ایام البیض
اَیّامُ البیض (بمعنی سفید ایام)، قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخوں کو کہا جاتا ہے۔ احادیث میں ان دنوں میں روزہ رکھنے پر تاکید ہوئی ہے۔ شیعوں کے یہاں ماہ رجب، شعبان اور رمضان کے ایام البیض خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
وجۂ تسمیہ
ایام البیض کا نام در حقیقت "أَيَّامُ اللَّيَالِي البِيضِ" ہے؛ (وہ ایام جن کی راتیں سفید ہیں) اس سے لفظ "اللَّيَالِي" کو حذف کیا گیا ہے اور "ایام البیض" کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔[1] بیض، بیضاء کی جمع ہے جس کے معنی عربی میں "سفید" کے ہیں۔ قدیم عربوں کی رسم تھی کہ ہر مہینے کے ایام کا نام چاند کی روشنی کی مقدار کی رو سے متعین کرتے تھے اور چونکہ چاند کی روشنی ان راتوں میں دوسری راتوں سے زیادہ ہوتی ہے لہذا ان ایام کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔[2] ان ایام کے دیگر اسماء میں اواضح اور غُرّ شامل ہیں۔[3]
احادیث میں اس کی وجہ تسمیہ کی ایک اور دلیل بھی ذکر کی گئی ہے جیسا کہ علل الشرائع میں آیا ہے:
جبرائیل حضرت آدم کو ایسے حال میں زمین پر اتار لائے کہ ان کا پورا بدن سیاہ ہوچکا تھا۔ فرشتوں نے حضرت آدم کو اس حالت میں دیکھ کر فریادیں بلند کرتے ہوئے رونا شروع کیا اور بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوئے کہ: اے پروردگار! تو نے ایک مخلوق کو پیدا کیا، اپنی روح اس میں پھونک دی اور فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا، اب ایک خطا کی وجہ سے تو نے اس کی سفید رنگت کو سیاہی میں تبدیل کیا؟!
منادی نے آسمان سے ندا دی: اے آدم! آج اپنے پرودگار کے لئے روزہ رکھو، حضرت آدم نے اس دن ـ جو تیرہ رجب کا دن تھاـ روزہ رکھا تو ایک تہائی سیاہی زائل ہوئی؛ منادی نے چودہویں کے دن پھر ندا دی: آج اپنے پروردگار کے لئے روزہ رکھو؛ چنانچہ حضرت آدم نے چودہویں رجب کو بھی روزہ رکھا اور مزید ایک تہائی سیاہی زائل ہوئی۔ پندرہویں رجب کو بھی منادی نے حضرت آدم کو روزہ رکھنے کی دعوت دی، اور حضرت آدم نے پندرہویں کو بھی روزہ رکھا؛ اب تو سیاہی کی آخری تہائی بھی زائل ہوئی، چنانچہ اسی مناسبت سے ان دنوں کو ایام البیض سے موسوم کیا گیا۔[4]
ماہ رجب میں ایام البیض کے اعمال
ان ایام کا اہم ترین عمل روزہ رکھنا ہے۔ جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی سنت قبل از اسلام بھی رائج تھی[5][6] رسول اللہؐ نے لوگوں کو روزے اور عبادات کی ترغیب دلاتے ہوئے ان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے ماہانہ روزے ایام البیض میں رکھا کریں۔[7] بعض مفسرین نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 125 سے استناد کرتے ہوئے اعتکاف اور ایام البیض کے روزوں کو ابراہیمی اعمال قرار دیا ہے۔ جہاں ارشاد ہوتا ہے: "اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا، طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے۔[8] جو روایات ایام البیض کے روزوں کے استحباب کو ظاہر کرتی ہیں، متعدد نیز مختلف قسم کے مضامین پر مشتمل ہیں؛ بعض روایات صرف تیرہویں تاریخ کے روزے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں۔ [9] بعض دیگر روایات میں بیان ہوا ہے کہ سنت نبوی کے مطابق تمام قمری مہینوں میں تین روزے رکھنا مستحب ہے۔[10] لگتا ہے کہ باوجود اس کے کہ، ہر ماہ کے تین روزوں کے استحباب میں کوئی اختلاف نہیں،[11] تاہم ان تین ایام کے مصداق میں اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر امام صادق(ع) کی ایک حدیث کے مطابق یہ تین دن "پہلے عشرے کی جمعرات، دوسرے عشرے کا بدھ اور تیسرے عشرے کی جمعرات" ہیں۔[12] اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔[13] [14] [15]
روایات کے اختلاف کے نتیجے میں، ایام بیض کے روزے کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اور ان کے معارض روایات کے انتخاب کے سلسلے میں فقہاء کے اجتہادات کا سلسلہ کافی طویل ہوا ہے۔[16][17][18][19] اہل سنت کے فقہاء کے درمیان بھی اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[20]
ایام البیض کے اعمال | |
تیرہویں کی رات |
|
تیرہویں کا دن |
|
پندرہویں کی رات |
اَللهُ اَللهُ رَبّی لااُشْرِک بِهِ شَیئا وَلا اَتَّخِذُ مِنْ دُونِه وَلِیاً" |
پندرہویں کا دن |
|
ماہ رجب کے ایام بیض کی اہمیت
شیعوں کے نزدیک ماہ رجب اور دوسرے مرتبے میں ماہ شعبان اور ماہ رمضان کے ایام بیض خاص اہمیت کے حامل ہیں۔[21] ایران میں ماہ رجب کے ان ایام میں اعتکاف کی سنت رائج ہے۔
ماہ رمضان میں ایام البیض کے اعمال
ماہ رمضان کے ایام بیض میں دعائے مجیر پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[22] روایات کے مطابق جو شخص ماہ رمضان کے تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں دن اس دعا کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ اس کے گناہ درختوں کے پتوں اور صحرا کی ریت کی مقدار میں کیوں نہ ہوں۔ یہ دعا مریضوں کی شفا، قرض کی ادائیگی، بے نیازی و توانگری اور رفع بلا و آفات کے لیے مجرب و مفید ہے۔[23]
حوالہ جات
- ↑ شہید ثانی، مسالك الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، ج2، ص76۔
- ↑ نک: فراء، الایام و اللیالی و الشهور، ص58، ابن منظور، لسان العرب، ذیل بیض، ابن کثیر، ج3، ص573۔
- ↑ ابن منظور، ذیل وضح، نیز غرر۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، ترجمہ ذہنی تہرانی، ج2، ص235۔
- ↑ ابویوسف، الآثار، ص238۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سیوطی، شرح سنن نسائی، ج4، صص222-223۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج7، ص43۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج1، ص447، جمعی از نویسندگان، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص 355۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص43۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سیوطی، شرح سنن نسائی، ج4، صص220-223۔
- ↑ ابن قدامہ، المغنی، ج4، ص455-456۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج2، ص84۔
- ↑ احمدبن حنبل، المسند، ج5، ص27-28، 150-152۔
- ↑ فاکہی، اخبار مکہ، ج1، ص424۔
- ↑ رازی، الفوائد، ج1، ص285۔
- ↑ ابن بابویہ، علل الشرائع، ج2، ص81۔
- ↑ طوسی، تہذیب الاحکام، ج4، ص296۔
- ↑ طوسی، النہایۃ، صص168-169۔
- ↑ ابن طاووس، الدروع، ص66۔
- ↑ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ج1، ص556۔
- ↑ : ملکی تبریزی، ص62،قمی، صص201-202،برای آگاهی از برخی مناسک آن، نک: ابن طاووس، اقبال...، صص281، 287،مجلسی، بحارالانوار، ج59، ص399۔
- ↑ کفعمی، بلدالامین، ۱۴۱۸ھ، ص۴۹۸-۴۹۵.
- ↑ ملاحظہ کریں: کفعمی، المصباح، ۱۴۱۴ھ، ص۳۵۸.
مآخذ
- ابن ابی عاصم، احمد، الزہد، عبدالعلی عبدالحمید حامد کی کوشش، قاہره، 1408ھ۔
- ابن بابویہ، محمد، العلل، بیروت، مؤسسة الاعلمی.
- ابن بطوطه، رحلۃ، علی منتصر کتانی کی کوشش، بیروت، 1405ھ۔
- ابن جوزی، عبدالرحمان، زادالمسیر، بیروت، 1404ھ۔
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبریٰ، احسان عباس کی کوشش، بیروت، دارصادر.
- ابن طاؤس، علی، اقبال الاعمال، جواد قیومی اصفہانی کی کوشش، قم، 1414ھ۔
- ہمو، الدروع الواقیۃ، قم، 1414ھ۔
- ابن عربی، محیی الدین، الفتوحات المکیۃ، بولاق، 1293ھ۔
- ابن قدامۃ، موفق الدين، المغني، المحقق: عبد الله بن عبد المحسن التركي - عبد الفتاح الحلو، دار عالم الكتب، 1417ھ/ 1997ع۔
- ابن کثیر، تفسیر، بیروت، 1401ھ۔
- ابن كثير الدمشقي، إسماعيل بن عمر، تفسير القرآن العظيم (تفسير ابن كثير)، محمد حسین شمس الدین، دار الکتب العلمیہ ـ بیروت ـ لبنان. الطبعۃ الاولی 1419ھ/ 1998ع۔
- ابن ماجہ، محمد، السنن، محمد فؤادعبدالباقی کی کوشش، قاہره، 1373ھ/1954ع۔
- ابن منظور، محمد بن مكرم الافريقى المصرى، لسان العرب۔
- أبو يوسف، يعقوب بن إبراہيم الأنصاري، كتاب الآثار (ط. العثمانية)، المحقق: أبو الوفا الأفغاني، لجنة إحياء المعارف العثمانيۃ - حيدر آباد، سنۃ النشر: 1355ھ۔
- احمدبن حنبل، المسند، بیروت، دارصادر؛ بخاری، محمد، صحیح، ہمراه با شرح کرمانی، بیروت، دارالفکر.
- ثعلبی، احمد، قصص الانبیاء، بیروت، المکتبۃ الثقافیہ.
- جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، بیروت، 1406ھ/1986ع۔
- جمعی از نویسندگان، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مر کز دائرة المعارف بزرگ اسلامی۔
- دارمی، عبدالله، السنن، مصطفیٰ دیب البغا کی کوشش، دمشق، 1412ھ۔
- ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، شعیب ارنؤوط و محمد نعیم عرقسوسی کی کوشش، بیروت، 1413ھ۔
- رازی، تمام، الفوائد، حمدی عبدالمجید سلفی کی کوشش، ریاض، 1412ھ۔
- سخاوی، محمد، التحفۃاللطیفۃ، بیروت، 1993ع۔
- الشہيد الثاني، زين الدين بن علي العاملي، مسالك الافہام إلى تنقيح شرائع الاسلام، تحقيق ونشر مؤسسۃ المعارف الاسلاميۃ، قم الطبعۃ: الأولى 1413ھ۔
- شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، 1404ھ.
- طوسی، محمد، تہذیب الاحکام، حسن موسوی خرسان کی کوشش، تہران، 1364ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد، النہایة، بیروت، 1390ھ۔
- فاکہی، محمد، اخبار مکۃ،عبدالملک عبدالله دهیش کی کوشش، بیروت، 1414ھ۔
- فراء، یحییٰ، الایام و اللیالی و الشہور، ابراهیم ابیاری کی کوشش، قاہره/بیروت، 1400ھ۔
- قمی، عباس، مفاتیح الجنان، بیروت، 1412ھ۔
- کفعمی، بلدالامین، ۱۴۱۸ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ/1983ع۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
- ملکی تبریزی، جواد، المراقبات، بیروت، 1407ھ۔
- النسائي، السيوطي، السندي، سنن النسائي بشرح السيوطي وحاشيۃ السندي، المحقق: مكتب التراث الإسلامي، دار المعرفۃ- بيروت، 1420ھ۔
- نسایی، احمد، سنن، عبدالفتاح ابوغده کی کوشش، حلب، مکتبۃالمطبوعات الاسلامیہ.
بیرونی روابط
- مضمون کا ماخذ: دانشنامۂ بزرگ اسلامی