حرم حضرت رقیہ

ویکی شیعہ سے
حرم حضرت رقیہ
ابتدائی معلومات
تاسیسنویں صدی ہجری کے بعد
استعمالزیارت گاہ
محل وقوعدمشق سانچہ:Flag
مشخصات
رقبہ4500 مربع فٹ
معماری
طرز تعمیراسلامی- ایرانی فن تعمیر

حرم حضرت رقیہ دمشق میں ایک زیارت گاہ ہے جو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ سے منسوب ہے۔ یہ روضہ حرم حضرت زینب(س) کے بعد اس شہر میں شیعوں کی دوسری زیارت گاہ ہے۔ پہلی دفعہ چودہویں صدی ہجری کے منابع میں اس مقام کو حضرت رقیہ سے منسوب کیا گیا ہے؛ اس سے پہلے دسویں صدی ہجری تک اس مقام کو نام لئے بغیر امام حسینؑ کی کسی بیٹی کا محل دفن قرار دیا جاتا تھا۔

بعض علماء اس حرم کو حضرت رقیہ سے منسوب کرنے میں تردید کا اظہار کرتے ہیں؛ بعض اسے رقیہ بنت امام علیؑ کا محل دفن جبکہ بعض اسے مقام رأس الحسین قرار دیتے ہیں۔ البتہ اس حرم کی توسیع اور مرمت کے بارے میں ایک داستان مشہور ہے جس کے مطابق یہ حرم ایک چھوٹی بچی کا محل دفن ہے۔ حضرت رقیہ کا حرم اس وقت ایک وسیع عمارت پر مشتمل ہے جو اسلامی معماری اور مقامی و ایرانی فن تعمیر کا امتزاج ہے۔

اہمیت

حرم حضرت رقیہ دمشق میں ایک زیارت گاہ ہے جو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ سے منسوب ہے۔ یہ زیارت گاہ حرم حضرت زینب(س) کے بعد اس شہر میں دوسری زیارت گاہ کے عنوان سے شیعوں کی توجہ کا مرکز ہے۔[1] یہ حرم دمشق کے ایک قدیمی بازار «سوق العمارہ» میں باب الفرادیس (دمشق کا ایک تاریخی دروازہ) کے قریب مسجد اموی اور بازار شام سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔[2]

انتساب

اس مقام کو رقیہ بنت امام حسینؑ یا رقیہ بنت امام علیؑ سے منسوب کئے جانے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعہ مورخ احمد خامہ‌ یار کے مطابق یہ مقام شروع میں مقام راس الحسین کے نام سے مشہور تھا جہاں ایک قول کی بنا پر امام حسینؑ کا سر اقدس مدفون ہے۔ عثمانی دور حکومت سے مربوط منابع میں اس مقام کو حضرت رقیہ کے مزار کے عنوان سے معرفی کی گئی ہے۔ البتہ اسی دور سے مربوط بعض منابع میں اسے مقام راس الحسین بھی قرار دیا گیا ہے؛ اس تفاوت کے ساتھ کہ قدیمی‌ منابع میں حضرت رقیہ کو امام علیؑ جبکہ نئے منابع میں امام حسینؑ کی بیٹی قرار دی گئی ہے۔[3]

کہا جاتا ہے کہ موجودہ‌ حرم کو حضرت رقیہ سے منسوب کرنے والی پہلی سند دسویں صدی ہجری سے متعلق محمّد بن ابی طالب حائری کَرَکی (955ھ میں زندہ) کی کتاب «تسلیۃ المجالس» ہے۔[4] ان کے مطابق دمشق میں مسجد جامع اموی کی مشرقی جانب ایک کھنڈر ہے جہاں پہلے مسجد ہوا کرتی تھی جس کے پتھروں پر پیغمبر اکرمؐ اور ان کی آل میں سے شیعوں کے بارہ اماموں کا نام درج تھا۔ اسی طرح اس مسجد کے اصلی دروازے کے اوپر تحریر تھی کہ یہ قبر حسین بن امیر المؤمنینؑ کی بیٹی خانم مَلَکہ کی ہے۔[5]

سید محسن امین اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں اس حرم کے بارے میں صرف یہ لکھتے ہیں کہ دمشق کے محلہ العمارہ میں موجود قبر جو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ سے منسوب زیارت گاہ ہے جسے سنہ 1323ھ کو ایران کے وزیر اعظم میرزا علی اصغر خان [اتابک، امین السلطان] نے تعمیر کی ہے جس پر تعمیر کی تاریخ بھی درج ہے۔[6]

امام حسین انسائیکلوپیڈیا میں اس حرم کو حضرت رقیہ سے منسوب ہونے کے بارے میں تحریر ہے کہ حدیثی اور تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر اس حرم کے بارے میں یقینی رائے قائم کرنا مشکل ہے؛ لیکن اس مزار سے ظاہر ہونے والی کرامات اس کے تقدس کی نشاندہی کرتی ہے لھذا اسے مورد احترام قرار دینا چاہئے۔[7]

قبر میں پانی آنا اور نبش قبر کا واقعہ

آخری دو صدیوں کے بعض مآخذ میں نبش قبر کے دوران مدفون بدن کے آشکار ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی چھوٹی بچی کی تھی۔ کہا گیا ہے کہ کم از کم تین اشخاص نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔[8] ان میں سے پہلا شخص تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین مؤمن شِبلَنجی ہے جنہوں نے نور الابصار نامی کتاب میں[9] اس مزار کو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ کی قبر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تعمیر کی خاطر قبر میں موجود جنازے کو باہر نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جنازہ کسی نابالغ چھوٹی بچی کا تھا۔[10]

شیخ محمد ہاشم خراسانی (متوفی 1352ھ) کتاب منتخب التواریخ میں اس مزار کو رقیہ بنت الحسینؑ سے منسوب کرتے ہوئے پانی آنے کی وجہ سے اس قبر کے خراب ہونے کے واقعے کو بعض کرامات کے ساتھ تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سید ابراہیم دمشقی کی تین بیٹیاں تھیں جنہوں نے سنہ 1280ھ میں متواتر تین راتیں بالترتیب پہلی رات بڑی بیٹی کو دوسرے رات درمیانی بیٹی کو اور آخری رات چھوٹی بیٹی کو حضرت رقیہ نے خواب میں کہا کہ: اپنے بابا سے کہو کہ میری قبر میں پانی آیا ہے آکر اسے تعمیر کریں۔ سید ابراہیم نے اپنی بیٹیوں کے خواب پر کوئی توجہ نہیں دی یہاں تک کہ چوتھی رات اس نے خود حضرت رقیہ کو خوب میں دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے بعض شیعہ اور اہل سنت علماء کی موجودگی میں نبش قبر کیا۔ سید ابراہیم نے جنازے کو جو کہ بالکل صحیح و سالم تھا، اپنے زانوں پر رکھا اور نئے سرے سے اس قبر کی تعمیر کی۔[11]

دانشنامہ امام حسینؑ کے مؤلفین کے مطابق اس واقعے کو لکھنے اور بیان کرنے کی معقول علت اور وجہ ہونے کے باوجود سوائے اس حرم کے متولیوں کے کسی نے بھی اس واقعے کو ذکر نہیں کیا ہے اور سید محسن امین جو خود اسی منطقے کے رہنے والے تھے نے بھی اس واقعے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[12]

دمشق میں حرم حضرت رقیہ کی فضائی تصویر

تعمیر اور مرمت

حرم حضرت رقیہ کا مینار

نویں صدی ہجری تک اس زیارت گاہ کی تعمیر اور مرمت کے بارے میں کوئی معلومات میسر نہیں ہے۔[13] کتاب الشذرات الذہبیۃ کے مصنف ابن طولون دمشقی کے مطابق نویں صدی ہجری کے درمیانی عشرے میں امیر بردبک ظاہری کہ جو سنہ 871ھ کو پادشاہ مملوکی کی طرف سے دمشق میں منصب نیابت پر فائز ہوا نے اس عمارت کی مرمت کی۔ اس مزار پر موجود ایک پتھر کے کتیبے سے معلوم ہوتا ہے کہ میرزا بابا مستوفی گیلانی نے سنہ 1125ھ کو اس حرم کی عمارت کی مرمت کی۔ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کے آخری عہد میں میرزا علی‌اصغرخان اتابک، صدر اعظم دربار قاجار نے سنہ 1323ھ کو اس مزار کی مرمت کی۔[14]

بعض مورخین کے مطابق ایوبی حکمرانوں (شروع حکومت سنہ 1171ھ) نے حضرت رقیہ کی قبر کو جو کہ مسجد رأس الحسین کے اندر واقع تھی پر ایک چھوٹا مقبرہ، ضریح اور گنبد تعمیر کروایا اور سنہ 1125ھ اور 1323ھ میں ان کی مرمت کی گئی۔[15]

سنہ 1343ھ کو دمشق کی شیعہ شخصیت محمد علی آل نظام نے ذاتی خرچے پر زیارت گاہ کی تعمیر اور مرمت کی۔ حرم حضرت رقیہ کی عمارت اس سے پہلے ایک کمرہ پر مشتمل تھی جس کے درمیان قبر واقع تھی۔ اس کے جوار میں ایک چھوٹی مسجد بھی تھی اور مجموعی طور پر ان کا رقبہ 60 مربع فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔[16]

حرم کی توسیع

بیسویں صدی عیسوی کی ستر کی دہائی میں بعض شیعہ شخصیات منجملہ نصر اللہ خلخالی اور امام موسی صدر نے حرم حضرت رقیہ کی تعمیر و توسیع کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے آس پاس موجود بعض گھروں اور دکانوں کو خریدا اور حرم کی توسیع کا کام سنہ 1404ھ بمطابق سنہ 1984ء شروع ہوا اور عمدہ کام سنہ 1410ھ کو انجام پایا۔[17]

کہا جاتا ہے کہ نصر اللہ خلخالی نے سنہ 1350ہجری شمسی کو حرم کی توسیع کا ارادہ کیا لیکن حرم کے اطراف میں موجود بعض گھروں کے مالکین اپنے مکانات کو فروخت کرنے پر راضی نہیں ہوا جس کی بنا پر حالت جوں کے توں رہ گئی یہاں تک کہ سنہ 1363 ہجری شمسی کو مذکورہ مکانات کو کئی گنا زیادہ قیمت کے ساتھ خریدنے کے بعد حرم کی نئی عمارت کی تعمیر اور توسیع کا کام اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے سرکاری عہدہ داروں کی موجودگی میں شروع ہوا۔[18]

آخری توسیع میں حرم کا رقبہ تقریبا 4500 مربع فٹ تک پہنچا جس میں سے 600 مربع فٹ کھلے آسمان اور باقی رقبہ پر عمارت تعمیر کی گئی اور عمارت کے جنوبی حصے میں 800 مربع فٹ پر مشتمل ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔ نئی توسیع میں حرم اور اس کے صحنوں کا مجموعی رقبہ تقریبا 2600 مربع فٹ ہے۔[19]

فن تعمیر

حضرت رقیہ کی ضریح

حرم حضرت رقیہ کی آخری توسیع میں اسلامی - ایرانی فن تعمیر کا سہارا لیا گیا ہے[20] اور کہا جاتا ہے کہ اس میں استعمال شدہ مصالح اور تزئینات دمشق کے دیگر دینی فن تعمیر سے منفرد ہے۔[21]

حرم کی عمارت کئی داخلی راستوں پر مشتمل ہے جن میں سب سے اہم جنوب مغربی راستہ ہے۔ اس داخلی راستے کی ابتداء میں ایک گنبد ہے جس میں ٹائلوں سے پوشیدہ ... ہے جس کے اوپر «ہذا مقام السیدۃ رقیۃ بنت الحسین الشہید بکربلاء» کی عبارت لکھی ہوئی ہے اور اس دروازے کی اوپر ایک مینار ہے جس کی بلندی تقریبا 34 گز ہے۔ یہ داخلی راستہ حرم کے اصلی صحن سے متصل مستطیل نما شکل میں بنایا گیا ہے جس کے ارد گرد کمرے بنائے گئے ہیں۔[22]

اس عمارت کے مین حصے کے مغرب میں اصل حرم اور مرکز اور مشرق میں دو وسیع دالانیں ہیں جن میں سے ہر ایک میں شمالی حصے سے داخل ہونے کے لئے ایک ایک دروازہ ہے۔ حرم کے ارد گرد آینہ‌ کاری شدہ کمرے موجود ہیں۔ حرم کی چھت پر کاشی‌ کاری‌ کی گئی ہے اور اس کے بعض حصوں پر مقرنس‌کاری کی گئی ہے۔ کاشی‌ کاری‌ کے درمیان میں اہل‌بیتؑ می شان میں موجود قرآنی آیات اور احادیث دکھائی دیتی ہیں۔[23]

حضرت رقیہ کی قبر حرم کے درمیان میں واقع ہے جس کے اوپر لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق سبز کپڑوں میں لپٹا ہوا ہے جس پر قرآنی آیات تحریر ہے۔ قبر کے اوپر ایک چاندی کی ضریح ہے جسے سنہ 1376ھ/1956ء کو مجمع بنی‌زہرا تہران نے حرم حضرت رقیہ کے لئے بطور ہدیہ پیش کی ہے۔ یہ ضریح چاندی اور سونے کی بنی ہوئی ایک بڑے ضریح کے اندر واقع ہے جسے اصفہان میں بنا کر سنہ 1414ھ/1994ء کو نصب کیا گیا ہے۔ ضریح کے اوپر حرم کا اصل گنبد ہے جس کی اونچائی زمین سے 14 گز ہے جس کا بیرونی حصہ ہندسی تزیینات کے ذریعے مزین کیا گیا ہے اور اس کا داخلی حصہ مقرنس‌ کاری اور آینہ‌ کاری کے ذریعے مزین ہے۔[24]

نبیل حلباوی، حرم حضرت رقیہ کے متولی

تولیت

سید ابراہیم دمشقی کی بیٹیوں کے خواب کے واقعے کے بعد سلطنت عثمانیه کے حکمران سلطان عبد المجید نے حرم حضرت زینب، مرقد حضرت رقیہ، مرقد حضرت ام‌کلثوم اور مرقد حضرت سکینہ کی تولیت سید ابراہیم کے حوالے کی۔ سید ابراہیم دمشقی کے بعد ان کے بیٹے اور پوتے ان مقامات کے متولی رہ چکے ہیں۔[25] اس وقت احمد الاشقر حرم حضرت رقیہ کے متولی ہیں۔[26]

اس حرم پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے

شام میں تکفیری گروہوں کی رفت و آمد کے پہلے سال حرم حضرت رقیہ کے امام جماعت شیخ عباس اللحام کو حرم کے داخلی دروازے کے سامنے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور کئی گولیوں سے انہیں شہید کیا گیا۔[27] دمشق کے مشرقی حصے جوبر نامی علاقے میں موجود دہشت گردوں نے کئی دفعہ حرم حضرت رقیہ کی طرف راکٹ فائر کئے؛ لیکن یہ راکٹ حرم پر نہیں لگے۔[28]

حوالہ جات

  1. قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، 1387ہجری شمسی، ص57۔
  2. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص237۔
  3. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص241ـ237۔
  4. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، 1388ہجری شمسی، ج1، ص389۔
  5. حائری، تسلیۃ المجالس، 1418ھ، ج2، ص93۔
  6. امین، أعیان الشیعۃ، ‌1421ھ، ج7 ص34۔
  7. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، 1388ہجری شمسی، ج1، ص393۔
  8. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص241۔
  9. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص241۔
  10. شبلنجی، نورالأبصار، نشر رضی، ص195۔
  11. خراسانی، منتخب التواریخ، 1388ہجری شمسی، ص388۔
  12. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، 1388ہجری شمسی، ج1، ص392۔
  13. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص246۔
  14. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص246۔
  15. قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، 1387ہجری شمسی، ص57 و 58؛ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در سوریہ،‌ 1389ہجری شمسی، ص119 و 120۔
  16. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ص247
  17. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص249 و 250۔
  18. قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، 1387ہجری شمسی، ص58؛ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ، 1389ہجری شمسی، ص120۔
  19. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ، 1389ہجری شمسی، 121۔
  20. قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، 1387ہجری شمسی، ص59؛ خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص250۔
  21. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص250
  22. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص250۔
  23. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، 1393ہجری شمسی، ص251۔
  24. خامہ‌یار، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ص 252ـ251۔
  25. خراسانی، منتخب التواریخ، 1388ہجری شمسی، ص388؛ «آیا تروریست‌ہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہ‌اند»، سایت مشرق‌نیوز۔
  26. دیدار تولیت حرم حضرت رقیہ با تولیت آستان قدس رضوی
  27. «آیا تروریست‌ہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہ‌اند»، سایت مشرق‌نیوز۔
  28. «آیا تروریست‌ہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہ‌اند»، سایت مشرق‌نیوز۔

مآخذ

  • «آیا تروریست‌ہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہ‌اند»، سایت مشرق‌نیوز، تاریخ درج مطلب: 8 آذر 1393ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 20 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، 1421ھ۔
  • حائری، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1418ھ۔
  • خامہ‌یار، احمد، آثار پیامبر(ص) و زیارت گاہ‌ہای اہل بیت(ع) در سوریہ، پژوہشکدہ حج و زیارت، تہران، مشعر، 1393ہجری شمسی۔
  • خراسانی، محمدہاشم، منتخب التواریخ، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، چاپ ہفتم، 1388ہجری شمسی۔
  • «زندگی نامہ شیخ نبیل الحلباوی»، سایت مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، تاریخ بازدید: 20 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار(ص)، قم، رضی، بی‌تا۔
  • قائدان، اصغر، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد و ہمکاران، دانشنامہ امام حسین بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دارالحدیث، چاپ دوم، ‍1388ہجری شمسی۔
  • مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ (ویژہ کارگزاران حج و زیارت)، تہران، مشعر، 1389ہجری شمسی۔
  • نماز جمعہ حتی یکبار تعطیل نشد، خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج: 18 آذر 1393ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 20 مرداد 1401ہجری شمسی۔