سورہ جمعہ

ویکی شیعہ سے
صف سورۂ جمعہ منافقون
ترتیب کتابت: 62
پارہ : 28
نزول
ترتیب نزول: 110
مکی/ مدنی: مدنی
اعداد و شمار
آیات: 11
الفاظ: 122
حروف: 768

سورہ جمعہ قرآن کی 62ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو 28ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت میں نماز جمعہ کا حکم بیان ہوا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "جمعہ" رکھا گیا ہے۔ اس سورت میں نماز جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ نماز جمعہ کے وقت خرید و فروخت میں مشغول نہ ہوں۔

پانچویں آیت میں توریت کے حاملین کا تذکرہ اور آیت نمبر 9 میں نماز جمعہ کا حکم آیا ہے اسی مناسبت سے یہ دو آیتیں اس سورے کی مشہور آیات میں شمار ہوتی ہیں۔ اس سورت کی فضلیت کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کسی نے ہر شب جمعہ اس سورت کی تلاوت کی تو یہ چیز اس شخص کے اس جمعے سے آئندہ جمعے تک کی گناہوں کا کفاره ہو گا۔

اجمالی تعارف

وجہ تسمیہ

اس سورت کا نام جُمُعہ (میم پر ضمّ کے ساتھ) یا جُمْعہ (میم پر سکون کے ساتھ) رکھا گیا ہے؛[1] کیونکہ اس میں نماز جمعہ کا حکم اور اس کے بعد کے اعمال اور آداب کا ذکر ہوا ہے۔[2]

محل اور ترتیب نزول

سورہ جمعہ مدنی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 109ویں اور مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 62ویں سورہ اور قرآن کے 28ویں پارے میں واقع ہے۔[3]

آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ جمعہ 11 آیات 177 کلمات اور 768 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار سور مُفَصّلاتِ میں ہوتا ہے اسی طرح سور مُسَبّحات میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے کیونکہ اس کا آغاز بھی خدا کی تسبیح سے ہوتا ہے۔[4] اس کے علاوہ سور ممتحنات میں بھی اسے شامل کیا گیا ہے[5] جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سورتیں مضمون کے لحاظ سے سورہ ممتحنہ کے ساتھ شباہت رکھتی ہیں۔[6] [یادداشت 1]

مفاہیم

علامہ طباطبائی کے مطابق سورہ جمعہ مسلمانوں میں نماز جمعہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کی ترغیب دیتا ہے؛ چونکہ نماز جمعہ شعائر اللہ میں سے ہے جس کی تعظیم انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی میں کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔[7] سورہ جمعہ خدا کی تسبیح کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس سورت میں خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کیلئے ان کے درمیان انبیاء مبعوث کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انہیں انہیں اچھے اخلاق سے آراستہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔[8]

ملاصدرا سورہ جمعہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ سورہ ایمان کے ارکان اور عرفانی حقائق کے اصول پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اس میں خدا کی معرفت، معاد کی حقیت اور اس کی کیفیت، انبیاء کی بعثت، آسمانی کتابوں کا نزول اور ان کی تعلیم کے بارے میں بھی گفتگو ہوتی ہے۔[9]

نماز جمعے کی اذان کے وقت خرید و فروخت سے ہاتھ اٹھا کر ذکر خدا(نماز جمعہ) کی طرف دوڑنا اور نماز جمعہ میں پیغمبر اکرمؐ کے خطبے کے دوران خرید و فروخت میں مشغول رہنے والوں کی مذمت سورہ جمعہ کے آخری آیات میں مطرح ہونے والے موضوعات میں سے ہیں۔[10]

سورہ جمعہ کے مضامین[11]
 
 
 
 
دینی احکام بالخصوص نماز جمعہ پر عمل کرنے کی اہمیت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا گفتار؛ آیہ ۹-۱۱
مسلمانوں کو نماز جمعہ کی تشویق
 
دوسرا گفتار؛ آیہ ۵-۸
تورات پر عمل نہ کرنے پر یہودیوں کی مذمت
 
پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۴
احکام کی تشریع، اللہ کا بندوں پر لطف
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۹-۱۰
نماز جمعہ اور مسلمانوں کی ذمہ داری
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۵
تورات پر عمل نہ کرنے والے یہودیوں کی خصوصیات
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۱
بندوں کی عبادت سے اللہ کی بےنیازی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۱
نماز جمعہ میں سستی کی مذمت
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۶-۸
یہودیوں کی نسل پرستی اور تورات پر عمل نہ کرنا
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۲-۴
پیغمبر کی بعثت سے انسانوں کی ہدایت

آخری آیت کی شأن نزول

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے: پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کر رہے تھے اتنے میں ایک تجارتی قافلہ پہنچا جس پر اکثر نماز گزار اس قافلے کی طرف دوڑے اور 12 افراد کے سوا کوئی باقی نہ رہے۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی: وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً... (ترجمہ: اور (کئی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ) جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ(ص) کو کھڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔)[؟؟][12]

ایک اور روایت میں آبا ہے کہ مدینہ میں قحط سالی تھی اور بازار میں موجود اجناس بھی مہنگے ہو گئے تھے ایسے میں "دحیۃ بن خلیفہ کا تجارتی قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو نماز گزار اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے اور صرف معدود افراد باقی رہ گئے۔ اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اگر تمام مسلمان چلے گئے ہوتے تو ان سب پر آسمان سے آگ کی بارش ہوتی۔[13] کہا جاتا ہے کہ جو افراد اس وقت پیغمبر اکرمؐ کے پاس رہے ان میں علی بن ابی‌طالبؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت فاطمہ(س)، سلمان، ابوذر، مقداد اور صہیب بن سنان تھے۔[14]

مشہور آیات

سورہ جمعہ کی دو آیات مشہور آیات میں شامل ہیں، پانچویں آیت یہودیوں کے بارے میں قرآ­ی کہاوتوں میں سے ہے جبکہ نویں آیت میں نماز جمعہ کا حکم بیان ہوا ہے:

آیت نمبر 5

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَ‌اةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ‌ يَحْمِلُ أَسْفَاراً
 (ترجمہ: اور جن لوگوں (یہود) کو توراۃ کا حامل بنایا گیا مگر انہوں نے اسکو نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے بڑی بڑی کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں۔)[؟؟]

یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کی زمانے کے یہودیوں کے بارے میں قرآنی کہاوتوں میں سے ہے جو آپؐ کی نبوت پر آسمانی کتابوں کی صریح گواہی کے بعد بھی دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کئے جس کی وجہ سے انہیں علمائے بے عمل کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔[15] بعض احادیث میں آیا ہے کہ ان میں سے بعض کہتے تھے کہ ہم محمدؐ کی شریعت کے پابند نہیں ہے؛ اس بنا پر قرآن انہیں یاددہانی کرتا ہے کہ اگر تم لوگ اپنی آسمانی کتاب کا دقیق مطالعہ کرتے اور اس پر عمل کرتے تو یہ بات نہ کرتے؛ کیونکہ اس میں پیغمر اسلام کی ظہور کی بشارت دی گئی ہے۔[16]

آیت نماز جمعہ (9)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَذَرُ‌وا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
 (ترجمہ: اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن والی نمازکے لئے پکارا جائے (اس کی اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر (نمازِ جمعہ) کی طرف تیز چل کر جاؤ اورخرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔)[؟؟]

بعض شیعہ اور اہل سنت فقہاء نماز جمعہ کی وجوب کو ثابت کرنے کیلئے اس آیت اور متعدد احادیث[17] سے استناد کرتے ہیں۔[18] البتہ بعض فقہاء اس آیت کو نماز جمعہ کی وجوب پر دلیل نہیں سمجھتے ہیں۔[19] امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے بعض اس دور میں اسے حرام سمجھتے ہیں جبکہ بعض اسے واجب تعیینی اور بعض واجب تخییری سمجھتے ہیں۔[20] ان فقہاء کے مطابق جو زمان غیبت میں نماز جمعہ کو واجب تعیینی نہیں مانتے، نماز جمعہ کی اذان کے بعد یا نماز کے دوران خرید و فروخت یا دوسرے معاملات حرام نہیں ہے۔[21]

سورہ جمعہ کی نویں، دسویں اور گیارہویں آیت کو آیات الاحکام میں شامل کرتے ہیں۔[22]

فضیلت اور خواص

سورہ جمعہ کی فضیلت اور تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ سورہ جمعہ کی تلاوت کرنے والے کو خدا نماز جمعہ کے لئے آنے والوں اور نہ آنے والوں میں سے ہر ایک کے مقابلے میں دس حسنہ بطور ثواب عطا کرتا ہے۔[23] یا اگر کوئی شخص اس سورت کو ہر شب جمعہ پڑھے تو یہ چیز اس جمعہ اور آنے والے جمعہ کے درمیان اس شخص کے کے گناہوں کا کفاره ہو گا۔[24] اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ جمعہ کے دن صبح، ظہر اور عصر کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کا پڑھنا مستحب ہے۔[25] اس سورت کے خواص میں آیا ہے کہ یہ سورہ شیطان کے وسوسے اور خوف کو انسان سے دور کرتا ہے۔[26]

ہنری آثار

سورہ جمعہ یا اس کے بعض حصے مختلف تاریخی اور مذہبی عمارتوں پر خوبصورت خطاطی کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر حرم امام رضاؑ میں ایک تحریر موجود ہے جس پر سورہ جمعہ کو خط ثلث میں علی رضا عباسی کے قلم سے لکھا گیا ہے۔[27] یا حرم حضرت معصومہ(س) میں شاہ عباس کے زمانے میں بنائے گئے رواق اور گنبد پر سورہ جمعہ لکھا ہوا ہے۔[28] اسی طرح یہ سورت مسجد جمکران کی کاشی کاریوں پر منقوش ہے،[29] ساوہ میں امامزادہ اسحاق بن موسی[30] اور بقعہ پیغمبریہ[31] پر بھی سورہ جمعہ لکھا ہوا ہے۔

متن سورہ

سورہ جمعہ
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿1﴾ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿2﴾ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿3﴾ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿4﴾ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿5﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاء لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿6﴾ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿7﴾ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿8﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿9﴾ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿10﴾ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿11﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اس اللہ کی تسبیح کرتی ہیں جو بادشاہ ہے (اور نقائص سے) پاک ہے زبردست ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (1) وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (2) اور (آپ(ص) کو) ان لوگوں میں سے دوسروں کی طرف بھی بھیجا جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں اور وہ زبردست (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (3) یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔ (4) اور جن لوگوں (یہود) کو توراۃ کا حامل بنایا گیا مگر انہوں نے اسکو نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے بڑی بڑی کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں اور کیا بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (انہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔ (5) آپ(ص) کہیے! اے یہودیو! اگر تمہارا خیال ہے کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو۔ (6) اور وہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے اپنے ان (برے) اعمال کی وجہ سے جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ (7) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ بہرحال تم سے مل کر رہے گی پھر تم اس (خدا) کی بارگاہ میں لوٹائے جاؤ گے جو غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ (8) اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن والی نمازکے لئے پکارا جائے (اس کی اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر (نمازِ جمعہ) کی طرف تیز چل کر جاؤ اورخرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (9) پھر جب نماز تمام ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (10) اور (کئی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ) جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ(ص) کو کھڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ جو کچھ (اجر و ثوا ب) اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشہ اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (11)

پچھلی سورت: سورہ صف سورہ جمعہ اگلی سورت:سورہ منافقون

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


مونوگرافی

مختلف تفاسیر میں دوسرے سوروں کی ضمن میں موجود تفسیر کے علاوہ سورہ جمعہ کی تفسیر پر مستقل کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں من جملہ ان کتابوں میں:

  • تفسیر سورۃ الجمعہ، مصنف ملاصدرا شیرازی، محمد بن ابراہیم، ترجمہ، تصحیح و تعلیق محمد خواجوی، تہران، نشر مولی، ۱۴۰۴ق (۱۳۶۳ش).
  • تفسیر سوره جمعہ، مصنف کیاء علی، گرگان، انتشارات نوروزی، ۱۳۹۴ش.
  • نسیم جمعہ: تفسیر سورہ جمعہ، مصنف مہدوی دامغانی، علی، تہران، دلیل ما، ۱۳۹۴ش.
  • جلوہای ہدایتی سورہ مبارک جمعہ، مصنف علم الہدی، سید احمد، تحقیق و تنظیم سیدمہدی مرویان حسینی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۳ش.

حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج۱۰، ص۲۰۔
  2. خرمشاہی، «سورہ جمعہ»، ص۱۲۵۵ـ۱۲۵۶۔
  3. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۸۔
  4. خرمشاہی، «سورہ جمعہ»، ص۱۲۵۶۔
  5. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰و۵۹۶۔
  6. فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، ج۱، ص۲۶۱۲۔
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۲۶۳۔
  8. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۲۶۳۔
  9. ملا صدرا، تفسیر سورہ الجمعہ، ۱۴۰۴ق، ص۱۵، بہ نقل از صفوی، «سورہ جمعہ»، ص۷۱۶۔
  10. طباطبایی، المیزان،۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۲۶۳۔
  11. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  12. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۸.
  13. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۹.
  14. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۸۱
  15. مکارم شیرازی، مثال‌ہای زیبای قرآن، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۲۶۷.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۱۱۴.
  17. احمد بن‌ حنبل، مسند، ۱۴۰۲ق، ج۳، ص۴۲۴-۴۲۵؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۰۱ق، ج۳، ص۸۵-۸۹؛ حرعاملی، وسائل الشیعہ، قم، ج۷، ص۲۹۵-۳۰۲؛ نوری، مستدرک الوسائل، قم، ج۶، ص۱۰
  18. شوکانی، نیل الاوطار، مصر، ج۳، ص۲۵۴-۲۵۵؛ شیخ طوسی، الخلاف، قم، ج۱، ص۵۹۳؛ محقق حلی، المعتبر فی شرح المختصر، ۱۳۶۴ش، ج۲، ص۲۷۴
  19. منتظری، البدر الزاہر فی صلاة الجمعۃ و المسافر، ۱۳۶۲ش، ص۶؛ غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۶-۱۷
  20. مراجعہ کریں: رضانژاد، صلاۃ الجمعہ، ۱۴۱۵ق، ص۲۸.
  21. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ج۱، ص۸۵۷.
  22. اردبیلی، زبدہ البیان فی احکام القرآن، مکتب المرتضویہ، ص۱۱۵.
  23. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۲۷.
  24. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۶۲.
  25. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۵۶.
  26. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۷۱.
  27. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل مدخل آستان قدرس رضوی، ص۳۴۲.
  28. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل مدخل آستانہ حضرت معصومہ، ص۳۶۱.
  29. دانشنامہ جہان اسلام، ذیل مدخل جمکران مسجد.
  30. فیض قمی، گنجینہ آثار قم، ص۱۳۸.
  31. دانشنامہ جہان اسلام، ذیل مدخل پیغمبریہ.

نوٹ

  1. قرآن کی 16 سورتوں کو سیوطی نے سور ممتحنات میں ذکر کیا ہے۔رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۹۶ وہ سورتیں یہ ہیں: فتح، حشر، سجدہ، طلاق، قلم، حجرات، تبارک، تغابن، منافقون، جمعہ، صف، جن، نوح، مجادلہ، ممتحنہ اور تحریم (رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰۔)

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • احمد بن حنبل، مسند احمد، استانبول، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م۔
  • امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ق۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، ۱۴۰۹-۱۴۱۲ق۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۲ش۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ جمعہ»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۴ش۔
  • دائرۃ المعارف قرآن کریم، تہیہ و تدوین: پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
  • رضانژاد، عزالدین، صلاۃ الجمعہ: دراسۃ فقہیۃ و تاریخیۃ، قم، ۱۴۱۵ق۔
  • شوکانی، محمد، نیل الاوطار: شرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخبار، مصر، شرکہ مکتبہ و مطبعہ مصطفی البابی الحلبی
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف فی الاحکام، قم، ۱۴۰۷-۱۴۱۷ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب‌فروشی داوری، ۱۳۸۵ق۔
  • صفوی، سلمان، «سورہ جمعہ»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی تقریرات درس آیۃ اللّہ خوئی، ج ۱، قم، ۱۴۱۸ق/ ۱۹۹۸م۔
  • فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
  • فیض قمی عباس، گنجینہ آثار قم، بی‌نا، ۱۳۴۹ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، ۱۳۶۴ش۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
  • مکارم شیرازی، مثال‌ہای زیبای قرآن، قم، نسل جوان، ۱۳۸۲ش۔
  • منتظری، حسینعلی، البدر الزاہر فی صلاۃ الجمعۃ و المسافر، تقریرات درس آیۃ اللّہ بروجردی، قم، ۱۳۶۲ش۔
  • نسائی، احمدبن علی، سنن النسائی، بشرح جلال الدین سیوطی و حاشیہ نورالدین بن عبدالہادی سندی، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، ۱۴۰۷- ۱۴۰۸ق۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔

بیرونی روابط