حضرت زینب سلام اللہ علیہا
اس نام کے ساتھ مشابہت رکھنے والے دوسرے مقالات کے لئے زینب (ضد ابہام) دیکھئے
![]() | |
نام | زینب بنت علیؑ |
---|---|
وجہ شہرت | امام علیؑ کی صاحبزادی |
کنیت | ام کلثوم، ام الحسن |
لقب | عقیلۂ بنی ہاشم، عالمہ غیر مُعَلَّمہ، کاملہ ، فاضلہ، ام المصائب، و ۔۔۔ |
تاریخ پیدائش | 5 جمادی الاول، سنہ 5 یا6 ہجری ہجری |
جائے پیدائش | مدینہ |
وفات | 15 رجب سنہ 62 ہجری |
مدفن | دمشق، قاہرہ (اختلاف) |
سکونت | مدینہ |
والد | امام علیؑ |
والدہ | حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا |
شریک حیات | عبداللہ بن جعفر |
اولاد | محمد، عون، علی، عباس، ام کلثوم |
عمر | 57 سال |
مشہور امام زادے | |
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ |
حضرت زینب سلام اللہ علیہا (5 یا 6ھ- 62ھ) امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی صاحبزادی ہیں۔ ان کے بھائی امام حسینؑ کی واقعۂ کربلا میں شہادت کے بعد قیام کربلا کے علمبردار اور اسیرانِ کربلا کی سرپرست بن گئی۔ واقعہ کربلا کو حضرت زینبؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ عاشورا کے دن امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپ کو دیگر پسماندگان کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور پھر کوفہ اور وہاں سے شام منتقل کر دیا گیا۔ عاشورا کے بعد حضرت زینبؑ کی تین اہم ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں جن میں پسماندگان کا خیال رکھنا، امام سجادؑ کی حمایت اور حفاظت کرنا اور شہدائے کربلا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا، شامل ہیں۔ حضرت زینب کا کوفہ میں دیا جانے والا خطبہ اور دمشق میں یزید کی مجلس میں دیا جانے والا خطبہ، اہل بیتؑ کی مظلومیت اور ان کے مقام کو بیان کرنے اور بنی امیہ کا ستم بالخصوص عبید اللہ ابن زیاد اور یزید بن معاویہ کے ظلم و ستم کو بے نقاب کرنے کے باعث بنے اور اسی کے سبب یزید نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عذرخواہی کی۔ واقعہ کربلا میں جناب زینبؑ کے دو بچے عون اور محمد شہید ہوئے۔ آپ کے دیگر القاب میں عَقیلۂ بنی ہاشم اور عالمۃٌ غیرُ مُعَلَّمَۃ شامل ہیں۔ شیعہ علماء نے حضرت زینبؑ کو اہم کمالات اور فضائل کا مالک سمجھا ہے؛ جن میں علم و فقاہت، تقریر میں امام علیؑ سے مشابہت، عبادت میں والدہ حضرت زہراؑ سے مشابہت، صبر و استقامت کا مجسم اور صبر جمیل کی علامت، شامل ہیں۔ بعض شیعہ علماء حضرت زینبؑ کے مناقب اور فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی عصمت کے قائل ہوئے ہیں۔
مشہور قول کے مطابق حضرت زینبؑ کی وفات 15 رجب سنہ 62 ہجری کو ہوئی ہے۔ ان کے محلِ دفن کے بارے میں بھی اختلاف ہے: ان میں سے سب سے مشہور قول دمشق میں حضرت زینب کا حرم آپ کی جائے دفن ہے؛ تاہم، کچھ لوگ آپ کا محل دفن مصر میں مقام حضرت زینب اور کچھ لوگ بقیع قبرستان سمجھتے ہیں۔
حضرت زینب کو شیعہ ثقافت اور ادب میں بلند مقام حاصل ہے۔ وہ آپ کی پیدائش اور یوم وفات کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں، اپنی بیٹیوں کے نام ان کے نام سے رکھتے ہیں، اور ان کے اعزاز کے لیے کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں۔ ایران میں ان کی سالگرہ کو نرس کا دن کہا جاتا ہے۔ حضرت زینب کی زندگی، شخصیت اور فضائل کے بارے میں مختلف زبانوں میں کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ زینب کے بارے میں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی جیسی زبانوں میں 334 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک سید نور الدین جزائری کی کتاب اَلْخصائِصُ الزَّینبیّۃ ہے۔
ولادت، نام، لقب اور کنیت
حضرت زینب امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی پہلی بیٹی،[1] اور امام حسنؑ، امام حسینؑ[2] اور ام کلثوم کی بہن ہیں۔[3] آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے: بعض منابع کے مطابق حضرت زینبؑ 5 جمادی الاول[4] سنہ 5 ہجری[5] اور بعض کے مطابق سنہ 6ھ[6] کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔ بعض منابع میں آپ کی پیدائش، رحلت پیغمبر اکرمؐ سے پانچ سال پہلے قرار دی گئی ہے۔[7] البتہ چار ہجری، نو ہجری جیسی بعض دوسری تاریخیں بھی ذکر ہوئی ہیں۔[8] کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی تاریخ کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔[9]
حضرت زینبؑ کا نام پیغمبر اکرمؐ نے رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے یہ نام خدا کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا ہے۔[10] کتاب الخصائص الزینبیۃ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اور فرمایا: ’’میری امت کے حاضرین، غایبین کو میری نواسی زینب کی کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری نواسی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہیں۔‘‘[11] زینب کے لفظی معنی "خوبصورت اور خوشبودار درخت"[12] اور "باپ کی زینت"[13] ہیں۔
حضرت زینبؑ کی کنیت ام کلثوم اور ام الحسن ہے۔[14] اسی نام کی اپنی بہنوں سے ممتاز کرنے کے لیے ان کو زینب کبری اور اپنی والدہ صدیقہ کبری سے ممتاز کرنے کے لیے ان کو صدیقہ صغری کا لقب دیا گیا ہے۔[15] آپ کے کئی اور القابات بھی ذکر ہوئے ہیں۔[16] بعض نے ان کے ساٹھ سے زیادہ القابات بیان کیے ہیں،[17] جن میں سے کچھ یہ ہیں: عَقیلہ بنی ہاشم، عالمۃً غیرُ مُعَلَّمَۃ، فَہِمَۃٌ غَيْرُ مُفَہَّمَۃ، [یادداشت 1] عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، صدیقہ صغری، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ، شریكۃ الحسین اور محبوبۃ المصطفی۔[18]
حضرت زینبؑ کو اپنی زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کرنے پڑا جس کی وجہ سے ام المصائب کا لقب دیا گیا ہے: ان کے نانا رسول اللہؐ کی وفات، والدہ محترمہ فاطمہؑ کی بیماری اور شہادت، اپنے والد امیر المومنینؑ کی شہادت، بھائی امام حسنؑ کی شہادت، واقعۂ کربلا اور کوفہ و شام کی اسیری ان کی زندگی کے مشکل اور تلخ واقعات میں سے ہیں۔[19]
شریک حیات اور اولاد
حضرت زینب کا بہادرانہ کردار ہمارے سامنے ہے۔ ہم اس عورت کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ ... جس طرح مرد حسین ہو سکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان عورت زینب ہو سکتی ہے۔ اگر امام حسینؓ ہیروز کے لیے مثال اور مردوں کے لیے کمال ہیں تو زینبؑ بھی خواتین کے لیے ایک اسوہ ہیں۔ جس طرح ایک مسلمان مرد ہیرو اور مجاہد ہو سکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان عورت بھی ہیرو اور مجاہد ہو سکتی ہے۔ [20]
تاریخی منابع کے مطابق حضرت زینبؑ کا رشتہ مانگ کر بہت سارے لوگ آئے لیکن حضرت زینبؑ نے اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن جعفر سے شادی کی۔[21] ان کی شادی کی تاریخ معلوم نہیں ہے[22] تاریخی مآخذ میں بھی ان کی شادی کی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے۔[23] بعض منابع بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینب کی شادی کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ تھی کہ امام حسینؑ جب بھی سفر پر جانا چاہیں تو زینب ان کے ساتھ ہوں گی اور عبداللہ ان کو منع نہیں کریں گے۔[24]
حضرت زینب اور عبد اللہ کی اولاد میں چار بیٹے علی، عونُ الْاَکبر، عباس، محمد اور ایک بیٹی ام کلثوم ذکر ہوئے ہیں۔[25] شیعہ عالم فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548ھ) نے اپنی کتاب اِعلامُ الوَریٰ بِاَعلامِ الْہُدیٰ میں حضرت زینب کے تین بیٹے اور ایک بیٹی کا تذکرہ کیا ہے اور عباس کا نام نہیں لیا ہے۔[26] واقعہ کربلا میں زینبؑ کے دو بیٹے عون[27] اور محمد[28] شہید ہوئے۔ سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں عون الاصغر کو شہدائے کربلا میں ذکر کیا ہے اور ان کی والدہ کا نام جُمانہ بنت المُسَیَّب بتایا ہے۔[29] مَقاتلُ الطالبین میں محمد کی والدہ کا نام خوصاء بنت حفصہ ذکر ہوا ہے۔[30] بعض منابع حضرت زینب کی اولاد میں سے صرف عون کو شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں۔[31]
معاویہ نے حضرت زینبؑ کی بیٹی ام کلثوم کو اپنے بیٹے یزید کے لیے خواست گاری کیا؛ لیکن امام حسینؑ نے ان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی قاسم ابن محمد بن جعفر ابن ابی طالب سے کرا دی۔[32] حضرت علیؑ کی اولاد کی ایک شاخ کو "زینبیون" کہا جاتا ہے۔[33]
فضائل اور مناقب
حضرت زینبؑ کے لیے مختلف خصوصیات اور فضائل بیان ہوئے ہیں: عبداللہ مامقانی اپنی کتاب تنقیح المقال میں کہتے ہیں: "زینب و ما زینب و ما ادراک ما زینب ھى عقیلۃ بنی ہاشم؛ زینب، زینب کون ہے، تم کیا جانو گے کہ زینب کون ہے؟ وہ عقیلہ بنی ہاشم ہیں۔" ان کے عقیدہ میں حضرت زہراؑ کے بعد مطلوبہ صفات اور فضائل کے حصول میں ان جیسا کوئی اور نہیں تھا۔[34] باقر شریف قریشی[35] اور سید نور الدین جزائری[36] جیسے علما کے نزدیک حضرت زینبؑ تمام خوبیوں، کمالات اور صفات کی ایسی مجسم تھیں کہ زبان و قلم ان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔[37] آپ کی بعض خصوصیات درج ذیل ہیں:
علم اور فقاہت
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینبؑ کے عالمانہ کلام و خطبے آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔[38] موسوعۃ طبقات الفقہاء میں حضرت زینبؑ کو پہلی صدی ہجری کے فقہا میں شمار کیا گیا ہے۔[39] انہوں نے اپنے والد امام علیؑ اور اپنی والدہ حضرت زہراؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔[40] کتاب مقاتل الطالبین کے مطابق، عبداللہ ابن عباس نے فدک کے بارے میں حضرت زہراؑ کے الفاظ کو حضرت زینبؑ کا حوالہ دیتے ہوئے نقل کیا ہے، اور انہیں "عقیلتنا زینب بنت علیؑ" سے تعبیر کیا ہے۔[41] امام سجادؑ اور جابر بن عبداللہ انصاری،[42] محمد بن عمرو، عطاء بن سائب اور فاطمہ بنت امام حسینؑ[43] نے بھی حضرت زینبؑ سے احادیث نقل کیا ہے۔
زینب کبریٰ (علیہا السلام) کا حماسہ... کربلا کے حماسہ کی تکمیل ہے؛ بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ حماسہ جو بی بی زینب کبریٰ (علیہا السلام) نے خلق کی، کربلا کے حماسہ کو زندہ رکھنے والا اور اس کا محافظ بن گیا۔ زینب کبریٰ (علیہا السلام) کا عمل اتنی عظمت کا حامل ہے کہ اسے تاریخ کے دوسرے بڑے واقعات کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا؛ اس کا موازنہ صرف خود کربلا کے واقعے سے کیا جا سکتا ہے؛ اور حقیقتاً یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔ یہ عظیم شخصیت، یہ اسلام کی عظیم خاتون بلکہ انسانیت کی عظیم شخصیت، مشکلات کے عظیم پہاڑ کے سامنے بھی اپنا وقار بلند رکھ سکی... دشمنوں کے سامنے بھی، اور تلخ مصیبتوں اور حوادث کا سامنا کرتے ہوئے بھی، وہ ایک بلند چوٹی کی طرح استقامت کے ساتھ کھڑی رہی؛ انہوں نے درس دیا، نمونہ بن گئی، رہنمائی کی، اور پیشوا بن گئی۔ [44]
جب امام علیؑ کوفہ میں تھے تو حضرت زینب کوفہ کی عورتوں کو قرآن کی تفسیر کا درس دیا کرتی تھیں۔[45] یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ لوگ حرام اور حلال پوچھنے بھی آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔[46] بعض آپ کو علم لدنی کی حامل سمجھتے ہیں۔[47]
خطابت
حضرت زینبؑ کے خطابت کو امام علیؑ سے تشبیہ دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی فصاحت و بلاغت ایسی تھی کہ جب وہ خطبہ دیتی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ امام علیؑ خطبہ دے رہے ہیں۔[48] طبرسی نے الاحتجاج میں نقل کیا ہے کہ جس دن اسیروں کا قافلہ کوفہ پہنچا، امام سجادؑ بیماری کی حالت میں لوگوں سے خطاب کر رہے تھے اور لوگ گریہ و زاری کر رہے تھے، جب حضرت زینبؑ نے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تو راوی کہتا ہے کہ سانسیں سینے میں جمی گئیں اور مویشیوں کی گھنٹیوں کی آواز تک رک گئی۔ پھر حضرت زینب نے لوگوں کو خطبہ دیا۔[49]
عبادت
حضرت زینب کو عبادت میں اپنی والدہ حضرت زہراؑ سے تشبیہ دی گئی ہے۔[50] کہا گیا ہے کہ آپ راتوں کو عبادت، نماز تہجد اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی تہجد کی نماز ترک نہیں کی؛ حتی کہ واقعہ عاشورا کی متعدد مصیبتوں کے بعد بھی عاشورا کی گیارہویں شب کو نماز تہجد ترک نہیں ہوئی۔[51] فاطمہ بنت امام حسینؑ کہتی ہیں: "میری پھوپھی زینبؑ عاشورا کی پوری رات محراب عبادت میں کھڑی ہو کر اپنے رب کو پکارتی رہیں۔"[52] امام سجادؑ سے بھی یہ روایت ہوئی ہے کہ شام کے راستے میں بہت سی صعوبتوں کے باوجود حضرت زینب نے نماز شب ترک نہیں کی۔[53] روایت ہے کہ عاشور کے دن امام حسینؑ نے اپنی آخری وداع کے وقت حضرت زینبؑ سے فرمایا: "میری بہن، نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔"[54] حضرت زینبؑ کو ان کی عبادت کی وجہ سے "عابدہ" کا لقب دیا گیا ہے۔[55]
حجاب اور عفت
حضرت زینبؑ کی پردہ داری اور عفت کے بارے میں عبداللہ مامقانی کا کہنا ہے کہ واقعہ کربلا سے پہلے کسی مرد نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔[56] امام حسینؑ کے صحابی اور کربلا کے شہید یحییٰ مازنی سے روایت ہے کہ اگرچہ وہ مدینہ میں کافی عرصہ امام علیؑ کے پڑوس میں رہتے تھے، لیکن کبھی بھی حضرت زینبؑ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کی آواز سنی۔ ان کے مطابق جب حضرت زینبؑ روضہ رسول اللہؐ کی زیارت کو جاتی تھیں تو امام علیؑ اور حسینینؑ ان کے ساتھ ہوتے تھے تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ سکے۔[57]
صبر اور استقامت
حضرت زینبؑ کو صبرِ جمیل کی علامت اور مجسم[58]، قہرمانِ صبر[59] (صبر کی ہیرو) سمجھا جاتا ہے۔[یادداشت 2] دین کی حریم کی پاسداری میں استقامت، مصیبت کے وقت اپنے نفس پر کنٹرول، دشمن کے مقابلے میں کمزوری نہ دکھانا اور لوگوں کے سامنے شکایت نہ کرنا حضرت زینبؑ کے صبر کی خصوصیات کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔[60] عاشورا کے دن جب آپ نے اپنے بھائی کے خون آلود بدن کو دیکھا تو فرمایا: "اے اللہ ہماری (خاندان پیغمبر اکرمؐ) طرف سے تمہاری راہ میں اس قربانی اور شہادت کو قبول فرما۔"[61] اسی طرح جب ابن زیاد نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے بھائی اور خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے پایا، تو جواب میں کہا: "ما رأیت الا جمیلا؛ میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔"[62]
عصمت
عبداللہ ممقانی[63] اور 14ویں صدی کے شیعہ فقیہ جعفر نقدی[64] جیسے بعض علما حضرت زینب کی صفات اور خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی عصمت کے قائل ہوئے ہیں۔ سید نورالدین جزائری انہیں عصمت صغری کی مالک سمجھتے ہیں۔[65]
واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی ہمراہی اور اس کے بعد شفاف سازی
حضرت زینبؑ کی زندگی میں واقعہ کربلا سب سے اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔[66] آپ واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت تک ان کے ساتھ تھیں اور شہادت کے بعد آپ دیگر پسماندگان کے ساتھ گرفتار ہو کر کوفہ اور شام چلی گئی۔[67] کہا جاتا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ حضرت زینبؑ اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ سے آئیں یا بعد میں ان کے ساتھ ملحق ہوئیں۔ نیز ذرائع میں یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ حضرت زینبؑ مدینہ سے مکہ کیسے چلی گئی۔[68] جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ جب امام حسینؑ مکہ سے عراق کے لیے روانہ ہوئے تو زینبؑ اپنے بھائی کے ساتھ تھی۔[69]
امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؑ کا دشمنوں سے مقابلہ کرنے، ان کو بے نقاب کرنے اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مظلومیت کو متعارف کرانے کی وجہ سے قیامِ کربلا کے علمبردار کے طور پر متعارف ہوئیں۔[70] ان کے خطبات اور شفاف سازی کو حماسہ عاشورا کی بقا اور لوگوں کی بیداری کا راز سمجھا گیا ہے۔[71] شیعہ عالم دین محمد محمدی اشتہاردی نے حضرت زینبؑ کی عاشورا کے بعد کی تین ذمہ داریاں کچھ یوں بیان کی ہیں: پسماندگان کی سرپرستی اور ان کا خیال رکھنا، امام سجادؑ کی حمایت اور حفاظت کرنا، اور شہداء کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا۔[72]
جب عبید اللہ ابن زیاد نے حضرت زینبؑ سے پوچھا کہ آپ نے اپنے بھائی اور خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے پایا؟ تو حضرت زینبؑ نے اس کے جواب میں کہا: ما رأيت إلاّ جميلاً؛ میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔.[73]
کربلا میں
شیخ مفید نے امام سجادؑ سے نقل کیا ہے کہ شب عاشورا حضرت زینبؑ آپ کے پاس بیٹھی تھیں، امام حسینؑ اپنے خیمے میں گئے اور دنیا کی بے وفائی کے بارے میں اشعار پڑھے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ وہ اشعار سن کر میری پھوپھی بے صبری سے میرے والد کے پاس گئیں۔ میرے والد نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: "میری بہن، شیطان آپ کے صبر کو آپ سے نہ چھین لے۔" پھر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور فرمایا: کہ اگر قطا پرندے (پتھر کھانے والا پرندہ) کو اپنے حال پر چھوڑا جائے تو وہ سو جائے گا۔ زینبؑ نے کہا: ہائے افسوس! "کیا وہ زبردستی تمہاری جان لے رہے ہیں؟..." پھر آپ نے اپنے منہ پر طمانچہ مارا، گریباں چاک کر دیا اور بے ہوش ہوگئیں۔ امام حسینؑ نے آپ کے چہرے پر پانی ڈالا اور انہیں تقویٰ اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: "... جان لو کہ زمین اور آسمان کے رہنے والے مر جائیں گے اور اللہ کے سوا سب کچھ فنا ہو جائے گا،... میرے والد، میری والدہ اور میرا بھائی مجھ سے بہتر تھے [اور وہ سب دنیا سے جا چکے ہیں...]" امام حسینؑ نے ان الفاظ کے ساتھ ان کو تسلی دی اور ان سے وعدہ لیا کہ بھائی کی شہادت کے بعد گریباں چاک نہ کرے، اپنے منہ پر سیلی نہ مارے اور بے صبری نہ کرے۔[74]
عصر عاشورا جب شمر کے حکم پر امام حسینؑ کے بدن پر تیر برسائے گئے تو حضرت زینبؑ خیمے سے باہر آئیں اور عمر بن سعد (دشمن کی فوج کے سپہ سالار) سے یوں مخاطب ہوئیں: "سعد کے بیٹے، کیا تم دیکھ رہے ہو اور ابو عبداللہ (امام حسینؑ) کو قتل کر رہے ہیں؟" ابن سعد نے کوئی جواب نہیں دیا۔[75] پھر حضرت زینبؑ نے آواز دی کہ کیا تمہارے درمیان کوئی مسلمان نہیں ہے؟ کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا۔ بعض منابع کے مطابق، امام حسینؑ کی شہادت کے بعد، زینبؑ اپنے بھائی کی نعش پر گئیں اور کہا: "اے اللہ، ہماری طرف سے اس قربانی کو قبول فرما۔"[76] یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ آپ نے مدینہ کی طرف رخ کیا اور پیغمبر اکرمؐ سے مخاطب ہو کر بھائی کی شہادت اور اہل بیت کی اسیری کی شکایت کی۔ روایت ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ کے کلمات اور رونے نے دوست اور دشمن دونوں کو متاثر کیا اور سب کو رلا دیا۔[77]
مآخذ کے مطابق روز عاشورا حضرت زینب کے دو بیٹے شہید ہوئے۔[78] سید محمد کاظم قزوینی کا کہنا ہے کہ میں نے مقتل کی کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا کہ حضرت زینبؑ نے اولاد کی شہادت پر آہ و بکا کیا ہو یا گریہ کیا ہو۔ ان کی رائے میں حضرت زینبؑ اپنے بھائی امام حسینؑ کی وجہ سے بچوں کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔[79]
کوفہ میں
امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؑ اور باقی اسیروں کو کوفہ لے جایا گیا۔[80] تاریخی اطلاعات کے مطابق اسیر کارواں کی قیادت حضرت زینبؑ کے ذمہ تھی۔[81] کوفہ میں داخل ہو کر حضرت زینبؑ نے حاضرین کو خطبہ دیا جس سے سب حیران اور متاثر ہوئے۔[82] امام سجادؑ کے صحابی حِذْیَم بن شَریک اَسَدی حضرت زینبؑ کے خطبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: "خدا کی قسم میں نے زینبؑ کی طرح کوئی توانا خطیب نہیں دیکھا؛ گویا وہ امیر المومنین علیؑ کی زبان بول رہی تھیں۔ انہوں نے لوگوں کو چیخ کر کہا کہ چپ ہو جاؤ! ’’اس آواز پر نہ صرف مجمع خاموش ہوگیا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز بھی خاموش ہوگئی۔‘‘[83] خطبہ کے اختتام پر جب شہر میں ہنگامہ برپا تھا اور حکومت کے خلاف بغاوت محسوس ہورہی تھی تو فوجی دستوں کے سپہ سالاروں نے بغاوت کو روکنے کے لیے کربلا کے قیدیوں کو کوفہ کے حاکم عبید اللہ ابن زیاد کی حکومت کے مرکز دار الامارہ بھیج دیا۔[84]
شیخ مفید کے مطابق کربلا کے شہداء کے سروں اور قیدیوں کے کوفہ پہنچنے کے بعد عبید اللہ نے دار الامارہ کے محل میں ایک اجلاس عام منعقد کیا جہاں امام حسینؑ کا کٹا ہوا سر اس کے سامنے رکھا گیا تھا اور وہ چھڑی سے امام کے دانتوں کو مار رہا تھا۔ حضرت زینبؑ سمیت کربلا کے قیدیوں کو گمنامی میں دارالامارہ لایا گیا۔ وہاں حضرت زینبؑ نے عبید اللہ ابن زیاد سے مناظرہ کیا اور عبید اللہ کے امام سجادؑ کو قتل کرنے کے فیصلے سے روک دیا اور ابن زیاد سے کہا کہ اگر وہ امام سجادؑ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی امام کے ساتھ قتل کر دے۔[85]
شام میں
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: شام میں حضرت زینب کا خطبہ
تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسولؐ] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے، خدا کی قسم تم کبھی ہماری یاد اور نام و نشان کو مٹا نہیں پاو گے یا ہماری وحی کو نہیں مار سکو گے... یہ ذلت اور رسوائی تم سے دور نہیں ہوگی۔[86]
واقعہ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کو قیدیوں کا قافلہ شہداء کے سروں کے ساتھ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ اسی لئے امام حسینؑ کے کنبے کو شام بھیج دیا گیا۔[87] شام میں امام علیؑ کے خاندان کے خلاف امویوں کے منفی پروپیگنڈے اور یزید کی حکومت کے مضبوط ہونے کی وجہ سے جب اسرائے کربلا، شام پہنچے تو لوگوں نے نئے کپڑے پہن کر شہر کو سجایا اور خوشیاں منائیں۔[88] البتہ شام میں حضرت زینبؑ اور امام سجادؑ کے خطبوں نے ایک طرف اہل بیتؑ سے شامیوں کی دشمنی کو محبت میں بدل دیا اور دوسری طرف عوامی غصے کو یزید کے خلاف ابھارا۔ اس لیے یزید نے افسوس کا اظہار کیا۔ یزید کو یہ محسوس ہوا کہ امام حسینؑ کے قتل سے ان کی حکومت مضبوط ہونے کے بجائے اس کی بنیادوں کو دھچکا لگا ہے۔[89]
یزید نے ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا جس میں شام کے امراء اور بزرگوں نے شرکت کی۔[90] اس نے امام حسینؑ کے اسیر اہل خانہ کی موجودگی میں توہین آمیز اور کفر آمیز اشعار پڑھے، قرآنی آیات کو اپنی حق میں تأویل کیا۔[91] اس نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر کو اس چھڑی سے مارنے کی جسارت کی جو اس کے ہاتھ میں تھی۔[92] اس کے بعد حضرت زینبؑ نے یزید کی باتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجلس کے کونے سے اٹھ کر بلند آواز میں[93] امام حسینؑ کی حقانیت اور یزید کے باطل ہونے پر خطبہ دیا۔[94] اس خطبہ میں آپ نے شام کے رہنماؤں اور شخصیات کے سامنے یزید کی تذلیل اور سرزنش کی، اس کے جرائم کی مذمت کی اور لوگوں کی بیداری اور یزید کی حکومت کو کمزور کرنے کی راہ ہموار کی۔[95]
دربار میں حضرت زینبؑ کی وضاحت اور شفاف سازی کو ابن زیاد، یزید اور امویوں کی فتح کی خوشی ختم ہونے کا باعث سمجھا گیا ہے۔[96] کہا جاتا ہے کہ حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کے قتل کو ابن زیاد کی گردن پر ڈالتے ہوئے ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔[97] اس کے بعد زینبؑ اور اسیران کربلا نے یزید سے درخواست کی کہ وہ شام میں امام حسینؑ کے لئے عزاداری کریں اور یزید نے مان لیا۔[98]
فارسی شاعر قادر طہماسبی حضرت زینب کے بارے میںلکھتے ہیں:سِرّ نی در نینوا می ماند اگر زینب نبود | کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود | |
چہرہ سرخ حقیقت بعد از آن توفان رنگ | پشت ابری از ریا می ماند اگر زینب نبود | |
چشمہ فریاد مظلومیت لب تشنگان | در کویر تفتہ جا می ماند اگر زینب نبود... | |
در عبور بستر تاریخ، سیل انقلاب | پشت کوہ فتنہ جا می ماند اگر زینب نبود[99] |
(ترجمہ:یہ نئے کا راز نینویٰ میں ہی رہ جاتا اگر زینب نہ ہوتی۔ کربلا کربلا میں ہی رہتی اگر زینب نہ ہوتی۔ رنگ کے اس طوفان کے بعد سچ کا سرخ چہرہ یہ منافقت کے بادل کے پیچھے رہ جاتی اگر زینب نہ ہوتی۔ تشنہ لبوں کی مظلومیت کی فریاد کا چشمہ، وہ تفتے کے صحرا میں ٹھہرتا اگر زینب نہ ہوتی... تاریخ کے دھارے میں انقلاب کا سیلاب اگر زینب نہ ہوتی تو فتنہ کے پہاڑ کے پیچھے رہ جاتا۔)
وفات اور محلِ دفن
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: حرم حضرت زینب
کہا جاتا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک حضرت زینبؑ کی تاریخ، محلِ وفات اور کیسے وفات ہوئیں اس بارے میں کوئی صحیح معلومات نہیں ہیں اور دستیاب معلومات میں صرف اس وقت تک کا احاطہ کیا گیا ہے جب اسیروں کا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تھا۔[100] تاہم تاریخ وفات بروز اتوار 15 رجب سنہ 62 ہجری کو اس حوالے سے موجود اقوال میں مشہور قول قرار دیا گیا ہے۔[101] 14 رجب[102] اور سنہ 65 ہجری[103] بھی تاریخ وفات کے بارے میں موجود دیگر اقوال میں سے ہیں۔
حضرت زینبؑ کے محلِ دفن اور آخری آرامگاہ کے بارے میں تین آراء ہیں:
- شام: حضرت زینب کا محل دفن شام میں ہونے کا قول مشہور ہے۔[104] ان کا حرم دمشق کے جنوب میں واقع ہے اور اس مقام پر حضرت زینبؑ کے حرم کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ "شہر سیدہ زینب" یا زینبیہ کے نام سے مشہور ہے۔[105]
- مصر: بعض مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت زینبؑ کی قبر مصر میں ہے۔[106] اور یہ جگہ مقام حضرت زینب یا مسجدِ السیدۃ زینب مسجد سے مشہور ہے اور قاہرہ میں سیدہ زینب کے علاقے میں واقع ہے۔[107] سید محمد کاظم قزوینی نے اپنی کتاب کتاب زینب الکبری من المہد الی اللحد میں اس قول کو سب سے زیادہ قوی احتمال قرار دیا ہے۔[108]
- مدینہ: سید محسن امین کے مطابق حضرت زینب مدینہ میں بقیع قبرستان میں دفن ہوئی ہیں۔[109]
محمد جواد مغنیہ نے اپنی کتاب الحسین و بطلۃ کربلا میں تیسرے قول کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ کلینی، شیخ صدوق، شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے معتبر علماء نے حضرت زینبؑ کی تدفین کی جگہ بیان نہیں کی ہے، اس لیے تینوں اقوال میں سے کسی ایک قول کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ شام اور مصر دونوں کی شہرت بھی ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ لہذا محلِ دفن کو یقین کے ساتھ تعین نہیں کیا جا سکتا ہے؛ لیکن بلا شبہ، اہل بیتؑ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شام اور مصر میں موجود زیارت گاہوں کی زیارت کرنا ایک مستحسن کام ہے۔[110] کتاب مقتل جامع سید الشہداء میں تینوں نظریات پر تنقید کی گئی ہے اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی گئی ہے۔ تینوں نظریات پر کئے جانے والے نقد یہ ہیں: اگرچہ حضرت زینبؑ کا شمار اسلام کی عظیم اور اہم شخصیات میں ہوتا تھا لیکن پرانی مستند کتابوں میں شام، مصر اور مدینہ میں سے کہیں بھی حضرت زینبؑ کے مَدفَن کے نام سے کسی جگہے کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا ان تینوں جگہوں میں سے کسی ایک کو بھی یقین کے ساتھ حضرت زینبؑ کے دفن کی جگہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔[111]
دمشق کے مشہور مزار کے بارے میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک یہ مقبرہ ام کلثوم نامی کسی خاتون سے منسوب تھا لیکن اس تاریخ کے بعد رفتہ رفتہ وہ قبر زینب کبریٰ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔[112]
شمالی عراق کے شہر سنجار میں بھی حضرت زینبؑ سے منسوب ایک مزار ہے۔[113] امام حسینؑ کے حرم کے قریب زیارتگاہ زینبیہ یا تل زینبیہ بھی حضرت زینبؑ سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تل زینبیہ وہ جگہ تھی جہاں عاشورا کے دن حضرت زینبؑ کھڑی ہوکر اپنے بھائی کی شہادت سمیت کربلا کے واقعات کا مشاہدہ کرتی تھیں۔[114]
-
مصر میں مقام و مسجد حضرت زینبؑ کی تصویر سنہ 1884ء سے مربوط۔
-
جنوب دمشق میں حضرت زینبؑ کا حرم
-
کربلا میں حرم امام حسین کے نزدیک تل زینبیہ
دمشق میں حرم حضرت زینب پر تکفیری گروہوں کا حملہ
شام پر سنہ 2012ء سے 2015ء تک ہونے والے داعش کے دہشت گردانہ حملے کے دوران حرم حضرت زینبؑ پر بھی اس تکفیری گروہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں حرم کے بعض حصوں منجملہ گنبد کو نقصان پہنچا اور اس حملے میں متعدد زائرین اور مجاورین کی شہادت بھی ہوئی۔[115] البتہ ایران کے ستاد بازسازی عتبات عالیات خوزستان نامی ادارے نے جون سنہ 2015ء سے جون 2016ء تک تمام منہدم شدہ جگہوں کی تعمیر نو کروائی۔[116]
شیعہ ثقافت اور ادب میں
حضرت زینب کو شیعہ ثقافت اور ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ شیعوں نے ہمیشہ ان کے نام اور یاد کی تعظیم کی ہے اور اپنی ثقافت اور ادب میں ان کا بہت زیادہ ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، حضرت زینبؑ کی ولادت اور وفات کی سالگرہ پر ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں، اپنی بیٹیوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں، اور ان کی یاد میں کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں۔
یوم ولادت: مختلف ممالک جیسے کہ شام، ترکی، مصر اور ایران میں شیعہ اور مسلمان حضرت زینبؑ کے یوم ولادت کے موقع پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔[117] ایران میں حضرت زینبؑ کے یوم ولادت کو یومِ نرس کہا جاتا ہے۔[118] اس نام کی وجہ ان کا امام سجادؑ اور دیگر مریضوں اور اسرائے کربلا کی تیمار داری بتائی جاتی ہے۔[119]
یوم وفات: شیعہ اور دیگر مسلمان 15 رجب کو حضرت زینبؑ کی وفات کے موقع پر دمشق میں حضرت زینب کے حرم اور دیگر ائمہ کے حرم سمیت مختلف مقامات پر عزاداری کی مجالس کا انعقاد کرتے ہیں۔[120]
لڑکیوں کے نام رکھنا: زینب نام، ایران اور ترکی جیسے مختلف ممالک میں مسلمانوں اور شیعوں میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ناموں میں سے ایک ہے۔[121] ترکی کے شماریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق زینب کا نام سنہ 2000ء سے ترکی کی لڑکیوں کے ناموں میں سرفہرست تھا۔[122] ایرانی سول رجسٹریشن آرگنائزیشن (ادارہ ثبت احوال) کی بعض خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق، زینب کا نام 14ویں صدی شمسی میں ایران میں چھٹا سب سے زیادہ مشہور نام تھا۔[123]
کانفرنسیں: حضرت زینبؑ کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو متعارف کرانے کی غرض سے ایران اور دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں۔[124] مثال کے طور پر سنہ 2012ء کو شہر قم میں حضرت زینبؑ قومی کانگریس منعقد ہوئی،[125] اور سنہ 2023ء اور 2024ء میں تہران کی امام حسینؑ یونیورسٹی میں حضرت زینب بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔[126]
اے زینب! اے منہ میں علی کی زبان! اے خاتون! اے وہ جس کے رکاب میں مردانگی نے جوانمردی سیکھا۔ ہماری ملت کی خواتین، جو تیرے نام کی عاشق ہیں اور محبت کے درد کی آگ ان میںبھڑک اٹھتی ہے، انہیں تمہاری پہلے سے زیادہ ضرورت ہے... اے منہ میں علی کی زبان! اے حسین کی رسالت دوش پر لی ہوئي! اے وہ جو کربلا سے آئی ہو اور قاتلوں اور جلادوں کی مسلسل چیخ و پکار کے درمیان تاریخ کے کانوں تک شہداء کا پیغام پہنچاتی ہو، زینب! ہم سے بات کریں... ہمیں یہ نہ بتائیں کہ آپ کے ساتھ وہاں کیا ہوا! یہ مت بتاؤ کہ تمہارے دشمنوں نے کیا کیا اور تمہارے دوستوں نے کیا کیا! ہاں اے "انقلابِ حسینی کے پیغمبر"! ہم نے تم سے سب کچھ سنا ہے، تم نے کربلا کا پیغام، شہداء کا پیغام صحیح پہنچایا ہے، تم وہ شہید ہو جس نے اپنے خون کے قطروں سے اپنے بھائی کی طرح کلام کیا ہے،۔۔۔ اے علی کی بیٹی، اے بہن، اس اسیروں کے قافلے کی سالار، ہمیں بھی اس قافلے میں اپنے ساتھ لے چلو۔[127]
شعر و ادب: بہت سے شاعروں نے حضرت زینبؑ کے بارے میں مختلف زبانوں میں اشعار لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اشعار مختلف موضوعات پر ہیں جن میں آپ کے مناقب، مرثیے اور کربلا میں حضرت زینبؑ کا حضور شامل ہیں۔ کتاب "آئینہ صبر" فارسی زبان میں حضرت زینب کے مناقب اور مرثیوں پر مشتمل کتاب ہے جسے محمود شاہروخی اور مشفق کاشانی نے جمع آوری کی ہے، اور کتاب "بانوی صبر؛ "حضرت زینبؑ کی مدحت میں منتخب معاصر شعرا کا کلام ہے جسے امیر مسعود طاہریان نے حضرت زینب کے بارے میں شعراء کے اشعار کو جمع آوری کر کے مرتب کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض دیگر کتابیں لکھی گئی ہیں[128] جن میں حضرت زینب کے بارے میں لکھے گئے اشعار کی جمع آوری ہوئی ہے۔[129]
اردو زبان میں حضرت زینبؑ کے متعلق لکھے گئے اشعار کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
میر انیس ( متوفی: سنہ 1874ء)
بنت علی تو پیٹتی پھرتی تھی ننگے سر | کٹتا تھا نورِ چشم علی کا گلا ادھر | |
زینب کو منع کرتے تھے ہر چند اہلِ شر | لیکن وہ دوڑی جاتی تھی تھامے ہوئے جگر | |
پہونچی جو قتل گاہ میں اس روک ٹوک پر | دیکھا سرِ حسین کو نیزے کی نوک پر[130] |
علامہ اقبال (متوفی: سنہ 1938ء)
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق | یکی حسینؑ رقم کرد و دیگری زینب[131] |
محسن نقوی (متوفی: سنہ 1996ء)
آیاتِ حق کی چھاؤں میں عصمت کا پھول تھیں | زینب کہیں علی تھیں کہیں پر بتول تھیں | |
اسلام کا سرمایہ ء تسکین ہے زینب | ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب | |
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب | شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب | |
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے | تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے۔[132] |
مونوگراف

حضرت زینب کی زندگی، شخصیت اور فضائل کے بارے میں مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی اور شائع کی گئی ہیں۔ کتاب "کتاب شناسی امامزادگان" میں 200 سے زائد تصانیف[133] "کتاب شناسی حضرت زینب علیہا سلام"[134] نامی مقالے میں 285 کتابیں، اور "کتاب شناسی حضرت زینب(س)"[135] نامی مقالے میں 334 کتابیں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں متعارف کرائی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
- السَیْدۃ زَیْنَب بَطَلۃ التاریخ و رائِدۃ الجہاد فی الاسلام، باقر شریف قریشی، بیروت، دار المحجۃ البیضاء، پہلا ایڈیشن، 1422 ہجری؛
- زَیْنَب الکُبْری علیہا السلام مِن المَہْد اِلی الْلَحْد، سید محمد کاظم قزوینی، قم، دار الغدیر، پہلا ایڈیشن، 1423 ہجری، اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
- حضرت زینب پیام رسان شہیدان کربلا، محمد محمدی اشتہاردی، تہران، مطہر پبلشنگ ہاؤس، 1997 شمسی۔
- الخصائص الزینبیۃ، اس کتاب کو سید نور الدین جزائری نے لکھا ہے، جس میں حضرت زینبؑ کی چالیس صفات کا جائزہ لیا گیا ہے۔[136] اس کتاب کو ناصری باقری بیدھندی نے فارسی میں ترجمہ کی ہے اور مسجد مقدس جمکران پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔
- حیاۃ السیدۃ زينب بنت الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)، جعفر نقدی، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، پہلا ایڈیشن، 1419ھ/1998ء؛
- دانشنامہ خردمند بانوی خاندان وحی (موسوعۃ عقلیۃ الوحی) اس انسائیکلو پیڈیا کی پہلی جلد حضرت زینب کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہے اور دوسری جلد واقعہ کربلا میں ان کے مصائب، صبر اور استقامت کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کو ہادی درویشی نے لکھا ہے۔[137]
"عقیلۃ الوحی الصدیقۃ الصغری الحوارء الکبری زینب(س)" بقلم سید عبد الحسین شرف الدین، "حضرت زینب علیہاالسلام" بقلم سید محمد تقی مدرسی، "حضرت زینبؑ کی زندگی پر مختصر نظر "السیدہ زینب عقیلۃ بنی ہاشم" بقلم عائشہ بنت الشاطی، "پیام آور کربلا حضرت زینب" بقلم مرتضیٰ فہیم کرمانی، "سیمای حضرت زینب علیہاالسلام" بقلم محمد مہدی تاج لنگرودی، "زینت عارفان: سیری در سلوک عرفانی زینب کبری(ع)" بقلم محمد جواد رودگر اور اسماعیل منصوری لاریجانی کی "زینب کبری(ع) پیام آور عاشورا" دیگر تصانیف ہیں جو حضرت زینب کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں شائع ہوئی ہیں۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، أسدالغابۃ، 1409ھ، ج6، ص132؛ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص22۔
- ↑ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص29-33۔
- ↑ دخیل، اعلام النساء، 1412ھ، ص269۔
- ↑ دخیل، اعلام النساء، 1412ھ، ص269؛ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص31۔
- ↑ دخیل، اعلام النساء، 1412ھ، ص269؛ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص22؛ مغنیہ، الحسین(ع) و بطلۃ کربلاء، 1426ھ، ص285۔
- ↑ شرف الدین، عقیلۃ الوحی، ص41؛ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص31۔
- ↑ کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص91؛ حسّون، اعلام النساء المؤمنات، 1421ھ، ص436۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص22۔
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، 1349شمسی، ج3، ص33۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص21؛ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص39۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص44۔
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج1، ص453، لفظ «زنب» کے ذیل میں؛ فیروزآبادی، القاموس المحیط، 1426ھ، ص95۔
- ↑ فیروز آبادی، القاموس المحیط، 1426ھ، ص95؛ حسینی زبیدی، تاج العروس، 1414ھ، ج2، ص60۔
- ↑ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص39؛ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص38۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص21۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص52-53؛ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان عقیلہ بنی ہاشم زینب کبری، 1387شمسی، ص16-19۔
- ↑ ملاحظہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان عقیلہ بنی ہاشم زینب کبری، 1387شمسی، ص16-19۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص52-53؛ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان عقیلہ بنی ہاشم زینب کبری، 1387شمسی، ص16-19۔
- ↑ امین، اعیان الشیعۃ، 1406ھ، ج7، ص137۔
- ↑ یعقوب حسن ظاہر، المسیرۃ الإمام السید موسی الصدر، دار بلال، ج11، ص277۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص340؛ ابن اثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج6، ص133؛ طبرسی، اِعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص396۔
- ↑ پرتو و خامہ یار، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، ص150۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص340؛ ابن اثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج6، ص133؛ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص44؛ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص75 و 76؛ عاشور، موسوعۃ زینب الکبری، 1429ھ، ج1، ص34و35۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: عاشور، موسوعۃ زینب الکبری، 1429ھ، ج1، ص34و35۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص340؛ ابن اثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج6، ص133؛ کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص92؛ دخیل، اعلام النساء، 1412ھ، ص270؛ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص48۔
- ↑ طبرسی، اِعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص396۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص125؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، 1416ھ، ص95؛ طبری، کامل بہائی، 1383شمسی، ص647۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص125؛ طبری، کامل بہائی، 1383شمسی، ص647۔
- ↑ سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، مکتبۃ نینوی الحدیثۃ، ص192۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، 1416ھ، ص95۔
- ↑ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص48۔
- ↑ امین، اعیان الشیعۃ، 1406ھ، ج7، ص137؛ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص49 و 50۔
- ↑ مرتضی زبيدی، تاج العروس، 1414ھ، ج2، ص60؛ کحّالہ، معجم قبائل العرب، 1414ھ، ج2، ص493۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79۔
- ↑ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص51۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص51۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص51۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص92-97۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص361۔
- ↑ کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص91؛ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص362۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1416ھ، ص95۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص362۔
- ↑ کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص92۔
- ↑ «بیانات در دیدار پنجاہ ہزار فرماندہ بسیج سراسر کشور»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ ای۔
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، 1349شمسی، ج3، ص57۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص362۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص67و68۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص304؛ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79؛ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص96و98۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص304۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص74و75۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زينب، 1419ھ، ص75۔
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، 1349شمسی، ج3، ص62۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زينب، 1419ھ، ص75؛ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص105۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص105؛ نقدی، حیاۃ السیدۃ زينب، 1419ھ، ص75؛ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، 1349شمسی، ج3، ص62۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص104و105۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نقدی، حیاۃ السیدۃ زینب، 1419ھ، ص28۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مہدیزادہ، «صبر و پایداری حضرت زینب(س)»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ؛ «حضرت زینب(س)، نماد صبر جمیل»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376شمسی، ص216۔
- ↑ «حضرت زینب(س)، نماد صبر جمیل»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ فیض الاسلام، خاتون دوسرا، 1366شمسی، ص185۔
- ↑ سید بن طاووس، اللہوف، انوار الہدی، ص94؛ خوارزمی، مقتل الحسین، 1423ھ، ص47۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79۔
- ↑ نقدی، حیاۃ السیدۃ زينب، 1419ھ، ص75 و 76۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425ھ، ص57۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص130۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، نجف، ج3، بخش 2، ص79۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص138۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص363۔
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376شمسی، ص216۔
- ↑ محمدی اشتہاردی، «زینب(س) پیامبر عاشورا»، ص24۔
- ↑ خوارزمی، مقتل الحسین، 1423ھ، ج2، ص47۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص93-94۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص112۔
- ↑ مغنیہ، الحسين(ع) و بطلۃ كربلاء، 1426ھ، ص433؛ فیض الاسلام، خاتون دوسرا، 1366شمسی، ص185۔
- ↑ ابومخنف، وقعۃ الطف، 1427ھ، ص295؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1358ھ، ج5، ص348-349؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص59۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص125؛ طبری، کامل بہائی، 1383شمسی، ص647۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص201۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، 1413ھ، ج2، ص109۔
- ↑ پرتو و خامہ یار، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، ص152۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، 1413ھ، ج2، ص109-113۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، 1413ھ، ج2، ص109-110۔
- ↑ صادقی اردستانی، زینب قہرمان دختر علی، 1372شمسی، ص246۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص115و116۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج45، ص135۔
- ↑ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص211۔
- ↑ محمّدی اشتہاردی، حضرت زینب فروغ تابان کوثر، 1379شمسی، ص327-328؛ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص211۔
- ↑ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص213۔
- ↑ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص213۔
- ↑ محمّدی اشتہاردی، حضرت زینب فروغ تابان کوثر، 1379شمسی، ص248۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص307۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص133-135۔
- ↑ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص215-216۔
- ↑ ہاشمی نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382شمسی، ص220-222۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج1، ص364۔
- ↑ رسولی محلاتی، زینب عقیلہ بنی ہاشم، نشر مشعر، ص107و108۔
- ↑ طبری، کامل بہایی، 1383شمسی، ص644؛ رسولی محلاتی، زینب عقیلہ بنی ہاشم، نشر مشعر، ص108۔
- ↑ محمدزادہ، دانشنامہ شعر عاشورایی، 1386شمسی، ج2، ص1478۔
- ↑ پرتو، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، ص153۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص591؛ رسولی محلاتی، زینب عقیلہ بنی ہاشم، نشر مشعر، 112۔
- ↑ قرشی، السیدۃ زینب، 1422ھ، ص298؛ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص591۔
- ↑ دخیل، اعلام النساء، 1412ھ، ص270۔
- ↑ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص299۔
- ↑ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص299۔
- ↑ شبلنجی، نور الابصار، نشر شریف رضی، ص377؛ قرشی، السیدہ زینب، 1422ھ، ص299۔
- ↑ کحّالہ، أعلام النساء، 2008، ج2، ص99۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری من المہد الی اللحد، 1424ھ، ص610-618۔
- ↑ امین، اعیان الشیعۃ، 1406ھ، ج7، ص140-141۔
- ↑ مغنیہ، الحسین(ع) و بطلۃ کربلا، 1426ھ، ص395-397۔
- ↑ گروہی از تاریخ پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہداء، 391شمسی، ج2، ص596-603۔
- ↑ گروہی از تاریخ پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہداء، 391شمسی، ج2، ص601و602۔
- ↑ پرتو و خامہ یار، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، ص158۔
- ↑ پرتو و خامہ یار، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، ص159۔
- ↑ «حملہ تروریستی بہ حرم حضرت زینب در سوریہ»، سایت شبکہ خبر؛«حملہ بہ حرم حضرت زینب(س)»، سایت تابناک۔
- ↑ «سوریہ - تشریح عملیات مرمت و بازسازی آسیب ہای واردہ بہ حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہا»، وبگاہ ستاد بازسازی عتبات عالیات۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: «جہان غرق شادی از میلاد حضرت زینب(س)، پرستار کربلا»، وبگاہ ایمنا؛ «برگزاری مراسم ولادت حضرت زینب(س) در زنجان»، پایگاہ خبری تحلیلی موج رسا۔
- ↑ «علت نامگذاری روز میلاد حضرت زینب(س) بہ روز پرستار»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ۔
- ↑ «علت نامگذاری روز میلاد حضرت زینب(س) بہ روز پرستار»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ۔
- ↑ برای نمونہ ملاحظہ کریں: «عکس/ زائران کشورہای مختلف در مرقد حضرت زینب(س)»، خبرگزاری مشرق نیوز؛ «امروز مراسم عزاداری حضرت زینب(س) در سوئد و ہلند برگزار می شود»، خبرگزاری حوزہ؛ «عزاداری سالروز وفات حضرت زینب(س) در کربلا»، پایگاہ اطلاع رسانی بین المللی اعتاب و زیارت۔
- ↑ ملاحظہ کریں: «معنی اسم زینب و نام ہای ہم آوا با آن + میزان فراوانی در ثبت احوال»، وبگاہ راسخون۔
- ↑ «زینب محبوبترین نام دختران ترکیہ»، سایت انتخاب۔
- ↑ ملاحظہ کریں: «فہرست 50 نام پرطرفدار در میان دختران ایران در یک قرن اخیر»، سایت خبری تحلیلی شعار سال؛ «فہرست 50 نام پرطرفدار در میان دختران ایران در یک قرن اخیر»، خبرگزاری آنا۔
- ↑ ملاحظہ کریں: «ہمایش حضرت زینب(س) در حرم امام حسین(ع) برگزار شد»، خبرگزاری حوزہ؛ «ہمایش رہروان حضرت زینب(س) در اردبیل»، خبرگزاری صداوسیما؛ «ہمایش حضرت زینب الگوی ایستادگی در بوشہر برگزار شد»، خبرگزاری دفاع مقدس؛ «کنگرہ ملی حضرت زینب(س) در قم بہ کار خود پایان داد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
- ↑ «کنگرہ ملی حضرت زینب(س) در قم بہ کار خود پایان داد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
- ↑ «دومین ہمایش بین المللی حضرت زینب (س) با مشارکت پرشور برگزار شد»، وبگاہ اندیشگاہ عالی تجربہ نگاری۔
- ↑ محمدزادہ، دانشنامہ شعر عاشورایی، 1386شمسی، ج2، ص1287. ۔
- ↑ «آفتاب در حجاب، روایت رنج و استقامت»، وبگاہ باغ کتاب تہران۔
- ↑ «بانوی قصہ من رمانی متفاوت با محوریت حضرت زینب(س)»، پایگاہ تخصصی امام حسین(ع)۔
- ↑ میر انیس، جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے۔
- ↑ علامہ اقبال، حدیث عشق کربلا و دمشق، پورٹل امام خمینی۔
- ↑ نقوی، محسن، حضرت زینب کے بارے میںچند اشعار۔
- ↑ احمدی، کتاب شناسی امامزادگان، 1384شمسی، ص17۔
- ↑ انصاری قمی، «کتاب شناسی حضرت زینب علیہا سلام»، ص146-169۔
- ↑ زادہوش، «کتاب شناسی حضرت زینب(س)»، ص91-106۔
- ↑ جزائری، الخصائص الزینبیہ، 1425ھ، ص20۔
- ↑ «از موسوعۃ عقلیہ الوحی رونمایی شد»، خبرگزاری ایسنا۔
نوٹ
- ↑ امام سجادؑ نے کوفہ میں حضرت زینبؑ کے خطاب کے بعد آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا: «أَنْتِ بِحَمْدِ اللَّہِ عَالِمَۃٌ غَيْرُ مُعَلَّمَۃٍ فَہِمَۃٌ غَيْرُ مُفَہَّمَۃٍ؛ اللہ کا اللہ کا شکر ہے کہ آپ ایسی عالم ہیں جنہوں نے کسی سے نہیں سیکھا اور آپ عقلمند اور فہیم ہیں جنہیں دوسروں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔» (طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص305).
- ↑ امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق صبر جمیل وہ ہے جب انسان حادثات اور مصائب کے وقت لوگوں سے شکایت نہ کرے۔(کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص93.)
مآخذ
- «آفتاب در حجاب، روایت رنج و استقامت»، وبگاہ باغ کتاب تہران، تاریخ اشاعت: 17 بہمن 1401شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- ابن اثیر جزری، علی بن محمد، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ/1989ء۔
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1410ھ/1990ء۔
- ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، قم، شریف الرضی، 1416ھ۔
- ابو مخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمّدہادی یوسفی غروی، قم، مجمع العالمی لاہل البیت، چاپ دوم، 1427ھ۔
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
- احمدی، اصغر، کتاب شناسی امامزادگان و بقاع متبرکہ، قم، صبح صادق، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
- «از موسوعۃ عقلیہ الوحی رونمایی شد»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ اشاعت: 18 خرداد 1391شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «امروز مراسم عزاداری حضرت زینب(س) در سوئد و ہلند برگزار می شود»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ اشاعت: 24 فروردین 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، تحقیق حسن الامین، بیروت، دارالتعارف، 1406ھ/1986ء۔
- امین مقدسی، ابو الحسن زہرا بہشتی، «بررسی شعر عاشورایی در دو ادب فارسی و عربی با تکیہ بر شہریار و جواہری»، دو فصلنامہ ادبیات پایداری، شمارہ 7، پاییز و زمستان 1391ہجری شمسی۔
- انصاری قمی، ناصرالدین، «کتاب شناسی حضرت زینب علیہا سلام»، وقف میراث جاویدان، شمارہ 105، بہار 1398ہجری شمسی۔
- «بانوی قصہ من رمانی متفاوت با محوریت حضرت زینب(س)»، پایگاہ تخصصی امام حسین(ع)، تاریخ اشاعت: 18 آبان 1399شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «برگزاری مراسم ولادت حضرت زینب(س) در زنجان»، پایگاہ خبری تحلیلی موج رسا، تاریخ اشاعت: 15 آبان 1403شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «بیانات در دیدار پنجاہ ہزار فرماندہ بسیج سراسر کشور»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ العظمی خامنہ ای، تاریخ اشاعت: 29 آبان 1392شمسی، تاریخ مشاہدہ: 10 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- پرتو، مریم و احمد خامہ یار، «زینب بنت علی بن ابی طالب»، در دانشنامہ جہان اسلام (ج22)، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
- جزائری، سید نور الدین، الخصائص الزینبیہ، قم، انتشارات المکتبۃ الحیدریۃ، 1425ھ۔
- «جہان غرق شادی از میلاد حضرت زینب(س)، پرستار کربلا»، خبرگزاری ایمنا، تاریخ اشاعت: 17 آبان 1403شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- حسّون، محمد، اعلام النساء المؤمنات، قم، اسوہ، چاپ دوم، 1421ھ۔
- حسینی زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، 1414ھ/1994ء۔
- «حضرت زینب(س)، نماد صبر جمیل»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ اشاعت: 9 شہریور 1399شمسی، تاریخ مشاہدہ: 5 مہر 1399ہجری شمسی۔
- خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، قم، انوار الہدی، چاپ دوم، 1423ھ۔
- «پنجاہ نام اول دختران در سال 1392 گزارش ثبت احوال»، سایت سازمان ثبت احوال، تاریخ مشاہدہ مطلب: 14 بہمن 1397ہجری شمسی۔
- دخیل، علی محمد علی، اعلام النساء، لبنان، الدار الاسلامیہ، 1412ھ/1992ء۔
- «دومین ہمایش بین المللی حضرت زینبؑ با مشارکت پرشور برگزار شد»، وبگاہ اندیشگاہ عالی تجربہ نگاری، تاریخ اشاعت: 19 آبان 1403شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- ربانی خلخالی، علی، چہرہ درخشان عقیلہ بنی ہاشم زینب کبری سلام اللہ علیہا، قم، مکتب الحسین(ع)، 1387ہجری شمسی۔
- رجبی دوانی، حسین، «چرا ہمسر حضرت زینب(س) ایشان را در کربلا ہمراہی نکرد؟»، پایگاہ خبری باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ اشاعت: 25 بہمن 1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 19فروردین 1398ہجری شمسی۔
- زاد ہوش، محمد رضا، «کتاب شناسی حضرت زینب(س)»، آینہ پژوہش، شمارہ 115، فروردین و اردیبہشت 1388ہجری شمسی۔
- رسولی محلاتی، سید ہاشم، زینب عقیلہ بنی ہاشم، تہران، نشر مشعر، بی تا.
- «زینب محبوبترین نام دختران ترکیہ»، سایت انتخاب، تاریخ اشاعت: 10 اسفند 1395شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- سبط بن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثۃ، بی تا.
- سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف فی قتلی الطفوف، قم، انوار الہدی، بی تا.
- شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار(ص)، قم، شریف رضی، بی تا.
- شرف الدین، سید عبد الحسین، عقیلۃ الوحی الصدیقۃ الصغری الحوارء الکبری زینب(س): بنت أمیرالمؤمنین علی بن أبی طالب(ع)، تحقیق محمد رضا مامقانی، بی جا، بی نا، بی تا.
- شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- صادقی اردستانی، احمد، زینب قہرمان دختر علی، تہران، مطہر، 1372ہجری شمسی۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج على أہل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضوی، چاپ اول، 1403ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، اِعلام الوری بأعلام الہدى، قم، آل البیت، چاپ اول، 1417ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، قاہرہ، مطبعۃ الاستقامہ، 1358ھ۔
- طبری، عمادالدین حسن بن علی، کامل بہائی، تحقیق و تصحیح اکبر صفدری قزوینی، تہران، مرتضوی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
- عاشور، علی، موسوعۃ زینب الکبری علیہا السلام بنت أمیرالمؤمنین علی بن أبی طالب علیہ السلام، بیروت، دار نظیر عبود، 1429ھ۔
- «عزاداری سالروز وفات حضرت زینب(س) در کربلا»، پایگاہ اطلاع رسانی بین المللی اعتاب و زیارت، تاریخ اشاعت: 29 دی 1403شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «عکس/ زائران کشورہای مختلف در مرقد حضرت زینب(س)»، خبرگزاری مشرق نیوز، تاریخ اشاعت: 15 اردیبہشت 1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «علت نامگذاری روز میلاد حضرت زینب(س) بہ روز پرستار»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ اشاعت: 15 آبان 1389شمسی، تاریخ مشاہدہ: 22 دی 1397ہجری شمسی۔
- «فہرست 50 نام پرطرفدار در میان دختران ایران در یک قرن اخیر»، سایت خبری تحلیلی شعار سال، تاریخ اشاعت: 19 مہر 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «فہرست 50 نام پرطرفدار در میان دختران ایران در یک قرن اخیر»، خبرگزاری آنا، تاریخ اشاعت: 11 مہر 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- فیروز آبادی، مجد الدین محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، 1426ھ/2005ء۔
- فیض الاسلام، سید علی نقی، خاتون دوسرا سیدتنا زینب الکبری، تہران، نشر آثار فیض الاسلام، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
- قرشی، باقر شریف، السیدۃ زینب بطلۃ التاریخ و رائدۃ الجہاد فی الاسلام، بیروت، دارالمحجۃ البیضاء، چاپ اول، 1422ھ/2001ء۔
- قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری(س) من المہد الی اللحد، قم، دار الغدیر، چاپ دوم، 1424ھ/2003ء۔
- کحّالہ، عمر رضا، أعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 2008ء۔
- کحّالہ، عمر رضا، معجم قبائل العرب، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1414ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- «کنگرہ ملی حضرت زینب(س) در قم بہ کار خود پایان داد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ اشاعت: 19 خرداد 1391شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- گروہی از تاریخ پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، زیر نظر مہدی پیشوایی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1391ہجری شمسی۔
- اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، زیر نظر جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1418ھ۔
- مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، بی نا، بی تا.
- محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، 1376ہجری شمسی۔
- محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ در ترجمہ بانوان دانشمند شیعہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1349ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- «مجموعہ اشعار خطبہ ہای آتشین حضرت زینب(س)»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ اشاعت: 1 اردیبہشت 1401شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- محمد زادہ، مرضیہ، دانشنامہ شعر عاشورایی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- محمدی اشتہاردی، محمد، حضرت زینب فروغ تابان کوثر، تہران، برہان، چاپ سوم، 1379ہجری شمسی۔
- محمدی اشتہاردی، محمد، «زینب(س) پیامبر عاشورا»، مجلہ پاسدار اسلام، شمارہ 198، خرداد 1377ہجری شمسی۔
- محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین(ع)، قم، دارالحدیث، 1388ہجری شمسی۔
- «محبوب ترین اسامی دختران و پسران در 10 سال اخیر کدامند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ اشاعت: 18 بہمن 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 14 بہمن 1397ہجری شمسی۔
- مرتضی زبيدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
- «معنی اسم زینب و نام ہای ہم آوا با آن + میزان فراوانی در ثبت احوال»، وبگاہ راسخون، تاریخ اشاعت: 19 تیر 1403شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمد جواد، الحسین(ع) و بطلۃ کربلا، بی جا، دار الکتب الاسلامی، 1426ھ/2005ء۔
- مہدی زادہ، زہرا، «صبر و پایداری حضرت زینب(س)»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ اشاعت: 10 مہر 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 5 مہر 1399ہجری شمسی۔
- نقدی، جعفر، حیاۃ السیدۃ زينب بنت الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1419ھ/1998ء۔
- ہاشمی نژاد، سید عبد الکریم، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، مشہد، آستان قدس رضوی، 1382ہجری شمسی۔
- «ہمایش حضرت زینب(س) در حرم امام حسین(ع) برگزار شد»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ اشاعت: 3 آبان 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «ہمایش رہروان حضرت زینب(س) در اردبیل»، خبرگزاری صداوسیما، تاریخ اشاعت: 11 مہر 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «ہمایش حضرت زینب الگوی ایستادگی در بوشہر برگزار شد»، خبرگزاری دفاع مقدس، تاریخ اشاعت: 6 اردیبہشت 1395شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- یعقوب حسن ظاہر، المسیرۃ الإمام السید موسی الصدر، بیروت، دار بلال.