نے اسے کیوں خلق کیا بلکہ نافرمانی کے بعد اس کی قیامت تک مہلت کی درخواست بھی قبول کر لی۔ [76] ملا صدرا اپنی تفسیر میں لکھتا ہے: خلقت شیطان کی بہت سی حکمتیں ہیں جن کے متعلق خدا کے علاوہ کسی کو آگاہی نہیں ہے۔[77]

وقت المعلوم ابلیس کا انجام کار

ابلیس کی زندگی کا خاتمہ قرآنی زبان کی زبان کے مطابق وقت معلوم کے متعلق روایات مختلف ہیں نیز ان کی اسناد زیادہ محکم نہیں ہیں :

بعض کے مطابق امام زمان(عج) ظہور میں اسکی گردن ماریں گے۔[78]
ایک اور حدیث میں آیا ہے : ابلیس کی موت کا وقت اسرافیل کے پہلے اور دوسرے صور پھونکنے کے درمیان کا وقت ہے [79]
ابلیس رجعت کے دوران رسول اللہ کے ہاتھوں قتل ہو گا۔[80]

علامہ مجلسی مختلف احادیث نق کرنے کے بعد معتقد ہے: شیطان قیامت سے پہلے موجود ہو گا اور اسکی موت نفخ صور کی بدولت ہو گی۔ [81]

علامہ طباطبایی کہتے ہیں: انسان کے مکلف ہونے اور شیطان کے اغوا کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے اور ممکن ہے کہ شیطان کے موجود ہوئے ایک صالح معاشرہ موجود ہو سکتا ہے اور لوگ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش کر رپے ہوں۔ [82]

خداوند نے ابتدائے سخن میں ہی ابلیس اور اسکے پیروکاروں کے جہنمی ہونے سے اس پر غضب الہی کا یوں اعلان کیا:

قَالَ فَالحقُّ وَالحَقَّ أَقولُ لَاَملأنَّ جَهنّمَ مِنکَ و مِمَّن تَبِعَکَ مِنهُم أَجمعین (ص،۸۴و ۸۵)
ارشاد ہوا کہ پھر حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔ (84) کہ میں بھی دوزخ بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے.

جہنّم کو اس کا ٹھکانہ کہا ہے:

قالَ اذهَبْ فمَن تَبِعکَ مِنهُم فَإِنَّ جَهنَّم جَزاؤُکُم جَزاءً مَوفوراً(اسراء،۶۳)
ارشاد ہوا چل نکل جا! ان میں سے جو کوئی بھی تیری پیروی کرے گا تو بے شک جہنم تم سب کی پوری پوری سزا ہے۔

قرآنی آیات کی بنیاد پر روز حشر خدا کے فیصلے کے بعد ابلیس[83] اپنے پیروکاروں سے اعلان برات کرتے ہوئے کہے گا کہ تم اپنے گناہوں کے خود ذمہ دار ہو نیز کہے گا :خدا نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے جو وعدہ تمہیں دیا تھا میں اس کی مخالفت کی۔ مجھے تم پر کسی قسم کا کوئی تسلط حاصل نہیں تھا سوائے اسکے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میری پکار پر لبیک کہا؛ پس مجھے سرزنش نہ کرو اپنے آپ کو ملامت کرو۔ اب میں تمہارا فریاد رس نہیں ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہو سکتے ہو:

و قالَ الشَّیطَنُ لَمّا قُضِی الأَمرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدکُم وَعدَالحَقِّ و وَعدتُّکُم فَأَخلَفتُکُم و مَا کَانَ لِی عَلیکُم مِن سُلطن إلاَّ أَن دَعوتُکُم فَاستَجبتُم لِی فَلاَتَلومونِی و لوموا أَنفسَکُم مَا أَنَا بِمُصرِخِکُم و مَا أَنتُم بِمُصرِخِی إِنِّی کَفرتُ بِمَا أَشرکتُمونِ مِن قَبلُ إِنَّ الظَّلِمینَ لَهُم عَذابٌ أَلیمٌ(ابراہیم، ۲۲)
اور جب (ہر قسم کا) فیصلہ ہو جائے گا تو اس وقت شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی تسلط (زور) تو تھا نہیں سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (کفر اور گناہ کی) دعوت دی اور تم نے میری دعوت قبول کر لی پس تم مجھے ملامت نہ کرو (بلکہ) خود اپنے آپ کو ملامت کرو (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو اس سے پہلے (دنیا میں) جو تم نے مجھے (خدا کا) شریک بنایا تھا میں اس سے بیزار ہوں بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

آخرکار وہ سب اپنے نہائی انجام کو پہنچ جائیں گے اور انہیں دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا:

فَکُبکِبوا فیهَا هُم وَالغَاوُونَ و جُنودُ إِبلیسَ أَجمَعونَ (شعراء،۹۴و۹۵)

حوالہ جات

  1. سورہ بقرہ، آیت ۳۴؛ سورہ اعراف، آیت۱۱؛ سورہ حجر، آیت ۳۱، ۳۲؛ اسراء،؛ کہف، ۵۰ ؛ طہ، ۱۱۶؛ ص، ۷۴ و ۷۵
  2. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۷ق، مج۱، ج۱، ص۳۶۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج۱، ج۱، ص۳۲۵.
  3. مفردات، ص۱۴۳؛ مقاییس، ج۱، ص ۳۰۰؛ العین، ص ۹۳، «بلس».
  4. تاج العروس، ج ۸، ص ۲۰۸، «بلس».
  5. مجمع البحرین، ج۱، ص۲۳۹؛ لسان العرب، ج۱، ص۴۸۳، «بلس».
  6. دائرة المعارف الاسلامیہ، ج ۱۴، ص ۵۱ ؛ قاموس کتاب مقدس، ص۵۴۵ ؛ معجم الاهوت، ص ۴۶۶.
  7. دائرة المعارف الشیعیه، ج۲، ص ۱۹۹.
  8. مجمع البحرین، ج ۱، ص ۲۳۹؛ روح البیان، ج ۸، ص ۵۹.
  9. ابلیس فی القرآن و الحدیث، ص ۱۲؛ اعلام قرآن، ص ۷۸؛ کشف الاسرار، ج ۱، ص ۱۴۵.
  10. مفردات، ص ۱۴۳، «بلس»؛ تاج العروس، ج ۸، ص ۲۰۹، «بلس»؛ مقاییس، ج ۱، ص ۳۰۰، «بلس».
  11. سورہ بقرہ، آیت ۳۴؛ سورہ اعراف، آیت۱۱؛ سورہ حجر، آیت ۳۱، ۳۲؛ اسراء،؛ کہف، ۵۰ ؛ طہ، ۱۱۶؛ ص، ۷۴ و ۷۵
  12. المیزان، ج ۷، ص ۳۲۱.
  13. روح المعانی، مج ۳، ج ۴، ص ۲۰۲.
  14. اعلام القرآن، ص ۸۳.
  15. مجمع البیان، ج ۶، ص ۴۷۸.
  16. قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِی إِلَیٰ یوْمِ یبْعَثُونَ ﴿۷۹﴾ قَالَ فَإِنَّک مِنَ الْمُنظَرِ‌ینَ ﴿۸۰﴾ إِلَیٰ یوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿۸۱﴾ سوره ص و قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِی إِلَیٰ یوْمِ یبْعَثُونَ ﴿۳۶﴾ قَالَ فَإِنَّک مِنَ الْمُنظَرِ‌ینَ ﴿۳۷﴾ إِلَیٰ یوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿۳۸﴾ سوره حجر
  17. الکبیر، ج ۱۴، ص ۳۹.
  18. مجمع البیان، ج ۱، ص ۱۹۱؛ روض الجنان، ج ۱، ص ۲۱۳.
  19. طباطبائی، المیزان، ج۱۲، ص۱۵۵.
  20. طباطبائی، المیزان، ج۸، ص۴۸.
  21. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱۲، ج ۲۳، ص ۲۲۰؛ مجمع البیان، ج۱، ص۱۹۱.
  22. التفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۲۳۷؛ مجمع البیان، ج ۱، ص ۱۹۱.
  23. ایضا، مکاشفہ ۱۲:۷ ۱۰.
  24. ایضا، ۱۲:۱۰.
  25. ایضا، ۹:۱۱.
  26. ایضا، اعمال رسولان، ۲۶:۱۸.
  27. ایضا، متی ۱۲:۲۴.
  28. ایضا، ۹:۳۴؛ مرقس ۴:۲۲.
  29. ایضا، افسیسان ۲:۲.
  30. . ایضا:یوحنا ۸ :۴۳ ۴۵.
  31. ایضا:یوحنا ۸ :۴۳ ۴۵.
  32. ایضا:یوحنا ۸ :۴۳ ۴۵.
  33. ایضا، نامہ اول پطرس ۵ :۸.
  34. قاموس کتاب مقدّس، ص ۵۴۵.
  35. کتاب مقدّس، یوحنا ۱۲:۳۱ ۳۲.
  36. ایضا:نامہ دوم قرنتیان ۴:۳ ۵.
  37. ایضا، مرقس ۵:۱ ۲۰.
  38. کتاب مقدس، مرقس ۹:۱۷-۲۷.
  39. ایضا، نامہ دوم قرنتیان ۱۱:۱۴ ۱۶.
  40. ایضا، مرقس ۴:۱۵.
  41. ایضا، افسیسان ۶:۱۱.
  42. ایضا، نامہ دوم قرنتیان ۲:۱۱.
  43. کتاب مقدّس، نامہ اول قرنتیان ۷:۵.
  44. ایضا، نامہ دوم قرنتیان ۶ :۱۲ ۱۵.
  45. کتاب مقدّس، نامہ اول پطرس ۵ :۸.
  46. کتاب مقدّس، متی ۲۵:۴۱ و نامہ دوم قرنتیان ۱۱:۱۴.
  47. کتاب مقدّس، یوحنا ۱۲:۳۱ ۳۲.
  48. ره توشه جوانان، ص۱۵۹-۱۷۲.
  49. طوسی، التبیان، ج۱، ص۱۵۱.
  50. روض الجنان، ج ۱، ص ۲۱۲.
  51. الکشّاف، ج ۱، ص ۱۲۷.
  52. کنز الدقائق، ج ۱، ص ۳۵۱.
  53. فی ظلال، ج ۱، ص ۵۸.
  54. الکاشف، ج ۱، ص ۸۳.
  55. مجمع البیان، ج ۱، ص ۱۸۹.
  56. التفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۲۱۳.
  57. کشف الاسرار، ج ۳، ص ۵۷۰ ؛ طوسی، التبیان، ج۱، ص۱۵۲.
  58. بحارالانوار، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصہ، ح ۴۷ و ۵۴ و ۵۵ و ۱۰۹ و ۱۳۳ و ۱۴۲
  59. عیاشی، ج ۱، ص ۳۴؛ البرہان، ج ۱، ص ۱۷۰؛ بحارالانوار، ج ۱۱، ص ۱۴۴.
  60. التفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۲۱۴، الدرالمنثور، ج ۱، ص ۱۲۴.
  61. لاَیعصونَ اللّهَ مَا أَمرَهُم و یفعلونَ مَا یؤمَرونَِ (تحریم، ۶) بلکہ وہ جن میں سے سے ہے کہ جن میں سے بعض فرمانبردار اور بعض منحرف ہوتے ہیں۔و أَنَّا مِنَّا المُسلِمونَ و مِنَّا القَسطونَِ (جن، ۱۴)، و أَنَّا مِنَّا الصّالحون وَ مِنَّا دوُنَ ذلِکَ کُنَّا طَرائِقَ قِدَداً.ِ (جن،۱۱)
  62. الکشّاف، ج ۱، ص ۱۲۷.
  63. الکشّاف، ج۳، ص۹۱؛ تفسیرموضوعی، ج۶، ص۲۵۷.
  64. کنزالدقائق، ج ۱، ص ۳۵۱.
  65. طوسی، التبیان، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، ج ۱، ص ۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج ۱، ص۳۲۱.
  66. روح المعانی، مج ۱، ج ۱، ص ۳۶۵.
  67. طوسی، التبیان، ج۱، ص۱۵۱.
  68. تاریخ بلعمی، ج ۱، ص ۱۶؛ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲، ص ۳۸۶ ۳۸۷؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج۱، ج۱، ص۳۲۱.
  69. التبیان، ج ۱، ص ۱۵۳.
  70. التفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۲۱۵؛ مجمع البحرین، ج ۱، ص ۲۳۹.
  71. التبیان، ج ۱، ص ۱۵۲.
  72. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج۱، ج۱، ص۳۲۲؛ التبیان، ج۱، ص۱۵۲؛ آلوسی، روح المعانی، مج۱، ج۱، ص۳۶۵.
  73. روح المعانی، مج ۱، ج ۱، ص ۳۶۵.
  74. الکشّاف، ج ۴، ص ۱۰۷.
  75. شیخ صدوق، علل الشرائع، ۱۴۰۸ق، ص ۱۷۸.
  76. المیزان، ج ۸، ص ۵۴ - ۶۹.
  77. تفسیر ملاصدرا، ج ۵، ص ۲۸۶ و ۲۸۷.
  78. امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک روز ہمارا قائم ظہور کرے گا ،وہ ابلیس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑے گا اور اس کی گردن اڑا دے گا۔ تفسیر عیاشی، ج ۱۲، ص ۱۷۵.
  79. بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۴۴
  80. بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۴۴
  81. مجلسی، بحارالانوار، ج۶۰، ص۲۴۴.
  82. علامہ طباطبایی، المیزان، ج ۱۲، ص ۱۶۰
  83. مجمع البیان، ج ۶، ص ۴۷۸.

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم،کوشش: محمد حسین عرب، اول، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
  • آملی، عبد اللہ، تفسیر موضوعی قرآن کریم، تہران، اسراء و رجاء، ۱۳۷۳ش.
  • ابن فارس، معجم مقاییس اللغہ،کوشش: عبدالسلام محمد ہارون، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۰۴ق.
  • ابن کثیر، البدایة و النهایه،کوشش: علی محمد معوض و عادل احمد، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن منظور، لسان العرب،کوشش: علی شیری، اول، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق.
  • بحرانی، سید هاشم، البرهان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسه البعثة، ۱۴۱۵ ق.
  • بیضاوی شیرازی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۶ق.
  • خلیل بن احمد، ترتیب کتاب العین،کوشش: محمد حسن بکایی، اول، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۴ق.
  • دائرة المعارف الاسلامیہ، ترجمہ: احمد شنتاوی و دیگران، بیروت،‌ دار المعرفہ، ۱۹۳۳م.
  • دائرة المعارف الشیعیہ العامہ، محمد حسین الاعلمی الحائری، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، الطبعہ الثانیہ، ۱۴۱۳ه‍.ق
  • رازی، ابوالفتوح، روض الجنان و روح الجنان،کوشش: یاحقی و ناصح، اول، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
  • راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن،کوشش: صفوان عدنان داوودی، اول، دمشق،‌ دار القلم، ۱۴۱۲ق.
  • زبیدی، سید محمد مرتضی، تاج العروس من جواہرالقاموس،کوشش: علی شیری، اول، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق.
  • سید قطب، فی ظلال القرآن، قاهرة،‌ دار الشروق، ۱۴۰۰ق.
  • سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
  • شبستری، عبدالحسین، اعلام القرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۹ش.
  • صادقی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، تہران، فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۵ش.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویه، علل الشرایع، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۸ق.
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، بیروت، اعلمی، افست، قم، انتشارات اسلامی، ۱۳۹۳ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار المعرفہ، افست، تہران، ناصر خسرو، ۱۴۰۶ق.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آیت القرآن،کوشش: صدقی، جمیل العطار، اول، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین،کوشش: محمود عادل و احمد حسینی، دوم، تہران، نشر فرہنگ اسلامی، ۱۴۰۸ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیرالقرآن،کوشش: احمد حبیب العاملی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، [بی‌تا].
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی،کوشش: رسولی محلاّتی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ [بی‌تا].
  • فخر رازی، التفسیر الکبیر، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۳ق.
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب،کوشش: حسین درگاہی، اول، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،کوشش: علی اکبر غفاری، سوم، بیروت،‌ دار التعارف، ۱۴۰۱ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • مصباح یزدی، محمدتقی، معارف قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ امام خمینی.
  • مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ۱۹۸۱م.
  • میبدی، رشیدالدین، کشف الاسرار و عدة الابرار،کوشش: علی اصغر حکمت، چہارم، تہران، امیر کبیر، ۱۳۶۱ش.
  • نہج البلاغہ، صبحی صالح، تہران،‌ دار الاسوه، ۱۴۱۵ق.
  • ہاکس، جیمز، قاموس کتاب مقدس، تہران، اساطیر، ۱۳۷۷ش.

بیرونی رابط