قصص القرآن

ویکی شیعہ سے
النورالمبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، سید نعمت الله جزایری کی تالیف

قصص القرآن قرآن کے قصوں کو کہا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کا ایک تہائی حصہ انہی قصوں پر مشتمل ہے۔ یہ قصے پہلے زمانے کے لوگوں کے بارے میں یا نزول قرآن کے دور کے ہیں۔ قرآن میں قصوں کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی روح اور فکر پر اس کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ قرآن ان قصوں کو بیان کرنے کا مقصد ان سے درس لینا قررار دیتا ہے اور اور بہت سی آیات میں گذشتہ لوگوں کے انجام کے بارے میں غورو فکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق قرآنی داستانیں افسانہ اور خودساختہ نہیں ہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں اور ان میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے اورمومنین کی لیے ہدایت کا سبب ہے۔ قرآنی داستانیں عام ناول یا داستان کی طرز پر نہیں لکھی گئی ہیں علامہ طباطبایی کے مطابق قرآن انہیں صرف ہدایت کے مقصد سے بیان کرتا ہے اور ان کی جزئیات بیان نہیں کرتا ہے۔ • قرآن کی زیادہ تر داستانیں پیغمبروں کی زندگی کے بارے میں ہیں۔ قرآن نے خاص طور پر پیغمبروں جیسے ابراہیمؑ، موسیؑ، عیسیؑ، یوسفؑ اور پیغمبر اسلام (ص) کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

قرآن میں داستان

قرآن معارف کو داستان کی شکل میں بیان کرنے میں بہت تاکید کرتا ہے قرآن کا ایک تہائی آیات گذشتہ لوگوں کی اور نزول قرآن کے دور کی داستانوں پر مشتمل ہے قرآن میں آخرت کو بھی داستان کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔[1] ۔ قرآنی داستانوں کو قصص القرآن کہا جاتا ہے قصص قصہ کی جمع ہے جس کا مطلب داستانیں ہیں۔[2] قرآن خود ایک آیت میں داستان گوئی کی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سورہ طہ کی آیت ۹۹ میں ہے کہ قرآن گذشتہ لوگوں کی داستانیں پیغمبر اکرم کے لیے بیان کرتا ہے سورہ یوسف میں بھی حضرت یوسف کی زندگی کی داستان کو بہترین داستان کہا گیا ہے جو پیغمبر سے بیان کی گئی ہے۔[3] بعض روایات میں خود قرآن کے لیے احسن القصص (بہترین داستان) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔[4]

قرآنی داستانوں کا مقصد

قرآن کے زیادہ داستان کے استعمال کی وجہ داستان میں روح اور فکر پر اثر انداز ہونے کی قابلیت کو سمجھا جاتا ہے۔[5] کہا جاتا ہے کہ براہ راست نصحیت انسان کی طبعیت گراں گزرتی ہے اس لئے قرآن نے داستان کی شکل میں بلا واسطہ نصحیتوں کو بیان کیا ہے۔[6] ۔ قرآن خود داستانوں (قصوں) کو بیان کرنے کا مقصد پیغمبر اکرمﷺ کا اطمئنان [7] ، نصحیت کرنا [8]، مومنین کو متوجہ کرنا[9] اور انسانوں کا سبق حاصل کرنا[10] بتایا ہے۔ قرآن کی بہت سی آیات گذشتہ لوگوں کے انجام پر غور فکر کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔[11] قرآن کی آیات کے مطابق قرآنی داستانیں افسانہ یا خود ساختہ نہیں ہیں بلکہ یہ واقیعت رکھتی ہیں تاکہ صاحبان عقل ان سے عبرت حاصل کریں اور مومنین کی ہدایت کا سبب بنیں۔[12] بعض مفسرین قرآنی داستانوں کو جانچنے کے بعد مجموعی طور پر ان کے تین مقاصد بیان کرتے ہیں: • معرفتی مقصد: دینی عقاید کا بیان جیسے دین اور نبوت کی ضرورت • معاشرتی مقصد: اقوام کی فتح یا شکست کی وجوہات کا بیان، برتر اور مثالی اقوام،امتوں کے نعمتوں سے برتاو کا بیان یا ان کے عذاب الہی میں گرفتار ہونے کا ذکر ۔ • اخلاقی اور تربیتی مقاصد: مثالی نمونوں کا تعارف جیسے حضرت محمد اور حضرت ابراہیم اور ان پر ایمان لانے والوں کا تعارف، شیطان کا انسان کے منحرف کرنے والے اہم عامل کے عنوان سے تعارف، اہم اخلاقی قدروں کا بیان۔[13]

قرانی قصوں کی خصوصیات

قرآنی قصے عام داستانوں یا ناول کی طرز پر نہیں لکھی گئی ہیں[14] علامہ طباطبائی کے مطابق قرآنی قصوں کی جزئیات جیسے اشخاص کا نسب، واقعے کا زمانہ اورجگہ جیسی دوسری چیزوں کو بیان نہیں کرتا جو تاریخ اور ناول نگاری میں ضروری ہوتی ہیں اور صرف انہی چیزوں کو بیان کرتا ہے جو قرآن کے مقصد یعنی ہدایت کے زمرے میں آتی ہیں۔ [15]۔ قرآنی قصوں کے لیے مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے بعض خصوصیات کا ذکر ہوا ہے۔ قرآنی قصوں کے مضامین کی بعض خصوصیات ان کا حقیقی ہونا،با مقصد اور پیغام کا حامل ہونا،معجزات کا ذکر اور خارق العادہ کاموں اور داستانوں میں مختلف کرداروں اور شخصیتوں کو بیان کرنا ہے۔ [16] ۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں داستانوں کے اسلوب کے اعتبار سے کسی خاص روش کو اپنایا نہیں گیا ہے اور قصوں کو مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے[17]بعض قرآنی قصے جیسے اصحاب کہف کی داستان شروع میں خلاصہ کے طور پر بیان ہوئی ہے پھراسے مفصل بیان کیا گیا ہے۔ بعض قصے جیسے حضرت موسیؑ اور فرعون کی داستان میں داستان کا انجام ابتدا میں بیان کیا گیا ہے پھر داستان شروع سے آخر تک بیان ہوئی ہے۔ قرآن کی بعض داستانیں جیسے حضرت عیسیؑ کی ولادت کسی مقدمے کے بغیر اچانک شروع ہوتی ہے اور آخر تک بیان ہوئی ہے۔ [18]۔ قرآنی قصوں کی بعض عمومی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں : قرآن میں قصوں کا وہ حصہ جو قرآن کے مقاصد میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ نمایاں ہوتا ہےاور اس پر تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے۔

• قرآنی قصوں کی شخصیات مخاطب کے سامنے زندہ اور مجسم صورت میں نمایاں ہوتی ہیں۔ • قرآنی قصوں میں معترضہ جملے کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ • دو طرفہ گفتگو کا انداز (بالخصوص دو متضاد شخصیات کے درمیان) قرآنی داستانوں کا ایک رائج طریقہ ہے۔ • داستانیں اکثر کم شخصیات پر مبنی ہیں ان میں عموما قصوں کا اسلوب خدا ،پیغمبراور پیغمبر کی قوم پر مشتمل ہے۔ • داستانوں میں زمانہ وقوع اور جائے وقوع کو بیان نہیں کیا گیا ہے۔ • داستانیں اکثر آخر تک اور واضح نتیجے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں ہیں۔[19]

قرآنی داستانوں کے موضوعات

قرآن کی اکثر داستانیں پیغمبروں کی زندگی سے متعلق ہیں۔ قرآن نے خاص طور پر پیغمبروں جیسے ابراہیمؑ، موسیؑ، یوسفؑ اور پیغمبر اسلام کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ پیغمبروں کے علاوہ دوسرے افراد بعض اقوام اور گروہوں کی داستانیں بھی قرآن میں نقل ہوئی ہیں۔[20] قرآن کی بعض داستانیں درج ذیل ہیں:

قصص القرآن سے متعلق کتابیں

قصص القرآن علوم قرآنی میں ایک اہم ترین بحث ہے اور اس کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔[21] ان کتابوں کو اکثر قصص القرآن کہا گیا ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں :

حوالہ جات

  1. مرویان، اهداف تربیتی در قصّه‌های قرآن، ۱۳۸۴ش، ص۲۰۱؛ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۳-۱۵۔
  2. بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۴؛ طالبی، تاریخ در قصص قرآن، ص۲۹۔
  3. بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۴؛ قرآن، سوره یوسف، آیہ ۳۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۳۰۱۔
  5. بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۳و۱۴؛ طالبی، تاریخ در قصص قرآن، ص۲۹۔
  6. بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۳؛۔
  7. سوره ہود، آیہ ۱۲۰۔
  8. سوره ہود، آیہ ۱۲۰۔
  9. سوره ہود، آیہ۱۲۰۔
  10. سوره یوسف، آیت۱۱۱۔
  11. طالبی، تاریخ در قصص قرآن، ص۲۹۔
  12. سوره یوسف، آیہ۱۱؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۴۵۷و۴۵۸۔
  13. مرویان، اہداف تربیتی در قصّہ ہای قرآن، ۱۳۸۴ش، ص۲۰۱-۲۰۷۔
  14. حسینی، ریخت‌شناسی قصہ ‌ہای قرآن، ۱۳۸۲، ص۶۷۔
  15. علامہ طباطبائی، المیزان، ترجمہ موسوی ہمدانی، ص۶۴، نقل از: حسینی، ریخت‌شناسی قصہ ہای قرآن، ۱۳۸۲، ص۶۷۔
  16. سنگری، محمدرضا، ہدف‌ہا و شیوه‌ہای داستان‌پردازی در قرآن، ۱۳۸۴ش، ص۴-۷۔
  17. صادق‌پور، نگاہی بہ ویژگی‌ہای ساختاری داستان‌ہای قرآن، ۱۳۷۶ش، ص۲۷۴۔
  18. صادق‌پور، نگاہی بہ ویژگی‌ہای ساختاری داستان‌ہای قرآن، ۱۳۷۶ش، ص۲۷۵-۲۷۹۔
  19. معموری، تحلیل ساختار روایت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۶۶و۶۷۔
  20. رجوع کیجئے: بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش؛ صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش۔
  21. صادق‌ پور، کتاب شناسی قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۷ش، ص۳۰۶و۳۰۷۔
  22. م۔خراسانی، راهنمای پژوهش در داستان‌های قرآن، ۱۳۷۱ش، ص۱۰۱و۱۰۲۔*دوره کامل قصہ های قرآن ،سید محمد صحفی،۱۳۶۷ش

مآخذ

  • بلاغی، صدر الدین، قصص قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ ہفدهم، ۱۳۸۰ش۔
  • حسینی، محمد، ریخت‌ شناسی قصہ ہای قرآن: بازخوانش دوازده قصہ قرآنی، تہران، ققنوس، ۱۳۸۲ش۔
  • سنگری، محمد رضا، «ہدف‌ہا و شیوه‌ہای داستان‌پردازی در قرآن»، آموزش قرآن، ش۸، ۱۳۸۴ش۔
  • صادق‌ پور، محمد حسین، کتاب‌ شناسی قصہ ‌های قرآن، مشکوة، ش۶۰و۶۱، ۱۳۷۷ش۔
  • صادق‌ پور، محمد حسین، «نگاہی بہ ویژگی‌ہای ساختاری داستان‌ہای قرآن»، مشکوة، ش۵۴و۵۵، ۱۳۷۶ش۔
  • صحفی، سید محمد، قصہ ہای قرآن، قم، اهل بیت، چاپ دوم، ۱۳۷۹ش۔
  • طالبی، تہماسب، «تاریخ در قصص قرآن»، آموزش تاریخ، ش۴۲، ۱۳۹۰ش۔
  • م۔خراسانی، مہدی، «راہنمای پژوہش در داستان‌ہای قرآن»، آینہ پژوهش، ش۱۵، ۱۳۷۱ش۔
  • معموری، علی، تحلیل ساختار روایت در قرآن: بررسی منطق توالی پیرفت‌ہا، تہران، نگاه معاصر، ۱۳۹۲ش۔
  • مرویان حسینی، محمود، «اہداف تربیتی در قصّہ ہای قرآن»، پژوہش‌ہای قٰرآنی، ش۴۱، ۱۳۸۴ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔