حرام مہینے
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
حرام مہینے، وہ مہینے ہیں جن میں جنگ کرنا حرام ہے۔ حرام مہینوں میں ذوالقعدۃ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب شامل ہیں۔ قرآن میں آیا ہے کہ ان مہیوں کا احترام باقی رہنا چاہئے اور ان میں جنگ اور خون ریزی سے اجتناب کرنا چاہئے، مگر یہ کہ دفاع پر مجبور ہو جائے، یعنی مسلمان ان مہینوں میں جنگ شروع نہیں کر سکتے مگر یہ کہ اپنی دفاع کے لئے جنگ پر مجبور ہو جائے۔ حرام مہینوں سے متعلق فقہی احکام یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ان مہینوں میں قتل عمد یا شبہ عمد انجام دے تو دیت میں ایک تہائی اضافہ ہو گا۔
ان مہینوں میں جنگ کا حرام ہونا زمان جاہلیت میں بھی مرسوم تھا؛ لیکن چہ بسا ان مہینوں میں سے کسی ایک کی حرمت کو ختم کر کے کسی اور مہینے کو ماہ حرام قرار دیتا تھا تاکہ حرام مہینوں میں جنگ کی جا سکے۔ اس عمل کو نسیء کہا جاتا تھا اور قرآن میں اسے گناہان کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔
حرام مہینوں سے مراد اور ان کی تعداد
اسلام میں قرآن کی آیات اور روایات کے مطابق چار مہینوں کو ’’حرام مہینے‘‘ کہا گیا ہے۔[1] ان مہینوں کو حرام کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان میں جنگ کرنا حرام ہے[2] اور ان مہینوں کی حرمت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔[3] شیخ طوسی اپنی تفسیر ’’التبیان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان مہینوں میں گناہ کرنے کی قباحت اور سختی عام مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔[4] اسی طرح علمائے اسلام کے مطابق ان مہینوں میں نیک اعمال کے ثواب میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے۔[5]
قرآن کریم میں اس مسئلے کی صراحت کی گئی ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت 36 میں آیا ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ رسول اکرمؐ کی ایک روایت کے مطابق ان چار مہینوں میں سے تین مہینے مسلسل آتے ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک مہینہ یعنی رجب الگ ہے۔[6]
حرام مہینوں کی تشریع کا وقت
زیادہ تر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ حرام مہینوں کی حرمت شریعت حضرت ابراہیمؑ میں مقرر ہوئی تھی[7] اور زمانۂ جاہلیت تک ان مہینوں کا احترام باقی تھا۔[8] یہ احترام اس قدر تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل کو ان مہینوں میں دیکھتا تو اس پر حملہ نہ کرتا، اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔[9] مسلمان عالم دین احمد بیہقی (وفات: 458ھ) لکھتے ہیں کہ اہل جاہلیت ماہِ رجب میں اپنے ہتھیار رکھ دیتے تھے، لوگ مکمل امن و سکون کے ساتھ رہتے تھے، راستوں میں مکمل امن قائم رہتا تھا اور کسی کو کسی سے خوف نہ ہوتا تھا۔[10] یہ ابراہیمی سنت زمانۂ جاہلیت تک قائم رہی یہاں تک کہ اسلام آیا اور قرآن نے اس حکم کی توثیق کی۔[11]
حرام مہینوں کے احکام
ان مہینوں کے فقہی احکام میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں جنگ کرنا حرام ہے، اگر مسلمانوں پر حملہ ہو تو انہیں دفاع کا حق حاصل ہے۔[12] ایک اور حکم یہ ہے کہ ان مہینوں میں قتل کی دیت دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے،[13] چاہے قتل عمدی ہو، شبہِ عمد ہو یا غیر عمد۔[14]
قرآن میں حرام مہینوں میں جنگ کی حرمت کا ذکر آیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 217 میں آیا ہے: «یسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيہِ. قُلْ قِتَالٌ فِيہِ كَبِيرٌ؛ (ترجمہ: ’’وہ آپ سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجیے: اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے۔‘‘) اسی طرح فرمایا:«الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّـہَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـہَ مَعَ الْمُتَّقِينَ؛ (ترجمہ: ’’حرام مہینہ، حرام مہینے کے بدلے میں ہے اور حرمت والی چیزوں کا بھی قصاص ہے، تو جس نے تم پر زیادتی کی، تم بھی اس پر ویسی ہی زیادتی کرو جیسے اس نے کی، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘)[15]
نَسِیء
نسیء کا مطلب ہے حرام مہینوں کو مؤخر کرنا۔[16] زمانۂ جاہلیت میں بعض اوقات جب کوئی قبیلہ حرام مہینوں میں سے کسی ایک میں جنگ کرنا چاہتا تو وہ متولیان کعبہ کو کچھ رقم دے کر اس مہینے کو حلال قرار دے کر اس کے بدلے کسی اور مہینے کو حرام قرار دے دیتا۔[17] جس مہینے کی حرمت ختم کی جاتی تھی اسے ’’نسیء‘‘ کہا جاتا تھا۔[18] قرآن نے سورۂ توبہ کی آیات 36 اور 37 میں اس رسم کی مذمت کی ہے اور اسے کفر اور گمراہی میں اضافہ کا باعث قرار دیا ہے۔[19]
حرام مہینوں کی حرمت کا فلسفہ
شیعہ مفسر اور فقیہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق حرام مہینوں میں جنگ کی حرمت، جنگوں کے خاتمے کا ایک ذریعہ تھی تاکہ لوگ صلح و امن کی طرف مائل ہوں۔ جب سال کے چار مہینے اسلحہ رکھ دیا جائے، تو غور و فکر کا موقع ملتا ہے اور جنگ کے خاتمے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔[20] علامہ طباطبائی کے مطابق جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کی وجہ سے امن عامہ قائم ہوتا ہے تاکہ لوگ سکون سے اپنی زندگی بسر کریں، آسائش کے اسباب فراہم کریں اور اللہ کی عبادت کر کے اس کی قربت حاصل کریں۔[21]
حوالہ جات
- ↑ کاشانی، منہج الصادقین، تہران، ج4، ص265؛ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص214؛ سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج4، ص183؛ طوسی، تہذيب الأحكام، 1407ھ، ج4، ص161؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج55، ص339۔
- ↑ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج2، ص149؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج10، ص56۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص551۔
- ↑ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص214۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص67؛ جصاص، احکام القرآن، 1405ھ، ج4، ص308۔
- ↑ طوسی، تہذيب الأحكام، 1407ھ، ج4، ص161؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج55، ص339۔
- ↑ کاشانی، منہج الصادقین، تہران، ج4، ص267؛ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1421ھ، ج9، ص271؛ ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج2، ص943؛ سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج4، ص188۔
- ↑ طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج8، ص218۔
- ↑ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص214۔
- ↑ بیہقی، شعب الایمان،1423ھ، ج5، ص338۔
- ↑ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1421ھ، ج9، ص266۔
- ↑ امام خمینی، استفتائات، ج1، ص 515۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج2، ص530؛ سیستانی، توضیحالمسائل جامع، ج4، مسئلہ 1361.
- ↑ سیستانی، توضیحالمسائل جامع، ج4، مسئلہ 1361.
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 194۔
- ↑ جعفری، «بحثی دربارہ «نسیء» و رابطہ آن با حج»، ص119۔
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادھ، ج6، ص35۔
- ↑ طباطبایی، تفسیر المیزان،1352ش، ج9، ص271۔
- ↑ سورۀ توبۀ، آیۀ 36 و 37۔
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج7ِ، ص408۔
- ↑ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1421ھ، ج9، ص268؛ الدر المنثور، دارالفکر، ج4، ص185۔
مآخذ
- ابن عاشور، محمد الطاہر، التحریر والتنویر، تونس، الدار التونسیۃ للنشر، 1984م.
- ابن عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، تحقیھ، علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، چاپ اول، 1408ھ۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تصحیح، محمدمہدی ناصح؛ محمدجعفر یاحقی، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، 1408ھ،
- امام خمینی، استفتائات، دفتر انتشارات اسلامی، پاییز 1372.
- امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بہار 1379 / ربیع الاول 1421.
- انصاری مسعود، «ماہہای حرام در قرآن کریم»، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، ج 2، تہران: دوستان [و] ناہید، 1377.
- انصاری مسعود، «نسیء»، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، ج 2، تہران: دوستان [و] ناہید، 1377.
- بیہقی، احمد بن حسین، شعب الایمان، تحقیھ، عبدالعلی حامد، ہند، مکتبۃ الرشد،1423ھ۔
- جصاص، احمدبن علی، احکام القرآن، تحقیق محمدصادق قمحاوی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ۔
- جعفری، یعقوب، «بحثی دربارہ نسیء و رابطہ آن با حج»، میقات حج، شمارہ 3، بہار 1372ہجری شمسی۔
- سیستانی، سیدعلی، توضیحالمسائل جامع، ج4، مسئلہ 1361.
- سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور، بیروت، دارالفکر، بیتا.
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ ششم، 1421ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، تصحیح ابوالقاسم گرجی، قم، حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ،
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمدبن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیھ، حسن الموسوی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ق
- طوسی، محمدبن حسن، التبان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی تا.
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، نشر اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق سیدطیب موسوی جزایری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
- کاشانی، فتح اللہ، منہج الصادقین فی الزام المخالفین، تہران، کتابفروشی اسلامی، چاپ اول، بیتا۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ نوزدہم، 1377ہجری شمسی۔