مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(تفسیر مجمع البیان سے رجوع مکرر)
مجمع البیان فی تفسیر القرآن
مشخصات
مصنفابوعلی فضل بن حسن طبرسی (468-548 ھ)
سنہ تصنیفسنہ 536ھ
موضوعتفسیر قرآن
مذہبشیعه
تعداد جلد10


مجمعُ البیان فی تفسیر القُرآن، قرآن کریم کی اہم تفاسیر میں سے ہے جسے شیعہ عالم دین و مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548 ھ) نے تالیف کی ہے۔ اس تفسیر کی شیعہ اور سنی دانشوروں نے تعریف کی ہے اور اسے علم تفسیر میں قدیمی ترین منابع میں سے شمار کیا ہے۔ محققین نے اس کتاب کی اہمیت، جامعیت، مطالب کے اتقان و استحکام، دقیق ترتیب، روشن و مفید تفسیر اور تنقید میں انصاف کی رعایت کی وجہ سے ذکر کی ہے۔

یہ تفسیر قرائت، اعراب، لغات، بیان مشکلات، معانی اور بیان کے موارد کا ذکر، شأن نزول آیات، شان نزول میں وارد ہونے والی احادیث اور مختلف قصص و حکایات کی توضیح و تبیین جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ مجمع البیان کے قابل ذکر نکات میں سے ایک اس کے موضوعات اور آیات میں تناسب ہے۔ اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ طبرسی شیعہ مفسرین میں ایک بے نظیر مفسر ہے جو علم مناسبات سے مکمل آگاہ تھے۔

مولف کے بارے میں

تفصیلی مضمون: فضل بن حسن طبرسی

شیعہ مفسر، متکلم اور فقیہ امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی چھٹی صدی ہجری کے بڑے علماء میں سے ہیں۔ اکثر مورخین اور تاریخ نگاروں نے ان کی علمی مقام اور شان و منزلت کے بارے میں لکھا ہے اور انہیں نیک الفاظ میں یاد کیا ہے۔ انکی محل ولات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ان کی علمی اور فکری شخصیت مشہد اور سبزوار میں پروان چڑھی ہے اور وہیں پر ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ انکا مدفن مشہد میں امام رضا(ع) کے حرم کے نزدیک ایک شاہراہ کے کنارے پر ہے اسی وجہ سے اس شاہراہ کا نام بھی خیابان طبرسی رکھا گیا ہے۔[1]

طبرسی کئی قسم کے تفاسیر کے ملک ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں تین قسم کی تفاسیر لکھے ہیں: مجمع البیان، جوامع الجامع اور الکافی الشافی۔ ان میں سے سب سے زیادہ مفصل تفسیر یہی تفسیر ہے اور سب سے مختصر تفسیر الکافی الشافی ہے۔ جواع کے مقدمے میں موجود مطالب کے مطابق مجمع البیان اور الکافی الشافی کے لکھنے کے بعد آپ کی نظر تفسیر کشاف پر پڑتی ہے اور زمخشری کی ادبی، بلاغی اور عقلی گرایش اسے متعجب کرتی ہے اس بنا پر تفسیر کشاف سے متأثر ہو کر مجمع البیان کی نسبت مختصر تفسیر لکھتے ہیں۔[2]

لکھنے کا مقصد

بعض مورخین نے علامہ طبرسی سے ایک داستان نقل کیا ہے جس میں وہ اس تفسیر کے لکھنے کے علل اسباب کے بارے میں کہتے ہیں کہ علامہ طبرسی کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے اور ان کے ورثاء اس خیال سے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں انہیں دفن کر دیتے ہیں۔ جب قبر میں پہنچ جاتا ہے تو آپ ہوش میں آجاتے ہیں اس وقت آپ نذر کرتے ہیں کہ اگر خدا انہیں اس قبر سے نجات دے دیں تو وہ قرآن کی ایک تفسیر لکھیں گے۔ اتفاق سے اسی رات ایک کفن چور کقن چوری کرنے کے قصد سے ان کی قبر کھودتے ہیں یوں علامہ طبرسی قبر سے باہر آجاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے نذر کی وفا کی خاطر ایہ تفسیر لکھی ہے۔

اس داستان کو پہلی بار مرحوم افندی نے ریاض العلماء میں نقل کیا ہے۔[3] اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مرحوم طبرسی چھٹی صدی ہجری کے علماء میں سے تھے اور مرحوم آفندی بارہویں صدی ہجری کے علماء میں سے، یہ داستان سند کا محتاج ہے لیکن مرحوم آفندی نے اسے بغیر سند کے نقل کیا ہے اور مرحوم محمدث نوری بھی تصریح کرتے ہیں کہ یہ داستان ریاض العلماء سے قبل کسی بھی منابع میں مذکور نہیں ہے ۔[4]

علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیر:
سنی تفاسیر:
تفسیری رجحان
تفسیری روشیں
اقسام تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر

معرفی

مجمع البیان میں: قرائت، اعراب، لغات، بیان مشکلات، معانی و بیان کے موارد کا ذکر، شأن نزول آیات، شان نزول میں واردہ احادیث اور قصص و حکایات کی شرح و تبیین جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر شیخ طوسی کی تفسیر تبیان سے زیادہ مؤثر تر ہے۔اس تفاوت کے ساتھ کہ علامہ طبرسی نے مباحث کی تقسیم‌بندی کے ذریعے بہتر استفادہ کرنے کیلئے زمینہ ہموار کیا ہے۔ جو شخص تفسیر کے جس حصے کا مطالعہ کرنا چاہے آسانی کے ساتھ اس حصے کے ادبیات، قرائت اور تفسیر کی طرف مراجعہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ مجمع البیان میں مباحث کو موضوع وار بیان نہیں کرتا بلکہ اہل سنت مفسرین کی نظریات کو نقل کرکے عالمانہ انداز میں بحث کرتے ہیں.[5]

مجمع البیان کی قابل ذکر نکات میں سے ایک اس کے موضوعات اور آیات میں تناسب ہے۔ اس بنا پر کہ سکتے ہیں کہ طبرسی شیعہ مفسرین میں ایک بے نظیر مفسر ہے جو علم مناسبات سے مکمل آگاہ تھے۔[6]

تفسیری روش اور گرایش

مجمع البیان ادبی تفسیر کا کامل نمونہ ہے۔[7] علامہ طبرسی اس تفسیر میں پہلے ایک سورے کی چند آیات کو ذکر کرتے ہیں اس کے بعد ان آیات میں بیان ہونے والے معارف کو ایک عنوان کے تحت تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں پہلے قراء کے درمیان قرأت میں اختلاف کو "حجت" کے عنوان سے اسکے بعد مشکل الفاظ کو عربی گرائمر کے تمام قواعد و ضوابط کی روشنی میں بررسی کرتے ہیں اگلے مرحلے میں اسباب نزول پھر آیات کے اس مجموعے کے مفہوم کو "نظم" کے عنوان کے تحت دوسرے مفاہیم سے مرتبط کرتے ہوئے ان کی شرح دیتے ہیں۔

قرآن کی تفسیر میں اس طرح کی روش اور فصل بندی قارئیں کو اپنے مشکلات جو کہ ان ابواب اور فصول میں سے کسی ایک کے ضمن میں موجود ہوتی ہے، کو بہ آسانی تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے اور دوسرے تفاسیر کی طرح اپنی مشکل کو دریافت کرنے میں تمام صفحات پلٹانے نہیں پڑتا۔[8]

مجمع البیان کی اہمیت

تفسیر مجمع البیان جہان اسلام کا ایک اہم ترین اور قیمتی تفسیر ہے جسے شیعہ اور سنی دونوں فریق کے دانشمندوں نے مورد توجہ قرار دیا ہے اور اسے علم تفسیر کے منابع میں شمار کرتے ہیں۔ یہ تفسیر قدیمی تفاسیر میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے کیونکہ ایک مناسب روش کے ساتھ فصل بندے کے طریقے پر لکھی گئی ہے ۔ اہل سنت کے مشہور مفتی شیخ شلتوت نے اس کتاب پر لکھی گئی اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:[9]

"مجمع البیان تفاسیر میں ایک بے مثال تفسیر ہے۔ یہ تفسیر اپنی جامعیت، عمیق اور متنوع مطالب، فصل بندی اور منظم ترتیب کی وجہ سے کتب تفاسیر میں ایک خاص مقام رکھتی ہے "

مجمع البیان کی اہمیت اس کی جامعیت، مطالب میں اتقان و استحکام، دقیق ترتیب، روشن اور مفید تفسیر اور تنقید میں انصاف کی رعایت کی وجہ سے ہے۔[10]

نشر و اشاعت اور ترجمہ

مجمع البیان اب تک مصر، بیروت اور تہران میں کئی بار منظر عام پر آچکی ہے۔ جنکی کثرت کی وجہ سے ایک ایک ایڈیشن کی طرف اشارہ کرنا یہاں پر ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان میں سے ایک ایڈیش جسے مرحوم علامہ ابو الحسن شعرانی کی تحقیق کے ساتھ تہران میں منظر عام پر آئی ہے، ایک منفرد خصوصیات منجملہ ادبی، تاریخی، تفسیری، کلامی اور اعتقادی مسائل کے مفید اور قیمتی مطالب پر مشتمل ہے۔ اس ایڈیشن کی ایک اور خصوصیت جو قابل ذکر ہے وہ اس کا مقدمہ ہے جس میں مؤلف کی حالات زندگی اور علم تفسیر اور اس کے طبقات پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔[11]

  • تہران، مکتبۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1338 ھ، تصحیح و تعلیق ابو الحسن شعرانی، قطع رحلی.
  • قاہرہ، دار التقریب بین المذاہب الاسلامیہ، با مقدمہ شیخ محمود شلتوت، 12 جلد، قطع وزیری.
  • بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1379 ھ، قطع رحلی 10 جزء در 5 جلد.

یہ تفسیر 30 جلدوں میں مترجمین کی ایک گروہ کے توسط سے فارسی میں ترجمہ ہوا ہے اور مؤسسہ انتشارات فراہانی نے سنہ 1350 سے 1356 شمسی تک منتشر کیا ہے۔[12]


10 جلدی ایڈیشن میں سوروں کی ترتیب
جلد سورتیں جلد سورتیں
اول سورہ حمد اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 182 تک ششم رعد، ابراہیم، حجر، نحل، اسراء، کہف، مریم
دوم سورہ بقرہ کا بقیہ حصہ اور آل عمران ہفتم طہ، سورہ انبیاء، حج، مؤمنون، نور، فرقان، شعراء، نمل، قصص
سوم نساء، مائدہ ہشتم عنکبوت، روم، لقمان، سجدہ، احزاب، سبأ، فاطر، یس، صافات، ص، زمر، غافر
چہارم انعام، اعراف، انفال نہم فصلت اور صف
پنجم توبہ، یونس، ہود، یوسف دہم سورہ جمعہ سے آخر قرآن تک

حوالہ جات

  1. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص239.
  2. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  3. ریاض العلماء، ج 2، ص 358.
  4. مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمۃج3، ص: 70.
  5. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  6. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  7. مجمع البیان، ج1، ص11
  8. خرمشاہی، قرآن پژوہی (1)، صص 137-138.
  9. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  10. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  11. ایازی، شناخت نامہ تفاسیر، ص240.
  12. ایازی، [تفسیر] مجمع البیان، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج 1، ص751.

مآخذ

  • ایازی، سید محمد علی، شناخت نامہ تفاسیر: نگاہی اجمالی بہ 130 تفسیر برجستہ از مفسران شیعہ و اہل سنت، قم: کتاب مبین، 1378۔
  • خرمشاہی، بہاء الدین، قرآن پژوہی، تہران: علمی فرہنگی، 1389۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377۔