آل یقطین
| عمومی معلومات | |
|---|---|
| نام | آل یقطین |
| وجہ تسمیہ | یقطین کی طرف نسبت کی وجہ سے |
| سربراہ | یقطین بن موسی بغدادی |
| عصر | دوسری صدی ہجری اور دوران بنی عباس |
| مذہب | شیعہ |
| محل سکونت | بغداد |
| خصوصیات | خلافت عباسی میں وزیر اور حکومتی عامل |
| شخصیات | |
| راویان | یقطین بن موسی بغدادی، علی بن یقطین، قاسم بن حسن |
| علماء | خزیمہ بن یقطین، یعقوب بن یقطین، عبید بن یقطین |
آلِ یَقْطین کا شمار دوسری صدی ہجری کے مشہور شیعہ خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس خاندان کے لوگ اہل علم و سیاست تھے۔ یقطین ابن موسی بغدادی اور علی ابن یقطین اس خاندان کی مشہور شخصیات میں سے ہیں جو دونوں شیعہ تھے اور بالترتیب امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ یقطین اور علی، عباسی حکومت کے عُمّال میں سے شمار کیے جاتے تھے اور علی بن یقطین تو اس حکومت کی وزارت تک بھی پہنچ گئے تھے؛ البتہ اس سلسلے میں ان کو امام موسی کاظمؑ کی اجازت حاصل تھی۔
مشہور شخصیات
ابو الحسن یقطین بن موسی بغدادی
ابو الحسن یقطین، محدث اور علی بن یقطین کے والد تھے۔ عباسی خلافت کے دوران ان کا شمار حکومتی عمال میں سے ہوتا تھا۔ وہ کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہیں زندگی بسر کی۔ بنی امیہ کی مخالفت اور عباسیوں کی حمایت کرنے پر مروان حمار (وفات: 132ھ/749ء) نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدینہ کی جانب بھاگ نکلے۔ وہ امویوں کے زوال اور عباسیوں کے عروج کے بعد بغداد آئے۔[1] یہ واقعہ عباسیوں کے اقتدار میں آنے میں ان کے اہم کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ اکثر شیعہ محدثین اور مورخین کے مطابق، ان کے امام جعفر صادقؑ کے ساتھ خفیہ طور پر تعلقات تھے اور اپنے مالی حقوق امامؑ کو دیا کرتے تھے۔[2]
یقطین کے باقی تین بیٹے خزیمہ، یعقوب اور عبید بھی راویان حدیث اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔
علی بن یقطین
علی ابن یقطین (124-182ھ/742-798ء) محدث، فقیہ، متکلم اور شیعہ بزرگ شخصیات میں سے تھے۔ ان کی کوفہ میں پیدائش ہوئی اور کچھ عرصہ بعد بغداد آیا، ایک مدت کے بعد وہ عباسی خلافت کا حصہ بنے اور مہدی عباسی حکومت کے عمال میں سے قرار پائے[3] نیز ہارون الرشید (وفات: 193ھ) کے قریبی افراد میں شمار ہونے لگے۔
ان کے شیعہ ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن ان کا مذہب بھی ان کے والد کی طرح عباسیوں سے پوشیدہ تھا۔ ان کا امام موسیٰ کاظمؑ (128-183ھ/746-799ء) سے قریبی تعلق تھا اور امامؑ سے بہت سی احادیث روایت کی ہیں۔[4] شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کرنے اور شیعوں کے مددگار بننے کے لیے امام موسی کاظمؑ کے مشورے پر خلافت کا حصہ بنے رہے۔[5] آخر کار انہوں نے بغداد میں وفات پائی جبکہ امام کاظمؑ قید میں تھے۔
قاسم بن حسن
قاسم بن حسن بن علی ابن یقطین دوسری صدی کے دوسرے نصف اور تیسری صدی ہجری کے پہلے نصف میں قم کے شیعہ راویوں میں سے تھے۔ وہ امام رضاؑ اور امام علی نقیؑ کے شاگرد تھے اور امام حسن عسکریؑ کے ہم عصر تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ غالیوں میں شمار ہوتے تھے۔[6] بعض نے ان کو غالیوں میں سے شمار کرنے کو قاسم یقطینی کے ساتھ اشتباہ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[7] ان کے والد حسن بن علی بن یقطین نے امام موسی کاظمؑ اور امام رضاؑ سے نقلِ روایت کیا ہے اور امام موسی کاظمؑ سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل ایک کتاب بھی انہی سے منسوب ہے[8] قاسم نے ابن ابی نجران اور جعفر بن سلیمان سے تعلیم حاصل کی اور احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری قمی اور احمد بن محمد بن خالد برقی کے استاد تھے۔
حوالہ جات
- ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1351ھ، ج10، ص188۔
- ↑ ابن ندیم، فہرست، 1377ھ، ص314۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1881ء، ج3، ص522۔
- ↑ طوسی، الفہرست، 1351شمسی، ص234۔
- ↑ امین، عیان الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص371۔
- ↑ کشی، اختیار معرفہ الرجال، 1348شمسی، ص516۔
- ↑ ان کی تضعیف و توثیق کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے رجوع کیجیے:مامقانی، تنقیح المقال، ج2، القسم الثانی، ص19۔
- ↑ نک: شوشتری، قاموس الرجال، ج3، ص332۔
مآخذ
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، مصر، 1351ھ، 10/189۔
- ابن ندیم، فہرست، بیروت، 1377ھ۔
- امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، 1403ھ۔
- شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، قم۔
- طبری، محمدبن جریر، تاریخ، بہ کوشش دخویہ، لیدن، 1879-1881ء۔
- طوسی، محمدبن حسن، الفہرست، بہ کوشش محمود رامیار، مشہد، 1351ہجری شمسی۔
- کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفة الرجال المعروف برجال الکشی، تلخیص: شیخ طوسی، مصحح: حسن مصطفوی، دانشگاہ مشہد، دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی، مرکز تحقیقات و مطالعات، مشہد، 1348ہجری شمسی۔
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، مطبعہ المرتضویہ، نجف۔