اصحاب کہف

ویکی شیعہ سے
بوسنیا و ہرزیگووینا کے شہر کنجیک میں پتھر پر منقوش اصحاب کہف کی تصویر

اَصْحابِ کَہْف یا یاران غار، ان مسیحی صاحبان ایمان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے قدیم روم کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے ظلم سے بچنے کے لئے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہے اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے اشراف میں سے تھے۔ وہاں پہنچ کر ان سب پر نیند طاری ہو گئی وہ لوگ 309 سال تک سوئے رہے۔ قرآن کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیعہ احادیث میں اصحاب کہف کو امام مہدیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ کس جگہ رونما ہوا اور مذکورہ غار کہاں پر واقع ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر یہ غار موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر میں اِفِسوس (اِفِسُس) نامی شہر میں واقع ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن پر مردان آنجلس نامی ٹی وی سیریل اسی واقعہ پر بنایا گیا ہے جس کا اردو میں ترجمہ، "اصحاب کہف" کے نام سے کیا گیا ہے۔

داستان

اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) حضرت عیسی کے ماننے والے ان با ایمان افراد کو کہا جاتا ہے جو قدیم روم کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔[1] یہ لوگ سوائے ایک چرواہے اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء و اشراف اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنا ایمان مخفی رکھا تھا۔

انہوں نے دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لی تھی۔[2] وہاں پہنچ کر سب پر نیند طاری ہو گئی اور وہ لوگ 309 سال تک سوتے رہے۔[3] خدا نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتا وہ یہی گمان کرتا تھا کہ وہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔[4] اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔[5] یہ خیال بعض افراد کے مطابق ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا۔[6] بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔[7]

کھانے کا سامان لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے قرآن میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض احادیث کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔[8] جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔[9]

نام اور تعداد

اصحاب کہف میں کتنے لوگ شامل تھے؟ اس حوالے سے تاریخی اور حدیثی منابع میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ عیسائی منابع میں ان کی تعداد 7، 5 اور 13 تک بتائی گئی ہے۔[10] اسی طرح ان منابع میں ان کا نام کچھ یوں ہے: مکسملینا، یلمیخا، دیمومدس (دیموس)، امبلیکوس، مرطونس، بیرونس اور کشطونس۔[11] لیکن طبری نے ان کا نام یوں ذکر کیا ہے: مکسلمینا، محسلمینا، یملیخا، مرطونس، کسطونس، ویبورس، ویکرنوس، یطبیونس اور قالوش۔[12]

قرآن کریم میں اصحاب کہف کی تعداد کی طرف کوئی تصریح موجود نہیں ہے صرف ان کی تعداد سے متعلق لوگوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں یوں آیا ہے کہ "بعض کہتے ہیں کتے سمیت ان کی تعداد 4 ہے، بعض ان کی تعداد 6 اور بعض آٹھ بتاتے ہیں"۔[13] بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن مجید نے تیسرے نظریے کو اپنایا ہے۔[14]

قرآن کی روشنی میں

سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 تک میں اصحاب کہف کی داستان بیان ہوئی ہے۔ ان آیات میں اصحاب کہف کے ہدایت یافتہ ہونے، خدا پر ایمان رکھنے، کافروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، غار میں پناہ لینے، خدا کے حکم سے ان کے سینکڑوں سال زندہ رہنے، اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو اور آخر کار حقیقت کے آشکار ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ کافروں کے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس مسئلے میں ہونے والی گفتگو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[15]

قرآن کے مطابق انہوں نے 309 سال غار میں نیند کی حالت میں گزارے۔[16]

اصحاب کہف اور اصحاب رقیم

سورہ کہف کی آیت نمبر 9 میں "الرقیم" کو "الکہف" پر عطف کرکے یوں آیا ہے: "اَم ‌حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ..."[؟؟] یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ شأن نزول کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے۔[17]

احادیث کی روشنی میں

احادیث میں اصحاب کہف کو اشراف اور حکمران گھرانے کے جوانوں کے طور پر جانا گیا ہے جو کسی بڑے عید کے دن شہر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خدا ان کے دلوں کو ہدایت کے نور سے منور فرماتا ہے یوں یہ لوگ خدا پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگرچہ جوانی کی ابتداء میں یہ لوگ ایک دوسرے سے اپنا ایمان چھپاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے ایمان سے باخبر کیا۔[18] بعض احادیث کی روشنی میں دقیانوس نے اصحاب کہف کو ایک مدت تک مہلت دیا تاکہ وہ اپنے ایمان سے پلٹ آئیں۔ انہوں نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے غار میں پناہ لی۔[19] بعض احادیث میں انہیں بادشاہ کا امین اور رازدار قرار دیا گیا ہے۔[20]

امام مہدیؑ کے اصحاب میں ان کا شمار

شیعہ احادیث میں آیا ہے کہ امام زمانہؑ کے ظہور کے وقت اصحاب کہف رجعت کرکے آپؑ کے اصحاب میں شامل ہونگے۔[21] امام صادقؑ فرماتے ہیں: جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو کچھ لوگ کعبہ کے پیچھے سے ظاہر ہونگے جن میں سے سات(7) نفر اصحاب کہف ہونگے۔[22] حلبی روایت کرتے ہیں کہ اصحاب کہف مہدی موعودؑ کے وزیروں میں سے ہونگے۔[23] امام صادقؑ سے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جب دابۃ الارض خارج ہوگا تو خداوند عالم اصحاب کہف کو ان کے کتے سمیت اٹھائے گے۔[24]

دوسرے ادیان میں ان کا تذکرہ

اصحاب کہف کی داستان ان معدود داستانوں میں سے ایک ہے جس کا تذکرہ یہودی منابع میں نہیں آیا ہے لیکن عیسائی منابع میں اس کا تذکرہ آیا ہے۔ عیسائی منابع میں بھی یہ داستان تقریبا اسی شکل میں نقل ہوئی ہے جس طرح اسلامی منابع میں نقل ہوئی ہے اور عیسائیوں کے یہاں یہ داستان "شہر اِفِسوس(اِفِسُس) کے سات سوئے ہوئے" کے نام سے معروف ہے۔[25]

ترکی کے شہر اِفِسوس میں اصحاب کہف سے منسوب غار

مستشرقین کے آثار میں ان کا تذکرہ

اصحاب کہف کی داستان پہلی بار پانچویں صدی عیسوی یعنی ظہور اسلام سے سو سال پہلے کلیسائے شام کے خلیفہ "ژاک" کے رسالے میں سریانی زبان میں نقل ہوئی ہے۔ ان کے بعد "ادوارد گیپون" نے اپنی کتاب "سقوط امپرطوری روم" میں اس داستان کا تذکرہ کیا ہے۔[26] اسی طرح فرانس کے ایک مستشرق "لویی ماسینیون" نے سنہ 1961ء میں اصحاب کہف پر ایک تحقیق کی جسے اس نے فرانسیسی زبان میں "سات سوئے ہوئے" کے نام سے شایع کیا۔[27] دوسری طرف سے "یونگ‌" نے اصحاب‌ کہف‌ کی داستان‌ کو حضرت خضر کی داستان‌ سے مقایسہ کرکے تجدید حیات‌ اور دوبارہ زندہ ہونے کے موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔[حوالہ درکار]


باقیماندہ آثار

امام علیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق جس شہر میں اصحاب کہف ساکن تھے اس کا نام اِفِسوس (اِفِسُس) ہے۔[28] یہ شہر (ایشیائے صغیر) آناتولی کے ایونیا کے شہروں میں سے ایک تھا۔ اس وقت اس شہر کے صرف کھنڈرات موجود ہیں اور موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر کے شہر سلجوک کے جنوب میں تین کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[29] اس شہر سے ایک کیلومیٹر کے فاصلے پر ایک غار ہے، ترکی کے لوگ اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے اس کی زیارت کرتے ہیں۔[30]اس غار کے اندر سینکڑوں قبروں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح اردن کے دارالخلافہ امان سے سات کیلومیٹر کے فاصلے پر دو شہروں رقیم (رجیب) اور ابوعلند کے درمیان ایک غار ہے جس کے اوپر ایک مسجد بنائی گئی ہے جس کے متعلق بعض آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غار اصحاب کہف کا غار ہے۔[31] اس غار کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے جس کا نام "اکتشاف کہف اہل الکہف" ہے۔ اسی طرح ایک اور غار جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصحاب کہف کا غار ہے، وہ شام کے شہر دمشق کے قریب واقع ہے۔ اسی طرح فلسطین کے شہر بتراء میں واقع ایک غار، دمشق کے کوہ قاسیون کے نزدیک واقع غار، شمالی یورپ کے شبہ جزیرہ اسکانڈینوی میں واقع غار اور منطقہ قفقاز کے شہر نخجوان میں واقع غار کو بھی آقار قدیمہ کے ماہرین اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔[32]

علامہ طباطبایی المیزان میں اس بات کے معتقد ہیں کہ ترکی کے شہر اِفِسوس میں موجود غار کے اوپر غار اصحاب کہف کا اطلاق زیادہ مناسب لگتا ہے۔[33]

ٹی وی سیریل اصحاب کہف کا ایک منظر

ٹی وی سیریل اصحاب کہف

اصحاب کہف کے بارے میں ایران کے ایک مشہور ڈائریکٹر فرج اللہ سلحشور نے سنہ 1376 ھ.ش میں ایک ٹی وی سیریل بنایا جسے ایران کے ٹیلی ویژن پر کئی بار نشر کیا جا چکا ہے اور اس کا اردو ترجمہ اصحاب کہف کے نام سے کیا گیا ہے جو اردو زبان طبقوں میں خاصی شہرت کا حامل ہے۔ سنہ 1377ش میں ایران کے سابق صدر سید محمد خاتمی کے واتیکان سفر کے موقع پر انہوں نے اسے پاپ ژان پال دوم کو بطور ہدیہ پیش کیا۔[34] یہ سیریل بعض دیگر مسلم ممالک من جملہ مصر اور پاکستان وغیرہ میں بھی نشر ہو چکا ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
  2. طبری، ترجمہ تفسیر طبری (جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۲۵۔
  3. سورہ کہف،آیہ۲۵۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۵۶۔
  5. سورہ کہف، آیہ۱۸و۱۹
  6. طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج‌۲، ص‌۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۷۳۔
  7. سورہ کہف، آیات۱۸و۱۹
  8. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴۔
  9. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴و۶۲۵۔
  10. الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص‌۸۸۔
  11. الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص‌۸۸۔
  12. طبری، ترجمہ تفسیر طبری (جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۷۶۔
  13. سورہ کہف، آیات۲۲،۱۸۔
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۶۷،۲۶۸ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۸۳۔
  15. معموری، تحلیل ساختار روایت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۱۶۰۔
  16. سورہ کہف، آیہ۲۴۔
  17. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۱۔
  18. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۶۔
  19. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔
  21. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۳۷۷ش، ص۲۸۶۔
  22. طبسی، چشم‌اندازی بہ حکومت مہدی(عج)، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔
  23. صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ۱۳۸۰ش، ص۴۸۵۔
  24. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۷۵ و ج۵۳، ص۸۵۔
  25. الحکیم، اہل الکہف، ص‌۸۸۔
  26. مجدوب، اصحاب کہف در تورات و انجیل و قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۵۔
  27. مجدوب، اصحاب کہف در تورات و انجیل و قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۶۲۔
  28. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
  29. سامی، قاموس الاعلام ترکی، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۵۰۶ و ج۲، ص۱۰۰۱۔
  30. بی‌آزار شیرازی، باستان‌ شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، صفحۂ۳۵۲۔
  31. بی‌ آزار شیرازی، باستان‌ شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، صفحۂ۱۹۴۔
  32. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۹۹۔
  33. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۹۹۔
  34. روزنامہ شرق، خیلی دور، خیلی نزدیک
  35. مخالفت سلفی‌ہا با پخش سریال «مردان آنجلس»

مآخذ

  • المجدوب، احمد علی، اصحاب کہف در تورات، انجیل و قرآن، مترجم: سید محمد صادق عارف، تہران، رشد، ۱۳۸۰ش۔
  • الحکیم، توفیق، اصحاب الکہف، ترجمہ: بتول مشیریان، چاپ اول، تہران، ارمغان، ۱۳۸۲۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمود بن جعفر موسوی زرندی، تہران ۱۳۳۴ش۔
  • بی ‌آزار شیرازی، عبد الکریم، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب، ترجمہ ترجمہ رضایی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۷ش۔
  • سامی، شمس‌ الدین، قاموس الاعلام ترکی، تہران، بنیاد اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر فی أحوال الإمام الثانی عشر، قم، دفتر آیت اللہ صافی، ۱۳۸۰ش۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمد باقر موسوی، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، تصحیح: حبیب یغمایی، تہران، توس، ۱۳۵۶ش۔
  • طبسی، نجم‌ الدین، چشم‌اندازی بہ حکومت مہدی (عج)، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۱ش۔
  • قمی، علی ‌بن ابراہیم، تفسیر قمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ق۔
  • گیپون، ادوارد، انحطاط و سقوط امپراطوری روم، مترجم: فرنگیس شادمان، تہران، ققنوس، ۱۳۹۳ش۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بہ تحقیق جمعی از محققان، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
  • معموری، علی، تحلیل ساختار روایت در قرآن، تہران، نگاہ معاصر، ۱۳۹۲ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • پایگاہ گنجور، سنائی،قصیدۂ شمارۂ ۱۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، مولوی،غزل شمارۂ ۶۷۶۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، گلستان سعدی،باب اول در سیرت پادشاہان، حکایت شمارۂ ۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی روزنامہ شرق،خیلی دور، خیلی نزدیک۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی افکار نیوز،مخالفت سلفی‌ہا با پخش سریال «مردان آنجلس»۔ تاریخ درج خبر: ۱۳۹۲/۰۳/۲۲، تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔