رجب
رَجَب یا رَجَب المُرَجَّب قمری سال کے ساتواں اور حرام مہینوں میں سے پہلا حرام مہینہ ہے میں جنگ اور خون ریزی حرام ہے۔ احادیث میں رجب کے مہینے میں حج، عمرہ اور روزہ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
پیغمبر اکرم ؐ سے منقول ہے: "رجب خدا کا مہینہ، شعبان میرا مہینہ اور رمضان المبارک بندگان خدا کا مہینہ ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: "جو شخص اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھے تو گویا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے پورا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ اس مہینے کی پہلی شب جمعہ کو لیلة الرغائب کہا جاتا ہے جس کے حوالے سے روایات میں مختلف اعمال اور آداب ذکر ہوئے ہیں۔ اس مہنیے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ جو ایام بیض کے نام سے معروف ہیں، میں اعتکاف جیسی عظیم سنت اور عبادت بھی انجام دی جاتی ہیں جو اسلامی عبادتوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقعات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلامؐ کی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقرؑ، امام محمد تقیؑ اور امام علیؑ کی ولادت با سعادت کے ساتھ ساتھ امام علی نقیؑ اور امام کاظم ؑ کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
اس مہینے میں ائمہ معصومین بطور خاص امام حسینؑ اور امام رضاؑ کی زیارت کی بھی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
وجہ نام گذاری
رجب کے معنی بزرک اور عظیم جاننے کے ہیں۔[1] اس بنا پر ماہ رجب سے مراد عظمتوں والا اور محترم مہینہ ہے۔ علم لغت کے ماہرین کے بقول ظہور اسلام سے پہلے بھی رجب کے مہینے کو عربوں کے یہاں محترم سمجھا جاتا تھا اور اس مہینے میں جنگ وغیرہ سے پرہیز کیا جاتا تھا۔[2]
رجب کو بعض دیگر اسامی اور صفات سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک رجب الفرد ہے۔ یہ اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ مہینہ دوسرے حرام مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام سے الگ ہے جبکہ دوسرے مہنے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اسی طرح اس مہینہ کو رجب المُضَر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ قبیلہ مُضَر (پیغمبر اکرمؐ کے اجداد میں سے) بطور خاص اس مہینہ کے احترام کے قائل تھے۔ اس کے علاوہ رجب الاصم، رجب المُرَجَّب، رجب الحرام، مُنصَل الأَسِّنہ اور مُنصِل الألّ اس مہینے کے دوسرے نام ہیں۔[3]
اس مہینے کو رجب الاصب» اور رجب الاصم نام رکھنے کے حوالے سے پیغمبر اسلام ؐ سے منقول ہے:
- یُسَمَّی شَهرُ الرَّجبِ الاَصَبَّ ِلاَنَّ الرّحمةَ تُصَبُّ عَلَی اُمَّتی فیه صَبّاً وَ یُقالُ الاصَمُّ لِاَنَّه نُهیَ فیه عَن قِتالِ المُشرکینَ وَ هوَ مِنَ الشُّهورِ الحُرُم[4] ترجمہ: اس مہینے کو "اصبّ" کہا جاتا ہے چونکہ اس مہینے میں میری امت پر خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اسے "اصم" بھی کہا جاتا ہے چونکہ اس مہینے میں مشرکوں سے جنگ کرنے سے روکا گیا ہے۔
رجب کا مہینہ ظہور اسلام سے پہلے
زمان جاہلیت میں عربوں کے ہاں بھی رجب کا مہینہ خاص احترام اور اہمیت کا حامل تھا۔ اسی وجہ سے اس مہینے میں ان کے ہاں جنگ و خونریزی، قتل و غارت وغیرہ ممنوع اور حرام تھا اور وہ اس ممنوعیت کے پابند بھی تھے۔[5] ظہور اسلام کے بعد اس مہینے کی حرمت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہوا اور دینی لحاظ سے اس مہینے کی ایک خاص قداست ہے۔[6]
ماہ رجب کی فضیلت
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ جب بھی رجب کا مہینہ آتا تو مسلمان پیغمبر اکرمؐ کے گرد جمع ہوتے اس وقت پیغمبر اکرمؐ حمد و ثنائے پروردگار اور گذشتہ پیمغبروں کو یاد کرنے کے بعد فرماتے تھے:
- کان رسول الله اذا جاء شهر رجب جمع المسلمون حوله و قام فیهم خطیبا فحمد اللہ و اثنی و ذکر من کان قبله من الانبیاء فصلی علیهم ثم قال ایها المسلمون قد اظلکم شهر عظیم مبارک و هو شهر الاصب یصب فیه الرحمه علی من عبده الا عبدا مشرکا او مظهر بدعة فی الاسلام، الا ان فی شهر رجب لیله من حرم النوم علی نفسه و قام فیها حرّم الله جسده علی النار، و صافحه سبعون الف ملک و یستغفرون له الی یوم مثله، فان عاد عادت الملئکه ثم قال من صام یوما واحدا من شهر رجب اومن من الفزع الاکبر و اجیر من النار[7]
- "اے مسلمانوں! عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا کی بندگی کرنے والوں پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں سوائے مشرک اور بدعت گزار کے جس نے اسلام میں کوئی بدعت قائم کیا ہو۔ رجب کے مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو بھی اس رات شب بیداری کرے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہے تو خدا اس کے جسم کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے اور ایک ہزار فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور ہزار فرشتے اگلے سال اسی دن تک اس کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جو بھی رجب کے مہینے میں روزہ رکھے تو قیامت کے دن کی سختی اور خوف سے امان میں رہے گا اور جہنم کی آگ سے نجات ملے گا"۔
اس مہینے میں عبادت کی فضیلت
روزہ رکھنا
رجب میں روزہ رکھنے کے مختلف ثواب کا ذکر ہوا ہے:
- بہشت کا واجب ہونا اور جہنم کی آگ سے نجات: امام موسی کاظمؑ فرماتے ہیں: رجب شهر عظیم یضاعف فیه الحسنات و یمحو فیه السیئات من صام یوما من رجب تباعدت عنه النار مسیرة مائة سنة و من صام ثلاثة ایام وجبت له الجنة رجب کا مہینہ ایک با برکت مہینہ ہے جس میں نیکیاں دو برابر اور گناہ اس مہینے میں ختم ہو جاتے ہیں۔ جو بھی اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھے جہنم سے ایک سال کے فاصلے تک دور ہو جاتا ہے اور اگر اس مہینے میں تین دن روزہ رکھے اس پر بہشت واجب ہوتی ہے اور جہنم کی آگ اس پر حرام ہو جاتی ہے۔[8]
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: اِنَّ فِی الجَنّةِ قَصراً لایَدخُلُه اِلّا صُوّامُ رَجَب بتحقیق بہشت میں ایک ایسا قصر ہے جس میں سوائے رجب میں روزہ رکھنے والوں کے کوئی اور داخل نہیں ہو سکتا۔[9]
- حاجتوں کا برآوردہ ہونا اور گناہ سے پاک ہونا، امام رضاؑ فرماتے ہیں: من صام یومین من رجب رضی الله عنه یوم یلقاه و من صام ثلاثة ایام من رجب رضی الله عنه و ارضاه و ارضی عنه خصمائه یوم یلقاه و من صام سبعة ایام من رجب فتحت له ابواب الجنة الثمانیة و من صام من رجب خمسة عشر یوما قضی الله عز و جل له کل حاجة الا ان یساله فی مأثم او فی قطیعة رحم و من صام شهر رجب کله خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه و اُعتق من النار و دخل الجنة مع المصطفین الاخیار، جو شخص رجب میں دو دن روزہ رکھے تو جس دن وہ خدا سے ملاقات کرے گا خدا اس سے راضی ہوگا اور خدا اسے بھی راضی کرے گا اور اس سے حقداروں کو بھی اس دن اس سے راضی کرے گا۔ اور وہ شخص جو اس میہنے میں سات دن روزہ رکھے موت کے وقت اس کی روح کیلئے آسمان کے سات دروازے کھول دئے جائیں گے یہاں تک کہ وہ ملکوت اعلی تک پہنچے اور جو شخص آٹھ دن روزہ رکھے بہشت کے آٹھ دروازے اس پر کھول دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص پندرہ دن روزہ رکھے خدا اس کی حاجت کو پورا کرے گا مگر یہ کہ اس کی حاجت گناہ اور قطع رحم کے حوالے سے ہو، اور جو شخص پورا رجب کا مہینہ روزہ رکھے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئے جائیں گے گویا کہ وہ تازہ پیدا ہوا ہو اور جہنم کی آگ سے نجات ملے گی اور بہشت میں نیک لوگوں کا ہمنشین ہوگا۔[10]
- عذاب قبر سے نجات: ثوبان قبر میں عذاب میں مبتلاء ایک گروہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں: فلو صاموا هولاء ایام رجب و قاموا فیها ما عذبوا فی قبورهم۔ اگر یہ لوگ رجب میں روزہ رکھتے اور اس میہنے کی راتوں میں شب بیداری کرتے تو ان کے قبر میں عذاب نہ ہوتا۔
عمرہ رجبیہ
احادیث کی روشنی میں رجب کے مہینے میں عمرہ بجا لانا دوسرے مہینوں میں عمرہ بجا لانے سے بہتر ہے۔ معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: رجب میں عمرہ بجا لانا بہتر ہے یا رمضان المبارک میں؟ امام نے فرمایا: رجب میں عمرہ بجا لانا بہتر ہے۔ای العمرة افضل؟ عمرة فی رجب او عمرة فی رمضان؟ فقال لا بل عمرة فی شهر رجب۔ [11]
اصل مضمون: ماہ رجب کے اعمال
ماہ رجب کے اعمال
مفاتیح الجنان میں ماه رجب کے اعمال کے ذیل میں ذکر ہوا ہے:
اعمال ماه رجب | |
مشترک اعمال |
اَللَّهمَّ یا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ وَ الْآلاءِ الْوَازِعَةِ وَ الرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ وَ الْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ وَ النِّعَمِ الْجَسِیمَةِ وَ الْمَوَاهبِ الْعَظِیمَةِ وَ الْأَیادِی الْجَمِیلَةِ وَ الْعَطَایا الْجَزِیلَةِ یا مَنْ لا ینْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَ لا یمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَ لا یغْلَبُ بِظَهیرٍ یا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَ أَلْهمَ فَأَنْطَقَ وَ ابْتَدَعَ فَشَرَعَ وَ عَلا فَارْتَفَعَ وَ قَدَّرَ فَأَحْسَنَ وَ صَوَّرَ فَأَتْقَنَ وَ احْتَجَّ فَأَبْلَغَ وَ أَنْعَمَ فَأَسْبَغَ وَ أَعْطَی فَأَجْزَلَ وَ مَنَحَ فَأَفْضَلَ یا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفَاتَ نَوَاظِرَ [خَوَاطِرَ] الْأَبْصَارِ وَ دَنَا فِی اللُّطْفِ فَجَازَ هوَاجِسَ الْأَفْكَارِ یا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْكِ فَلا نِدَّ لَه فِی مَلَكُوتِ سُلْطَانِه وَ تَفَرَّدَ بِالْآلاءِ وَ الْكِبْرِیاءِ فَلا ضِدَّ لَه فِی جَبَرُوتِ شَأْنِه یا مَنْ حَارَتْ فِی كِبْرِیاءِ هیبَتِه دَقَائِقُ لَطَائِفِ الْأَوْهامِ وَ انْحَسَرَتْ دُونَ إِدْرَاكِ عَظَمَتِه خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْأَنَامِ یا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوه لِهیبَتِه، وَ خَضَعَتِ الرِّقَابُ لِعَظَمَتِه وَ وَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِه أَسْأَلُكَ بِهذِه الْمِدْحَةِ الَّتِی لا تَنْبَغِی إِلا لَكَ وَ بِمَا وَأَیتَ بِه عَلَی نَفْسِكَ لِدَاعِیكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ بِمَا ضَمِنْتَ الْإِجَابَةَ فِیه عَلَی نَفْسِكَ لِلدَّاعِینَ یا أَسْمَعَ السَّامِعِینَ وَ أَبْصَرَ النَّاظِرِینَ وَ أَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ یا ذَا الْقُوَّةِ الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیینَ وَ عَلَی أَهلِ بَیتِه وَ اقْسِمْ لِی فِی شَهرِنَا هذَا خَیرَ مَا قَسَمْتَ وَ احْتِمْ لِی فِی قَضَائِكَ خَیرَ مَا حَتَمْتَ وَ اخْتِمْ لِی بِالسَّعَادَةِ فِیمَنْ خَتَمْتَ وَ أَحْینِی مَا أَحْییتَنِی مَوْفُورا وَ أَمِتْنِی مَسْرُورا وَ مَغْفُورا وَ تَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِی مِنْ مُسَاءَلَةِ الْبَرْزَخِ وَ ادْرَأْ عَنِّی مُنْكَرا وَ نَكِیرا وَ أَرِ عَینِی مُبَشِّرا وَ بَشِیرا وَ اجْعَلْ لِی إِلَی رِضْوَانِكَ وَ جِنَانِكَ [جَنَّاتِكَ] مَصِیرا وَ عَیشا قَرِیرا وَ مُلْكا كَبِیرا وَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه كَثِیراً۔
بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِمَعَانِی جَمِیعِ مَا یدْعُوكَ بِه وُلاةُ أَمْرِكَ الْمَأْمُونُونَ عَلَی سِرِّكَ الْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الْوَاصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ أَسْأَلُكَ بِمَا نَطَقَ فِیهمْ مِنْ مَشِیتِكَ فَجَعَلْتَهمْ مَعَادِنَ لِكَلِمَاتِكَ وَ أَرْكَانا لِتَوْحِیدِكَ وَ آیاتِكَ وَ مَقَامَاتِكَ الَّتِی لا تَعْطِیلَ لَها فِی كُلِّ مَكَانٍ یعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ لا فَرْقَ بَینَكَ وَ بَینَها إِلا أَنَّهمْ عِبَادُكَ وَ خَلْقُكَ فَتْقُها وَ رَتْقُها بِیدِكَ بَدْؤُها مِنْكَ وَ عَوْدُها إِلَیكَ أَعْضَادٌ وَ أَشْهادٌ وَ مُنَاةٌ وَ أَذْوَادٌ وَ حَفَظَةٌ وَ رُوَّادٌ فَبِهمْ مَلَأْتَ سَمَاءَكَ وَ أَرْضَكَ حَتَّی ظَهرَ أَنْ لا إِلَه إِلا أَنْتَ فَبِذَلِكَ أَسْأَلُكَ وَ بِمَوَاقِعِ الْعِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ وَ بِمَقَامَاتِكَ وَ عَلامَاتِكَ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه وَ أَنْ تَزِیدَنِی إِیمَانا وَ تَثْبِیتا یا بَاطِنا فِی ظُهورِه وَ ظَاهرا فِی بُطُونِه وَ مَكْنُونِه یا مُفَرِّقا بَینَ النُّورِ وَ الدَّیجُورِ یا مَوْصُوفا بِغَیرِ كُنْه وَ مَعْرُوفا بِغَیرِ شِبْه حَادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ وَ شَاهدَ كُلِّ مَشْهودٍ وَ مُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ وَ مُحْصِی كُلِّ مَعْدُودٍ وَ فَاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ،لَیسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهلَ الْكِبْرِیاءِ وَ الْجُودِ یا مَنْ لا یكَیفُ بِكَیفٍ وَ لا یؤَینُ بِأَینٍ یا مُحْتَجِبا عَنْ كُلِّ عَینٍ یا دَیمُومُ یا قَیومُ وَ عَالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِه وَ عَلَی عِبَادِكَ الْمُنْتَجَبِینَ وَ بَشَرِكَ الْمُحْتَجِبِینَ وَ مَلائِكَتِكَ الْمُقَرَّبِینَ وَ الْبُهمِ الصَّافِّینَ الْحَافِّینَ وَ بَارِكْ لَنَا فِی شَهرِنَا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُكَرَّمِ وَ مَا بَعْدَه مِنَ الْأَشْهرِ الْحُرُمِ وَ أَسْبِغْ عَلَینَا فِیه النِّعَمَ وَ أَجْزِلْ لَنَا فِیه الْقِسَمَ وَ أَبْرِرْ لَنَا فِیه الْقَسَمَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِی وَضَعْتَه عَلَی النَّهارِ فَأَضَاءَ وَ عَلَی اللَّیلِ فَأَظْلَمَ وَ اغْفِرْ لَنَا مَا تَعْلَمُ مِنَّا وَ مَا لا نَعْلَمُ وَ اعْصِمْنَا مِنَ الذُّنُوبِ خَیرَ الْعِصَمِ وَ اكْفِنَا كَوَافِی قَدَرِكَ وَ امْنُنْ عَلَینَا بِحُسْنِ نَظَرِكَ وَ لا تَكِلْنَا إِلَی غَیرِكَ وَ لا تَمْنَعْنَا مِنْ خَیرِكَ وَ بَارِكْ لَنَا فِیمَا كَتَبْتَه لَنَا مِنْ أَعْمَارِنَا وَ أَصْلِحْ لَنَا خَبِیئَةَ أَسْرَارِنَا وَ أَعْطِنَا مِنْكَ الْأَمَانَ وَ اسْتَعْمِلْنَا بِحُسْنِ الْإِیمَانِ وَ بَلِّغْنَا شَهرَ الصِّیامِ وَ مَا بَعْدَه مِنَ الْأَیامِ وَ الْأَعْوَامِ یا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِكْرَامِ۔
اَللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِالْمَوْلُودَینِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی الثَّانِی وَ ابْنِه عَلِی بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ وَ أَتَقَرَّبُ بِهمَا إِلَیكَ خَیرَ الْقُرَبِ یا مَنْ إِلَیه الْمَعْرُوفُ طُلِبَ وَ فِیمَا لَدَیه رُغِبَ أَسْأَلُكَ سُؤَالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْه ذُنُوبُه وَ أَوْثَقَتْه عُیوبُه فَطَالَ عَلَی الْخَطَایا دُءُوبُه وَ مِنَ الرَّزَایا خُطُوبُه یسْأَلُكَ التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الْأَوْبَةِ وَ النُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ وَ مِنَ النَّارِ فَكَاكَ رَقَبَتِه وَ الْعَفْوَ عَمَّا فِی رِبْقَتِه فَأَنْتَ مَوْلای أَعْظَمُ أَمَلِه وَ ثِقَتِه [ثِقَتُه] اللَّهمَّ وَ أَسْأَلُكَ بِمَسَائِلِكَ الشَّرِیفَةِ وَ وَسَائِلِكَ الْمُنِیفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِی فِی هذَا الشَّهرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ وَاسِعَةٍ وَ نِعْمَةٍ وَازِعَةٍ وَ نَفْسٍ بِمَا رَزَقْتَها قَانِعَةٍ إِلَی نُزُولِ الْحَافِرَةِ وَ مَحَلِّ الْآخِرَةِ وَ مَا هی إِلَیه صَائِرَةٌ۔ |
پہل رات |
"اَللَّهمَّ أَهلَّه عَلَینَا بِالْأَمْنِ وَ الْإِیمَانِ وَ السَّلامَةِ وَ الْإِسْلامِ رَبِّی وَ رَبُّک الله عَزَّ وَ جَلَّ۔
|
روز اول |
|
تیرویں رات |
|
تیرواں دن | ایام بیض (تیرہ، چودہ و پندرہ) کا پہلا دن ہے۔
|
پندرویں رات |
" اَلله اَلله رَبّی لا اُشْرِک بِه شَیئا وَلا اَتَّخِذُ مِنْ دُونِه وَلِیا۔ |
پندرواں دن |
|
ستایسویں رات (عید مبعث) |
اس رات کو "لیلة المحیا" بمعنائے بیداری کی رات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔[12] |
روز بیست و هفتم |
|
ماہ رجب کی اہم تاریخی واقعات
- ولادت امام محمد باقر ؑ (1 رجب 57 ھ)
- شہادت امام علی نقی ؑ (3 رجب 212 ھ)
- ولادت حضرت علی اصغر ؑ (9 رجب 60 ھ)
- ولادت امام محمد تقی ؑ (10 رجب 195 ھ)
- ولادت امیرالمومنین علیؑ (13 رجب 10 سال قبل از بعثت)
- وفات حضرت زینب (س) (15 رجب 62 ھ)
- فتح خیبر بہ دست امیرالمومنین علی ؑ (24 رجب 7 ھ)
- شہادت امام کاظم ؑ (25 رجب 183 ھ)
- بعثت پیامبر ؐ (27 رجب)
حوالہ جات
- ↑ مجمع البحرین، ج۲، ۶۷؛ النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، ج۲، ۱۹۷؛ مسعودی، ج۲، ص۱۸۹
- ↑ مجمع البحرین، ج۲، ۶۷.
- ↑ دہخدا، علی اکبر، لغتنامہ، ج۲۴، ص۲۹۰
- ↑ وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۰، ص۵۱۱
- ↑ مجمع البحرین، ج۲، ۶۷.
- ↑ دائرة المعارف تشیع، ج ۸، ص ۱۷۶
- ↑ «بحار الانوار، ص۴۷، ح۳۳
- ↑ بحارالانوار، ج۹۴، ص۳۷
- ↑ بحار الانوار، ج۹۴، ص۴۷
- ↑ بحار الانوار، ج۹۴، ص۴۲
- ↑ من لا یحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق، ج۲، ص۳۴۵
- ↑ دائرۃ المعارف تشیع، ج۸، ص ۱۷۶
مآخذ
- مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق، داغر، اسعد، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ