سورہ نمل

ویکی شیعہ سے
شعراء سورۂ نمل قصص
ترتیب کتابت: 27
پارہ : 19 و 20
نزول
ترتیب نزول: 48
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 93
الفاظ: 1166
حروف: 4795
سورہ نمل آیت:40 یہ میرے رب کا احسان اور فضل ہے۔

سوره نمل یا سورہ سلیمان قرآن مجید کی 20ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 19ویں اور 20ویں پارے میں واقع ہے۔ حضرت سلیمان اور چیونٹیوں کے قصے کی وجہ سے اسے نمل (چیونٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالی نے پانچ انبیاء؛ حضرت موسی، حضرت داوود، حضرت سلیمان، حضرت صالح اور حضرت لوط کے حالات بیان کرتے ہوئے مؤمنوں کو بشارت اور مشرکوں کو عذاب کی خبر دی ہے۔ اس سورت میں خداشناسی، توحید کی نشانیاں اور معاد کے کچھ واقعات بیان کیا ہے۔

آیت امَّن یجیب اس سورت کی مشہور آیات میں سے ایک ہے کہ جسے روایات میں امام زمانہؑ کے بارے میں قرار دیا ہے۔ یہ آیت مشکلات کے حل اور بیماروں کی شفایابی کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ اس سورت کی 83ویں آیت رجعت کے اثبات کے لئے استفادہ کی جاتی ہے۔

سورہ نمل کی تلاوت کی فضیلت میں منقول ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے اللہ تعالی اسے ان لوگوں کی تعداد کے برابر حسنہ عطا کرے گا جنہوں نے حضرت سلیمان، حضرت ہود، حضرت شعیب حضرت صالح اور حضرت ابراہیم کی تصدیق یا تکذیب کی ہے، اور قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے قبر سے باہر آئے گا۔

تعارف

نام اس سورت کو «نمل» کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت میں حضرت سلیماؑ اور چیونٹیوں کا قصہ نقل ہوا ہے۔[1]اس سورت کا دوسرا نام «سلیمان» ہے؛ کیونکہ اس میں حضرت سلیمان کا قصہ بھی نقل ہوا ہے۔[2]اس سورت کا تیسرا نام سورہ «طاسین» ہے؛ کیونکہ اس سورت کی ابتدا حروف مقطعہ «طس» سے ہوئی ہے۔[3]

ترتیب اور محل نزول

سورہ نمل مکی سورتوں میں سے ہے اور پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے 48ویں اور موجودہ مصحف کی ترتیب کے مطابق 27ویں سورت ہے اور قرآن مجید کے 19ویں اور 20ویں پارے میں واقع ہے۔[4]

آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات سورہ نمل میں 1166 الفاظ، 4795 حروف اور 93 آیات ہیں۔ کمیت کے لحاظ سے سور مثانی کے زمرے میں آتی ہے اور اس کا حجم نصف سے پارے سے کم ہے۔[5] اس سورت کی 26ویں آیت میں مستحب سجدہ ہے؛ یعنی اس کی تلاوت کرے یا سنے تو ایسی صورت میں سجدہ کرنا مستحب ہے۔[6] یہ سورت حروف مقطعہ سے شروع ہونے والی انتیس سورتوں میں تیرہویں نمبر پر ہے جو حروف مُقَطَّعہ «طس» (جسے طا سین پڑھا جاتا ہے) سے شروع ہوتی ہے[7]جو طواسین سورتوں میں سے ایک ہے۔[8]

اس سورت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آیت «بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» دو مرتبہ آئی ہے۔ ایک بار معمول کے مطابق سورت کے آغاز پر اور ایک مرتبہ آیت 30 میں جہاں حضرت سلیمان کا ملکہ سبا کے نام خط کے ابتدا میں۔[9]

مضمون

علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ سورہ نمل کا اصل ہدف لوگوں کو بشارت دینا اور ڈرانا ہے؛ اسی لئے بعض انبیا جیسے حضرت موسیؑ، داوودؑ، سلیمانؑ، صالحؑ اور لوطؑ کے قصے بیان کیا ہے اور اس کے علاوہ معارف کے بعض اصول جیسے؛ توحید ربوبی اور معاد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔[10]

تفسیر نمونہ میں کہا گیا ہے کہ ان پانچ انبیاؐ کا قصہ اور منحرف اقوام سے ان کے مقابلے کو سورہ نمل میں بیان کرنا مکہ میں موجود اقلیتی مومنوں کی حوصلہ افزائی اور سرکش مشرکوں کو ایک تنبیہ کرنا تھی تاکہ وہ سرکش طاغوت کی تاریخ سے عبرت لیتے ہوئے ہدایت پائیں۔[11]اس سورت میں ذکر ہونے والے موضوعات میں سے ایک اور موضوع اللہ تعالی کا بے نہایت علم، کائنات کی ہر چیز پر اس کی نظارت اور بندوں پر حاکمیت پر توجہ دینا ہے جس میں انسان کے لیے تربیتی بہت آثار پائے جاتے ہیں۔[12] خداشناسی، توحید کی نشانیاں اور محشر و معاد کے واقعات بھی ان مطالب میں سے ہیں جو اس سورت میں ذکر ہوئے ہیں۔[13]

سورہ نمل کے مضامین[14]
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
قرآنی تعلیمات حق کے مخالف لوگوں پر موثر نہیں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا گفتار؛ آیہ ۷۶ - ۹۳
قرآن اور پیغمبر کی کافروں پر اتمام حجت
 
 
 
دوسرا گفتار؛ آیہ ۵۹ - ۷۵
کافروں کے عقائد اور تفکر کا بطلان
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا گفتار؛ آیہ ۷ - ۵۸
حق طلبوں کا ایمان لانے کے نمونے اور حق کے مخالف کی ضد
 
 
 
 
 
 
 
مقدمہ؛ آیہ ۱ - ۶
قرآن یک ہدایت سے کافروں کا فائدہ نہ لینا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۷۶ - ۷۸
قرآن صحیح عقائد بیان کرنے والا
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۶۵ - ۷۵
قیامت کے بارے میں کافروں کا عقیدہ باطل ہونا
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۵۹ - ۶۴
اللہ کے شریک کا بطلان
 
نمونہ چہارم؛ آیہ ۵۴ - ۵۸
حضرت لوط کے قوم کے حالات
 
تیسرا نمونہ؛ آیہ ۴۵ - ۵۳
قوم ثمود کے حق طلبوں کے حالات
 
دوسرا نمونہ؛ آیہ ۱۵ - ۴۴
ملکہ سبا کا حضرت سلیمان پر ایمان لانا
 
پہلا نمونہ؛ آیہ ۷ - ۱۴
فرعون کی قوم کا حضرت موسی پر ایمان نہ لانا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۷۹ - ۸۱
اندھے دل والے ہدایت کے لایق نہ ہونا
 
پہلا نکتہ؛ آیہ ۶۵ - ۷۵
قیامت کے بارے میں مشرکوں کی جہالت
 
پہلا نکتہ؛ آیہ ۵۹
ہر چیز پر اللہ کی برتری
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۵۴ - ۵۵
حضرت لوط کا اپنی قوم کے برے اخلاق کی مخالفت
 
پہلا مطلب: آیہ ۴۵ - ۴۶
قوم ثمود کی ہدایت کے لئے حضرت صالح کی رسالت
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۱۵ - ۱۶
حضرت سلیمان کے لیے اللہ کے عطا کردہ علوم
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۷ - ۹
مصر سے واپسی کے ساتھ حضرت موسی کی بعثت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۸۲ - ۸۶
قیامت کے دن کافروں کا محاکمہ
 
دوسرا نکتہ؛ آیہ ۶۷ - ۷۰
دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں مشرکوں کا غلط خیال
 
دوسرا نکتہ؛ آیہ ۶۰ - ۶۴
اللہ کی بےنظیر تدبیر کے چند نمونے
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۵۶ - ۵۸
قوم لوط کی مخالفت اور ہلاکت
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۴۷
حضرت صالح اور پیروکاروں کے خلاف کافروں کے غلط پروپیگنڈے
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۷ - ۱۹
حضرت سلیمان کی جن و انس فوج
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۰ - ۱۲
حضرت موسی کے آشکار معجزے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۸۷ - ۹۰
قیامت میں حق کے مخالفوں کی سزا
 
تیسرا نکتہ؛ آیہ ۷۱ - ۷۵
قیامت برپا ہونے کے بارے میں کافروں کا سوال
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۴۸ - ۵۰
حضرت صالح اور ان کے گھر والوں کو قتل کرنے کی کوشش
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۲۰ - ۲۶
قوم سبا کی شرک کے بارے میں حضرت سلیمان کو آگاہی
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۳ - ۱۴
حضرت موسی کی حقانیت کا علم ہونے کے باوجود ان کا انکار
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب؛ آیہ ۹۱ - ۹۳
کافروں پر حجت تمام کرنے کےلیے پیغمبر کی ذمہ داری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۵۱ - ۵۳
حضرت صالح کے پیروکاروں کی نجات اور کافورں کی ہلاکت
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۲۷ - ۳۱
ملکہ سبا کو توحید کا دعوتنامہ ارسال کرنا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب؛ آیہ ۳۲ - ۳۵
ملکہ سبا کا ایمان نہ لانا اور تحفہ بھیجنا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹا مطلب؛ آیہ ۳۶ - ۳۷
تحفہ واپس کرنا اور جنگ کا اعلان کرنا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ساتواں مطلب؛ آیہ ۳۸ - ۴۴
دو معجزے دیکھنے کے بعد ملکہ سبا کا ایمان لے آنا


قصے اور تاریخی روایات

حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کا قصہ اور بعض دوسرے انبیاؐ کے قصے اس سورت میں ذکر ہوئے ہیں۔

  • نبوت موسیؑ: وادی طور پر آگ دیکھنا، اللہ تعالی سے گفتگو، معجزات کا مشاہدہ، فرعون کو دعوت اور فرعونیوں کا انکار۔ (آیات7-14)
  • داستان حضرت سلیمانؑ
    • حضرت داود اور حضرت سلیمان ؑ کو علم عطا کرنا، داوود سے حضرت سلیمان کو میراث ملنا، حضرت سلیمان کا پرندوں کی زبان جاننا (آیت 15-16)
    • انسان اور جناب کا ایک لشکر تیار کرنا(آیہ 17)
    • حضرت سلیمانؑ کا وادی نمل (چیونٹیوں کی وادی) سے گزرنا(آیات 18 اور 19)
    • ہدہد کی غیرحاضری،‌ ہدہد کی واپسی پر سبا اور ملکہ سبا کی سورج پرستی کے بارے میں خبر، ملکہ سبا کے نام حضرت سلیمان کا خط، ملکہ سبا کا اپنے وزرا سے مشورت، جناب سلیمانؑ کو تحفہ بھیجنا، حضرت سلیمان کی طرف سے تحفہ قبول نہ کرنا اور حملہ کرنے کی دھمکی، حضرت سلیمان کی طرف سے تخت بلقیس لانے کی درخواست، ملکہ سبا کا حضرت سلیمان کے ہاں آنا اور تخت دیکھنا، قصر حضرت سلیمان میں داخل ہونا اور تعجب کرنا نیز اللہ پر ایمان لے آنا۔(آیات 20-44)
  • داستان حضرت صالح: جناب صالحؑ کی ذمہ داری، قوم سے گفتگو، آپ کی قوم کے نو گروہ کا آپ پر راتوں رات حملہ کرنے کا ارادہ، حملہ ناکام ہونا، قوم کی ہلاکت اور مومنوں کو نجات۔ (آیات45-53)
  • داستان لوط: برائیوں کے بارے میں حضرت لوط کو آگاہی، قوم کا حضرت لوط کو شہربدر کرنے کی خواہش، لوطؑ کی بیوی کے علاوہ آپ اور گھر والوں کو نجات، قوم پر عذاب۔ (آیات54-58)

تفسیری نکات

سورہ نمل کی آیات 80، 81 اور 83 کے ذیل میں کچھ تفسیری نکات ذکر ہوئے ہیں۔

کافروں کو بہرے اور آندھے مُردوں سے تشبیہ

سورہ نمل کی آیات 80 اور 81 «إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ...» میں کافروں کو ایسے مردوں سے شباہت دی ہے کہ جن کے پاس نہ سننے کو کان ہیں اور نہ ہی دیکھنے کو آنکھیں ہیں اور انبیاؐ کی نصیحتوں کو نہیں سنتے ہیں اور انبیاؐ بھی ان کو حقیقت سمجھانے سے قاصر ہونگے؛[15] طبرسی تفسیر مجمع البیان میں اسی آیت کے ذیل میں لکھتا ہے کہ بہرا اور آندھے شخص کو بھی کچھ سمجھایا جاسکتا ہے؛ لیکن جس شخص نے منہ موڈ لیا ہے اسے کچھ نہیں سمجھایا جاسکتا ہے اور اس تشبیہ کو قرآن مجید میں پیغمبر اکرمؐ کے منکروں کی جہالت کی طرف اشارہ ہے جو اپنے موقف پر تعصب کی وجہ سے حقیقت کی شناخت سے محروم رہ گئے۔[16]

تفسیر نمونہ میں انہی آیات کو مستند کرتے ہوئے قرآن کی نظر میں موت اور حیات کو اور مادی نظرئے کے مطابق موت اور حیات سے مختلف قرار دیا ہے۔ قرآنی نظرئہ کے مطابق ممکن ہے کچھ لوگ جسمانی اعتبار سے زندہ ہوں لیکن مردوں میں شمار ہوتے ہیں جیسے وہ لوگ جنہوں نے انبیاؐ کی ہدایت سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں اور اس کے برعکس ممکن ہے بعض لوگ جسمانی حوالے سے زندہ نہ ہوں لیکن مادی دنیا میں چھوڑے گئے آثار کی وجہ سے زندہ ہوں؛ جیسے شہدا کہ جن کو اللہ تعالی نے زندہ کہا ہے۔[17]

عصر ظہور میں رجعت

تفصیلی مضمون: رجعت
شیعہ علما سورہ نمل کی آیت 83 «وَيَوْمَ نَحْشُرُ‌ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا؛ ترجمہ:اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔» کو رجعت کے بارے میں صریح اور اہم دلیل قرار دیتے ہیں۔[18] شیخ مفید کے نظرئے کے مطابق امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت اللہ تعالی بعض مردوں کو زندہ کرتا ہے۔[19]

شیعہ مفسرین اور متکلمین کے مطابق یہ رجعت کرنا، قیامت کے دن مردوں کا زندہ ہونے کے علاوہ ہے؛ کیونکہ قیامت میں تو تمام مردے زندہ ہوتے ہیں؛ لیکن اس آیت میں بعض مردوں کا زندہ ہونے کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔ شیعہ علما میں سے شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب الاعتقادات،[20] میں، شیخ مفید،[21] شیخ طوسی نے اپنی تفسیر التبیان،[22] میں فضل بن حسن طبرسی نے اپنی تفسیر مجمع البیان[23] میں اور علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حق الیقین[24] میں اس آیت سے رجعت پر استدلال کیا ہے۔[25]

مشہور آیات

آیت 34 جنگ میں شہروں کی نابودی کے بارے میں، آیہ امن یجیب اور 69ویں آیت زمین میں سیر کرنے کے بارے میں، یہ آیات سورہ نمل کی مشہور آیات میں سے ہیں۔

آیت 34

«قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْ‌يَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ﴿۳۴﴾»
 (ترجمہ: ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔»)

علامہ طباطبایی نے اس آیت میں شہروں میں افساد سے مراد شہروں کو ویران کرنے، نذر آتش کرنے، وہاں کی عمارتیں تخریب کرنے اور اس شہر کے لوگوں کو ذلیل کرتے ہوئے اسیر کرنے، قتل کرنے اور شہر بدر کرنے کے معنی میں لیا ہے۔[26] یہ آیت ملکہ سبا کی طرف سے اس کے طرفداورں کا جواب تھا جو حضرت سلیمان سے جنگ چاہتے تھے۔ تفسیر نمونہ میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ملکہ سبا خود بادشاہ تھی اور بادشاہوں کی خصوصیات کو جانتی تھی اور اس کے طرفداروں کی جنگ طلبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنگ کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہے تاکہ حضرت سلیمان کے خط کا جواب دینے کا کوئی راستہ نکلے اور ان کے گفتار کی صحت سقم کا اندازہ لگایا جاسکے۔[27] طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں آیت کا آخری جملہ «وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ» کو اللہ تعالی کی طرف سے بلقیس کی تائید قرار دیا ہے۔[28]

آیہ امن یجیب

تفصیلی مضمون: آیہ امن یجیب

«أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْ‌ضِ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ﴿۶۲﴾»
 (ترجمہ: کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ نہیں - بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔)

یہ آیت مشکلات، پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کے لئے پڑھی جاتی ہے۔[29]اس آیت میں «مضطر» پر تاکید ہوئی ہے؛ کیونکہ دعا کی استجابت کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دعا صدق دل سے ہو اور جو انسان مضطر ہوتا ہے اس کی امید اللہ تعالی کے سوا ہر کسی سے ختم ہوتی ہے اور یوں ہر طرف سے ناامید ہوتا ہے اس حالت میں دعا حقیقی ہوتا ہے اور صرف اللہ ہی کو پکارتا ہے اور اللہ بھی قبول کرتا ہے۔[30]

بعض روایات کے مطابق یہ آیت حضرت امام مہدیؑ پر تطبیق کرتا ہے۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں: یہ آیت قائمؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، خدا کی قسم مضطر وہ ہے، جب مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز بجالاتا ہے اور اللہ کے حضور ہاتھ بلند کر کے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہے، پریشانیوں کو دور کرتا ہے اور اسے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیتا ہے۔[31]

بحار الانوار میں لکھا ہے کہ جب شیعہ ائمہؑ جب یہ دعا پڑھتے تھے تو اسے یوں پڑھتے تھے: «یا مَنْ یجیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ».[32]

آیہ سیروا فی الارض (69)

تفصیلی مضمون: آیہ سیروا فی الارض

«قُلْ سِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَانظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِ‌مِينَ ﴿۶۹﴾»
 (ترجمہ: کہئے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا؟)

یہ آیت ان لوگوں کے لئے تنبیہ تھی جو حضرت محمدؐ کی نبوت کو جھٹلاتے تھے اور یہ لوگ سابقہ انبیاؑ کو جھٹلانے والی امتوں کی طرح ہلاک ہوجایں گے۔ ایسی تنبیہ جو اس آیت کی طرح دیگر آیت میں بھی بیان ہوئی ہے۔[33]

فضیلت اور خواص

سورہ نمل کی تلاوت کی فضیلت میں منقول ہے کہ جو شخص سورہ طس سلیمان (سورہ نمل) کی تلاوت کرے اللہ تعالی اسے ان لوگوں کی تعداد کے دس برابر حسنہ عطا کرے گا جنہوں نے حضرت سلیمانؑ، حضرت ہود، حضرت شعیبؑ حضرت صالحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کی تصدیق یا تکذیب کی ہے، اور قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے قبر سے باہر آئے گا۔[34] اسی طرح جو شخص شب جمعہ تینوں طواسین (سورہ شعراء، سورہ نمل اور سورہ قصص) پڑھے وہ اولیاء اللہ میں سے ہوگا اور اللہ تعالی کے لطف و رحمت کے سائے میں ہوگا، دنیا میں بدبخت نہیں ہوگا، آخرت میں اسے بہشت میں سے اتنا دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائے بلکہ اس کی خواہش سے زیادہ دیا جائے گا اللہ تعالی اسے سو حور العین اس کی تزویج میں دے گا۔[35]

متن اور ترجمہ

سورہ نمل
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

طس تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿1﴾ هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿2﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿3﴾ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴿4﴾ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ ﴿5﴾ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ ﴿6﴾ إِذْ قَالَ مُوسَى لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ﴿7﴾ فَلَمَّا جَاءهَا نُودِيَ أَن بُورِكَ مَن فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿8﴾ يَا مُوسَى إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿9﴾ وَأَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَا مُوسَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ﴿10﴾ إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿11﴾ وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاء مِنْ غَيْرِ سُوءٍ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿12﴾ فَلَمَّا جَاءتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿13﴾ وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿14﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿15﴾ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ ﴿16﴾ وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿17﴾ حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِي النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿18﴾ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿19﴾ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿20﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿21﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿22﴾ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿23﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿24﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿25﴾ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴿26﴾ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿27﴾ اذْهَب بِّكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ ﴿28﴾ قَالَتْ يَا أَيُّهَا المَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ ﴿29﴾ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿30﴾ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿31﴾ قَالَتْ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ ﴿32﴾ قَالُوا نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ ﴿33﴾ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ﴿34﴾ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ﴿35﴾ فَلَمَّا جَاء سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ﴿36﴾ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴿37﴾ قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿38﴾ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴿39﴾ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ﴿40﴾ قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ ﴿41﴾ فَلَمَّا جَاءتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ ﴿42﴾ وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ ﴿43﴾ قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿44﴾ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ ﴿45﴾ قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿46﴾ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ ﴿47﴾ وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿48﴾ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿49﴾ وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿50﴾ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿51﴾ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿52﴾ وَأَنجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿53﴾ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ ﴿54﴾ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿55﴾ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴿56﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ ﴿57﴾ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا فَسَاء مَطَرُ الْمُنذَرِينَ ﴿58﴾ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿59﴾ أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاء مَاء فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ ﴿60﴾ أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿61﴾ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاء الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿62﴾ أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿63﴾ أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿64﴾ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴿65﴾ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا بَلْ هُم مِّنْهَا عَمِونَ ﴿66﴾ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَئِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ ﴿67﴾ لَقَدْ وُعِدْنَا هَذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِن قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿68﴾ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ ﴿69﴾ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُن فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿70﴾ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿71﴾ قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ رَدِفَ لَكُم بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ ﴿72﴾ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿73﴾ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿74﴾ وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿75﴾ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿76﴾ وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿77﴾ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُم بِحُكْمِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ ﴿78﴾ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ ﴿79﴾ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ﴿80﴾ وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ ﴿81﴾ وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ﴿82﴾ وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿83﴾ حَتَّى إِذَا جَاؤُوا قَالَ أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿84﴾ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِم بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنطِقُونَ ﴿85﴾ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿86﴾ وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّهُ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴿87﴾ وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿88﴾ مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ ﴿89﴾ وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿90﴾ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿91﴾ وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿92﴾ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿93﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

طا۔ سین۔ یہ قرآن واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ (1) جو ان ایمان والوں کیلئے (سراسر) ہدایت و بشارت ہیں۔ (2) جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (3) جو لوگ ایمان نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کے اعمال (ان کی نظر میں) خوشنما بنا دیئے ہیں پس وہ سرگردان پھر رہے ہیں۔ (4) یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے (دنیا میں) بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (5) (اے رسول(ص)) بےشک آپ کو یہ قرآن ایک بڑے حکمت والے، بڑے علم والے کی طرف سے عطا کیا جا رہا ہے۔ (6) (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے تو میں ابھی وہاں سے کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارہ لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔ (7) پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو (انہیں) ندا دی گئی کہ مبارک ہے وہ جس کا جلوہ آگ میں ہے۔ اور جس کا جلوہ اس کے اردگرد ہے اور پاک ہے اللہ جو پروردگارِ عالمیان ہے۔ (8) اے موسیٰ! بلاشبہ یہ میں اللہ ہوں، بڑا غلبہ والا، بڑا حکمت والا۔ (9) اور تم اپنا عصا پھینکو۔ پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہا ہے جیسے کہ وہ ایک سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر مڑے اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے آواز دی) اے موسیٰ خوف نہ کرو۔ میں وہ ہوں کہ میرے حضور پیغمبر خوف نہیں کرتے۔ (10) سوائے اس کے جو کوئی زیادتی کرے پھر وہ برائی کو اچھائی سے بدل دے تو بےشک میں بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہوں۔ (11) اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو تو وہ کسی بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا (یہ دو معجزے ہیں) ان نو معجزات میں سے جنہیں لے کر آپ نے فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانا ہے۔ وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں۔ (12) سو جب ان کے پاس ہمارے واضح معجزات پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (13) اور ان لوگوں نے ظلم و تکبر کی راہ سے ان (معجزات) کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے نفوس (دلوں) کو ان کا یقین تھا۔ اب دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ (14) اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو (خاص) علم عطا فرمایا۔ اور ان دونوں نے کہا کہ ہر قِسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ (15) اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ بےشک یہ (اللہ کا) کھلا ہوا فضل و کرم ہے۔ (16) اور سلیمان کے لئے جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے لشکر جمع کئے گئے۔ پس ان کی ترتیب وار صف بندی کی جاتی تھی۔ (17) یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ (18) وہ (سلیمان) اس کی بات پر مسکرا کر ہنس پڑے۔ اور کہا اے میرے پروردگار! مجھے ہمیشہ توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔ (19) اور سلیمان (ع) نے (ایک دن) پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے کہ میں ہُدہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہے؟ (20) (اگر ایسا ہی ہے) تو میں اسے سخت سزا دوں گا۔ یا اسے ذبح کر دوں گا۔ یا پھر وہ کوئی واضح دلیل (عذر) میرے سامنے پیش کرے۔ (21) پس کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہد ہد نے آکر کہا کہ میں نے وہ بات معلوم کی ہے جو آپ کو معلوم نہیں ہے۔ اور میں (ملک) سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ (22) میں نے ایک عورت کو پایا ہے جو ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا ایک بڑا تخت (سلطنت) ہے۔ (23) میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے عملوں کو ان کی نظر میں خوشنما بنا دیا ہے۔ پس اس نے انہیں اصل (سیدھے) راستہ سے ہٹا دیا ہے۔ سو وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (24) وہ کیوں اس خدا کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ چیزوں کو باہر لاتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔ (25) اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ (26) سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ (27) میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا۔ پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں؟ (28) اس (ملکہ) نے کہا اے (دربار کے) سردارو! مجھے ایک معزز خط پہنچایا گیا ہے۔ (29) وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (30) تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہوکر میرے پاس آجاؤ۔ (31) چنانچہ ملکہ نے کہا: اے سردارانِ قوم! تم مجھے میرے اس معاملہ میں رائے دو (کیونکہ) میں کبھی کسی معاملہ کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو۔ (32) انہوں نے کہا ہم طاقتور اور سخت لڑنے والے ہیں لیکن اختیار آپ کو ہی ہے۔ آپ دیکھ لیں (غور کریں) کہ کیا حکم دیتی ہیں؟ (33) ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔ (34) (لہٰذا جنگ مناسب نہیں البتہ) میں ان کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں۔ اور پھر دیکھتی ہوں کہ میرے فرستادے (قاصد) کیا جواب لاتے ہیں؟ (35) سو جب وہ فرستادہ (یا ملکہ کا سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ تو اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے البتہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو سکتے ہو۔ (36) (اے سفیر) تو ان لوگوں کے پاس واپس لوٹ جا (اور ان کو بتا کہ) ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر آرہے ہیں جن کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ ہوگی اور ہم ان کو وہاں سے اس طرح ذلیل کرکے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو چکے ہوں گے۔ (37) آپ نے کہا اے عمائدین سلطنت! تم میں سے کون ہے؟ جو اس (ملکہ سبا) کا تخت میرے پاس لائے قبل اس کے کہ وہ مسلمان ہوکر میرے پاس آئیں؟ (38) جنات میں سے ایک شریر و چالاک جن نے کہا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ بےشک میں اس کی طاقت رکھتا ہوں (اور میں) امانت دار بھی ہوں۔ (39) اور اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ جھپکے پھر جب سلیمان نے اسے اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو وہ (اپنا نقصان کرتا ہے) میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے۔ (40) آپ نے کہا اس (ملکہ) کے تخت کی صورت بدل دو تاکہ ہم دیکھیں کہ آیا وہ صحیح بات تک راہ پاتی ہے یا وہ ان لوگوں میں سے ہے جو صحیح بات تک راہ نہیں پاتے۔ (41) الغرض جب ملکہ آئی تو اس سے کہا گیا کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی سے حقیقت معلوم ہوگئی تھی۔ اور ہم تو مسلمان (مطیع و فرمانبردار) ہو چکے ہیں۔ (42) اور سلیمان نے اس (ملکہ) کو غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا جو وہ کیا کرتی تھی کیونکہ وہ کافر قوم میں سے تھی۔ (43) اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو (بلوریں فرش کو گہرا) پانی خیال کیا اور (گزرنے کیلئے اس طرح پائیچے اٹھائے کہ) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ آپ نے کہا یہ (پانی نہیں ہے بلکہ) شیشوں سے مرصع محل ہے (اور بلوریں فرش ہے) ملکہ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔ (44) اور بےشک ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ تو وہ دو فریق (مؤمن و کافر) ہوگئے جو آپس میں جھگڑنے لگے۔ (45) آپ نے کہا اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کیلئے کیوں جلدی کرتے ہو؟ تم اللہ سے کیوں بخشش طلب نہیں کرتے؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (46) انہوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو برا شگون سمجھتے ہیں آپ (ع) نے کہا تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے بلکہ تم وہ لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔ (47) اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ (48) انہوں نے کہا کہ آپس میں خدا کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم رات کے وقت صالح اور اس کے گھر والوں کو ہلاک کر دیں گے اور پھر ان کے وارث سے کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔ (49) اور (اس طرح) انہوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ (50) تو دیکھو ان کی چال کا انجام کیا ہوا؟ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ (51) سو یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کی وجہ سے ویران پڑے ہیں۔ بےشک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں۔ (52) اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے۔ (53) اور ہم نے لوط کو بھی (رسول بنا کر بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کا کام کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ رہے ہو (جانتے بوجھتے ہو)۔ (54) کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو؟ بلکہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔ (55) ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کوئی نہ تھا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ (56) پس ہم نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دی سوائے آپ کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ (57) اور ہم نے ان پر ایک خاص (پتھروں کی) بارش برسائی سو کیسی بری بارش تھی ان لوگوں کیلئے جن کو ڈرایا جا چکا تھا۔ (58) آپ کہئے! ہر قِسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جنہیں اس نے منتخب کیا ہے (ان سے پوچھو) کیا اللہ بہتر ہے یا وہ (معبود) جنہیں وہ (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہیں؟ (59) (ان مشرکین سے پوچھو) بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر ہم نے اس (پانی) سے خوش منظر (بارونق) باغات اگائے۔ ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہیں تھا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ بلکہ یہ (راہِ حق سے) انحراف کرنے والے لوگ ہیں۔ (60) بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو قرارگاہ بنایا؟ اور اس کے درمیان نہریں (ندیاں) جاری کیں اور اس کیلئے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان پردہ حائل کر دیا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (61) کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ نہیں - بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (62) جو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنی (باران) رحمت سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ اللہ برتر و بالا ہے ان چیزوں سے جنہیں وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ (63) وہ کون ہے جو خلقت کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔ (64) آپ کہہ دیجئے! کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے؟ (65) بلکہ آخرت کی منزل میں رفتہ رفتہ انہیں پورا علم ہوگا۔ بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے بالکل اندھے ہیں۔ (66) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے تب ہم (دوبارہ قبروں سے) نکالے جائیں گے۔ (67) اس کا وعدہ ہم سے بھی کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا یہ تو محض اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (68) آپ کہئے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا؟ (69) اور (اے رسول(ص)) آپ ان (کے حال) پر غمزدہ نہ ہوں۔ اور جو چالیں یہ چل رہے ہیں اس سے دل تنگ نہ ہوں۔ (70) اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ وعید کب پورا ہوگا؟ اگر تم سچے ہو؟ (71) آپ کہئے! بہت ممکن ہے کہ جس (عذاب) کیلئے تم جلدی کر رہے ہو اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آ لگا ہو(قریب آگیا ہو)۔ (72) اور بےشک آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (73) اور یقیناً آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے اسے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (74) اور آسمانوں و زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ چیز نہیں ہے۔ جو ایک واضح کتاب میں موجود نہ ہو۔ (75) بےشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کیا کرتے ہیں۔ (76) اور بلاشبہ وہ (قرآن) مؤمنین کیلئے سراپا ہدایت اور رحمت ہے۔ (77) اور بےشک آپ کا پروردگار اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ وہ بڑا غالب اور بڑا جاننے والا ہے۔ (78) سو آپ اللہ پر بھروسہ کریں۔ بےشک آپ واضح حق پر ہیں۔ (79) آپ مُردوں کو (آواز) نہیں سنا سکتے۔ اور نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر چل دیں۔ (80) اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (ہٹا کر) راستہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ تو صرف انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ بس یہی لوگ ماننے والے ہیں۔ (81) اور جب ان لوگوں پر وعدہ پورا ہونے کو ہوگا تو ہم زمین سے چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا۔ (اس بناء پر) کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔ (82) اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔ (83) یہاں تک کہ جب وہ (سب) آجائیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا کیا تم نے میری آیتوں کو اس حالت میں جھٹلایا تھا کہ تم نے ان کا علمی احاطہ بھی نہ کیا تھا؟ یا وہ کیا تھا جو تم کیا کرتے تھے؟ (84) اور ان لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر (وعدۂ عذاب کی) بات پوری ہو جائے گی تو اب وہ نہیں بولیں گے۔ (85) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات (تاریک) اس لئے بنائی کہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن اس لئے بنایا (تاکہ اس میں کام کریں) بےشک اس میں ایمان لانے والوں کیلئے (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔ (86) اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب گھبرا جائیں گے سوائے ان کے جن کو خدا (بچانا) چاہے گا اور سب ذلت وعاجزی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ (87) (اس وقت) تم پہاڑوں کو دیکھوگے تو خیال کروگے کہ وہ ساکن و برقرار ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی مانند رواں دواں ہوں گے۔ یہ خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر شئے کو محکم و پائیدار بنایا ہے۔ بیشک وہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (88) جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ (89) اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کو اوندھے منہ آتش (دوزخ) میں پھینک دیا جائے گا۔ کیا تمہیں تمہارے عمل کے علاوہ کوئی بدلہ مل سکتا ہے؟ (جیسا کروگے ویسا بھروگے)۔ (90) (اے رسول(ص)۔ کہو) مجھے تو بس یہی حکم ملا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔ (91) اور یہ کہ قرآن پڑھ کر سناؤں سو اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لئے ہدایت اختیار کرے گا۔ اور جو کوئی گمراہی اختیار کرے گا تو آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ (92) اور آپ کہہ دیجئے! کہ سب تعریف اللہ کیلئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم انہیں پہچان لوگے اور تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (93)

پچھلی سورت: سورہ شعراء سورہ نمل اگلی سورت:سورہ قصص

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. خرم شاہی، «سورہ نمل»، ص۱۲۴۴.
  2. صفوی، «سورہ نمل»، ص۸۲۹.
  3. خرم شاہی، «سورہ نمل»، ص۱۲۴۴.
  4. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
  5. صفوی، «سوره نمل»، ص۸۲۹.
  6. خرم شاہی، «سورہ نمل»، ص۱۲۴۴.
  7. صفوی، «سوره نمل»، ص۸۲۹.
  8. راميار، تاريخ قرآن، ۱۳۸۷ش، ص۵۹۷.
  9. خرم شاہی، «سورہ نمل»، ص۱۲۴۴.
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۳۹.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۳۹۱.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۳۹۱.
  13. خرم شاہی، «سورہ نمل»، ص۱۲۴۴
  14. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۹۰.
  16. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۶۵.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۲-۵۴۳.
  18. رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاہ فریقین»، ص۴۳۴۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۹.
  19. مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۷۷
  20. صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ۶۲۶۳.
  21. مفید، المسائل السرویه، ۱۴۱۳ق، ص۳۲۳۳.
  22. طوسی، التبیان، ۱۳۸۲ق، ج۸، ص۱۲۰.
  23. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷،ص ۳۶۶.
  24. مجلسی، حق الیقین، ۱۳۸۷ق، ص۳۳۶.
  25. رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاه فریقین»، ص۴۳-۴۶.
  26. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۶۰.
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۴۵۵.
  28. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۴۵.
  29. ملکی تبریزی، المراقبات، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۱.
  30. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۵، ص۳۸۱.
  31. قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ق، ج۲، ص۱۲۹.
  32. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۲، ص۱۰۳؛ ابن طاووس، مهج الدعوات، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۲.
  33. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۸۷؛ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۳۶.
  34. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۲۷.
  35. حویزی، نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۷۴.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، مہج الدعوات و منہج العبادات، تصحیح ابوطالب کرمانی و محمدحسن محرر، قم، دار الذخائر، ۱۴۱۱ھ۔
  • حویزی، عبدعلی بن جمعہ، نور الثقلین، بہ تصحیح ہاشم رسولی، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ھ۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲شمسی ہجری۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ نمل» در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
  • راميار، محمود، تاريخ قرآن،تہران، انتشارات امير کبير،۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • رضانژاد، عزالدین و رمضان پای برجا، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاہ فریقین»، در فصلنامہ علمی ـ پژوہشی مطالعات تفسیری، ، دورہ ۷، شمارہ ۲۵، ۱۳۹۵شمسی ہجری۔
  • صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۴ھ۔
  • صفوی، سلمان، «سورہ نمل»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶شمسی ہجری۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، المسائل السرویہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۸۲ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳شمسی ہجری۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، تہران، اسلامیہ، ۱۳۸۷ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • ملکی تبریزی، جواد، المراقبات، ترجمہ کریم فیضی، قم، انتشارات قائم آل محمد(ص)، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔