اعتکاف

wikishia سے
اعتکاف
اعتکاف2.jpg
معلومات
زمان‌: کوئی خاص وقت معین نہیں
مکان: جامع مسجد
منشاء تاریخی: رسول اکرمؐ کے زمانے سے
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات

اِعْتِکاف اسلام میں ایک مستحب عبادت ہے جس کے معنی ایک معینہ مدت (کم از کم 3 دن) کیلئے روزے کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کے ہیں۔ اعتکاف کرنے والے کو "معتکف" کہا جاتا ہے۔ اعتکاف کے لئے شریعت میں کوئی خاص وقت معین نہیں لیکن احادیث کے مطابق اس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان کا آخری عشرہ ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد میں ٹھہرنے اور مسجد سے خارج ہونے سے متعلق مختلف احکام اور آداب ہیں۔ ایران کے اکثر شہروں کی تمام بڑی مسجدوں میں رجب کی 13، 14 اور 15 تاریخ جن کو ایام بیض کہا جاتا ہے، اعتکاف انجام پاتا ہے۔

احادیث میں اعتکاف کو حج اور عمرہ کے برابر، گناہوں کی بخشش اور جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

اہمیت اور فضیلت

اعتکاف ایک مستحب عبادت ہے جسے احادیث میں حج اور عمره کے برابر قرار دیا گیا ہے۔[1] اسی اہمیت کے پیش نظر مختلف اسلامی ممالک میں اسے پیغمبر اکرمؑ کی سنت کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔

معنی

فقہ میں عبادت کی قصد سے مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ کم از کم تین دن مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف اور متعلقہ شخص کو مُعتَکِف کہا جاتا ہے۔[2] اعتکاف اصل میں "عکف" کے مادے سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا اور اس کی تکریم کرنے کے ہیں۔[3] نیز اسی مادے سے قرآن میں لفظ "عاکف"[4] ساکن اور مقیم کے معنی میں جبکہ "معکوف"[5] ممنوع اور باز رکھا ہوا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

عرفاء کی نگاہ میں

عرفاء کی اصطلاح میں دنیوی دلبستگیوں سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔[6] علامہ مجلسی کے مطابق اعتکاف کی حقیقت خدا کی اطاعت کی طرف مایل ہونا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہے۔[7] اسی طرح آپ انسان کے تمام اعضاء و جوارح کو عمل صالح کی انجام دہی میں لگا دینا، غفلت سے دوری اختیار کرنا، اپنے آپ کو خدا کے احکام اور ارادے کا تابع قرار دینا اور اپنے وجود سے غیر خدا کے مکمل انخلاء کو اعتکاف کا اعلی درجہ و مرتبہ قرار دیتے ہیں۔[8]

تاریخچہ

اعتکاف پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور سنت میں سے ہے۔[9] ایک حدیث کے مطابق اسلام سے پہلے بھی اعتکاف رائج تھا۔[10]

پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں ملتا ہے کہ آپ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں ماہ رمضان کے مہینے میں اعتکاف فرمایا۔ اس مقصد کے لئے آپؐ کو مسجد النبی میں ایک چادر نصب کیا گیا تھا۔[11] موجودہ دور میں مسجد النبی میں ستون توبہ کے مشرقی حصے میں سریر کے نام سے ایک چھبوترہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؑ اسی جگہ اعتکاف فرماتے تھے۔[12]
کو جنگ بدر کی وجہ سے رمضان المبارک میں آپؐ اعتکاف انجام نہ دے سکے جس کی بنا پر اگلے سال آپ نے رمضان المبارک میں 20 دن اعتکاف فرمایا 10 دن اسی سال کے اور 10 دن پچھلے سال کے قضا کے طور پر۔[13] حدیثی مآخذ میں شیعوں کے امام امام حسن مجتبیؑ[14] اور امام صادقؑ[15] کی سیرت میں بھی اعتکاف کی روایت ملتی ہے۔

آداب اور احکام

وقت

اعتکاف کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں لیکن منقولہ احادیث کے مطابق رسول اللہؐ ماہ مبارک رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔[16] اسی رو سے اعتکاف کا بہترین وقت ماہ رمضان اور اس کا تیسرا عشرہ جانا گیا ہے۔[17] موجودہ دور میں ایران میں ماہ رجب کی 13، 14 اور 15ویں تاریخ جنہیں ایام البیض میں اعتکاف کا رواج ہے۔[18] بعض دوسرے اسلامی ممالک میں بھی مذکورہ ایام میں اعتکاف انجام پاتا ہے۔[19]

مدت

امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی مدت کم از کم 3 دن ہے اور دو دن مکمل ہونے کے بعد تیسرے دن کا اعتکاف واجب ہوجاتا ہے۔[20] اعتکاف میں تین دن کا آغاز پہلے دن فجر سے اور اس کا اختتام تیسرے دن مغرب کے وقت ہوگا۔[21] البتہ اہل سنت میں سے مالکیوں[22] اور شافعیوں[23] کے نزدیک معتکف کو پہلے دن غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف کی جگہ پر حاضر ہونا ضروری ہے۔[24]

مکان یا جگہ

بعض احادیث میں اعتکاف کو مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور مسجد بصرہ کے ساتھ مختص کیا گیا ہے۔ لیکن ایسی روایات بھی منقول ہیں جن کی رو سے کسی بھی مسجد یا جامع مسجد میں اعتکاف کرنا جائز ہے جن میں کسی عادل امام نے نماز جمعہ یا نماز جماعت ادا کی ہو۔[25]

احادیث کی اسی اختلاف کی بنا پر قدیم فقہاء اعتکاف کو صرف مذکورہ چار مساجد میں منحصر سمجھتے تھے۔[26] لیکن شہید اول اور شہید ثانی اعتکاف کو مذکورہ چار مساجد تک محدود کرنے کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔[27] چودھویں صدی ہجری کے فقہاء تمام جامع مساجد میں اعتکاف کو صحیح سمجھتے ہیں۔[28] اسی طرح بعض فقہاء مذکورہ مساجد اربعہ کے علاوہ باقی مساجد میں اعتکاف کو قصد رجاء یعنی ثواب ملنے کی امید کے ساتھ انجام دینے کو صحیح سمجھتے ہیں۔[29]

اعتکاف میں روزے کی شرط

فقہ امامیہ کے مطابق روزہ رکھنا اعتکاف کے ارکان میں سے ہے۔[30] اس بنا پر جو شخص روزہ نہیں رکھ سکتا جیسے مسافر، بیمار اور حایض وغیرہ، ا ن کا اعتکاف بھی صحیح نہیں ہے۔[31] البتہ اعتکاف میں قضا روزہ اور نذری روزے کی نیت سے بھی روزہ رکھ سکتے۔[32]

اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں سے شافعی اور حنبلی اعتکاف میں روزہ رکھنے کو واجب نہیں سمجھتے[33] لیکن مالکی اور مشہور حنفی فقہاء کے نزدیک روزہ کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے۔[34]

مسجد سے خارج نہ ہونا

اعتکاف کی مدت میں مسجد سے باہر جانا سوائے ضروری امور جیسے اشیائے خورد و نوش کی خریداری اور قضائے حاجت یا بعض اہم امور جیسے نماز جمعہ، تشییع جنازہ، گواہی دینا، مریض کی عیادت وغیرہ کے، جائز نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ امور میں بھی معتکف کو کم سے کم پر اکتفاء کرنا ضروری ہے اور کسی جگہ بیٹھنا یا ممکنہ صورت میں سایے میں چلنے سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے۔[35]

سید کاظم طباطبایی اپنی کتاب عروۃ الوثقی میں عرفی اور شرعی ضروری امور نیز مصلحت والے امور کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر جانے کو جائز سمجھتے ہیں۔[36] اسی طرح بحار الانوار میں عدة الداعی سے منقول ہے کہ امام حسن مجتبیؑ نے اپنے کسی چاہنے والے کا قرضہ چکانے کے لئے طواف کو ادھورا چھوڑا اور ان کے ساتھ چلے گئے۔[37] [نوٹ 1]


مُحَرَّمات

فقہاء کے مطابق اعتکاف میں خوشبو کا استعمال، خرید و فروخت (سوائے ضروری اشیاء کے)، دنیاوی امور پر بحث و جدال، مجامعت، استمناء حتی کہ شریک حیات کا بوسہ لینا وغیرہ حرام ہے۔[38] اسی طرح ہر وہ چیز جو روزے کو باطل کر دیتی ہے اعتکاف کو بھی باطل کر دیتی ہے۔[39]

اعتکاف کا فلسفہ اور اثر

احادیث کے مطابق اعتکاف گناہوں کی بخشش[40] اور جہنم کی آگ سے نجات[41] کا باعث ہے۔ اسی طرح اعتکاف خدا کے ساتھ خلوت و مناجات نیز غور فکر کے لئے بہترین فرصت ہے۔ توبہ کے لئے زمینہ فراہم کرنا اعتکاف کا سب سے اہم فلسفہ اور حکمت تصور کیا جاتا ہے۔[42]

اعتکاف کے بارے تالیفات

اعتکاف کے بارے میں عربی اور فارسی میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض کا نام درج ذیل ہے:

  • الاعتکافیہ: بقلم معین الدین سالم بن بدران بصری (زندہ بسال 626ھ ق) جس کے حوالے بعض کتب میں موجود ہیں۔[43]
  • الاعتکافیہ یا ماءالحیاۃ و صافی الفرات: از شیخ لطف اللہ میسی اصفہانی (متوفٰی سنہ 1033ھ ق) جو 1373ھ ش کو رسول جعفریان کے زیر اہتمام "مجموعہ میراث اسلامی" کی پہلی جلد کے ضمن میں، قم مقدسہ سے شائع ہوئی ہے۔
  • الکفاف فی مسائل الاعتکاف: بقلم مولی محمد جعفر شریعتمدار استرابادی (متوفٰی سنہ 1263ھ ق) جس کا ایک نسخہ قم کے کتابخانہ آیت اللہ مرعشی میں محفوظ ہے۔[44]
  • الاعتکافیہ: بقلم سید محمد علی شہرستانی (متوفٰی سنہ 1290ھ ق)، کہ آقا بزرگ تہرانی نے لکھا ہے کہ اس کتاب کے بعض نسخے بعض ذاتی مجموعوں اور کتب خانوں میں موجود ہیں۔[45]

حالیہ برسوں میں سنت اعتکاف کو بہت رواج ملا ہے اور اس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔(کتب کی فہرست)

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۸۸؛ ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ھ ج۱، ص۱۹۵۔
  2. موسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۵۹۸۔
  3. راغب، مفردات الفاظ القرآن، 355
  4. سورہ حج، آیت 25۔
  5. سورہ فتح، آیت 25۔
  6. جرجانی، التعریفات، ۱۳۵۷ق، ص۲۵۔
  7. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۸، ص۴۔
  8. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۸، ص۱۵۰۔
  9. مالک، الموطأ، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۳۱۴۔
  10. بخاری، صحیح بخاری، اداره الطباعہ المنیریہ، ج۳، ص۱۰۵-۱۱۰؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م، ج۱، ص۵۶۳.
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۱۷۵۔
  12. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۲۲۶، المنقری، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، الناشر : مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ج۲، ص۴۴۔
  13. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۴۔
  14. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۹۰۔
  15. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۶۰۔
  16. کلینی، الکافی، ج4، ص175
  17. مثلاً نک: شہید ثانی، الروضہ البہیۃ، ج2، ص149، جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ج1، ص582۔
  18. «تاریخچہ اعتکاف»، خبرگزاری تسنیم۔
  19. «مراسم اعتکاف در کشورہای جہان»، خبرگزرای ایرنا؛ «استقبال چشمگیر جوانان»، شیعہ نیوز۔
  20. محقق، شرائع الاسلام، ج1، ص216۔
  21. طباطبایی، العروة الوثقى، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۶۷۱.
  22. مالک، الموطأ، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۳۱۴.
  23. شافعی، الأم، دارالمعرفہ، ج۲، ص۱۰۵.
  24. ابن رشد، بدایۃ المجتہد، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۳۱۴.
  25. کلینی، الکافی، ج4، ص176۔ قس مفید، المقنعہ، ص363۔
  26. دیکھیں: کلینی، الکافی، ج4، ص176۔سید مرتضی، الانتصار، ص72۔طوسی، الخلاف، ج2، ص272۔
  27. البہجۃ المرضیۃ، ج2، ص150۔
  28. خمینی، تحریر الوسیلۃ، دارالعلم، ج۱، ص۳۰۵؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۷۵؛ صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۱۴۴؛ بہجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص ۴۴۲۔
  29. «مکان اعتکاف»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  30. محقق حلی، شرائع الاسلام، ج1، ص215۔
  31. نراقی، مستند الشیعۃ، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۵۴۶۔
  32. نراقی، مستند الشیعۃ، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۵۴۵۔
  33. ملاحظہ کریں: شافعی، الأم، دارالمعرفہ، ج۲، ص۱۰۷؛ ابن ہبیرہ، الافصاح، ۱۳۶۶ھ، ج۱، ص۱۷۰؛ ملاحظہ کریں: مروزی، اختلاف العلماء، ۱۴۰۶ق، ص۷۵۔
  34. ملاحظہ کریں: سمرقندی، تحفۃ الفقہاء، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۷۲؛ شیخ نظام الدین،الفتاوی الہندیہ، ۱۳۲۳ق، ج۱، ص۲۱۱۔
  35. کلینی، الکافی، ص179۔ ابن رشد، بدایہ المجتہد، ج1، ص317۔ محقق، شرائع الاسلام، ج1، ص217
  36. طباطبایی، العروة الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۶۸۶.
  37. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۴، ص۱۲۹.
  38. ابن ہبیرہ، الافصاح، ۱۳۶۶ق، ج۱، ص۱۷۱؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۳۸۹ق، ج۱، ص۲۱۹-۲۲۰؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۵۸۵-۵۸۷۔
  39. خمینی، تحریر الوسیلۃ، دارالعلم، ج۱، ص۳۰۵۔
  40. سیوطی، جامع‌الصغیر، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۵۷۵۔
  41. الطبرانی، المعجم الأوسط، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۱۲۱۔
  42. «اعتکاف و فلسفہ آن»، وبگاہ راسخون۔
  43. دیکھیں: آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، ج2، ص230۔
  44. دیکھیں: آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ج2، ص229؛ مدرسی، ص339
  45. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ج2، ص229-230
  1. ابن‌ عباس کہتے ہیں امام حسنؑ مسجد الحرام میں اعتکاف میں بیٹھے تھے اور طواف کر رہے تھے اتنے میں ان کے چاہنے والوں میں سے ایک شخص نے آپ سے مالی امداد کا تقاضا کیا۔ اس وقت امامؑ طواف کو ادھورا چھوڑ کر اس شخص کے ساتھ چلنے لگا، میں نے امام سے عرض کیا کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہیں کہیں اسے فراموش تو نہیں کیا؟ امام نے جواب دیا، نہیں ایسا نہیں ہے لیکن میں نے اپنے والد گرامی سے سنا ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: جو شخص اپنے مومن بھائی کی حاجت روائی کیلئے کوشش کرتا ہے تو اس کا ثواب اس شخص کی مانند ہے جس نے 9 ہزار سال روزہ اور شب زندہ داری کے ساتھ خدا کی عبادت کی ہو۔ «من قضى أخاه المؤمن حاجةً كان كَمَن عَبَد الله تسعة آلاف سنة صائماً نهاره قائماً ليله.» مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۴، ص۱۲۹.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • آقابزرگ، الذریعہ.
  • ابن بابویہ، محمد، «المقنع»، الجوامع الفقہیہ، قم، 1404ھ ق۔
  • ابن رشد، محمد، بدایہ المجتہد، بیروت، 1406ھ ق /1996ع‍۔
  • ابن ماجہ، محمد، سنن، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ، 1952-1953ع‍۔
  • ابن ندیم، الفہرست.
  • ابن ہبیرہ، یحیی، الافصاح، بہ کوشش محمد راغب طباخ، حلب، 1366ھ ق /1947ع‍۔
  • بخاری، محمد، صحیح، قاہرہ، ادارہ الطباعہ المنیریہ.
  • جرجانی، علی، التعریفات، قاہرہ، 1357ھ ق /1939ع‍۔
  • جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، 1406ھ ق / 1996ع‍۔
  • خمینی، روح اللہ، تحریر الوسیلہ، نجف، مطبعۃ الاداب.
  • راغب اصفہانی، حسین، مفردات الفاظ القرآن، بہ کوشش ندیم مرعشلی، قاہرہ، 1392ھ ق۔
  • سمرقندی، علاءالدین، تحفہ الفقہاء، بیروت، 1405ھ ق /1995ع‍۔
  • سیدمرتضی، علی، الانتصار، بہ کوشش محمدرضا خرسان، نجف، 1391ھ ق /1971ع‍۔
  • شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ.
  • شہید ثانی، زین الدین، الروضہ البہیہ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، 1403ھ ق /1993ع‍۔
  • طوسی، محمد، الخلاف، قم، 1407ھ ق۔
  • شیخ نظام و... الفتاوی الہندیہ (الفتاوی العالمکیریہ)، قاہرہ، 1323ھ ق۔
  • کلینی، محمد، الکافی، علی اکبر غفاری، بیروت، 1401ھ ق۔
  • مالک بن انس، الموطأ، محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت، 1406ھ ق /1995ع‍۔
  • محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، تحقیق عبدالحسین محمدعلی، نجف، 1399ھ ق /1969ع‍۔
  • مدرسی طباطبایی، حسین، مقدمہ‌ای بر فقہ شیعہ، ترجمہ محمدآصف فکرت، مشہد، 1369ھ ش۔
  • مروزی، محمد، اختلاف العلماء، تحقیق صبحی سامرایی، بیروت، 1406ھ ق /1996ع‍۔
  • مفید، محمد، المقنعہ، قم، 1410ھ ق۔
  • نجاشی، احمد، رجال، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، 1407ھ ق۔
  • الشیخ الصدوق، معانی الاخبار، التصحیح: علی اکبر الغفاری، قم: انتشارات اسلامی، 1361ھ ش۔
  • الشیخ الصدوق، من لایحضرہ الفقیہ، التحقیق: علی اکبر غفاری، قم: جامعۃ المدرسین، الطبعۃ الثانیۃ، 1404ھ ق۔
  • الطوسی، محمد بن الحسن، الفہرست، محقق: جواد القیومی، بی‌جا: مؤسسۃ نشر الفقاہۃ، 1417ھ ق۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ھ ش۔

بیرونی روابط