سورہ تین
سوره تین یا والتین و الزیتون قرآن مجید کی 95ویں سورت ہے جو مکی سورتوں میں سے ہے۔ سورہ تین چھوٹی سورتوں میں سے ہے اور 30ویں پارے میں واقع ہے۔ تین انجیر کے معنی میں ہے۔ سورہ تین کا اصل مضمون قیامت اور اُخرَوی اجر کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالی اس سورت کو چار قسموں سے شروع کرتے ہوئے انسان کی خلقت کو سب سے بہتر اور اچھی خلقت قرار دیتا ہے۔ بعض روائی تفاسیر میں اس سورت کی آیتوں کو چودہ معصومینؑ میں سے بعض پر تطبیق دی ہے؛ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ «والتین والزیتون» سے مراد امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں۔
شرح | سورۂ تین | علق | |||||||||||||||||||||||
|
اس سورت کی تلاوت کے آثار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سلامتی اور یقین دنیوی آثار میں سے اور روزہ رکھنے کا اجر اُخرَویِ آثار میں سے ہے اور شعبان کے مہینے میں مستحب نماز کی دوسری رکعت میں سورہ تین کی قرائت کا کہا گیا ہے۔
تعارف
- نام
اس سورت کی پہلی آیت میں اللہ تعالی نے «تین» کی قسم کھائی ہے اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام «تین» رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات اسے سورہ «زیتون» یا «تین و زیتون» بھی گہا گیا ہے[1] تین، انجیر کے معنی میں ہے[2]
- مفسرین کے اقوال کے مطابق "تین" اور "زیتون" کے الفاظ ـ جن کی خداوند متعال نے قسم کھائی ہے ـ کے معانی میں کئی احتمالات ہیں:
- انجیر اور زیتون بعنوان دو پھل، جو کھائے جائے ہیں۔
- تین سے مراد مسجد دمشق ہے؛
- زیتون سے مراد مسجد بیت المقدس ہے۔
- ان دو سے مراد دو پہاڑ ہیں جو شام اور بیت المقدس کی ارض مقدسہ میں واقع ہوئے ہیں جنہیں سریانی زبان میں "طور تینا" اور "طور زیتا" کہا جاتا ہے۔
- کبھی اس سورت کو "سورہ زیتون" یا "سورہ تین و زیتون" بھی کہا جاتا ہے۔[3] ۵۔ «والتین والزیتون» سے مراد امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں۔[4]
- ترتیب اور محلِ نزول
سورہ تین مکی سورتوں میں سے ہے اور نزول کی ترتیب کے اعتبار سے 28ویں سورت ہے جو پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی اور قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق 95ویں سورت ہے[5] جو 30ویں پارے میں واقع ہے۔[6]
- آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات
سورہ تین کی 8 آیات، 34 کلمات اور 162 حروف ہیں۔ یہ سورت مفصلات سورتوں (چھوٹی آیات والی سورتیں) میں سے ہے اور قرآن کی چھوٹی سورتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور ان سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا قسم سے ہوتی ہے اور اس سورت میں اللہ تعالی نے شروع میں ہی چار قسمیں کھائی ہیں۔[7]
مضمون
سورہ تین قیامت میں دوبارہ اٹھانے، اللہ کی طرف سے حساب اور اخروی جزا کے بارے میں ہے۔ اس سورت کی ابتدا میں انسان کی بہترین خلقت کی طرف اشارہ کیا ہے پھر کہا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنی ابتدائی فطرت پر باقی رہتے ہیں لیکن بعض پست ترین مقام تک پہنچتے ہیں۔ اور آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ان دو گروہوں میں فرق ہو اور ان کے اجر میں بھی فرق ہو۔[8]
انسان کی سعادت اور کمال کا واحد راستہ اللہ کا دین | |||||||||||||||
دوسرا مطلب: آیہ ۷-۸ سب سے اچھا حکم کرنے والے خدا کی مخالفت صحیح نہ ہونا | پہلا مطلب: ۱-۶ اللہ کے دین کے زیر سایہ انسانی صلاحیتیں اوجاگر ہونا | ||||||||||||||
پہلا نکتہ: آیہ ۷ اللہ کے دین کی تکذیب اور انکار کی مذمت | پہلا نکتہ: ۱-۴ اللہ نے انسان میں اعلی کمالات کے حصول کی صلاحیت رکھی ہے | ||||||||||||||
دوسرا نکتہ: آیہ ۸ اللہ سب سے بہترین حکم کرنے والا ہے | دوسرا نکتہ: آیہ ۵-۶ فلاح پانے کے لیے اللہ کے دین پر ہی عمل کرنا ہوگا | ||||||||||||||
تفسیر
تفسیر البرہان میں اس سورت کے ذیل میں بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن میں «و التین و الزیتون» سے مراد امام حسنؑ اور امام حسینؑ لیا ہے۔ اور بعض دوسری روایات میں سورت کی ساتویں آیت میں «دین» سے مراد امیرالمؤمنینؑ کی ولایت لیا ہے یا کہا گیا ہے کہ چھٹی آیت میں إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔ اسی طرح منقول ہے کہ «بلد امین» سے مراد پیغمبر اکرمؐ ہیں۔[10]
- انسان کی بہترین خلقت
چوتھی آیت کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے چار قسمیں کھایا یہ کہنے کے لیے کہ انسان کو مناسب اور بہترین طریقے سے خلق کیا ہے۔ یہ آیت اور بعد والی آیت سے یہ مطلب ملتا ہے کہ انسان میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ بالاترین مقام تک پہنچ جائے۔[11]
فضیلت
طَبرِسی تفسیر مَجمَعُ البَیان میں سورہ تین کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں لکھتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ: جو شخص اس سورت کی تلاوت کرتا ہے، جب تک دنیا میں ہے (زندہ ہے) اللہ تعالی اسے دو خصوصیات عطا کرتا ہے: سلامتی اور یقین۔ اور جب مرتا ہے تو جتنے لوگوں نے اس سورت کی تلاوت کی ہے اسی تعداد کے برابر ایک دن روزہ رکھنے کا ثواب اسے عطا کرتا ہے۔[12]
اس کے علاوہ بعض دیگر فضیلتیں بھی ثواب الاعمال[13] نامی کتاب میں نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح شعبان کی تیرہ تاریخ کی رات کو دو رکعت نماز نقل ہوئی ہے کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ تین تلاوت کرنے کا کہا گیا ہے۔[14]
متن سورہ
سوره تین
|
ترجمہ
|
---|---|
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿1﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿2﴾ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿3﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿4﴾ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿5﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴿6﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ ﴿7﴾ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿8﴾ |
قَسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ (1) اور طُورِ سینا کی۔ (2) اور پُرامن شہر (مکہ) کی۔ (3) ہم نے انسان کو بہترین ساخت و انداز کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (4) پھر اسے (اس کی کج رفتاری کی وجہ سے) پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔ (5) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے سو ان کیلئے ختم نہ ہو نے والا اجر ہے۔ (6) تواس کے بعد آپ(ص) کو جزا و سزا کے معاملہ میں کون جھٹلا سکتا ہے؟ (7) کیا اللہ سبحانہٗ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ (8) |
پچھلی سورت: سورہ شرح | سورہ تین | اگلی سورت:سورہ علق |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۵.
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، تین لفظ کے ذیل میں۔
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۵
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۶۹۲.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۶.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۵.
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۵۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۱۸.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۶۹۲-۶۹۴.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۱۹.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ۷۷۴.
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۲۳.
- ↑ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۳۱۱.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، بہ تحقیق قسم الدراسات الاسلامیہ موسسہ بعثت، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۶ق.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ، تہران، موسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، چاپ دوم، ۱۳۷۷ش.
- سید بن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنہ، بہ تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۴م.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ش.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش.