معجزات پیغمبر
معجزات پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان خارق العادہ(غیر معمولی) کاموں کو کہا جاتا ہے جنہیں آپؐ نے اپنی نبوّت کے اثبات کے لئے خدا کے اذن سے انجام دیے۔ آپ کے معجزات کی تعداد ہزار سے زیادہ ذکر کی گئی ہے جنہیں روحانی اور حسی معجزوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلامؐ کا سب سے اہم معجزہ قرآن ہے جو دوسرے انبیاء کے معجزوں کے برخلاف، ہمیشہ رہے گا۔ ردّ الشمس اور شقّ القمر آپؐ کے حسی معجزوں میں سے ہیں۔ بعض منابع میں اخلاق نبوی اور سیرہ نبوی کو آپؐ کے معنوی معجزوں میں شمار کیے گئے ہیں۔
معجزہ
معجزہ، اس حیرت انگیز اور خارق العادہ کام کو کہا جاتا ہے جسے انبیاء اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے عام فطری قوانین کے برخلاف انجام دیتے ہیں[1] جسے عام آدمی انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ایسے حیرت انگیز کام کا مقصد جو خدا کے خاص اذن سے انجام پاتے ہیں، نبوت کا اثبات ہے۔ معجزہ کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن میں تحدی (یعنی مد مقابل کو اس کام کے انجام دینے کی دعوت دینا)، معارض کا نہ ہونا اور مغلوب نہ ہونا شامل ہیں۔[2]
معجزوں کی تعداد
پیغمبر اکرمؐ کے معجزوں کی تعداد بہت زیادہ بتائی گئی ہیں۔ ابن جوزی بعض ایسے منابع کا نام لیتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کے 1000 سے زیادہ معجزوں کا نام لیا گیا ہے۔[3] ابن کثیر نے ان میں سے بہت سارے معجزوں کو اپنی کتاب معجزات النبی میں نقل کیا ہے۔ اس کتاب میں معجزے، دو قسموں (معنوی اور حسی) میں تقسیم ہوئے ہیں۔ قرآن کریم، اخلاق نبوی اور سیرہ نبوی کو آپؐ کے معنوی معجزات میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کے حسی معجزات کو آسمانی اور زمینی واقعات میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ حسی زمینی معجزوں کو دوبارہ جمادات اور حیوانات سے متعلق معجزوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
قرآن کریم
قرآن کریم پیغمبر اسلامؐ کا جاوید معجزہ ہے۔ قرآن کے معجزہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمانی کتاب مختلف حوالے (لفظ، معنا اور ساختار وغیرہ) سے مافوق البشر خصوصیات کا حامل ہے اور انسان اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ قرآن انسان کا نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ قرآن کے معجزے کی اثبات کے لئے مختلف آیات میں مقابلے کی دعوت دی گئی ہے۔ تحدی کا معنا یہ ہے کہ خدا نے قرآن میں منکرین قرآن سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر تم قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتے تو اس کی کوئی مثال پیش کرو اور چونکہ آج تک کوئی شخص اس کی مانند کوئی کتاب لانے میں کامیاب نہیں ہوا، خدا کے کلام کی حقانیت ثابت ہو جاتی ہے۔[4]
حسی معجزات
پیغمبر اسلامؐ کے معجزات کی ایک قسم ایسے حیرت انگیز کاموں پر مشتمل ہے جنہیں حواص خمسہ کے ذریعے درک کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین معجزات درج ذیل ہیں:
شق القمر
شق القمر پیغمبر اکرمؐ کے معجزات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس معجزے کو آپؐ نے مشرکین کی درخواست پر انجام دیا۔ اس حیرت انگیز واقعے میں پیغمبر اکرمؐ نے اپنی انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ یہ واقعہ بعثت کے ابتدائی ایام میں پیش آیا ہے۔ اس معجزے کے بارے میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں۔[5] اکثر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ سورہ قمر کی ابتدائی آیات اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں:[6]
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ* وَ إِنْ یرَوْا آیةً یعْرِضُوا وَ یقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ* وَ کذَّبُوا وَ اتَّبَعُوا أَهْواءَهُمْ وَ کلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ (ترجمہ: (قیامت کی) گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ اور اگر وہ کوئی نشانی (معجزہ) دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو مستقل جادو ہے (جو پہلے سے چلا آرہا ہے)۔ اور انہوں نے (رسول(ص) کو) جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی اور ہر کام کا وقت مقرر ہے اور ثابت ہے۔)[قمر–؟]
رد الشمس
حدیثی اور تاریخی منابع میں مذکور معجزات میں سے ایک رد الشمس کا معجزہ ہے۔ اس واقعے میں حضرت علیؑ کے لئے سورج لوٹ آیا تاکہ آپ عصر کی نماز اپنے وقت پر ادا کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایک دفعہ حضرت موسی کے وصی حضرت یوشع کے لئے بھی پیش آیا تھا[7] اور حضرت علیؑ کے لئے یہ واقعہ دو دفعہ پیش آیا ہے؛ ایک دفعہ پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں اور دوسری دفعہ حضورؐ کی رحلت کے بعد۔[8]
دوسرے معجزات
- پیغمبر اکرمؐ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جاری ہونا: بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ ایک دن نماز عصر کے دوران صحابہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے تھے لیکن وضو کے لئے پانی میسر نہیں تھا۔ اس وقت رسول خداؐ نے اپنے ہاتھوں کو ایک برتن کے اوپر رکھا۔ اتنے میں آپ کی انگلیوں سے پانی بہنا شروع ہوا اور اس پانی سے وہاں موجود تمام لوگوں نے وضو کیا۔[9]
- ایک درخت کا پیغمبر اکرمؐ کی طرح حرکت کرنا: حضرت علیؑ خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں کہ ایک دن قریش کے بزرگوں میں سے ایک گروہ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی نبوت کی اثبات کے لئے معجزے کے طور پر کسی درخت کو اپنی طرف حرکت کرانے کا مطالبہ کیا۔ رسول خداؐ نے مذکورہ درخت کو خدا کے اذن سے آپؐ کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا۔ اتنے میں اس درخت کی جڑیں زمین سے باہر آگئے اور درخت نے آپؐ کی طرف حرکت کرنا شروع کیا۔ اس آشکار معجزے کے باوجود ان لوگوں نے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کو جادوگر کہنے لگے۔[10]
- پیغمبر اکرمؐ کی دعا کی بدولت موصلہ دار بارش ہونا: امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں خشک سالی کی بنا پر لوگوں نے رسول خداؐ سے بارش کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے دعا فرمائی اور ابھی آپ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مدینہ کے آسمان کو بادلوں نے گھیر لیا اور اس قدر بارش ہوئی کہ جس سے سیلاب آنے کا خطرہ پیدا ہوا۔[11]
- 'پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھوں پر کنکریوں کا تسبیح پڑھنا:ابوذر غفاری عثمان سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک دن ابوبکر اور عمر کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے زمین سے کچھ کنکریوں کو اٹھایا اور اپنے ہاتھوں پر رکھ دیا۔ اس وقت کنکریوں نے خدا کی تسبیح پڑھنا شروع کیا۔[12]
پیغمبر اکرمؐ سے ان کے علاوہ بھی معجزات نقل ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: درندوں اور پرندوں کا آپ سے ہمکلام ہونا اور ان چیزوں کی خبر دینا جنہیں لوگ اپنے گھروں میں ذخیرہ کئے ہوئے تھے وغیره۔[13]
اخلاق کا معجزہ
بعض منابع میں پیغمبر اکرمؐ کی نیک خصلتوں کو بھی آپ کے معجزات میں شمار کئے گئے ہیں۔[14] اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے معاصر محققین کے درمیان ایک نیا نظریہ مطرح ہوا ہے جس کی بنا پر وہ پیغمبر اکرمؐ کے معجزات کو تین قسموں می تقسیم کرتے ہیں؛ قرآنی معجزات، اخلاقی معجزات اور دوسرے معجزات۔ اس تقسیم بندی میں قرآن کے بعد آپؐ کے اخلاق کو دوسرے معجزات سے بڑھ کر آپ کی ذاتی خصوصیات میں سے قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کا اذن اس کا فعل ہے لیکن اخلاق نبوی رسول خداؐ کا فعل ہے اور خدا کے اذن سے ہے۔ ان کے آپس میں وجہ اشتراک یہ ہے کہ وحی اور اخلاق نبوی خاتمیت کا خصوصی مقام ہے جو نہ گذشتہ لوگوں کے لئے میسر ہوا ہے اور نہ آئندہ آنے والوں کے لئے میسر ہوگا؛ یعنی جو چیز اخلاق نبوی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ آپ کا عالی ترین اخلاقی مقام یعنی وحی کا تربیت یافتہ اور تاریخ اسلام کا مؤثر ترین فرد ہونا ہے۔[15] مولوی اپنے اشعار میں پیغمبر اکرمؐ پر لوگوں کے ایمان لانے کو آپ کے اخلاق فاضلہ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں نہ معجزہ:
|
حوالہ جات
- ↑ ملاحظہ کریں: شیخ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۵۔
- ↑ شیخ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۶-۱۲۹۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۱۲۹۔
- ↑ ابن کثیر، معجزات النبی، المكتبۃ التوفيقيۃ، ص۷۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۷، ص۳۵۵۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۹، ص۲۸۲؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۹، ص۳۳۷۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۸۵۔
- ↑ دیلمی، ج۲، ص۲۲۷؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۴۶؛ راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۲۹۲- ۲۹۱ ؛ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰۳۔
- ↑ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔
- ↑ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲(خطبہ قاصعہ)۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۷۴۔
- ↑ ابن کثیر، معجزات النبی، المكتبۃ التوفيقيۃ، ص۱۳۳۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۲۳ق، ص۲۱۴۔
- ↑ ابن کثیر، معجزات النبی، المكتبۃ التوفيقيۃ، ص۱۷۔
- ↑ فرامرز قراملکی، اخلاق حرفہای، ص۱۵۷۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند۔
- ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، معجزات النبی، تحقیق ابراہیم امین محمد، قاہرۃ، المکتبہ التوفیقیہ، بیتا۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، دار ابن کثیر، چاپ سوم، ۱۴۰۷ھ۔
- دیلمی، حسن، ارشاد القلوب، قم، انتشارات رضی، ۱۴۱۲؛
- راوندی، قطب الدین، قصص الانبیاء، مشہد، مؤسسہ البحوث الاسلامیہ، ۱۴۰۹ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، النکت الاعتقادیہ، قم، الموتمر العالمی، ۱۴۱۳ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: لجنۃ من العلماء و المحققین الاحصایین، بیروت، چاپ اوّل، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۵ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر الاخبار الائمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- مسعودی، ابو الحسن، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابیطالب، قم، انصاریان، ۱۴۲۳ھ۔
- نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی۔