حرام مہینے

ویکی شیعہ سے

حرام مہینے، وہ مہینے ہیں جن کی حرمت کا لحاظ رکھنا خداوند متعال نے مؤمنین پر واجب کیا ہے۔ حرام مہینوں میں محرم الحرام، رجب المرجب، ذوالقعدۃ الحرام اور ذوالحجۃ الحرام شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل(ع) کے زمانے سے ان مہینوں میں جنگ حرام تھی۔ ان مہینوں میں قتل کی دیت دوسروے مہینوں سے زیادہ ہے۔

عرب کبھی اپنی ذاتی اغراض کی بنا پر محرم الحرام کی حرمت کو صفر المظفر میں منتقل کیا کرتے تھے اور دوسرے مہینوں کو بھی مؤخر کرتے تھے۔ اس عمل کو نَسِيء (ردو بدل) کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے۔

حرام مہینے کے معنی

حرام مہینوں سے مراد، وہ مہینے ہیں جن کی حرمت کی رعایت کو اللہ تعالی نے مؤمنین پر واجب کیا ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے زمانے سے مہینوں میں جنگ کو حرام اور ناروا سمجھا گیا ہے۔ یہ روش ظہور اسلام کے زمانے تک عرب میں محترم رہی۔ قرآن کریم نے بھی اس سنت کی تصدیق کر دی اور ان کی مہینوں کی حرمت کی تائید فرمائی۔[1]

مہینوں کے نام

تین حرام مہینے یکے بعد دیگرے آتے ہیں: [قمری سال کا گیارہواں مہینہ] ذوالقعدۃ الحرام، [بارہواں مہینہ] ذوالحجۃ الحرام اور [پہلا مہینہ] محرم الحرام؛ جبکہ چوتھا حرام مہینہ [سال کا ساتواں مہینہ] یعنی رجب المرجب ہے۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ـ جو رسول اللہ(ص) نے مِنٰی میں دیا، ـ ارشاد نبوی ہے:
اَلسَّنَةُ إثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِى بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ
ترجمہ:سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار مہینے حرام ہیں؛ تین یکے بعد دیگرے ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، اور رجبِ مُضَر جو جمادی [الثانی] اور شعبان کے درمیان قرار پایا ہے۔[2][3]

قرآن کی روشنی میں

حرام مہینہ یا حرام مہینے، کی عبارت، کئی آیات میں دہرائی گئی ہے، لیکن سورہ توبہ کی آیت 36 میں ان کی تعداد "چار مہینے" بیان کی گئی ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ[؟–36]"
ترجمہ: بلاشبہ مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینوں کی ہے ـ اللہ کے نوشتہ میں اس دن کہ جب آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ـ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔

حرام مہینوں کے احکام

جنگ کی حرمت

قرآن نے ان مہینوں میں جنگ کی شدید حرمت پر تصریح کی ہے:
"یَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌[؟–217]
"آپ سے لوگ حرمت والے مہینے میں جنگ کے متعلق دریافت کرتے ہیں، کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ بڑا گناہ ہے

حرام مہینوں میں دفاع جائز ہے

اگرچہ حرام مہینوں میں جنگ کا آغاز گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر ان مہینوں میں مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے تو ان پر اپنا دفاع واجب ہے۔
"الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ بِالشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ وَالْحُرُ‌مَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ[؟–194]
"ترجمہ: حرام مہینہ، حرام مہینے کے عوض میں ہے اور ہر حرمت [قابل] قصاص ہے تو جو شخص تم پر زیادتی کرے، تم بھی ویسے ہی زیادتی اس کے ساتھ کرو، اور اللہ کے غضب سے بچے رہو [اور زيادہ روی نہ کرو] اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے

امام خمینی نے ایک استفتاء کے جواب میں، اس سلسلے میں لکھا ہے:

"دفاعی جنگ میں، جب بھی دفاع واجب ہو، فوری اقدام کرنا چاہئے، خواہ یہ حرام مہینے میں ہی کیوں نہ ہو[4]

دیت میں شدت آنا

حرام مہینوں میں، قتل کی دیت، معمول کی دیت کے ایک تہائی کے برابر، زیادہ ہے۔[5]

نسیء

"نَسیء" کے معنی لغت میں مؤخر کرنے، اور قرآن میں حرام مہینوں میں سے کسی ایک مہینے کی حرمت کو منتقل دوسرے مہینوں میں منتقل کرنے کے ہیں۔

عرب قوم نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مناسک حج اور مہینوں کی حرمت میں رد و بدل کیا، کیونکہ بعض مواقع پر شدید غضب اور کینے کی وجہ سے، مسلسل تین مہینوں میں جنگ اور لوٹ مار کو ترک کرنا ان کے لئے دشوار تھا، لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ چار مہینوں کی حرمت پر مبنی ان کی دیرینہ سنت میں خلل پڑے، چنانچہ وہ ماہ محرم کی حرمت کو مؤخر اور اس کو صفر میں منتقل کرتے تھے؛ اور اسی ترتیب سے دوسرے حرام مہینوں کی حرمت کو بھی منتقل کیا کرتے تھے اور مؤخر کردہ مہینوں کو ان کا اصلی نام دیتے تھے اور نتیجے طور پر سال کے مہینوں کی نظم و ترتیب بگڑ جاتی تھی۔[6]

قرآن میں اس عمل کی شدت کے ساتھ مخالفت ہوئی ہے:
"إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ‌ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّ‌مُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ ۚ زُيِّنَ لَهُم سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِ‌ينَ[؟–37]
"ترجمہ:بےشک، [حرام] مہینوں میں رد و بدل کرنا، کفر کو بڑھاوا دینا ہے، جس کے ذریعے گمراہ ہوتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا؛ وہ ایک سال اسے حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال اسے حرام قرار بناتے ہیں، تا کہ جو اللہ نے حرام قرار دیئے ہیں ان کی گنتی پوری کریں، اور اس طرح جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اسے حلال کردیں اور ان کی بداعمالی ان کے لئے خوبصورت کردی گئی ہے، اور اللہ کفار کی جماعت کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا

حوالہ جات

  1. انصاری، ماه‌های حرام در قرآن کریم، ص1949۔
  2. انصاری، ماه‌های حرام در قرآن کریم، 1950۔
  3. رسول اللہ(ص) نے رجب کو قبیلۂ مضر سے منسوب کیا ہے کیونکہ مذکورہ قبیلہ اس کی بہت زیادہ تعظیم کرتا تھا؛ وإنما قيل: رجب مضر وأضافه إليهم لأنهم كانوا أشد تعظيما له من غيرهم۔
  4. امام خمینی، استفتائات، ج 1، ص 515
  5. امام خمینی، تحریرالوسیلة، ج2، ص530۔
  6. انصاری، نسیء، ص 2230۔

مآخذ

  • امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ربیع الاول 1421ھ۔
  • امام خمینی، استفتائات، دفتر انتشارات اسلامی، پاییز 1372ہجری شمسی۔
  • انصاری مسعود، «ماه‌های حرام در قرآن کریم»، دانشنامه قرآن و قرآن‌پژوهی، به کوشش بهاءالدین خرمشاهی، ج 2، تهران: دوستان [و] ناهید، 1377ہجری شمسی۔
  • انصاری مسعود، «نسیء»، دانشنامه قرآن و قرآن‌پژوهی، به کوشش بهاءالدین خرمشاهی، ج 2، تهران: دوستان [و] ناهید، 1377ہجری شمسی۔