ابو الفتوح رازی
جمال الدین حسین بن علی نیشابوری رازی (تقریبا 470۔552 یا 556 ھ) ابو الفتوح رازی کے نام سے مشہور چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر و محدث اور فارسی زبان کی تفسیر روض الجنان و روح الجنان کے مولف ہیں۔ ان کا نسب قبیلہ خزاعہ سے ملتا ہے اور ان کے جد اعلی نافع بن بدیل بن ورقاء خزاعی صحابی پیغمبر (ص) ہیں۔ ابو الفتوح، زمخشری کے شاگرد اور ابن شہر آشوب و ابن حمزہ طوسی کے استاد ہیں۔ انہوں نے چھٹی صدی ہجری کے دوسرے نصف میں وفات پائی اور ان کا جنازہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) اور حضرت عبد العظیم حسنی کے جوار میں دفن کیا گیا۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | جمال الدین حسین بن علی نیشابوری رازی |
نسب | قبیلہ خزاعہ |
تاریخ ولادت | 470 ھ کے قریب |
تاریخ وفات | 552 یا 556 ھ |
مدفن | صحن حمزہ بن موسی بن جعفر، حرم عبدالعظیم حسنی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | علی بن محمد نیشابوری رازی، عبد الرحمن بن احمد خزاعی نیشابوری، شیخ عبد الجبار بن مقری رازی، ابو القاسم محمود بن عمر زمخشری. |
شاگرد | ابن شہر آشوب، شیخ منتجب الدین رازی، ابن حمزه طوسی، تاج الدین محمد بن حسین |
تالیفات | تفسیر روض الجنان و روح الجنان |
خدمات |
سوانح حیات
ولادت و نسب
ان کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن قراین و شواہد کے مطابق ان کی ولادت پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں 470 یا 480 ھ کے قریب شہر ری میں ہوئی ہے۔ ان کا سلسلہ نسب قبیلہ خزاعہ تک منتہی ہوتا ہے اور جیسا کہ خود انہوں نے نقل کیا ہے ان کے جد اعلی نافع بن بدیل بن ورقاء خزاعی پیغمبر اکرم (ص) کے صحابی ہیں۔[1]
خاندان
ان کے خاندان کے تمام افراد صاحبان علم و فضل ہیں اور انہیں معروف خاندان اور سلسلہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔[2] سید محسن امین عاملی نے اس مشہور خاندان کا تعارف شیعہ علماء میں خاص مقام کے حامل کے طور پر کرایا ہے کہ جنہوں نے متعدد گرانقدر کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔[3]
قاضی نور اللہ شوشتری بھی ابو الفتوح رازی کے خاندان کو صاحب جلالت و فضیلت خاندان تسلیم کرتے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے خاص صحابی نافع بن بدیل بن ورقاء خزاعی کی نسل سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں خزاعہ قبیلہ طول تاریخ میں اہل بیت (ع) کے خالص شیعوں میں سے رہا ہے۔[4]
اولاد
1۔ تاج الدین محمد رازی: شیخ حر عاملی ان کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں: استاد و عوامی رہنما تاج الدین محمد ابو الفتوح رازی خزاعی کے فرزند اور پرہیزگار دانشمند تھے۔[5]
2۔ صدر الدین علی رازی: شیخ منتجب الدین رازی نے ان کا تذکرہ ایک شیعہ عالم کے طور پر کیا ہے۔[6]
مقام علمی
ابو الفتوح اپنے زمانہ کے بعض متداول علوم میں استاد کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی تفسیر ان کے علم نحو، قرائات، حدیث، فقہ، اصول فقہ و تاریخ میں تبحر اور مہارت کو بیان کرتی ہے۔[7] محمد باقر خوانساری، حسین بن علی خزاعی جو ابو الفتوح رازی کے نام سے مشہور ہیں، کو فارسی کی مشہور تفسیر کا مولف، تفسیر و علم کلام کے بارز علماء، ادب کے ماہر ترین و بزرگ ترین علماء اور علم حدیث کے بلند پایہ راویوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔[8]
میرزا حسین نوری ان کے بارے میں کہتے ہیں: استاد و پیشوائے مفسرین، کلام الہی کے ترجمان، جمال الدین ابو الفتوح حسین بن علی خزاعی رازی، مشہور بہ ابو الفتوح رازی دانشمند فاضل، فقیہ مفسر اور ادیب خبیر تھے اور کسب علم میں کمال کی منزلوں پر فائز تھے۔[9]
اساتید
- علی بن محمد نیشابوری رازی؛ ابو الفتوح رازی کے والد اور مسائل المعدوم و دقائق الحقایق جیسی کتابوں کے مولف۔
- عبد الرحمن بن احمد خزاعی نیشابوری؛ مفید ثانی کے نام سے معروف۔
- شیخ عبد الجبار بن مقری رازی؛ مفید رازی کے نام شے مشہور۔
- قاضی حسن استر آبادی
- سید ابو صمصام ذوالفقار
- ابو القاسم محمود بن عمر زمخشری؛ ابوالفتوح رازی کے غیر شیعہ استاد اور تفسیر کشاف کے مولف ہیں۔ ابو الفتوح نے اپنی تفسیر میں انہیں اپنے استاد کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[11]
شاگردان
- ابن شہر آشوب؛ کتاب مناقب آل ابی طالب کے مولف۔
- شیخ منتجب الدین رازی؛ کتاب الفہرست کے مولف۔
- ابن حمزه طوسی
- تاج الدین محمد بن حسین؛ ابو الفتوح رازی کے فرزند۔[12]
آثار و تالیفات
- تفسیر روض الجنان و روح الجنان؛ یہ کتاب، ابوالفتوح رازی کی سب سے مشہور تالیف ہے۔
- روح الاحباب و روح الالباب فی شرح الشہاب؛ یہ کتاب، شہاب الأخبار کی شرح یے جس کے شارح قاضی قضاعی شافعی ہیں اور اس کا موضوع حکم، مواعظ و واقعات پیغمبر اکرم (ص) ہیں۔
- رسالہ یوحنا؛ یہ کتاب یوحنا نامی ایک عیسائی نے لکھی ہے۔ اس کا موضوع امامت ہے۔
- تبصرة العوام فی معرفة مقالات الانام؛ ابو الفتوح نے اس کتاب میں حسین بن منصور حلاج کے افکار پر تنقید کی ہے اور اس کے دیگر ابواب میں شیعوں پر کئے جانے والے بیجا اعتراضات کا جواب دیا ہے اور تشیع کا رفاع کیا ہے۔
- مناظره حسنیہ؛ اس میں حُسنیہ نامی ایک لڑکی کے مناظرات ہیں جو ہارون الرشید کی معاصر تھی۔ یہ کتاب فارسی میں ہے اور اہل سنت کے رد میں لکھی گئی ہے۔ یہ بارہا علامہ مجلسی کی کتاب حلیۃ المتقین کے ساتھ یا بطور مستقل شائع ہوئی ہے۔
- منہاج المناہج؛ اس کتاب میں مذاہب اربعہ و اثبات امامت پر تحقیق کی گئی ہے۔
- رساله اجازه
- تفسیر؛ عربی زبان میں۔[13]
وعظ و خطابت
ابو الفتوح اہل منبر تھے اور اس سے قلبی لگاو رکھتے تھے یہاں تک کہ ان کے اس ذوق کا آشکارا اثر ان کی تفسیر میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی مجالس اور خطابت مقبول عام تھی اور ایک خاص موقعیت کی حامل تھی جس پر بعض لوگ رشک کرتے تھے۔ حاسدوں کی بدگوئی کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ اس سے محروم رہے۔[14]
وفات
ان کی خود نوشت تحریر کے مطابق، جو قطعہ وفات کی صورت میں موجود ہے اور جسے ریاض العلماء نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے، وہ 552 ھ تک زندہ تھے اور ان کی وفات سن 552 یا 556 ھ میں یوئی ہے۔[15] انہیں ان کی وصیت کے مطابق شہر ری میں حمزہ بن موسی بن جعفر کے صحن میں حضرت عبد العظیم حسنی کے جوار میں دفن کیا گیا۔[16]
حوالہ جات
- ↑ رازی، روض الجنان، نشر آستان قدس رضوی، ج۵، ص۱۴۸ ذیل آیه ۲۵ سوره فتح.
- ↑ عرب زاده، شرح حال ابو الفتوح رازی، ۱۳۸۴ش.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، نشر ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۲۴.
- ↑ شوشتری، مجالس المؤمنین، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۴۹۰.
- ↑ حر عاملی، أمل الآمل، ج۱، ص۵۸.
- ↑ رازی، الفہرست، ۱۳۶۶ش، ص۸۵.
- ↑ عرب زاده، شرححال ابو الفتوح رازی، ۱۳۸۴ش.
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۳۱۴.
- ↑ نوری، خاتمہ مستدرک الوسائل، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۷۲.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۲۵.
- ↑ رازی، روض الجنان، نشر آستان قدس رضوی، ج۱۶، ص۱۷۰ ذیل آیه ۸۰ سوره یس.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۲۵.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۲۵ و ۱۲۶.
- ↑ عربزاده، شرححال ابوالفتوح رازی، ۱۳۸۴ش.
- ↑ عرب زاده، شرححال ابوالفتوح رازی، ۱۳۸۴ش.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعة، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۲۴.
مآخذ
- ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی
- امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، ۱۴۱۴ق
- عاملی، محمد بن حسن، امل الامل، بغداد، اندلس، بی تا
- عرب زاده، ابو الفضل، شرح حال ابو الفتوح رازی، آینہ پژوهش، مہر و آبان ۱۳۸۴ - شماره ۹۴
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان
- شوشتری، نور الله، مجالس المؤمنین، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۷ش
- رازی، منتجب الدین، الفہرست، قم، انتشارات مرعشی نجفی، ۱۳۶۶ش
- نوری، میرزا حسین، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، آل البیت، ۱۴۱۵ق