ہاروت و ماروت
ہاروت و ماروت دو فرشتے تھے جو حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد لوگوں کو سحر سکھاتے تھے تاکہ ساحروں کا سحر باطل ہوجائے۔ لیکن لوگوں نے اسے غلط راستے میں استعمال کیا۔ قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیت 102 میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہاروت و ماروت فرشتے تھے یا انسان یا کوئی اور موجود تھے، اسی طرح کیا وہ گناہ کے مرتکب ہوئے یا نہیں، اس بارے میں بعض نے بحث کی ہے۔ دینی اور تاریخی کتابوں کے مطابق قرآن مجید کے علاوہ یہودی، ارمنی، اور اوستائی کتابوں میں بھی ہاروت و ماروت کا تذکرہ آیا ہے۔
ہاروت و ماروت
ہاروت و ماروت دو فرشتے تھے جنہیں اللہ تعالی نے بابِل شہر [یادداشت 1] بھیجا: «وَ مَا أُنزِلَ عَلی الْمَلَکینْ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَ مَارُوت
؛ ترجمہ: وہ جو کچھ ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر بابل شہر میں نازل ہوا»[1]
ہاروت اور ماروت کے لفظ کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے:
- بعض کا کہنا ہے کہ یہ دو لفظ آرامی زبان کے الفاظ تھے۔[2]
- بعض نے انہیں سریانی زبان میں شہنشاہی کے معنی میں سے قرار دیا ہے۔[3]
- اور بعض نے ان دو لفظوں کو ایرانی قرار دیے ہیں۔[4]
ان دونوں کے بارے میں بہت ساری باتیں اور قصے کہانیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کو محققین اور مفسروں نے جعلی اور افسانہ قرار دئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہاروت و ماروت اور زہرہ نامی عورت کی کہانی جس میں زہرہ ان دونوں کے دھوکے کی وجہ سے اور اسم اعظم جاننے کی وجہ سے ستارے میں تبدیل ہوگئی آور آسمان کو چلی اور ۔۔۔ یہ سب خرافات اور افسانے ہیں۔[5]
سحر کی تعلیم
احادیث کے مطابق، حضرت سلیمانؑ کے دور میں بعض لوگ سحر اور جادوگری کرنے لگے، تو آپ نے حکم دیا کہ ان ساحروں کے پاس موجود تمام مکتوب نسخوں کو جمع کر کے کسی جگہ رکھے جائیں۔[6]حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ مکتوبات بعض لوگوں کو ملے اور سحر سیکھنے میں مصروف ہوئے۔ اور وہ کہتے تھے: سلیمان پیغمبر نہیں تھا اور سحر و جادو کے ذریعے ملک پر مسلط ہوا ہے اور فوق العادہ کام کرتا تھا اور بنیاسرائیل کے ایک گروہ نے اس کی پیروی کی ہے۔[7]
اس طرح سے سرزمینِ بابل میں سحر و جادو عروج کو پہنچا اور لوگوں کو بہت پریشان کر رکھا تو اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو انسان کی شکل میں زمین پر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو سحر باطل کرنے کے طریقے سکھائے تاکہ وہ ساحروں کی شر سے اپنے کو محفوظ رکھ سکیں۔[8]
قرآن نے ہاروت و ماروت کی طرف سے شر پہنچانے کا ادعا کو رد کیا ہے۔[9]قرآن کے مطابق، سحر ان دونوں پر نازل ہوا لیکن ان دونوں میں کوئی عیب نہیں تھا۔[10] یہ دونوں فرشتے لوگوں کو تذکر دیتے تھے کہ ہم تمہارے لیے امتحان کا وسیلہ ہیں لہذا کافر مت بنو اور اس علم سے غلط فائدہ مت اٹھانا، لکین لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور کافر ہوگئے۔[11]
ہاروت اور ماروت کی داستان کے بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔[12] اس حوالے سے مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ بعض دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں:
- بعض کا کہنا ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جو انسان کو گناہ کرنے پر مذمت کرتے تھے اور اللہ تعالی نے ان دونوں کو انسان کی شکل مین زمین پر بھیجا تھا، لیکن وہ گناہ کے مرتکب ہوئے اور آخر کار اللہ تعالی کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔[13]
- حسن بصری کا کہنا ہے ہاروت و ماروت فرشتے نہیں بلکہ اہل بابل میں سے دو قوی ہیکل کے مرد تھے۔[14]
- وہ دونوں شروع میں طبیعت کے ارواح تھے اور پھر فرشتوں کی شکل اختیار کر گئے، اور قدیم ارمنی لوگ انہیں دو خدا کے عنوان سے ان کی تعریف کرتے تھے۔[15]
ہاروت و ماروت غیر اسلامی کتابوں میں
آرمینیائی اور اوستائی کتابوں میں
مورخین کے کہنے کے مطابق ہاروت و ماروت کا الفاظ آرمینیائی اور اوستائی کتابیں، مصر کی تاریخی کتابیں اور اسلاونی خنوخ اور۔۔۔ کتابوں میں کافی اختلاف کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔[16] ایک انگریز مورخ نے ہوروت کا نام ذرخیز کے معنی میں اور موروت بغیر موت، کے معنی میں آرمینیائی ایک کتاب سے ذکر کیا ہے اور یہ دونوں لفظ دو خدا کوہ مازیس یا آرارات کے نام ہیں۔[17] وتس نلد نے ایک مصری افسانے کا ترجمہ کیا ہے اس میں انہیں «ہورواناتی» اور «آمہ رکاتی» کے نام ملے ہیں جو ہاروت اور ماروت کے مشابہ ہیں۔[18]
یہودی کتابوں میں
علامہ طباطبایی، تفسیر المیزان میں لکھتا ہے کہ ہاروت اور ماروت کا قصہ انہی افسانوں کی طرح ہے جو یہودی ان دو فرشتوں کے بارے میں کہتے ہیں اور قدیم یونان کے ستاروں کے بارے میں پائے جانے والے خرفات جیسا ہے۔[19]
پطرس حواری کے باب 2 کے خط میں اس افسانے کا ذکر ہوا ہے اور کہتا ہے: «کیونکہ اللہ نے ان فرشتوں پر شفقت نہیں کی جو گناہ کے مرتکب ہوئے بلہ انہیں جہنم میں بھیج دیا اور ظلمت کی زنجیروں کے حوالے کیا تاکہ عدالت کے لیے انہیں رکھا جائے»۔[20]
اسی طرح یہودا رسالے کے چھٹے سطر میں آیا ہے: « جن فرشتوں نے ریاست کی حفاظت کی اور اپنے حقیقی مسکن کو ترک یا ہے اور ابدی زنجیروں میں ظلمت میں یوم عظیم تک قصاص کے لیے رکھے گئے ہیں»۔[21]
نوٹ
- ↑ بابِل شہر کہاں ہونے کے بارے میں اخلاف ہے،(حسینی فاطمی،ہاروت و ماروت از واقعیت تا افسانہ،۱۳۸۵ش،ص۱۴)
حوالہ جات
- ↑ سورہ بقرہ،آیہ ۱۰۲
- ↑ مہرین،عباس، فرہنگ کامل لغات قرآن،۱۳۷۴، ص۴۶۸
- ↑ خزائلی، محمد، اعلام قرآن،۱۳۷۱، ص۶۵۵
- ↑ خزائلی، محمد، اعلام قرآن،۱۳۷۱ش، ص۶۵۶
- ↑ طباطبایی،تفسیر المیزان،۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.
- ↑ مکارم،تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۷۰
- ↑ مکارم،تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۷۰
- ↑ مکارم،تفسیر نمونہ،۱۳۷۴، ج۱، ص: ۳۷۴
- ↑ بقرہ، آیہ۱۰۲
- ↑ طباطبایی،ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج ۱، ص۳۵۳.
- ↑ قرآن،سورہ بقرہ،آیہ۱۰۲
- ↑ طباطبایی، المیزان،۱۴۱۷ق، ج ۱، ص۲۳۳.
- ↑ ذہنی تہرانی،ترجمہ علل الشرائع،۱۳۸۰، ج۱،ص ۹۹
- ↑ ذہنی تہرانی،ترجمہ علل الشرائع،۱۳۸۰، ج۱؛ ص۱۰۵
- ↑ جفری، آرتور، واژہہای دخیل در قرآن مجید،۱۳۷۲ش، ص۴۰۸
- ↑ حسینی فاطمی،ہاروت و ماروت از واقعیت تا افسانہ،۱۳۸۵ش،ص۶
- ↑ حسینی فاطمی،ہاروت و ماروت از واقعیت تا افسانہ،۱۳۸۵ش،ص۶
- ↑ حسینی فاطمی،ہاروت و ماروت از واقعیت تا افسانہ،۱۳۸۵ش،ص۶
- ↑ طباطبایی،ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش ج۱، ص۳۶۰
- ↑ مہرین،عباس، فرہنگ کامل لغات قرآن،۱۳۷۴، ص۴۶۹
- ↑ مہرین،عباس، فرہنگ کامل لغات قرآن،۱۳۷۴، ص۴۶۹
مآخذ
- قرآن
- ابن بابویہ، محمد بن علی، علل الشرائع، ترجمہ ذہنی تہرانی، انتشارات مؤمنین، ایران ؛ قم، چاپ اول، ۱۳۸۰ش.
- جفری، آرتور، واژہہای دخیل در قرآن مجید، ترجمہ فریدون بدرہای، تہران، انتشارات توس، ۱۳۷۲ش.
- حسینی فاطمی،سیدعلی، ہاروت و ماروت از واقعیت تا افسانہ، مجلہ تاریخ در آینہ پژوہش، سال سوم، شمارہ چہارم، زمستان ۱۳۸۵ش.
- خزائلی، محمد، اعلام قرآن، انتشارات امیرکبیر، تہران، ۱۳۷۱ش.
- شہیدی، جعفر، شرح مثنوی (شہیدی)، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۳ش.
- علامہ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش.
- مکارم شیرازی ناصر، تفسیر نمونہ، ناشر:دار الکتب الإسلامیة، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
- مہرین شوشتری، عباس، فرہنگ کامل لغات قرآن، تہران، انتشارات گنجینہ، ۱۳۷۴ش.