آل اعین

ویکی شیعہ سے

آلِ اَعْین شیعہ امامیہ محدثین کا خاندان ہے جس کا تعلق پہلی صدی ہجری سے لے کر چوتھی صدی ہجری کے آخر تک رہا۔ اس خاندان نے اور خاص طور پر زرارہ نے مذہب اہل بیت کی نشرو اشاعت اور احیا میں کردار ادا کیا۔ اس خاندان کی مذہبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق نے اس خاندان کے زرارہ کی بہت زیادہ تعریف اور تائید کی۔

اَعْین ‎بن‎ سُنْسُن شیبانی، زُرارۃ ‎بن‎اعین، حُمْران بن اعین(ابوحمزہ)، بُکَیر(ابوجہم) بن اعین اور ابوغالب زراری اس خاندان کے نمایاں چہرے ہیں۔

نسب

اعین‎ بن‎ سُنْسُن‌ سے منسوب خاندان طویل مدت تک دیگر شیعہ خاندانوں کے درمیان اپنی مذہبی اور علمی خدمات انجام دیتا رہا۔ بنیادی طور پر آل اعین کے افراد کوفی تھے اور اکثر شہر کوفہ میں ہی رہتے تھے۔ ہرچند بعد میں کچھ افراد مختلف مقامات پر چلے گئے۔ ان کا کوفہ میں ایک مخصوص محلہ تھا جس میں امام جعفر صادقؑ کے نام سے ایک مسجد تھی کہ جس میں امام نے نماز ادا کی تھی۔ یہ محلہ ۳۳۴ھ/۹۴۶ء تک موجود رہا پھر قرامطیوں نے اس پر حملہ کر کے اسے ویران کر دیا۔ اعین خاندان نے اس حملے میں بہت نقصان اٹھایا۔ [1]

تاریخی پس منظر

اس خاندان کے افراد امام سجادؑ (۳۸-۹۴ھ/۶۵۸-۷۱۲ء) کے زمانے سے خاندان پیغمبر کو دوست رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض، امام کی زیارت سے مشرف بھی ہوئے۔اس خاندان نے کلام، فقہ، حدیث اور دیگر اسلامی علوم میں نامور افراد پیدا کئے۔ اسکے بعد ان کی نسل کے دیگر افراد نے دیگر آئمہ کی مصاحبت اختیار کی کہ جن میں سے لچھ افراد نے علمی اور دینی لحاظ سے بلند و بالا مقام حاصل کیا۔ اس خاندان کے چشم و چراغ ابوغالب زراری نے آل اعین کے تقریبا ۶۰ افراد کی معرفی کی ہے اور کہا: ہم اس خاندان سے ہیں کہ جن پر خدا نے اپنا احسان کیا اور اپنے دین سے مشرف کیا اور خدا نے ہمیں شروع سے لے کر شیعوں کے مصیبتوں اور مشکلات میں گرفتار ہونے تک اپنے اولیاء کی صحبت بخشی۔ [2]

آل اعین کا پہلا شیعہ

یہ مسلّم ہے کہ سُنسن مسیحی اور راہب تھا لذا اس کے بیٹے اعین کا بھی مسیحی ہونا طبعی تھا۔مسلمانوں کے ہاتھوں اعین کے گرفتار ہونے اور «‌بنی شیبان‌» قبیلہ کے پاس جانے کی وجہ سے اس نے اسلام قبول کیا۔ جبکہ تستری اعین کو اوراسکے تابع افراد کو سنی سمجھتا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ نے شیعہ مذہب اختیار کیا۔[3]

لیکن یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اعین شروع سے ہی شیعہ تھا اور امیرالمؤمنینؑ کے چاہنے والوں میں سے تھا لیکن بعد میں خلفائے ثلاثہ کی جانب سے پیدا کی گئے سخت حالات کی وجہ سے اس نے اپنا مذہب چھپا لیا۔بعد اس کی اکثر اولاد بلوغ و رشد فکری کی حدوں کو چھونے کے بعد حقیقت کو پا کر علی بن ابی طالبؑ کے چاہنے والے شیعوں میں شامل ہو گئی۔

اس خاندان میں سب سے پہلے اعین کا بیٹا عبد الملک نے صالح بن میثم کے توسط سے مذہب شیعہ قبول کیا پھر اس کے بھائی حمران نے ابوخالد کابلی کی وجہ سے اس مذہب کو اختیار کیا[4][5] ایک اور روایت کے مطابق سب سے پہلے اعین کی بیٹی خواہر عبدالملک کی بہن ام الاسود نے اہل بیت کا مذہب اختیار کیا جس میں ابوخالد کابلی بہت زیادہ مؤثر تھا۔[6]

معروف اور نمایاں چہرے

اَعْین ‎بن ‎سُنْسُن شیبانی

اعین یعنی بڑی آنکھوں والا، اس کا باپ ایک راہبی اور مسیحی تھا جو روم کے شہروں میں کسی ایک شہر تھا۔ یہ غلامی میں گرفتار ہوا تو بنی شیبان کوفی کے ایک شخص نے اسے حلب نامی شہر سے خریداری کیا اور کوفہ لے آیا۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔ کچھ مدت بعد اس نے قرآن حفظ کیا اور عربی ادبیات میں مہارت پیدا کی نیز پرہیزگاری اور اخلاقی پاکیزگی میں مقام کسب کیا۔ مالک نے اسے آزاد کر دیا لیکن اس سے بنب ‎شیبان کی عضویت قبول کرنے درخواست کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ اور اس کا خاندان «‌کوفی شیبانی‌» کے نام سے مشہور ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ اعین ایرانی تھا اس نے حضرت علی کا دیدار کیا اور ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیااور ان کے اصحاب میں ہوا۔[7] لیکن عام طور پر رجال کے ماہرین اس کی تائید نہیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اعین اور اس خاندان کے چند مشہور افراد شیعہ تھے اور اکثر اس خاندان کے افراد حضرت علی اور دیگر اماموں کے طرفداروں میں سے مشہور تھے۔

زُرارۃ ‎بن‎اعین شَیبانی

شاگرد امام باقرؑ و امام صادقؑ

زرارہ (تقریبا70ھ-148ھ یا 150ھ)امامیہ مذہب کے محدّث، فقیہ، متکلّم، ادیب، مصنف تھے۔ وہ مشہور ترین شیعہ راوی اور امام صادقؑ کے برجستہ ترین شاگردوں میں سے ہیں۔ اسکے باوجود ان کے احوال روشن نہیں ہیں۔ وہ علم کلام، جدل اور استدلال کرنے نہایت ماہر تھے اور اکثر مخالفین سے بحث میں غلبہ حاصل کرتے تھے یہی وجہ تھی آپ امام صادقؑ اور شیعوں میں بہت زیادہ قال توجہ رہے۔ وہ نیز امام باقرؑ (۵۷-۱۱۴ھ/۶۷۶-۷۳۲ء) کے شاگردوں میں سے تھے انہوں نے بہت سی روایات ان سے نقل کی ہیں۔ بعض ماہتین رجال انہیں زرارہ کو غیر موثّق سمجھتے ہیں نیز انکی مذمت میں روایات بھی نقل ہوئی ہیں ایک قول کے مطابق ان کی تعداد ۲۰ تک پہنچتی ہے۔[8] اما امام پنجم اور ششم کے نزد ان کے خاص مقام و منزلت اور ان کی تائید اور مدح میں روایات بھی مذکوریت کو دیکھتے ہوئے یہاں تک کہ امام نے انہیں اپنے زمانے کا صادق ترین شخص کہا،[9]، اس بنا پر ان کے ایمان، دانش، اخلاص، امانت و فقاہت میں کسی قسم کی کوئی تردید باقی نہیں رہتی ہے۔

معارف اہل بیتؑ کی نشرواشاعت میں کردار

معارف اہل بیت ؑ کی نشر و اشاعت اور احیا میں زرارہ کا اس حد تک کردار ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا: خدا زرارہ کی بخشش فرمائے کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے میرے والد کی احادیث لوگوں کے درمیان سے اٹھ جاتیں۔[10]

ایک اور حدیث میں امام صادقؑ نے اسے واضح طور پر بہشتیوں میں قرار دیا ہے۔ [11] نیز اسی امام سے مروی ہے: ۴ اشخاص: برید بن معاویہ عجلی، محمد بن مسلم، ابو بصیر و زرارہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔[12]

وثاقت زرارہ

رجال کے ماہرین عام طور پر مذمّت کی روایات کو ضعیف یا مخصوص حالات سیاسی اور تقیہ میں سمجھتے ہیں۔[13] ایک اور مسئلہ جو شیعہ محققین میں محل بحث ہے وہ امامت موسی‎ بن‎ جعفرؑ (۱۲۸-۱۸۳ھ/۷۴۵-۷۹۹ء) کے امر امامت میں ان کا تردید یا انکار کرنا ہے است[14] ہرچند یہ نسبت مکمل طور پر واضح نہیں ہے اگر زرارہ میں ایسی تردید یا انکار پیدا بھی ہوا ہو تو زرارہ کے بعد میں آنے والے ائمہ اور شیعوں کی تائیدوں کے ہوتے ہوئے شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ پس زرارہ نے امامت امام موسیؑ کے سامنے سر تسلیم کیا۔

آثار

کہتے ہیں کہ وہ صاحب تالیفات تھا لیکن الاستطاعہ والجبر والعہود[15] کے علاوہ کسی اور کتاب ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ابن‎بابویہ قمی (۳۲۹ھ/۹۴۱ء) کہے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو دیکھا ہے۔[16] بعض نے ادعا کیا کہ زرارہ نے ۹۰ سال زندگی گزاری۔[17] یہ احتمال بھی کوئی بعید نہیں کیونکہ بعض رجالیوں نے انہیں اصحاب امام علی‎بن‎حسینؑ سے بھی کہا ہے۔[18]

اولاد

زرارہ کی ۷ اولادیں : رومی، یحیی، عبداللہ، حسن، حسین، محمد و عُبید تھیں کہ جو شیعہ راوی اور اکثر امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے شاگرد تھے اور ان سے روایت نقل کرتے تھے۔ ان میں سے عبید اعتبار و شہرت کے لحاظ سے زیادہ معروف تھا؛ جیسا کہ اسے «‌موثَّق‌» شمار کرتے ہیں. وہ کوفہ میں رہتا تھا اور اس قدر معتبر سمجھا جاتا تھے کوفہ کے شیعہ اسے ضرورت اور سوالات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے امام صادقؑ کے پاس مدینہ بھیجتے تھے۔[19]

حُمْران (ابوحمزہ) ‎بن‎اعین

حمران، فقیہ، محدّث، نحوی، ادیب و لغت دان تھا۔ وہ امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے شاگردوں میں سے ہے۔انہوں نے ان دو اماموں سے بہت زیادہ روایات نقل کیں ہیں نیز بہت سے افراد نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ اہل سنّت ماہرین رجال اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے وثاقت کی تائید نہیں کرتے ہیں لیکن شیعہ رجال کے ماہرین عام طور پر اسے موثق کہتے ہیں بلکہ بعض اسے زرارہ سے زیادہ موثق کہتے ہیں۔[20] حمران نے علم نحو ابوالاسود دُولی سے حاصل کیا۔ ہرچند تاریخ اسکی وفات کی تاریخ ذکر نہیں کرتی ہے لیکن امام صادقؑ سے پہلے اس کا فوت ہونا قطعی ہے۔[21] حمران کی اولاد کے نام: عقبہ، حمزہ و محمد تھے اور وہ وہاصحاب امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے موثق اصحاب نیز انہوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔

بُکَیر (ابوجَہْم) ‎بن ‎اعین

وہ موثَّق راویوں میں سے ہے اور امام پنجم و امام ششم کے اصحاب اور شیعوں میں ہیں۔ بہت سی روایات کے راوی ہیں۔ لیکن اس شہرت کے باوجود ان کے احوال زندگی مذکور نہیں ہیں۔ بکیر امام صادقؑ کی شہادت سے پہلے فوت ہوئے. اسکی ۶ اولادیں تھیں جنکے نام:عمر، جہم، زید، عبداللہ، عبدالحمید و عبدالاعلی تھے۔ مذکور اولادیں علما، محدثین اور اصحاب امام صادقؑ میں سے شمار ہوتے تھے۔ ان میں سے عبداللہ صاحب نظر تھا لیکن اس نے بعد میں فطحی مذہب اختیار کیا۔[22]

ابو غالب زراری

احمد بن ‎محمد معروف بنام ابو غالب زراری (۲۸۵-۳۶۸ھ/۸۹۸-۹۷۸ ء) فقیہ، محدّث، متکلم، ادیب اور شاعر تھا۔ وہ آل اعین خاندان کے آخری مشہور عالم اور محدث تھا اس نے ۱۱ سال کی عمر میں علم حدیث حاصل کیا۔

ابوغالب نے ۳۵۶ھ/۹۶۷ ء میں رسالۃ فی ‎آل اعین لکھا۔ اس میں اپنے خاندان کے احوال لکھے جس میں اول سے لے کر آخر تک کے راویوں، ان کے مشائخ طرق وغیرہ ذکر کئے اور اس رسالے کو لکھنے کے بعد اپنے پوتے محمد بن‎ عبداللہ کو ہدیہ کیا۔

وہ بکیر بن‎ اعین کی نسل سے تھا لہذا اس وجہ سے ابو غالب کی نسل کو بکیری کہتے تھے۔ لیکن امام ہادیؑ (۲۱۲-۲۵۴ھ/۸۲۹-۸۶۸ ء) کے ایام زندگی میں «‌زراری‌» کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نام کی شہرت اس کے بقول اسکے جد سلیمان‎ بن‎ حسن کے زمانے میں ظاہر ہوئی ۔ اس کی دو وجوہات ذکر کرتے ہیں: ابو غالب کے دادا حسن بن جہم بن بکیر کی ماں عبید بن ‎زراره کی بیٹی تھی اور امام حسن عسکری نے سیاسی اور حالات کے پیش نظر سلیمان کے بیٹے حسن کو زراری کہا۔

حوالہ جات

  1. ابوغالب زراری، مقدمہ مصحح، ص«‌د ».
  2. صص۱۲، ۱۸.
  3. تستری، قاموس الرجال، ج۲، ص۱۷۲.
  4. محدث قمی، الکنی والالقاب، ج۱، ص۱۳۱.
  5. ابوغالب زراری، رسالۃ ابی غالب زراری، ص۱۳۵.
  6. ابوغالب زراری، رسالۃابی غالب زراری، ص۱۳۰.
  7. امین، ج۲، ص۱۰۱.
  8. بہبہانی، ص۱۴۲.
  9. طوسی، ص۱۴۱.
  10. ابو غالب زراری، مقدمہ مصحح، ص«‌د ».
  11. موسوی اصفہانی، ج۱، ص۳۰۵.
  12. طوسی، ص۱۴۲.
  13. طوسی، ص۱۴۲.
  14. امین، ج۷، ص۵۳.
  15. طوسی، ص۱۴۳.
  16. نامہ دانشوران، ج۹، ص۸۳.
  17. نامہ دانشوران، ج۹، ص۸۹.
  18. ابوغالب، زراری، ص۳.
  19. ابوغالب، زراری، ص۵.
  20. امین، ج۶، ص۲۳۴.
  21. ابوغالب زراری، ص۴.
  22. ابو غالب، زراری، ص۴، ۶.

مآخذ

  • ابطحی، محمدعلی، تہذیب‎المقال، نجف، مطبعہ‎الآداب، ۱۳۹۰ھ۔
  • ابن‎ندیم، محمدابن‎اسحاق، الفہرست، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۳۹۸ھ۔
  • ابوغالب زراری، احمد، رسالہ‎فی‎آل اعین، بہ کوشش محمدعلی موسوی ابطحی، اصفہان، ۱۳۹۹ھ۔
  • ابی غالب الزراری، رسالہ ابی غالب الزراری و تکملہا لابی عبداللہ الغضائری، تحقیق سید محمدرضا حسینی، مرکز البحوث والتحقیقات الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
  • اردبیلی، محمدبن‎علی، جامع‎الرواہ، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ھ۔
  • افندی اصفہانی، عبداللہ، ریاض‎العلماء، بہ کوشش احمد حسینی و محمود مرعشی، قم، مطبعہ‎الخیام، ۱۴۰۱ھ۔
  • امین، محسن، اعیان‎الشیعہ، بیرون، دارالتعارف، ۱۴۰۳ھ۔
  • بحرالعلوم محمدمہدی، رجال، تہران، مکتبۃ الصادق، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • بہبہانی، محمدباقر، تعلیقات علی‎منہج‎المقال، ۱۳۰۶ھ۔
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تحقیق مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ ۲، ۱۴۱۰ہجری.
  • حلی، حسن ‎بن‎علی، کتاب‎الرجال، بہ کوشش جلال‎الدین محدث، دانشگاہ تہران، ۱۳۴۲ہجری شمسی۔
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال‎الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ھ۔
  • طوسی، محمدبن‎حسن، الفہرست، بہ کوشش محمود رامیار، دانشگاہ مشہد، ۱۳۵۱ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، فوائدالرضویہ، تہران، ۱۳۲۷ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، الکلنی والالقاب، مطبعۃ الحیدریہ، نجف ۱۳۸۹ ہجری.
  • موسوی اصفہانی، آقا حسین، ثقات‎الرواہ، نجف مطبعہ‎الاداب، ۱۳۸۷ھ۔
  • نامۃ دانشوران، قم، دارالفکر.

بیرونی رابط