بہشت یا جنت، مسلمانوں کے عقیدے میں عالم آخرت میں اس جگہے کو کہا جاتا ہے جہاں اللہ کے نیک اور صالح بندے ہمیشہ کیلئے خدا کی نعمتوں سے مستفید رہیں گے۔ حضرت آدم اور حوا کا زمین پر ہبوط (اترنے) سے پہلے رہنے کی جگہ کو بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

قرآن میں 200 سے بھی زیادہ آیات اور معصومین کی بہت ساری احادیث میں بہشت اور اس کی خصوصیات کے بارے میں بحث ہوئی ہے جن میں بہشت کی مسافت، تعداد بہشت، بہشتی نعمتوں کی اقسام، بہشتی نعمتوں کے ثبوتی اور سلبی اوصاف، بہشت میں موجود اشیاء، بہشت کی غرض و غایت، بہشتیوں کی خصوصیات، وہ صفات یا اعمال جو انسان کو بہشتی بناتے ہیں، بہشت سے محروم اشخاص اور بہشتیوں کا جہنمیوں کے ساتھ رابطہ وغیرہ شامل ہیں۔

اسلامی اعتقادات میں بہشت کا وجود ایک مسلم اور یقینی امر ہونے کے باوجود مسلمان متکلمین کے درمیان اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے آیا بہشت قیامت برپا ہوتے وقت خلق ہونگے یا ابھی بھی موجود ہے؟ اس کے علاوہ بہشت اور بہشتی نعمتوں کے جسمانی اور روحانی ہونا بھی ان چیزوں میں سے ہے جن میں متکلمین چاہے سنی یا شیعہ، کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

معنا اور مرادف الفاظ

بہشت، عالم آخرت میں اس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں خدا کے نیک، صالح اور سعادتمند بندے خدا کے دائمی نعمتوں سے منعم ہونگے۔[1] قرآن کریم میں لفظ جنت (بہشت) مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے؛ مفسرین نے اہل بیت(ع) سے جنت کی تفسیر میں منقول روایات اور احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے سورہ الرحمان کی آیت نمبر 46 میں لفظ "جنتان" جو اہل اخلاص اور خضوع و خشوع کے ساتھ مختص ہیں، کے بارے میں چار احتمال دیئے ہیں :

  1. ایک روحانی اور ایک جسمانی بہشت؛ ایک انسانوں کیلئے اور دوسری جنات کیلئے ایک فرمانبرداری کے صلے میں جزا کے طور پر جبکہ دوسری نافرمانی کے صلے میں سزا کے طور پر۔
  2. ایک بہشت انسان کے اعمال اور افکار جو اس دنیا میں انجام دیئے ہیں کے صلے میں جبکہ دوسری خدا کے فضل و کرم سے انعام کے طور پر۔[2]
  3. سونا اور چاندی جو جنت کے مصالح کے طور پر استفادہ ہوتے ہیں کے اعتبار سے دو مختلف اور متمائز بہشت یعنی ایک سونے کی بنی ہوئی اور دوسری چاندی کی بنی ہوئی۔
  4. مختلف فنکشن اور نتائج کے اعتبار سے دو مختلف بہشت؛ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مکرر استعمال ہونے والی تعبیرات ""جنّات عدن"، "جنت" یا "جنات" کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ [3]

سورہ الرحمن کی آیت نمبر 62 میں "مِنْ دونِہما" کے ذریعے دو بہشت معرفی کی گئی ہے۔ اکثر مفسرین کے مطابق یہ تعمبیر بہشت کے مراتب اور نعمات کے مختلف ہونے کی وجہ سے استعمال ہوئی ہے۔ بعض مفسرین نے نچلے بہشت کو مکانی اعتبار سے نیچے قرار دیا ہے۔[4]

دوسری تعبیریں

قرآن کریم کی 200 سے زیادہ آیات اور معصومین سے منقول بہت ساری احادیث میں میں بہشت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔[5][6] قرآن کریم میں بہشت سے مربوط ایات میں جن مظامین سے بحث کی گئی ہے وہ یہ ہیں: بہشت کے اوصاف اور خصوصیات کا بیان، مشخصات اصلی، اندازہ، مکان کے اعتبار سے اس کی وسعت اور نوعیت، نعمتوں کے اقسام، نعمات کے ثبوتی اور سلبی اوصاف، خلقت بہشت کی غرض و غایت، وہ خصوصیات جو انسان کو بہشتی بناتی ہیں، بہشت سے محروم لوگوں کی خصوصیات اور ساکنان بہشت کا ایک دوسرے اور جہنمیوں کے ساتھ رابطہ۔[7] قرآن کریم میں اس دنیا کے ختتام اور قیامت کے برپا ہونے کی تاکید کے ساتھ ساتھ دوسری دنیا میں انسان کی زندگی جاری رہنے اور وہاں بہشتیوں کے مقام و منصب کو مختلف تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے:

  1. جنت (اور جنات):سو دفعہ سے زیادہ،[8] کبھی کسی صفت کے ساتھ یا کبھی کسی چیز کی طرف اضافہ ہو کر استعمال ہوا ہے؛ مانند جنّۃ الخلد، جنّۃ نعیم، جنۃ النعیم، جنّات النعیم، جنّۃ المأوی، جنّات المأوی، جنّاتُ عدن اور جنّات الفردوس وغیرہ۔
  2. روضہ: سورہ روم، آیت ۱۵.
  3. رَوضاتُ الجَنّات: سورہ شوری، آیت ۲۲.
  4. فردوس: سورہ مومنون، آیت ۱۱.
  5. دارالسَّلام: سورہ انعام، آیت ۱۲۷ و یونس، آیت ۲۵.
  6. دارالاخرہ: قرآن کریم میں 9 مقام پر.
  7. دارُالْخلد: سورہ فصّلت، آیت ۲۸.
  8. دارَالْمُقامہ: سورہ فاطر، آیت ۳۵.
  9. دارُالْقرار: سورہ غافر، آیت ۳۹.
  10. دارُالْمتّقین: سورہ نحل، آیت ۳۰.
  11. مَقامٍ امین: سورہ دخان، آیت ۵۱.
  12. مقعدِ صدق: سورہ قمر، آیت ۵۵.
  13. علّیین/ علّیون: در سورہ مطففین، آیت ۱۸ و ۱۹.
  14. حُسنی: سورہ یونس، آیت ۲۶ اور بعض دوسری آیات [9]

قرآن میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں

جنّات عدن‌، بہشت کا سب سے اعلی درجہ، خدا کے مقرب بندوں سے مختص بہشت، انبیاء، معصومین، شہداء، صالحین اور صدیقین کے مقام کو کہا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس قدر اعلی اور ارفع ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی دل میں خطور ہوا ہے۔[10] لیکن بعض مفسرین نے اس لفظ کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے جو جمع کے صیغے میں استعال ہوتا ہے، لفظ "عَدْن" کو اقامتگاہ اور جنت کی عمومی صفت قرار دیا ہے۔[11]

دارالسّلام‌، بہشت کیلئے استعمال ہونے والی ایک اور تعبیر اور اس کی اوصاف میں سے ایک صفت قرار دیا ہے؛ بعض مفسرین کے مطابق چونکہ "سلام" خدا کے اسماء میں سے ایک نام ہے، پس دارالسّلام یعنی خدا کا گھر یہ تعبیر بہشت کی شرافت اور مرتبے کو بیان کرنے کیلئے ہے۔ [12]

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جنّۃ المأوی، جنّۃ النعیم، دارالخلد یا جنّۃ الخلد، دارالسّلام، جنّۃ الفردوس، جنّۃ عدْن اور دارالجلال جیسی تعبیریں خاص بہشت کی طرف اشارہ ہے۔[13]

علامہ مجلسی بحارالانوار میں،[14] اپنی روش کے مطابق شروع میں جنت سے مربوط آیات (تقریبا ۲۷۵ آیت) کو سوروں کی ترتیب سے درج کرکے ان کی تفسیر کو عمدتا طبرسی، فخر رازی اور بیضاوی سے نقل کیا ہے۔

احادیث میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں معصومین سے منقول بعض احادیث میں قرآن میں آنے والے بہشت کے اسامی کی توضیح دی گئی ہے منجملہ یہ کہ:

  1. جنۃ المأوی، ایک حدیثی نبوی میں بہشت کے کسی نہر کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے اسی طرح جنّت عدْن اور جنّت فردوس، دو بہشت کے درمیان دو بہشت کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے۔[15]
  2. امام باقر (ع) سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن میں چار جنات: جنّت عَدْن، فردوس، نعیم، اور مأوی کا نام لیا گیا ہے جن کے اطراف میں دوسرے اکثر بہشت واقع ہیں۔[16]
  3. سُعید بن جناح نے امام باقر (ع) سے روایت کرنے والی حدیث میں سورہ الرحمن کی آیت نمبر 46 اور 62 کو چار بہشت کی موجودگی پر گواہ قرار دیا ہے؛ اس توضیح کے ساتھ کہ پہلی آیت میں مذکورہ دو بہشت میں سے ایک ترک گناہ کا صلہ اور دوسری "خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے" (خافَ مقامَ ربّہ) کے صلے میں خدا کے مقرب بندوں ملے گی جبکہ آیت ۶۲ میں مذکور جنت نعیم اور جنت مأوی اصحاب یمین کیلئے ہے جو مزایا اور رتبے میں دوسرے جنات سے بالاتر ہے نہ قربت کے لحاظ سے۔[17]
  4. امام صادق (ع) سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورہ الرحمن کی آیت نمبر 62 متعدد بہشت کی موجودگی پر دلیل ہے اسی طرح "درجات" کی تعبیر بہشت کے مراتب کے اختلاف پر دلیل ہے۔[18]
  5. فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ [19] شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ [20]

اوصاف اور خصوصیات

قرآن کریم اور معصومین کی احادیث میں بہشت کے بعض اوصاف اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کے مطابق بہشت دنیاوی زندگی کے بعد خدا کے نیک بندوں (الذین سُعِدوا)[21] کی مستقل رہنے کی جگہ ہے جو سرسبز و شاداب سایہ دار درختوں کے باغ یا باغات، [22] جاری نہریں (بعض تعبیر کے مطابق "تجری مِنْ تحتہا الانہار[23] ابلتے اور جاری چشمے [24] مختلف میوہ جات سے سرشار، [25] اور معتدل آب و ہوا کا حامل ہے۔[26]

سورہ آل عمران کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ [27]

مخلوق اور جسمانی ہونا

بہشت کا مخلوق ہونا اسی طرح قیامت سے پہلے خلق ہونا ان موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں معصومین سے منقول احادیث میں بحث ہوئی ہے یہاں نک کہ اسے شیعوں کی اعتقادات میں سے شمار کیا گیا ہے۔[28] امام رضا (ع) سے منقول ہے کہ بہشت کے مخلوق ہونے سے مراد خلق تقدیری نہیں ہے بلکہ بہشت وجود خارجی رکھتا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) نے شب معراج کو حقیقی بہشت کا نظارہ فرمایا ہے بنابراین بہشت کے مخلوق ہونے کی نفی کرنا پیغمبر اکرم(ص) کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔[29]

بعض احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر شخص کیلئے بہشت اور جہنم میں پہلے سے جگہ مخصوص کی گئی ہے اور اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال بتدریج بہشت یا دوزخ میں اس کے مکان کے اجزاء کو تکمیل کرتی ہیں۔ یہ احادیث بہشت اور دوزخ کے موجود ہونے کیلئے مستند قرار پائے ہیں۔ [30]

قرآن کریم اور معصومین کی احادیث اس نکتہ پر تاکید کرتی ہیں کہ بہشت اور عالم آخرت، جسمانی ہے اسی بنا پر جسمانی ہونے میں دنیا اور آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے دوسری خصوصیات کے۔ علامہ مجلسی اور سید نعمت اللہ جزایری نے امام رضا (ع) سے منقول ایک حدیث سے یہ نتیجہ لیا ہے کہ امام رضا(ع) کی نگاہ میں آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات سے مقایسہ کرنا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ بہشت کا جسمانی ہونا ہے۔ امام رضا (ع) نے عمران صابی کے ایک سوال کے جواب میں بہشت میں خدا کا بندوں کیلئے قابل روئیت ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بہشت میں رونما ہونے والے واقعات پر استدلال صرف اور صرف دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ جملہ علامہ مجلسی[31] اور اس کے شاگر سید نعمت اللہ جزایری،[32] کے دو توضیح میں سے ایک کی بنا پر، اس "اصل" اور قاعدے کا متضمن ہے کہ آخرت کے حالات اور واقعات کو دنیا کے حالات اور واقعات سے مقایسہ کرنا چاہئے۔[33]

کلامی دلائل

بہشت کے مخلوق ہونے پر قرآن کریم کی کئی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے؛ سورہ نجم کی پانچویں آیت جس میں پیغمبر اکرم(ص) کی معراج کا واقعہ بیان ہوا ہے، آل‌عمران کی آیت نمبر 133 اور حدید کی آیت نمبر 21 میں سے ہر ایک میں "اُعدَّت" (آمادہ کیا گیا ہے) کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اور سورہ توبہ کی آیت نمبر 100 جس میں لفظ "اَعَدَّ" آیا ہے[34] جو بہشت اور دوزخ کے ابھی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ [35]

ائمہ معصومین سے منقول احادیث میں بھی بہشت کے ابھی موجود ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور امام رضا(ع) نے اس حوالے سے پیغمبر اکرم(ص) کی معراج سے بھی استدلال فرمایا ہے۔ ابن حزم‌[36] اور ابن قیم جوزیہ‌[37] نے بھی بہشت کے مخلوق ہونے پر استدلال کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(ص) کی معراج کے بعض واقعات کو ذکر کیا ہے۔ [38]

اس کے مقابلے میں بعض افراد معتقد ہیں کہ بہشت اور جہنم ابھی خلق نہیں ہوا اس حوالے سے انہوں نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ پہلی اور سب سے قدیمی عقلی دلیل، قیامت سے پہلے بہشت کی خلقت کا عبث اور بے ہودہ ہونا ہے۔[39] اس استدلال کیلئے دیئے گئے بعض جواب یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال کی حکمت بندوں پر واضح نہیں ہے اس بنا پر بہشت کی خلقت کو عبث اور بے ہودہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔[40]

جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں مذہب باطنیہ اپنی فلسفی روش کی بنیاد پر بہشت کے جسمانی ہونے اور اس کی دوسری خصوصیات سے متعلق قرآنی مضامین کی تأویل کرتے ہیں اور ان مطالب کو اسرار و رموز قرار دیتے ہیں۔ غزالی[41] نے ان پر صریح تنقید کرتے ہوئے اس طرح تفکر کے لازمی نتائج میں سے ایک کو پیغمبر اکرم(ص) کو جھٹالانا یا کم از کم صاحب شریعت کی مخالفت اور دین سے خارج ہونا قرار دیتے ہیں؛ خاص کر یہ کہ قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر بہشت اور عالم آخرت کے مختلف اوصاف بیان ہوئی ہیں۔[42]

بہشت کے موجود ہونے پر اعتقاد رکھنا، انہی خصوصیات کے ساتھ جن کی طرف قرآن کریم اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے، دین اسلام کی ضروریات میں سے شمار کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قرآن آیات کی اس طرح تأویل کرنا کہ جس سے بہشت کے جسمانی ہونے کا انکار لازم آئے، تو اسے دین اسلام سے انکار شمار کیا جاتا ہے۔[43]

مسلمان متکلمین قرآنی آیات میں بہشت کے جسمانی ہونے جیسے موضوعات کی تاویل کرنے اور قرآن کریم کی تعبیر کو اسرار و رموز قرار دینے کو صرف اس صورت میں جائز قرار دیتے ہیں جہاں پر ان کی تأویل نہ کرنے سے عقلی طور پر تناقض وجود میں آجاتے ہوں۔[44] سلیمان بن صالح غصن[45] معتقد ہے کہ بہشت کا جسمانی ہونے جیسے موضوعات عقلاً قابل قبول ہیں اور نقلا بھی اس پر اجماع قائم ہے بنابراین اس کی نظر میں ان کی تاویل آن کرنا اور جسمانی ہونے کی نفی کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔[46]

نعمات

مَثَلُ الْجَنَّة الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْری مِنْ تَحْتِها الْأَنْهارُ أُکلُها دائِمٌ وَ ظِلُّها تِلْک عُقْبَی الَّذینَ اتَّقَوْا وَ عُقْبَی الْکافِرینَ النَّارُ‌ (ترجمہ: جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ بھی (لازوال) ہے یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آتشِ دوزخ ہے۔)

اسلامی تعلیمات کی رو سے خدا کی خشنودی بہشت کے سب سے اعلی نعمات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہشت کے مختلف نعمات، کھانے پینے کی اشیاء، بہشت کے محلات، خلعت بہشتی اور دوسری چیزوں کا تذکرہ قرآن کی مختلف آیات میں ہوا ہے؛ منجلمہ ان میں سورہ الرحمن،[47] سورہ واقعہ،[48] سورہ انسان[49] اور دوسری سورتوں کے آیات۔[50]

خدا کی خشنودی احادیث کے مطابق بہشت کے سب سے افضل نعمت خدا کی خشنودی ہے۔ امام علی (ع) نے فرمایا کہ اہل بہشت کا بہشت میں مستقر ہونے کے بعد ان سے کہا جائے گا کہ بہشت کی نعمات میں سے سب سے افضل اور قیمتی نعمت خدا کی خشنودی اور خدا کی محبت ہے جو خدا اہل بہشت کے ساتھ رکھتا ہے۔ امام علی(ع) مذکورہ بیان کے بعد سورہ توبہ کی آیت نمبر 71 کی تلاوت فرمائی جس کے بعض کلمات یہ ہیں: "وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـہ أَكْبَرُ؛ یعنی خدا کی خشنودی سب سے افضل ہے۔[51] پیغمبر اسلام(ص) سے منقول ایک حدیث کے مطابق،[52] بہشت کے نعمات سے سب سے کم استفادہ کرنے والے وہ ہے جو ان نعمات کی طرف متوجہ رہتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ استفادہ کرنے والے جن کی خدا کے ہاں زیادہ اہمیت ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو ہر صبح و شام "بارگاہ" خداوندی کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔[53]

کھانے پینے کی اشیاء: بہشت میں موجود کھانے کی اشیاء میں جس چیز کی طرف قرآن نے زیادہ روز دیا ہے وہ میوہ جات ہیں۔ قرآن کی آیات کے مطابق بہشت میں ہر قسم کے میوہ جات کافی مقدار میں اور ہمیشہ کیلئے دستیاب ہوتے ہیں (کلِّ فاکهة، فاکهة کثیره، مِن کلّ الثمراتِ، فواکه مِما یشتهون، یتخیرون، اُكُلُها دائمٌ [54]اور آسانی سے انہیں ان کے درختوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم دو مرتبہ گوشت کے بارے میں [55] اور وہ بھی پرندوں کے گوشت (لحم طیرٍ)،[56] کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے کہ اہل بہشت ہر وقت چاہے انہیں دریافت کر سکتے ہیں۔[57]

سورہ محمد کی آیت نمبر 15 میں جنّت میں موجود پینے کی چیزوں کا نام لیا گیا ہے: شراب، شہد، دودھ اور پانی کی نہریں اور کئی مقامات پر شراپ کے پیالوں کا تذکرہ ملتا ہے جس کے شراب نہایت سفید اور لذیز، [58] کافور [59]یا زنجبیل سے معطر، سلسبیل[60] کے چشموں سے پھوٹتے ہوئے مشک یا تسنیم سے معصر ہونگے۔ لفظ شراب [61] اور شراب طہور[62] نیز بہشت کے پینے کی اشیاء میں شامل ہونگے۔ قرآن کریم میں جنّت کے شراب کو اس دنیا کے شراب میں موجود نقصانات اور عیوب (مستی، سردرد، گناہ کی ترغیب، عقل کو زائل کرنا) وغیرہ سے مبرا ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔[63]

لباس: ریشم اور حریر کے لباس سونے ، چاندی اور موتیوں کی چوڑیاں،[64] ریشم اور اونی بہترین فرش اور عمدہ تکیہ گاہ[65] سونے کے ٹرے، چاندی کے برتن اور کرسٹل جام [66] اور جوان و خوبصورت خدمتکار (وِلدان، غِلْمان)[67] وغیرہ بہشت کے بعض دوسرے نعمات ہیں۔[68]

رشتہ ازدواج: بہشت میں مؤمنین کو ملنے والی نعمات میں سے ایک پاک و پاکیزہ بیویاں ہے جنہں قرآن نے ازواج مطہرہ، [69] تمہاری بیویاں،[70] ان کی بیویاں[71] اور "ہم نے ان کو ایک دوسرے کا ہمسر بنایا" [72] سے تعبیر کیا ہے۔ بعض مفسرین نے سورہ رعد کی آیت نمبر 23 اور سورہ غافر کی آیت نمبر 8 سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مؤمن میاں بیوی بہشت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں گے اسی ان کے آباء و ا جداد اور اولاد بھی اگر پاک و پاکیزہ ہونگے تو سب ساتھ رہیں گے۔ (سورہ یس کی آیت نمبر 56 اور سورہ زخرف نمبر 70 کے ذیل میں)[73] اس کی علاوہ قرآن میں "حور" (ایک بار) اور "حورٌ عینٌ" (سفید چہرہ اور سیاہ آنکھوں والی عورتیں، تین بار) اور اہل جنت کے ساتھ ان کی شادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی ظاہری صفات(زیبایی و طراوت) کرنے کے ساتھ ساتھ عفت و پاکدامنی اور ہر آلودہ نگاہ سے مخفی اور دور ہونے کی طرف بھی تاکید کی ہے۔[74]

آنکھوں کو بھلی لگنے والی ہر چیز کا موجود ہونا: سورہ زخرف کی آیت نمبر 71 میں جنت میں آنکھوں کو بھلی لگنے والی ہر چیز کی موجودگی (ما تَلَذُّ الاَعین) اور ہر خواہش کے پوری ہونے (ما تَشتَہیہ الاَنفُس) پر تصریح کی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے ان دو تعبیروں سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بہشتی نعمات کے بارے میں مذکورہ موارد بہشت کے تمام نعمات نہیں ہیں بلکہ بہشت کے نعمات اس دنیا میں انسان کے سوچ اور وہم و گمان سے بالاتر ہے۔[75]

بہشت کی دوسری خصوصیات: قرآن کریم میں بہشت کے ثبوتی صفات کے علاوہ اس کے سلبی صفات کا بھی تذکرہ کیا ہے؛ ثبوتی صفات مانند جاودانگی، امنیت (آمین)[76] پایداری (نعیمٌ مقیمٌ)،[77] پیوستگی (غیرُ ممنونٍ)،[78] اور ہمیشہ اپنی اختیار میں ہونا(لامقطوعۃ و لاممنوعۃ)[79] وغیرہ کو ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صفات سلبی جیسے رنج (نَصَب)،[80] درماندگی (لُغوب)،[81] غم و اندوہ (حَزَن)،[82] ارتکاب گناہ (تأثیم)،[83] ناروا اور بے ہودہ باتیں (لغو، لاغیہ)،[84] جھوٹ بولنا یا جھوٹی نسبت دینا (كِذّاب)[85] اور مستی اور عقل کی تباہی(غَوْل) وغیرہ[86] کو بھی اس سے نفی کی ہے۔

درجات

اسلامی تعلیمات میں انسانی اعمال اور بہشت کے درجات کے درمیان رابطہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اس کی تفصیل اور اس کے جزئیات کے بیان مثلا یہ کہ کون سے اعمال بہشت کے کس درجے میں وارد ہونے کا سبب بنتا ہے وغیرہ کے بارے میں کوئی واضح اور روشن بات موجود نہیں ہے۔[87]

مفسرین منجملہ فخر رازی،[88] نے لفظ "درجات" جو بہشت سے مربوط آیات میں آیا ہے، بہشت کے نعمات کی رتبہ بندی پر دلالت کرتی ہے انسان اپنے اعمال کے مطابق بہشت کے مختلف درجات اور مراتب تک پہنچتا ہے۔[89] قرآن کریم اور اسلامی احادیث میں بہشت کے مراتب کے متفاوت ہونے پر بہت زیادہ تأکید کیا ہے۔[90]

پیغمبر اسلام(ص) سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ بہشت کے درجات ہیں اور ہر درجے کا دوسرے درجے سے فاصلہ اس زمین اور آسمان کے فاصلے کے برابر فاصلہ موجود ہے۔[91]

اہل بہشت کے افعال اور صفات

قرآن کریم اور معصومین کی احادیث میں بہت سارے افعال اور رفتار بیان ہوئے ہیں جن کے انجام دینے سے انسان بہشتی بن سکتا ہے اور اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔[92] ایمان، تقوا اور عمل صالح اسی طرح بعض دوسری صفات مانند خدا اور اس کے رسول کی اطاعت، حق‌ پذیری، اخلاص اور شرک سے دوری دوسری تمام صفات سے زیادہ قرآن میں ذکر ہوا ہے اور قرآن میں اہل بشہت کو ان صفات کا حامل قرار دیا ہے۔ خضوع و خشوع، خالق کی بارگاہ میں فروتنی کا اظہار، رفتار و کردا میں اصلاح، ہوا ہوس سے دوری، سچائی، عفو و درگذر، امانت‌ داری، عہد و پیمان پر قائم رہنا، حاجتمندوں کی حاجت روائی، انفاق، بے ہودہ کاموں اور باتوں سے پرہیز،[93] نیز تکبر سے دوری اختیار کرنا وغیرہ ایسے اوصاف ہیں جن کو قرآن نے بہشتیوں کے اوصاف قرا دیا ہے۔[94] اسی حوالے سے بعض افراد کا بشہت میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے؛ منجملہ ان افراد میں وہ افراد شامل ہیں جو خدا کی نشانیوں کو جھٹلاتے اور انہیں قبول کرنے سے انکا کرتے ہیں۔[95]

بعض اخلاقی صفات اور نیک اعمال جو بہشت میں داخلے کا سبب بنتا ہے وہ یہ ہیں: لوگوں کے مشکلات کو حل کرنا، بندگان خدا سے محبت، نیک اور اچھی بات کہنا، دوسروں پر ظلم و زیادتی سے پرہیز۔ [96] اس حوالے سے بعض نازیبا حرکتوں جیسے جھوٹ بولنا، چغلی، بندگان خدا کا مزاق اڑانا، بدخواہی، ظالم حکمرانوں کے ساتھ ان کے ظلم میں شریک ہونا، اخلاقی لاپروائی اور شراب‌نوشی وغیرہ ایسے افعال اور صفات ہیں جو انسان کو بہشت محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ [97]

حضرت آدم اور حوا کی بہشت

قرآن‌ کریم کی تین سورتوں (بقرہ: ۳۵؛ اعراف: ۱۹، ۲۰؛ طہ: ۱۱۵، ۱۱۷ و ۱۲۰.) میں آدم و حوا کی خلقت کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں بہشت کو ان کی پہلی محل سکونت قرار دیا ہے۔ قرآن کی مطابق حضرت آدم و حوا بہشت میں ہر قسم کے نعمات سے مالا مال زندگی گزار رہے تھے جہاں پر ان کی ہر قسم کی خواہش پوری ہوتی تھی لیکن اس تمام وسائل کے فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک معین درخت کی قریب جانے سے منع کیا گیا تھا(یعنی اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا) اسی طرح انہیں شیطان کے مکر و فریب سے بھی خبردار کیا گیا تھا تاکہ شیطان انتقام کی خاطر ان دونوں کو بہشت سے نکالنے کے مزموم ارادے میں کامیاب نہ ہو۔ لیکن قرآن کے مطابق شیطان کا مکر و فریب کارگر ثابت ہوا اور آدم و حوا کو خدا کی نافرمانی(ترک اولا) اور شیطان کی اطاعت کرنے اور اس ممنوعہ پھل کے کھانے کی وجہ سے بہشت سے نکال کر زمین میں ان کو سکونت دی گئی۔ یوں زمین پر انسانی زندگی کا آغاز ہوا۔[98]

تفاسیر اور کلامی کتابوں میں اس بہشت کے بارے میں تین قول مذکور ہیں:

  1. فخر رازی[99] نے تینوں اقوال کو انکے دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ تین قول یہ ہیں: "زمین میں ایک باغ تھا"، "بہشت موعود کا غیر ایک آسمانی بہشت تھی" اور وہی "بہشت موعود" تھی۔ فخر رازی، تینوں اقوال کو قابل قبول قرار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں غیر قابل اثبات قرار دیتے ہیں اور ان کے بارے میں کسی قطعی اور یقینی نظریہ قائم کرنے کو نا ممکن قرار دیتے ہیں۔[100]
  2. علامہ مجلسی[101] نے بھی مذکورہ تینوں اقوال اور ان کے بعض ادلہ کو ذکر کرتے ہوئے بعض احادیث کو نقل کیا ہے جن میں سے بعض احادیث میں حضرت آدم و حوا کے بہشت کو وہی بہشت موعود قرار دیا ہے جبکہ بعض احادیث میں اسے زمین پر موجود کوئی باغ قرار دیا ہے۔ علامہ مجلسی آخر میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ ان تینوں میں سے کسی بھی قول کو انتخاب کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے اس کے علاوہ اس بہشت کو بہشت برزخی قرار دینا بھی امکان پذیر ہے۔[102]
  3. متاخر مفسرین میں سے محمد عبدہ[103] آدم و حوا کے بہشت کو زمینی قرار دیتے ہوئے اہل سنّت محققین کے نظریات کو بھی پیش کیا ہے۔[104] لیکن علامہ طباطبایی[105]، بہشت آدم و حوا کو آسمانی قرار دیتے ہیں لیکن بہشت موعود کا غیر اور عالم برزخ کے سنخ میں سے۔ علامہ طباطبایی نے اس حوالے قرآن کے بیان کو دنیا میں آنے سے پہلے ہر انسان کی زندگی کا ایک مثالی خاکہ قرار دیا ہے۔[106]

بہشت سے متعلق آثار اور تصانیف

فِی الجَنَّة ما لاعَینٌ رَأَت وَلا اُذُنٌ سَمِعَت وَلاخَطَرَ عَلی قَلبِ بَشَرٍ. (ترجمہ: در بہشت چیزہایی وجود دارد کہ نہ چشمی دیدہ، نہ گوشی شنیدہ و نہ بہ خاطر کسی گذشتہ است.)

نہج الفصاحہ، حدیث ۲۰۶۰

بہشت و جہنم سے متعلق بہت ساری مستقل تصانیف لکھی گئی ہیں اس کے علاوہ بہت ساری مجامع حدیثی میں بھی اکثر جگہوں پر بہشت و جہنم سے متعلق احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے لکھی گئی بعض شیعہ تصانیف درج ذیل ہیں:

شیعہ آثار کے علاوہ بعض اہل سنت آثار میں بھی احادیث کی روشنی میں بہشت و جہنم کے موضوع پر بحث کی گئی ہے منجلمہ یہ کہ:

حوالہ جات

  1. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱، ذیل مدخل جنت.
  2. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ الرحمن، آیہ ۴۶.
  3. محمد فؤاد عبدالباقی، المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم، ۱۳۹۷ق، ذیل «عدن» و «ن ع م».
  4. طبرسی‌، تفسیر مجمع البیان؛ طبری‌، تفسیر طبری؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ الرحمن، آیات ۴۶ و ۶۲.
  5. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۳، ذیل مدخل جنت.
  6. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  7. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۴، ذیل مدخل جنت.
  8. محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «ج ن ن»
  9. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۴، ذیل مدخل جنت.
  10. طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سوریہ توبہ، آیہ ۷۲.
  11. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ توبہ، آیہ ۷۲.
  12. ابو نُعَیم اصفہانی، صفۃ الجنۃ، ج ۱، ص ۳۴؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سورہ انعام، آیہ ۱۲۷.
  13. قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج‌ ۲، ص ۱۷۵؛ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۱۶۹، اس تفاوت کے ساتھ کہ دارالجلال کی بجای جنّہ النور آیا ہے۔
  14. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، «باب الجنۃ و نعیمہا»، صص ۷۱-۱۱۶.
  15. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۷ و ۱۹۶.
  16. بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۶۱.
  17. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۲۱۸
  18. طبرسی، ذیل رحمن: ۶۲؛ با اندکی تفاوت در مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۹۸.
  19. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌۸، ص۱۲۶-۱۲۷.
  20. بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.
  21. سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.
  22. سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴
  23. ۳۵ اور بعض دوسری تعبیروں کے مطابق
  24. سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸
  25. سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.
  26. سورہ انسان، آیہ ۱۳؛ تفاسیر، از جملہ طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.
  27. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.
  28. ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.
  29. ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۸، ص ۱۱۹.
  30. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۳، ۱۲۵، ۱۴۹؛ برای این بحث، با برخی تفاوت‌ہا، بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۲۱ق، ج ۱، ص ۳۴۲ و ۳۴۶؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۱۶۴-۱۶۵؛ ابن‌قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص۴۴-۵۱.
  31. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۱۰، ص ۳۱۶، ۳۲۷
  32. جزایری، نور البراہین، ۱۴۱۷ق، ج‌ ۲، ص ۴۷۹.
  33. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.
  34. یہی دو تعبیر آل‌عمران کی آیت نمبر 131 اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 میں دوزخ کیلئے استعمال ہوا ہے
  35. جوینی، العقیدۃ النظامیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۹-۲۵۰؛ متولی شافعی، الغنیہ فی اصول الدین، ۱۴۰۶ق، ص۱۶۷-۱۶۸؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج‌ ۵، ص ۱۰۹؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج ۸، ص ۳۰۱؛ سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۱۸-۹۱۹.
  36. ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، ۱۹۹۵م، ج ۲، ص ۳۹۲.
  37. ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ص ۴۴، ۴۹-۵۰، ۸۱
  38. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۴، ذیل مدخل جنت.
  39. مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص ۱۲۴.
  40. سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۲۰.
  41. غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.
  42. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.
  43. رجوع کنید بہ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص ۹۱-۹۳.
  44. قاضی عبدالجبار بن‌ احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.
  45. سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.
  46. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.
  47. سورہ الرحمن، آیہ ۴۶ و ۷۶.
  48. سورہ واقعہ، آیہ ۱۰ و ۳۷.
  49. سورہ انسان، ۵، ۶، ۱۲، ۲۲.
  50. مثلاً سورہ صافات، آیہ ۴۱ و ۴۹؛ زخرف، آیہ ۷۰ و ۷۳؛ نبأ، آیہ ۳۲ و ۳۵؛ مطففین، آیہ ۲۲ و ۲۸؛ غاشیہ، آیہ ۱۰ و ۱۶.
  51. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۰-۱۴۱؛ نیز رجوع کنید بہ ابونعیم اصفہانی، صفۃ الجنۃ، ۱۴۰۶ق، ج ۲، ص ۱۳۶-۱۳۷؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۱۶۶-۱۷۰.
  52. مُنذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج‌ ۴، ص ۵۰۷.
  53. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۰، ذیل مدخل جنت.
  54. انسان: ۱۴
  55. طور: ۲۲.
  56. واقعہ: ۲۱.
  57. طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل واقعہ: ۲۱.
  58. سورہ صافات، آیہ ۴۵-۴۶؛ سورہ واقعہ، آیہ ۱۸.
  59. سورہ انسان، آیہ ۵.
  60. سورہ انسان، ۱۸.
  61. سورہ ص، آیہ ۵۱.
  62. سورہ انسان، آیہ ۲۱.
  63. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۶، ذیل مدخل جنت.
  64. سورہ کہف، آیہ ۳۱؛ سورہ حج، آیہ ۲۳؛ سورہ فاطر، آیہ ۳۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۳؛ سورہ انسان، آیہ ۱۲ و ۲۱.
  65. سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ طور، آیہ ۲۰؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۴ و ۷۶؛ سورہ واقعہ، آیہ ۱۵؛ سورہ انسان، آیہ ۱۳، سورہ مطففین، آیہ ۲۳ و ۳۵؛ سورہ غاشیہ، آیہ ۱۳ و ۱۶.
  66. سورہ زخرف، آیہ ۷۱؛ سورہ واقعہ، آیہ ۱۸ و ۳۴؛ سورہ انسان، آیہ ۱۵ و ۱۶؛ سورہ غاشیہ، آیہ ۱۴.
  67. سورہ طور، آیہ ۲۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۱۷ و ۱۸؛ سورہ انسان، آیہ ۱۹.
  68. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۶، ذیل مدخل جنت.
  69. سورہ بقرہ، آیہ ۲۵؛ سورہ آل عمران، آیہ ۱۵؛ سورہ نساء، آیہ ۵۷.
  70. سورہ زخرف، آیہ ۷۰.
  71. سورہ رعد، آیہ ۲۳؛ سورہ غافر، آیہ ۸؛ سورہ یس، آیہ ۵۶.
  72. رجوع کنید بہ دخان: ۵۴؛ طور: ۲۰
  73. طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی‌، الجامع لاحکام القرآن؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل رعد: ۲۳، و غافر: ۸.
  74. سورہ الرحمن، آیہ ۵۶، ۵۸، ۷۰، ۷۲ و ۷۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۲۲-۲۳.
  75. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل ہمین آیات‌.
  76. سورہ حجر، آیہ ۴۶.
  77. سورہ توبہ، آیہ ۲۱.
  78. سورہ فصّلت، آیہ ۸.
  79. سورہ واقعہ، آیہ ۳۳.
  80. سورہ حجر، آیہ ۴۸؛ سورہ فاطر، آیہ ۳۵.
  81. سورہ فاطر، آیہ ۳۵.
  82. سورہ فاطر، آیہ ۳۴.
  83. سورہ طور، آیہ ۲۳.
  84. سورہ واقعہ، آیہ ۲۵؛ سورہ غاشیہ، آیہ ۱۱.
  85. سورہ نبأ، آیہ ۳۵.
  86. سورہ صافات، آیہ ۴۷.
  87. فیض کاشانی، راہ روشن، ۱۳۷۹ش، ص ۶۶.
  88. فخر رازی، تفسیر کبیر، ذیل انفال: ۴.
  89. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۸، ذیل مدخل جنت.
  90. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۳، ذیل مدخل جنت.
  91. محمدی ری‌شہری، حکمت‌نامہ پیامبر اعظم، ۱۳۸۶ش، ج۴، ص ۳۹۹.
  92. سورہ آل عمران، آیہ ۱۹۵؛ سورہ نساء، آیہ ۱۲۴؛ سورہ غافر، آیہ ۴۰.
  93. سورہ مؤمنون، آیہ ۱۱۱؛ سورہ فرقان، آیہ ۶۳ و ۷۵.
  94. سورہ قصص، آیہ ۸۳؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، اسی آیت کے ذیل میں زمین پر فساد پھیلانے کو خدا کی نافرمانی قرار دیا ہے۔
  95. سورہ اعراف، آیہ ۴۰.
  96. قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۸-۱۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۶، ۱۴۴-۱۴۵
  97. منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ج ۴، ص ۴۹۳-۴۹۴؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۲۰-۲۱ و ۱۰۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۳۲-۱۳۳
  98. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۲۴، ذیل مدخل جنت.
  99. فخر رازی، تفسیر کبیر، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.
  100. نیز رجوع کنید بہ طبرسی، مجمع البیان، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.
  101. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۱۱، ص ۱۲۲-۱۲۳، ۱۴۳-۱۴۴.
  102. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، ج ۱۱، ص ۱۶۱، ۱۷۲-۱۷۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۵۲-۷۵.
  103. رشید رضا، تفسیر القرآن الحکیم المشتہر باسم تفسیر المنار، ذیل بقرہ: ۳۵.
  104. ماتریدی، تأویلات اہل السنّہ، ۱۴۲۶ق، ج‌ ۱، ص ۴۲۵، ج ۴، ص ۳۷۶.
  105. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱، ص ۱۳۲، ج ۸، ص ۳۹، ج ۱۴، ص ۲۱۸-۲۱۹.
  106. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۲۴، ذیل مدخل جنت.
  107. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  108. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  109. ص۳۴۵-۳۶۶
  110. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۲۰۷-۲۲۰
  111. نجاشی، ش ۴۸۱، ۵۱۲؛ تستری، نور البراہین، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۸۹-۹۰.
  112. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  113. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  114. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  115. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  116. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.
  117. حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.

مآخذ

  • ابن بابویہ، الاعتقادات، چاپ عصام عبدالسید، قم، ۱۳۷۱ش.
  • ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، چاپ حسین اعلمی، بیروت ۱۴۰۴ق-۱۹۸۴م.
  • ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت ۱۴۰۴ق-۱۹۸۴م.
  • ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل (سہ جلد)، بیروت، ۱۹۹۵م، دارالکتب العلمیۃ.
  • ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، چاپ سیدجمیلی، بیروت، ۱۴۰۹ق-۱۹۸۸م.
  • ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، ۱۳۹۸ق.
  • اشعری، علی بن اسماعیل، کتاب مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلّین، چاپ ہلموت ری تر، ویسبادن، ۱۴۰۰ق-۱۹۸۰م.
  • اصفہانی، ابونعیم، صفۃ الجنۃ، چاپ علی رضا عبداللَّہ، دمشق، ۱۴۰۶-۱۴۰۷/۱۹۸۶-۱۹۸۷.
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، قم، ۱۳۸۲ش.
  • بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، الفرق بین الفرق، چاپ محمد زاہد بن حسن کوثری، [قاہرہ]، ۱۳۶۷ق-۱۹۴۸م.
  • بغوی، حسین بن مسعود، مصابیح السنہ، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، محمدسلیم ابراہیم سمارہ، و جمال حمدی ذہبی، بیروت، ۱۴۰۷ق-۱۹۸۷م.
  • بیہقی، احمد بن حسین، شعب الایمان، چاپ محمدسعید بسیونی زغلول، بیروت، ۱۴۲۱ق-۲۰۰۰م.
  • تستری، نعمت اللہ بن عبداللہ جزایری، نور البراہین (انیس الوحید فی شرح التوحید)، چاپ مہدی رجایی، قم، ۱۴۱۷ق.
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، چاپ عبدالرحمان عمیرہ، قاہرہ ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹م؛ چاپ افست قم، ۱۳۷۰-۱۳۷۱ ش.
  • جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، چاپ محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر، ۱۳۲۵ق-۱۹۰۷م، چاپ افست قم، ۱۳۷۰ش.
  • جزایری، نعمت اللَّہ بن عبداللہ، نورالبراہین (انیس الوحید فی شرح التوحید)، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۱۷ق.
  • جوینی، عبدالملک بن عبداللہ، العقیدہ النظامیہ، چاپ محمد زبیدی، بیروت ۱۴۲۴ق-۲۰۰۳م.
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران، ۱۳۶۷ش، ذیل «بہشت. II. الف: در قرآن کریم» (از مہدی غفاری).
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، بہ قلم حسن محمد مکی عاملی، ج۲، قم، ۱۴۱۱ق.
  • سلیمان بن صالح غصن، موقف المتکلمین من الاستدلال بنصوص الکتاب و السنہ، ریاض، ۱۴۱۶ق-۱۹۹۶م.
  • شریف رضی، محمد بن حسین، حقائق التأویل فی متشابہ التنزیل، ج۵، چاپ محمدرضا آل کاشف الغطاء، بیروت، ۱۳۵۵ش، چاپ افست قم، بی تا.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت: مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۲ق-۱۹۸۲م.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، چاپ ابراہیم انصاری، قم، ۱۴۱۳ق.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیہ، چاپ حسین درگاہی، قم، ۱۳۷۱ش.
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل القرآن.
  • عبدالرحمان بن مأمون متولی شافعی، الغنیہ فی اصول الدین، چاپ عمادالدین احمد حیدر، بیروت ۱۴۰۶ق-۱۹۸۷ش.
  • عبدالرحیم بن محمد خیاط، کتاب الانتصار و الرد علی ابن الروندی الملحد، چاپ نیبرگ، بیروت ۱۹۸۶م.
  • عبدالرزاق بن علی لاہیجی، گوہرمراد، چاپ زین العابدین قربانی لاہیجی، تہران ۱۳۸۳ش.
  • عبدالعظیم بن عبدالقوی منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، چاپ مصطفی محمد عمارہ، قاہرہ ۱۴۰۷ق-۱۹۸۷م، چاپ افست بیروت، بی تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، چاپ محمد نجمی زنجانی، قم، ۱۳۶۳ش.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، چاپ حسن حسن‌زادہ آملی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • علم الہدی، علی بن حسین، شرح جمل العلم و العمل، چاپ یعقوب جعفری مراغی، تہران، ۱۴۱۴ق.
  • غزالی، محمد بن محمد، المضنون بہ علی غیراہلہ، چاپ ریاض مصطفی عبداللہ، دمشق ۱۴۱۷ق-۱۹۹۶م.
  • غزالی، محمد بن محمد، فضائح الباطنیہ، چاپ عبدالرحمان بدوی، قاہرہ ۱۳۸۳ق-۱۹۶۴م.
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۰۵ق.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، ۱۴۲۱ق-۲۰۰۰م.
  • فرج اللَّہ عبدالباری، یوم القیامہ بین الاسلام و المسیحیہ و الیہودیہ، قاہرہ ۲۰۰۴م.
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، راہ روشن: ترجمہ کتاب المحجۃ البیضاء فی تہذیب الإحیاء، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۹ش.
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، علم الیقین فی اصول الدین، قم، ۱۳۵۸ش.
  • قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسہ، چاپ سمیر مصطفی رباب، بیروت، ۱۴۲۲ق.
  • قرطبی، محمد بن احمد، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، چاپ فواز احمد زمرلی، بیروت، ۱۴۱۰ق-۱۹۹۰م.
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، چاپ افست تہران، ۱۳۶۴ش.
  • کاشانی، حبیب اللَّہ بن علی مدد، عقاید الایمان: شرح دعای عدیلہ، چاپ حسن بروجردی، چاپ سنگی تہران، ۱۳۶۰ش.
  • ماتریدی، محمد بن محمد، تأویلات اہل السنّہ (تفسیرالماتریدی)، چاپ مجدی باسلّوم، بیروت ۱۴۲۶ق-۲۰۰۵م.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • محمد رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم المشتہر باسم تفسیر المنار، [تقریرات درس] شیخ محمد عبدہ، ج۱، مصر، ۱۳۷۳ق-۱۹۵۴م.
  • محمد فؤاد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، ۱۳۶۴، چاپ افست تہران، ۱۳۹۷ق.
  • مراغی، احمد مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، ۱۳۶۵ق.
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، چاپ عبداللہ محمود شحاتہ، [قاہرہ ] ۱۹۷۹-۱۹۸۹م.
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، چاپ علی اصغر حکمت، تہران، ۱۳۶۱ش.
  • نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • New Catholic encyclopedia , Detroit: Thomson, 2003, s.vv."Afterlife. 2: in the Bible" (by H.Koster), "Paradis" (by I. Hunt).
  • Encyclopaedia of the Quran, ed. Jane Dammen McAuliffe, Leiden:Brill,2001-s.v."Paradise"(by Leah Kinberg).