نظریہ صرفہ

ویکی شیعہ سے

نظریہ صَرْفہ، اعجاز قرآن کے بارے میں ایک نظریہ ہے جس کے مطابق قرآن کے اعجاز میں خداوندعالم کا عمل دخل ہے اور خدا نے قرآن کے مخالفین کو قرآن جیسی کتاب لانے سے باز رکھا ہے۔ اس نظریے کے قائلین کہتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب کا لانا کوئی ناممکن کام نہیں ہے اور دوسری صدی ہجری سے پانچویں صدی ہجری تک اس نظریے کے قائلین موجود تھے۔ لیکن اکثر مسلمان علماء اس نظریے کے مخالف ہیں اور بعض اس نظریے کو قرآن کے ادبی معجزے کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ابراہیم بن سَیار معتزلی اس نظریے کا پہلا نظریہ پرداز تھا۔ شیعہ علماء میں سے سید مرتضی، ابو الصلاح حلبی، خفاجی اور بیاضی اس نظریے کے معتقد تھے۔ شیخ مفید اور شیخ طوسی نے بھی اپنی بعض کتابوں میں اس نظریے کی تأیید کی ہیں جبکہ بعض دوسری کتابوں میں اسے مسترد کئے ہیں۔

اس نظریے کے مطابق ممکن ہے خدا نے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے کا انگیزہ اور شوق ختم کرنے یا علم چھین لینے یا کسی اور طریقے سے زبردستی مخالفین کو قرآن جیسی کتاب لانے سے باز رکھے۔ اس نظریے کے حامی اس بات کے معتقد ہیں کہ فصاحت و بلاغت ایک ہنر اور فن ہے اور ہر زبان کے ماہرین اس فن میں مہارت پیدا کر سکتے ہیں اور قرآن کی آیات میں بھی کوئی ایسی فصاحت یا بلاعت موجود نہیں ہے جو انسان کی قدرت سے باہر ہو۔ اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیت نمبر 31 اور سورہ اعراف کی آیت نمبر 146 کو اپنے اس مدعا پر شاہد قرار دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں علامہ طباطبایی توضیح دیتے ہیں کہ کسی زبان سے آشنائی اس زبان میں فصاحت و بلاغت میں مہارت پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ چنانچہ بعض دوسرے قرآنی محققین نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہیں کہ قرآن کا چلینج تمام آیات کے بارے میں نہیں ہے اسی طرح سورہ انفال اور اعراف کی مذکورہ آیات کی کوئی اور تفسیر ہے۔ نظریہ صرفہ کی حمایت اور دفاع میں لکھی گئی سب سے پہلی کتاب "الموضح عن جہۃ اعجاز القرآن" ہے جسے سید مرتضی نے تحریر کی ہیں۔ آیت اللہ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "الاِلہیات" میں اس نظریے کی رد میں 10 عمومی جوابات دئے ہیں۔

اہمیت

نظریہ صرفہ اعجاز قرآن کے باب میں سب سے قدیمی اور اس بحث کی ابتداء کرنے والا نظریہ شمار کیا جاتا ہے۔[1] یہ نظریہ‌ قرآن کے ادبی اعجاز کے بارے ہے اور قرآنی علوم کے زمرے میں آتا ہے۔[2]علم تفسیر[3] اور علم کلام[4] میں بھی اس پر توجہ دی گئی ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ سید مرتضی نے "الموضح عن جہۃ اعجاز القرآن" کے نام سے ایک مستقل کتاب اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے تحریر کی ہیں۔[5] یہ نظریہ ایک طرح سے قرآن کے ادبی اعجاز کے مخالف ہے جو کہ اعجاز قرآن کے باب میں سب سے مشہور نظریہ تصور کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ نظریہ صرفہ کے بانی نظّام پر نبوت کے انکار کا الزام لگایا گیا۔[6] باوجود اینکہ اس نظریے کو علوم قرآن کے اکثر نظریہ پردازوں نے مسترد کیا ہے؛ لیکن اس نظریے نے قرآن کے ادبی اعجاز کے نظریے کو نقصان پہنچایا ہے، اس بنا پر تاریخی اعتبار سے اس کی اہمیت اپنی جگہ محفوظ ہے۔[7] علوم قرآن کے محقق آیت اللہ معرفت نظریہ صرفہ اور اعجاز قرآن کے قہری قرار دینے کو ایک خطرناک اقدام قرار دیتے ہوئے اسے دین کی بدنامی اور قرآن کے حق میں ظلم قرار دیتے ہیں۔[8]

مفہوم‌ شناسی

نظریہ صرفہ (منصرف‌کرنا) اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا نے اپنی طاقت کے ذریعے قرآن یا اس کی کسی سورت جیسی کوئی کتاب یا سورت لانے سے لوگوں کو باز رکھا ہوا ہے اور خدا کی طرف سے یہی باز رکھنا ہی قرآن کا معجزہ ہے۔[9] اس نظریے کے مطابق قرآن کی طرح کوئی کلام لانا ناممکن نہیں ہے اور بعثت سے پہلے بعض مشہور عرب ادیب قرآن جیسے کلام کے مالک تھے۔ اس کے بعد خدا نے لوگوں کو قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اس جیسی کوئی کتاب لانے سے باز رکھا ہوا ہے۔[10]

اس نظریے کے حامیوں کے کلام میں خدا کی طرف نسبت دی گئی ممانعت کی تین صورتیں بیان کی گئی ہے؛

  • مقابلہ کرنے کا شوق اور انگیزہ ختم کرنا۔[11]
  • مقابلہ کرنے کے لئے ضروری علم کو ختم کرنا اور یہ دو طرح سے ہو سکتا ہے:
  1. یہ علم قرآن کے مخالفین کے ذہن میں ہو اور خدا نے اسے چھین لیا ہو۔
  2. خدا شروع سے ہی اس علم کے سیکھنے کا شوق ہی ختم کر دے۔[12]
  • مقابلہ کرنے کا شوق اور علم رکھنے کے باوجود خدا زبردستی مقابلہ کرنے سے باز رکھے۔[13]

اس نظریے کا منشاء

نظریہ صرفہ تیسری صدی ہجری کے وسط سے مطرح ہوا اور چوتھی صدی ہجری تک علم کلام کے مختلف فرقوں کے درمیان ایک اہم نظریے کے طور پر رائج رہا۔[14] معتزلی مفکرین جیسے نَظّام (درگذشتہ224ق) اور عیسی بن صَبیح مُزدار جو کہ "راہب معتزلہ" کے نام سے مشہور تھا، اس نظریے کے پہلے نظریہ پرداز مانے جاتے ہیں۔[15]

مصری قرآنی محقق محمد ابو‌ زہرہ نظریہ صرفہ کا منشاء منصور عباسی (متوفی 156ھ) یا ان کے بعد کے ادوار میں اسلامی معاشرے میں ہندی ثقافت کا نفوذ قرار دیتے ہیں۔[16] ابو زہرہ کے مطابق ہندوستان کے برہمایی علماء کا عقیدہ تھا کہ برہما نے لوگوں کو "الفیدا" کے اشعار کی مثل لانے سے باز رکھا تھا اس کے بعد یہ کتاب فیلسوف‌ نما مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئی۔[17] قاضی‌ زادہ نظریہ صرفہ کے بارے میں اپنی تحقیق میں اس بات کے معتقد ہیں کہ ابو زہرہ کی بات کی کوئی تاریخی سند نہیں ہے اور کسی قرآنی محقق نے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور منصور سے پہلے جعد بن درہم قرآن کے ادبی اعجاز کو نہیں مانتا تھا۔[18]

قائلین اور مخالفین کا نقطہ نظر

اہل سنت علماء میں سے ابو اسحاق نَظّام معتزلی (متوفی231ھ) اور ابن‌ حَزم أندلسی (متوفی456ھ) جبکہ شیعہ علماء میں سے سید مرتضی (متوفی 436ھ) اور ان کے شاگرد ابو الصلاح حلبی، (متوفی 447ھ) ابن‌سنان خَفاجی (متوفی 466ھ) کو اس نظریے کے حامیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔[19] شیخ مفید (متوفی 413ھ) نے اپنی کتاب "اوائل المقالات"[20] اور شیخ طوسی (متوفی 460ھ) نے اپنی کتاب شرح الجمل میں نظریہ صرفہ کی تأیید اور تقویت کی ہیں۔[21] لیکن قطب راوندی نے شیخ مفید کی ایک اور بات نقل کی ہے جو اس نظریے کے برخلاف ہے،[22] چنانچہ شیخ طوسی بھی اپنی کتاب الاقتصاد میں خود اس نظریے سے منصرف ہوئے ہیں۔[23] نویں صدی ہجری کے شیعہ عالم علی بن محمد بیاضی (متوفی 877ھ) بھی نظریہ صرفہ کے قائلین میں سے ہیں۔[24]

کہا جاتا ہے کہ اکثر مسلمان مفکرین قرآن کے ادبی اعجاز کو قرآن کے متن کی طرف نسبت دیتے ہوئے نظریہ صرفہ‌ کی مخالفت کرتے ہیں۔[25] وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ نظریہ صرفہ کے قائلین بہت کم ہیں اور دس نفر سے زیادہ نہیں ہیں۔[26]شیعہ فقیہ اور محقق قرآن آیت اللہ معرفت کے مطابق شیعہ علماء میں سے شیخ طوسی، شیخ جعفر کاشف‌الغطاء اور ہبۃ الدین شہرستانی نے نظریہ صرفہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[27] آیت اللہ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "الإلہیات علی ہدی الکتاب و السُّنۃ و العقل" میں اس نظریے کے رد میں دس (10) عمومی جوابات دئیے ہیں۔[28] شیعہ فقیہ اور مفسر مصطفی خمینی اس بات کے معتقد ہیں کہ نظریہ صرفہ قانون علیت کے ساتھ بھی ناسازگار ہے کیونکہ قرآن اگر کسی خاص خصوصیت کا حامل نہ ہوتا تو خدا لوگوں کو اس کی مثل لانے سے باز نہیں رکھتا۔[29]

نظریہ صرفہ اور ادبی فصاحت

فصاحت قابل کسب ہنر ہے

سید مرتضی نے استدلال کی ہیں کہ فصاحت ایک ہنر ہے جو سب کے لئے دستیاب ہے کیونکہ تمام عربی حروف تہجی تمام انسانوں کے اختیار میں ہے اور تمام جملات انہی حروف کی ترکیب سے بنے ہیں۔ قرآن بھی انہی حروف اور کلمات پر مشتمل ہے۔ پس جو چیز قرآن جیسی کتاب لانے میں مانع بن رہی ہے وہ فصاحت اور ان حروف کی ترکیب کی نوعیت سے نا آگاہی ہے وہ بھی انسان کے لئے کوئی محال یا ناممکن امر نہیں ہے۔[30] عقلی مقدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے معجزانہ کلام کو خلق کرنا بھی ممتنع بن جاتا ہے کیونکہ خدا کا ارادہ کسی محال چیز کے ساتھ تعلق نہیں پکڑتا۔[31]

اس کے مقابلے میں علامہ طباطبایی فصاحت کو چند امور پر موقوف قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک چیز حروف تہجی اور زبان سے آشنائی ہے، لیکن غور و فکر اور اسے اظہار کرنے صلاحیت نیز لطافت ذوق ہر کسی کی بس میں نہیں ہوتی۔[32] آیت اللہ خوئی الفاظ اور حروف تہجی سے آشنائی کو ان کے ترکیبی نوعیت میں صلاحیت پیدا ہونے کا سبب نہیں سمجھتے۔ چنا‌نچہ ہر کوئی اینٹ پر اینٹ تو رکھ سکتا ہے لیکن ایک مجلل قصر بنانا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہوتی۔[33]

اسلام سے قبل کے فن ادب سے موازنہ

نظّام کے مطابق اسلام سے پہلے بھی عربی زبان میں بعض نظم اور نثر پائے جاتے ہیں جو فصاحت و بلاغت کے اعلی درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ سودمند بھی تھے۔ ان کے ساتھ جب قرآن کا موازنہ کیا جاتا ہے تو ان کے مقابلے میں قرآن کی کوئی خارق العادہ صفت کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کے لئے قرآن جیسی کتاب لانا کوئی ناممکن کام دکھائی نہیں دیتا۔[34]

اس کے جواب میں بعض کہتے ہیں کہ پیفمبر اسلامؐ کے معاصر عرب اور اس کے بعد کسی بھی محقق نے زمانہ جاہلیت کے کسی بھی شخص کا کوئی ایسا کلام پیش نہیں کیا ہے جو قرآن جیسا ہو اور خود نظّام نے بھی اپنی مدعا پر کوئی نمونہ پیش نہیں کیا ہے۔[35] اس کے علاوہ اگر اسلام سے پہلے والے عربوں میں قرآن جیسی کوئی متن ہوتی جیسے ولید بن مغیرہ اور عتبۃ بن ربیعۃ جو اسی زمانے میں موجود تھے، وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم نے آج تک ایسا کلام کسی انسان یا جن سے نہیں سنا ہے۔[36]

قرآن کے جملوں کی ترکیب معمولی ہے

ابن‌ حزم کے مطابق دوسرے کے اقوال کو نقل کرنا اور چند لوگوں (انبیاء) کا یکے بعد دیگری نام لینا جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کوئی معجزہ نہیں بن سکتا؛ پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج تک کوئی قرآن جیسی کتاب لانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے تو اس کی دلیل حقیقت میں یہ ہے کہ خدا نے قرآن جیسی کتاب لانے سے باز رکھا ہوا ہے۔[37]

قاضی‌ زادہ اس بات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن‌ حزم نے یہ گمان کیا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی تمام آیات کے بارے میں چلینج دیا ہے۔ جبکہ قرآن نے جس چیز کی چیلینج دیا ہے وہ پورا ایک سورہ، ، دس سورتیں اور پورا قرآن ہے۔[38] اور اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ قرآن نے دوسروں کے اقوال کے مضامین کو نقل کیا ہے نہ یہ کہ ان کے اقوال کو براره راست نقل کیا ہو کیونکہ قرآن میں مذکور بہت سے افراد کی زبان عربی نہیں تھی۔[39]

نظریہ صرفہ کی اثبات کے لئے قرآن سے تمسک

نظریہ صرفہ کے قائلین قرآن کی بعض آیات کے ظواہر سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[40] سورہ انفال آیت نمبر 31 میں مشرکین کہتے ہیں: "لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہَٰذَا ۙ إِنْ ہَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ" اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام پیش کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہیں مگر گزرے ہوئے لوگوں کی داستانیں، یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی آیات ان کے لئے کوئی معجزاہ نہیں تھا۔[41] سورہ اعراف کی آیت نمبر 146 میں خدا نے مشرکین کو آیات الہی جیسے کلمات لانے سے باز رکھا ہے۔[42] اگر اس آیت میں منصرف کرنے سے مراد انصراف تکوینی ہو تو اور اس کا مقصد قرآنی آیات جیسے کلام لانے سے باز رکھنا ہو تو اس آیت سے استلال کرنا صحیح ہے۔[43]

نظریہ صرفہ کے مخالفین ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ سورہ انفال کی آیت نمبر 31 حقیقت میں قرآن کی فصاحت کی دلیل ہے، کیونکہ وہ لوگ یہ گمان کرتے تھے کہ قرآن جیسا کوئی کلام لا سکتے ہیں لیکن عملا آج تک کوئی شخص ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اس کے علاوہ ممکن ہے ان کی بات صرف رجز خوانی کی حد تک ہو،[44] اسی طرح سورہ اعراف کی آیت نمبر 146 میں انصراف کے معنی کے بارے میں دوسرے احتمالات بھی دئے گئے ہیں دوسری بات قرآن اس آیت میں کہہ رہے ہیں کہ آئندہ زمانے میں منصرف کریں گے جبکہ قرآن اس آیت کے نازل ہونے سے کئی سال پہلے نازل ہوا تھا۔[45]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص53۔
  2. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص138۔
  3. طباطبایی، المیزان، ج1، ص69۔
  4. علامہ حلی، کشف المراد، تقریر جعفر سبحانی، ص172۔
  5. حسینی و عباسی، «نظریہ صرفہ در کتاب الموضح»، ص39۔
  6. حسینی و عباسی، «نظریہ صرفہ در کتاب الموضح»، ص41۔
  7. نصیری، معرفت قرآنی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص564۔
  8. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص138۔
  9. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص138۔
  10. سبحانی، الإلہیات، ج3، ص339۔
  11. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص139۔
  12. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص140۔
  13. سبحانی، الإلہیات، ج3، ص339؛ معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص140۔
  14. ایازی، اعجاز قرآن، بی‌جا، ص73۔
  15. بہدار، «اعجاز قرآن»، ص329؛ دفتر تبلیغات اسلامی، فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، ص3232۔
  16. ابوزہرہ، معجزہ بزرگ، پژوہشی در علوم قرآنی، آستان قدس رضوی، ص99-100۔
  17. ابوزہرہ، معجزہ بزرگ، آستان قدس رضوی، ص99-100۔
  18. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص48۔
  19. معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج4، ص142-154۔
  20. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص63۔
  21. طوسی، شرح جمل العلم و العمل، 1419ھ، ص179۔
  22. راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج3، ص981۔
  23. طوسی، الاقتصاد، بی‌تا، ص173۔
  24. بیاضی، عصرۃ المنجود، 1428ھ، ص233۔
  25. سبحانی، الإلہیات، 1412ھ، ج3، ص349۔
  26. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص54۔
  27. معرفت، التمہید، 1428ھ، ج4، ص182-191۔
  28. سبحانی، الإلہیات، 1412ھ، ج3، ص344-349۔
  29. غرویان، «قول بہ صرفہ از دیدگاہ آیت‌اللہ مصطفی خمینی دربارہ تحدی قرآن»، ص77۔
  30. سید مرتضی، الموضح عن جہۃ اعجاز القرآن، آستان قدس رضوی، 1399ہجری شمسی، ص138؛ قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص58۔
  31. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص58۔
  32. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص64۔
  33. خویی، البیان، دارالزہراء، ص83۔
  34. دفتر تبلیغات علوم اسلامی، فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، ص3232۔
  35. سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج3، ص344-345۔
  36. سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج3، ص345۔
  37. ابن‌حزم اندلسی، الفِصَل، 1416ھ، ج2، ص50-51۔
  38. قاضی‌زادہ، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، ص65۔
  39. جواہری، «بازخوانی نظریہ صرفہ»، ص162۔
  40. قاضی‌زادہ، «نگرشی بر نظریہ صرفہ»، ص60-61۔
  41. قاضی‌زادہ، «نگرشی بر نظریہ صرفہ»، ص60-61۔
  42. سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ
  43. قاضی‌زادہ، «نگرشی بر نظریہ صرفہ»، ص60-61۔
  44. جواہری، «بازخوانی نظریہ صرفہ»، ص160۔
  45. جواہری، «بازخوانی نظریہ صرفہ»، ص160-161۔

مآخذ

  • ابوزہرہ، محمد، معجزہ بزرگ؛ پژوہشی در علوم قرآنی، ترجمہ محمود ذبیحی، آستان قدس رضوی، 1379ہجری شمسی۔
  • ابن‌حزم اندلسی، علی بن احمد، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، ج2، بیروت، 1416ھ۔
  • ایازی، اعجاز قرآن، ناشر: بی‌نا، بی‌جا۔
  • بہدار، محمدرضا، «اعجاز قرآن»، دانشنامہ کلام اسلامی، جلد یک، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1398ہجری شمسی۔
  • بیاضی، علی بن محمد، عُصرۃ المَنجود فی علم الکلام، تحقیق: حسین شہسواری، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1428ھ۔
  • جواہری، سید محمدحسن، «بازخوانی نظریہ صرفہ»، فصلنامہ قبسات، شمارہ 66، زمستان 1391ہجری شمسی۔
  • حسینی، سیدہ خدیجہ؛ عباسی،‌ مہرداد، «نظریہ صرفہ در کتاب الموضح سید مرتضی: پژوہشی دربارہ اہمیت، مبانی و روش اثبات آن»، فصلنامہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 44، زمستان 1397ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، دارالزہراء، بیروت، بی‌تا۔
  • دفتر تبلیغات اسلامی، فرہنگ‌نامہ علوم قرآن، 1394ہجری شمسی۔
  • راوندی، سعید بن ہبۃ‌اللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ الامام المہدی، 1409ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، قم، مرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، 1412ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الموضح عن جہۃ اعجاز القرآن، تحقیق محمدرضا انصاری قمی و دیگران، مشہد، آستان قدس رضوی، 1399ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان، 1373ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، تہران، کتابخانہ و مدرسہ چہل‌ستون، بی‌تا۔
  • طوسی، محمد بن حسن، شرح جمل العلم و العمل، تہران، اسوہ، 1419ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالہیات، تقریر جعفر سبحانی، قم، موسسہ امام صادھ، 1382ہجری شمسی۔
  • غرویان، محسن، «قول بہ صَرْفَۃ از دیدگاہ آیۃ اللّہ مصطفى خمینى؛ دربارہ تحدّى قرآن»، ماہنامہ معرفت، شمارہ 35، 1379ہجری شمسی۔
  • قاضی‌زادہ، کاظم، «نگرشی بہ نظریہ صرفہ»، در فصل‌نامہ نامہ مفید، شمارہ3، 1374ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، موسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1386ہجری شمسی۔
  • نصیری، علی، معرفت قرآنی (یادنگار آیت اللہ محمد ہادی معرفت)، ج3، تہران، 1387ہجری شمسی۔