خیبر

ویکی شیعہ سے
خیبر کے قلعے

خیبر سعودی عرب کا ایک علاقہ ہے جہاں غَزوہ خیبر رونما ہوا۔ یہ علاقہ مدینہ سے 165 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کا مرکزی شہر "الشُرَيْف" ہے۔ صدر اسلام میں خیبر کے باسی یہودی تھے۔ مسلمان مورخین کے مطابق مکہ کے مشرکین کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ورغلانے پر پیغمبر اسلامؐ نے ان کے ساتھ جنگ کیا۔

خیبر کا علاقہ متعدد قلعوں پر مشتمل تھا اور بعض کے مطابق اسی مناسبت سے اسے خیبر یعنی قلعہ کہا جاتا ہے۔ غزوہ خیبر جو 7 ہجری کو واقع ہوا، اس میں مسلمانوں کو فتح نصیف ہوئی اور خیبر کے قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔جنگ کے بعد یہاں کے یہودی جزیہ دینے پر راضی ہو گئے جس کے مطابق اس علاقے کی زرعی محصولات کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرنے کی شرط پر انہیں اس علاقے سے نہیں نکالا گیا۔

تاریخی منابع کے مطابق یہودی خلیفہ ثانی کے زمان خلافت تک اس علاقے میں زندگی بسر کرتے تھے جس کی بعد انہوں نے ان کو یہ منطقہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔

وجہ تسمیہ

اس علاقے کو خیبر کا نام دینے کی مختلف علتیں بیان کی گئی ہیں۔[1] جغرافیا دان یاقوت حَمَوی کی مطابق خیبر عبری زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں اور چونکہ اس علاقے میں متعدد قلعے موجود تھے اسی وجہ سے یہ علاقہ خیبر کے نام سے مشہور ہوا۔[2] بعض کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ساکن ہونے والے پہلے شخص کا نام خیبر تھا اس لئے اسے خیبر کا نام دیا گیا۔[3]

یاقوت حَمَوی اس علاقے میں موجود 7 قلعوں کا نام لیتے ہیں،[4] یعقوبی ان ی تعداد 6[5] اور کتاب تاریخ پیغمبر اسلامؐ میں یہاں کے دس قلعوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے کا تذکرہ آیا ہے۔[6]

رقبہ

منطقہ خیبر کا ایک منظر

خیبر کا علاقہ سعودی عرب میں مدینہ منورہ کے شمال میں واقع ہے۔ اس وقت یہ علاقہ مدینہ سے 165 کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کے مرکزی شہر کا نام "الشُّرَیف" ہے۔[7] یاقوت حموی کے مطابق پرانے زمانے میں خیبر مدینہ سے آٹھ منزل[8] یا پانج دن کی مسافت پر واقع تھا[9]۔ خیبر ایک زرخیز علاقہ تھا جہاں بہت سارے چشمے اور سرسبز و شاداب کھجور کے درخت اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا۔[10]

تاریخچہ

جس وقت مسلمانوں کے ساتھ اس علاقے کے باسیوں کی جنگ ہوئی جسے غزوہ خیبر کہا جاتا ہے، اس وقت یہاں کے باشندے یہودی تھے۔ اس علاقے میں یہودیوں کی آمد کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں۔ بعض مورخین کے مطابق جس وقت رومیوں نے فلسطین پر حملہ کیا تھا اسی زمانے میں اس علاقے میں لوگوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے بھی پہلے یروشلم پر بابلیوں کی حکومت کے دوران اس علاقے میں مہاجرت شروع ہوئی تھی۔[11]

جنگ خیبر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس علاقے کے املاک غنیمت کے عنوان سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے؛ لیکن اس علاقے میں مقیم یہودیوں کی درخواست پر پیغمبر اکرمؐ نے انہیں یہاں رہنے کی اجازت دے دی اس شرط کے ساتھ کہ یہاں کے زرعی محصولات کا نصف حصہ مسلمانوں کو بعنوان جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔[12]

مورخین کے مطابق یہودی خلیفہ دوم کی خلافت تک خیبر کے علاقے میں آباد تھے یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث جس میں جزیرہ نمائے عرب میں دو ادیان کے ساکن نہ ہونے کی خبر دی گئی تھی، سے استناد کرتے ہوئے یہودیوں کو اس علاقے سے مہاجرت کرنے پر مجبور کیا۔[13]

غزوہ خیبر

7 ہجری کو پیغمبر اسلامؐ نے ایک لشکر کے ساتھ خیبر پر حملہ کیا۔[14] اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور خیبر کے قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔[15] اس جنگ کو غزوہ خیبر کا نام دیا جاتا ہے۔[16] مورخین اس جنگ کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ بنی‌ نضیر کے یہودی مدینہ سے نکالے جانے کے بعد اس علاقے میں گئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مکہ کے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے لگے۔[17]

ابن‌ اسحاق اور ابن‌ اثیر جیسے مورخین کے مطابق خیبر کے ایک قلعے کو فتح کرنا بہت سخت ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ نے لشکر اسلام کی قیادت ابو بکر کے سپرد کی اس کے بعد عمر اور اس کے بعد انصار میں سے کسی کو یہ منصب عطا فرمایا؛ لیکن تیونوں فتح کے بغیر واپس آگئے۔ اس موقع پر پرچم امام علیؑ کے سپرد کی گئی اور پیغمبر اکرمؐ نے خیبر کا یہ قلعہ آپ کے ہاتھوں فتح ہونی کی پیشن گوئی فرمائی جو حقیقت میں بدل گئی یوں خیبر حضرت علیؑ کے ہاتھوں فتح ہوا۔[18]

حولہ جات

  1. نگاہ کنید بہ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۶، ص۵۲۶-۵۲۷۔
  2. یاقوت حموی، معجم‌البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۰۹۔
  3. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۶، ص۵۲۶۔
  4. یاقوت حموی، معجم‌البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۰۹۔
  5. یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۵۶۔
  6. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۹-۴۱۰۔
  7. ناجی، «خیبر، غزوہ»، ص۵۸۴۔
  8. یاقوت حموی، معجم‌البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۰۹۔
  9. یاقوت حموی، معجم‌البلدان، ۱۹۹۵م، ج۳، ص۲۹۔
  10. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۶، ص۵۲۵۔
  11. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، ج۶، ص۵۲۷۔
  12. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۱۲۔
  13. نہروانى، تاريخ المدينۃ، بورسعید مصر، ص۸۷۔
  14. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۷-۴۰۸؛ یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۵۶۔
  15. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۹-۴۱۰۔
  16. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۷۔
  17. واقدی، کتاب‌المغازی، ۱۹۶۶م، ج۲، ص۴۴۱-۴۴۲۔
  18. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۱۰-۴۱۱۔

مآخذ

  • آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تحقیق ابوالقاسم گرجی، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ ششم، ۱۳۷۸ش۔
  • علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م۔
  • ناجی، محمدرضا، «خیبر، غزوہ»، دانشنامہ جہان اسلام، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، ج۱۶، تہران، بنیاد دائرۃالمعارف اسلامی، ۱۳۷۵ش۔
  • نہروانى، محمد بن احمد، تاريخ‌المدينۃ، تحقیق محمد زینہم محمد عزب، بورسعید (مصر)، مكتبۃ الثقافۃ الدينيۃ، بی‌تا۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م۔
  • یاقوت حموی، معجم‌البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، ۱۹۹۵م۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر۔