حضرت عباس علیہ السلام

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(عباس بن علی‌ؑ سے رجوع مکرر)
عباس بن علی بن ابی طالبؑ
کربلا میں امام حسین کی فوج کا علمدار
کربلا میں حرم حضرت عباس کا گنبد
نامعباس بن علی بن ابی طالبؑ
وجہ شہرتامام زادہ، شہید کربلا، واقعۂ کربلا میں علمدار امام حسینؑ
کنیتابو الفضل، ابو القاسم
لقبقمر بنی ہاشم، باب الحوائج، علمدار، سقا، طیار، شہید، عبد صالح
تاریخ پیدائش4 شعبان سنہ 26 ہجری
جائے پیدائشمدینہ
شہادتسنہ 61 ہجری
مدفنکربلا
سکونتمدینہ اور کوفہ
والدحضرت علیؑ
والدہام البنین
شریک حیاتلبابہ بنت عبید اللہ بن عباس
اولادفضل، عبید اللہ
عمر34 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


عباس بن علی ابن ابی طالب (61۔26 ھ) ابو الفضل اور علمدار کربلا کے نام سے مشہور، امام علیؑ کے پانچویں اور ام البنین کے بڑے صاحب زادے ہیں۔ آپ کی زندگی کا سب سے اہم حصہ واقعہ کربلا اور روز عاشورا کربلا میں شہید ہونا ہے۔ سنہ 61 ہجری سے پہلے کی زندگی کے بارے میں جنگ صفین کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔

آپ کربلا میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمدار تھے۔ آپ نے واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے ساتھیوں کے لئے فرات سے پانی لائے۔ آپ اور آپ کے بھائیوں نے عبیداللہ بن زیاد کے امان نامہ کو ٹھکرایا اور امام حسینؑ کی فوج میں رہ کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ بعض مقاتل کی کتابوں نے لکھا ہے کہ آپ کے دونوں بازو جدا ہوئے تھے اور سر پر گرز لگا تھا اور ایسی حالت میں شہید ہوئے۔ بعض نے آپ کی لاش پر امام حسینؑ کا گریہ کرنا بھی نقل کیا ہے۔

بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کا قد لمبا اور صورت کے اعتبار سے حسین تھے شیعہ ائمہ نے بہشت میں آپ کا عظیم مقام بیان کیا ہے اور بہت ساری کرامات بھی بیان کی ہیں جن میں سے ایک حاجت روائی ہے۔ یہاں تک کہ غیر شیعہ اور غیر مسلمان کی بھی جاجت روائی کرتے ہیں۔

شیعوں کے نزدیک ائمہؑ کی اولاد میں حضرت عباس بن علی کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور انھیں باب الحوائج سے جانتے ہیں اور ان سے متوسل ہوتے ہیں۔ امام حسینؑ کے حرم کے قریب حضرت عباس کا حرم شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک اہم زیارتگاہ ہے۔ شیعہ آپ کو سقائے کربلا کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کی بنا پر شیعہ حضرات بعض جگہوں پر نو (9) محرم اور بعض جگہوں پر آٹھ (8) محرم کو ان کی یاد میں عزاداری کرتے ہیں جبکہ ایران میں محرم کا نواں دن (تاسوعا) آپ سے مخصوص قرار دیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباسؑ کی عزاداری کرتے ہیں۔

تحقیقی مآخذ کا فقدان

بعض محققین کا کہنا ہے کہ عباسؑ کی واقعہ کربلا سے پہلے کی زندگی کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ملتا اسی وجہ سے ان کی زندگی اور ولادت کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔[1] آپ کے بارے میں لکھی جانے والی اکثر کتابیں 14 اور 15 صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں بطل العلقمی کے مصنف عبدالواحد مظفر نے 1310 ھ میں وفات پائی، قمر بنی ہاشم العباس کے مصنف موسوی مُقَرَّم نے 1391ھ میں وفات پائی، حیاۃ ابی‌ الفضل العباس کے مصنف نے 1380 ش میں وفات پائی اور چہرہ درخشان قمر بنی‌ ہاشم کے مصنف ربانی خلخالی نے 1379 ش میں وفات پائی اور حضرت عباس کے بارے میں سب سے زیادہ اطلاعات ان ہی کتابوں میں جمع کی گئی ہیں۔

نام و نسب

عباس بن علی بن ابی‌طالب کی سب سے مشہور کنیت ابوالفضل ہے۔ آپ امام علیؑ کے پانچویں بیٹے اور ام البنین (فاطمہ بنت حزام) کے ساتھ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔[2]

والدہ

حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب[3].

امام علیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایسی ہمسر تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں فاطمہ بنت حزام کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا[4]منقول ہے کہ شب عاشورا جب زہیر بن قین کو پتہ چلا کہ شمر نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند امیرالمومنینؑ، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر بیٹا پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو کربلا میں حسینؑ کا مددگار بنے۔[5] اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو اسرار الشہادۃ نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔[6]

کنیت

  • «ابوالفضل» حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔[7]بعض نے کہا ہے کہ بنی ہاشم کی خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابو الفضل کہا جاتا تھا اسی لیے عباسؑ کو بچپن میں بھی ابو الفضل سے پکارا جاتا تھا۔[8] جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انھیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔[9] اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو ابو فاضل اور ابو فضائل بھی کہا جاتا ہے۔
  • «ابوالقاسم»: آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابو القاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت زیارت اربعین میں بھی ذکر ہوئی ہے۔[10] جہاں جابر انصاری آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند علیؑ۔[11]
  • ابوالقِربَة قربہ کا معنا پانی کی مشک ہے۔[12]. بعض معتقد ہیں کہ واقعہ کربلا میں چند مرتبہ پانی لانے کی وجہ سے آپکو اس کنیت سے پکارا جاتا ہے۔[13]
  • ابوالفَرجَة فرجہ، غم دور کرنے اور راہ حل دینے کے معنی میں ہے۔[14] بعض کا کہنا ہے کہ یہ لفظ کنیت کی شکل میں ایک لقب ہے کیونکہ آپکا «فرجہ» نامی کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ عباسؑ ہر اس شخص کے کام کو حل کرتے ہیں جو ان سے متوسل ہوتے ہیں۔[15]

القاب

عباسؑ کے لیے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جدید ہیں جنہیں لوگوں نے آپ کی صفات اور فضیلتوں کی بنیاد پر آپ سے منسوب کیا ہے۔[16]آپ کے بعض القاب مندرجہ ذیل ہیں:

  • قمر بنی‏ ہاشم [17] حضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا اسی بنا پر آپ کو قمر بن ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔[18]
  • باب الحوائج [19] حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ بہت سارے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کہ اگر حضرت عباس سے متوسل ہوجائیں تو ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔[20]
  • سقّا یہ لقب مورخین اور نسب شناسوں کے درمیان مشہور ہے[21] آپ نے کربلا میں تین مرتبہ اہل حرم اور امام حسینؑ کے خیموں تک پانی پہنچایا۔[22]
  • الشہید[23]شہادت ابوالفضلؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے جو آپ کی حیات مبارکہ کے افق پر چمک رہا ہے اور آپ کے اس لقب کی بنیاد آپ کی شہادت ہی ہے۔
  • پرچمدار اور علمدار[24]حضرت عباس کے مشہور القاب میں علمدار (حامل اللواء) شامل ہے؛ حضرت عباسؑ روز عاشور اہم ترین اور قابل قدر ترین پرچم کے حامل تھے جو سیدالشہداء امام حسینؑ کا پرچم تھا۔[25]
  • طیار [26] یہ لقب عالم قدس اور بہشت جاویدان کی فضاؤں میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی شان و مرتبت کو نمایاں کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "عباس کے ہاتھ حسینؑ کی حمایت میں قلم ہونگے اور پروردگار متعال اس کو دو شہ پر عطا فرمائے گا اور وہ اپنے چچا جعفر طیار کی مانند جنت میں پرواز کرے گا۔ [27]
  • عبد صالح [28] یہ وہ لقب ہے جس کی طرف امام صادقؑ نے بھی آپ کے زیارتنامے میں اشارہ فرمایا ہے۔ : اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار..."۔ [29]
  • کبش الکتیبہ: وہ لقب ہے جو سپہ سالاری کے زمرے میں اعلی ترین رتبے کے حامل سپہ سالار کو دیا جاتا ہے جس کی بنیاد حُسنِ تدبیر اور شجاعت و دلاوری نیز ماتحت افواج کو محفوظ رکھنے جیسے اوصاف ہوتے ہیں۔[30]
  • سپہ سالار: آپ روز عاشور بھائی کی لشکر کے اعلی ترین سپہ سالار تھے اور سپاہ حسینؑ کے عسکری قائد تھے؛ چنانچہ آپ کو یہ لقب عطا ہوا ہے۔[31]

حالات زندگی

حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کا گنبد اور مینار

بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ کی واقعہ کربلا سے پہلے کی زندگی کے بارے جنگ صفین کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔[32]

ولادت

حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔[33] یہ اختلافات امام علیؑ کی شہادت کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔[34] جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور نابالغی کا دور قرار دیا ہے۔[35]

مشہور قول کے مطابق آپ ۲۶ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[36] اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو 4 شعبان قرار دیا ہے۔[37] روایات کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو امام علیؑ نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں اذان اور اقامت پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگے تو ام البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو حسینؑ کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور اللہ تعالی ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے آخرت میں دو پر عطا کرے گا۔[38] عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔[39]

ازواج اور اولاد

عباسؑ، لبابہ بنت عبید اللہ بن عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ 40 سے 45 ہجری قمری کے درمیان رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے[40] بعض مآخذ میں آپ کے والد کا نام عبیداللہ[41] اور بعض نے عبدالله[42] ذکر کیا ہے۔ تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن حبیب بغدادی نے عباسؑ کی ہمسر لبابہ کو عبیداللہ کی بیٹی جانا ہے اور لبابہ بنت عبداللہ کو علی بن عبداللہ جعفر کی بیوی لکھا ہے۔[43] لبابہ سے دو بیٹے فضل اور عبید اللہ پیدا ہوئے۔[44] حضرت عباس کی شہادت کے بعد شروع میں ولید بن عتبہ سے شادی کی اور اس کے بعد زید بن حسن کے عقد میں آگئی۔[45] آپ کے بیٹے عبیداللہ نے امام سجاد کی بیٹی سے شادی کی۔[46] بعض مولفین نے حسن، قاسم، محمد نام کے بیٹے اور ایک بیٹی کا نام ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ قاسم اور محمد روز عاشورا اپنے والد کی شہادت کے بعد شہید ہوئے ہیں۔[47]

بہر صورت حضرت عباسؑ کی نسل عبید اللہ اور ان کے بیٹے حسن سے چلی۔ حضرت عباس کے بیٹے مشہور علویوں میں سے تھے اور ان میں سے بہت سارے عالم، شاعر، قاضی اور حاکم تھے۔[48] مثلا حسن کا ایک بیٹے عبیداللہ اور ان کے بیٹے عبداللہ مدینہ اور مکہ میں قاضی تھے۔[49] حضرت عباس کی نسل افریقہ اور ایران تک پھیل گئی ہے۔[50] بعض کا کہنا ہے کہ ظالم حکومتوں کے ظلم کی وجہ سے حضرت عباس کی نسل نے مختلف جگہوں کی طرف ہجرت کی اور اسی وجہ سے یہ نسل پھیل گئی۔[51]

جنگ صفین

بعض کتابوں کے مطابق صفین میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے مالک اشتر کی سپہ سالاری میں فرات پر حملہ کیا اور امام علیؑ کی فوج کیلئے پانی کا بندوبست کیا۔[52]جنگ صفین میں شام کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔[53] شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔[54] آپ کی جنگ صفین کے بعد سے واقعہ کربلا تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔

اردوبادی کے بقول حضرت علیؑ کی امام حسین کے بارے میں کی جانے والی وصیت کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملا ہے۔[55]

واقعہ کربلا

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو قیام امام حسینؑ کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔[56]اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔[57]

مکہ میں خطبہ دینا

چند سال پہلے چھپنے والی کتاب خطیب کعبہ کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔[58]وہ اس خطبے کو مناقب سادۃ ‎الکرام نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔[59]اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں امام حسینؑ کے مقام و عظمت بیان کرتے ہوئے یزید کو ایک شرابخوار شخص بیان کیا اور اس کی بیعت کرنے پر لوگوں کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جب تک وہ زندہ ہیں کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انھیں قتل کرنا ہے۔[60] یہ خطبہ تاریخ و حدیث کے مصادر اولیہ میں نہیں پایا گیا۔ نیز جویا جہان‌ بخش نے اس خطبے کا ادبی اعتبار سے نقد کیا اور اس کتاب (مناقب سادۃ الکرام) کے مصنف اور اصل کتاب کو مجہول الحال قرار دبتے ہوئے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔[61]

سقائے دشت کربلا

7 محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے عمر سعد کو حکم دیا کہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو امامؑ نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ آپ کے حوالے کیا اور ہدایت دی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے ساحل فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کے لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔[62]

امان نامے کو ٹھکرانا

تاریخی گزارشات کے مطابق کربلا میں حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے لیے دو آدمیوں نے امان نامہ بھیجا لیکن جناب عباس اور ان کے بھائیوں نے انھیں ٹھکرادیا:

پہلا امان نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے کر آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والدہ ام البنین کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں ان کے پاس بھیجا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم اللہ کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔[63]
دوسرا امان نامہ شمر بن ذی الجوشن نے ظہر عاشورا عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے پیش کیا اور پھوپھی کے بیٹے کہتے ہوئے آواز دی لیکن جواب نہیں ملا۔ امام حسینؑ نے عباس سے فرمایا اگرچہ شمر فاسق ہے لیکن اس کا جواب دو۔
شمر نے امان نامہ پیش کیا لیکن اسے یزید کی اطاعت اور تسلیم ہونے کے ساتھ مشروط کیا۔ حضرت عباس نے وہ اور اس کے امان نامے پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: «اے دشمن خدا! موت ہو تم پر! ہمیں کفر کی اور مجھے بھائی حسینؑ کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو۔»[64]

بھائیوں کی شہادت

تاریخی گزارشات کے مطابق امام علیؑ کی ام‌ البنین سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل «عباس»، ابو عبداللہ «جعفر»، ابو محمد «عبداللہ» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔[65] عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبداللہ 25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔[66]

ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔[67]بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔[68] اس کے برخلاف طبرسی اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔[69] اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔[70]

روز عاشورا رجزخوانی

واقعہ کربلا میں حضرت عباسؑ کے مختلف رجز نقل ہوئے ہیں:[71]

أقسمت باللّہ الأعز الأعظمو بالحجور صادقا و زمزم
و ذو الحطيم و الفنا المحرمليخضبنّ‌ اليوم جسمي بالدم
ذاك حسين ذو الفخار الأقدمأمام ذي الفضل و ذي التكرّم[72]
و اللہ ان قطعتم یمینیانی احامی ابدا عنی دینی
عن امام صادق الیقیننجل النبی الطاہر الامین[73]

شہادت

حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ 7 محرم، 9 محرم اور دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر 10 محرم کو شہید ہوئے ہیں۔[74]

مورخین نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:[75]بہت ساری کتابوں کے نقل کے مطابق عباسؑ اصحاب اور بنی‌ ہاشم کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے[76]ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے عمر‌بن سعد کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گئے۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھرا اور منہ کے قریب کیا پھر زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کرکے فرات سے باہر آئے۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلے تو زید بن ورقاء جہنی نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے حکیم بن طفیل طائی سنبسی نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا[77] بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔[78]

فضائل اور خصوصیات

بعض نے حضرت عباس کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو قرار دیا ہے۔[79] اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ عباسؑ نے ان سے علم کا فیض حاصل کیا ہے۔[80] بعض معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ چہادہ معصوم کے درجے میں نہیں ہیں لیکن آپ معصومین کے ساتھ سب سے زیادہ نزدیک شخص ہیں اور انسانیت میں معصومین کے بعد مرتبے کے لوگوں میں سے ہیں۔[81]

عباسؑ کی زندگی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے بھائی امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھا اور ہمیشہ ان کو اپنا امام سمجھتے تھے اور خود ان کا مطیع اور فرماں بردار تھے۔[82] اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کو «یابن رسول اللہ» یا «یا سیدی» اور اس جیسے دیگر الفاظ کے ذریعے پکارتے تھے۔ [83]

ظاہری خصوصیات

کلباسی نے اپنی کتاب «خصائص العباسیہ»میں لکھا ہے کہ حضرت عباسؑ حَسین و خوبرو تھےاور اسی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا[84] تاریخی گزارشوں کے مطابق آپ بنی ہاشم کے خاص مردوں میں سے شمار ہوتے تھے اور آپ کا بدن مضبوط، لمبے قد کے تھے اس حد تک کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاوں زمین تک پہنچ جاتے تھے۔[85] کلباسی کے مطابق ایک اور خصوصیت حضرت عباسؑ کی جس کی دوست اور دشمن سب نے تعریف کی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے وہ آپ کی شجاعت ہے۔[86]بعض نے حضرت عباسؑ کے جود و کرم کو بھی بیان کیا ہے جو ہر عام خاص کے لیے پسند تھی اور اس صفت میں آپ لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے تھے۔[87]

عباس کے مقام پر شہداء کا رشک

عباسؑ کو روز عاشورا امام حسینؑ کے بزرگترین اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔[88]آپ واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی فوج کے علمدار تھے۔[89]امام حسینؑ نے حضرت عباس کے بارے میں «میری جان آپ پر فدا میرے بھائی» کا جملہ آپ کے بارے میں کہا[90]اور اسی طرح آپ کی جسد پر روئے ہیں[91] بعض ان کلمات اور حرکات کو شیعوں کے تیسرے امام کے ہاں آپ کی عظمت اور اعلی مرتبے کی علامت سمجھتے ہیں۔ بہشت میں حضرت عباس کے مقام کے بارے میں احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور امام سجادؑ نے جب حضرت عباس کے بیٹے عبیداللہ کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جارے ہوئے اور فرمایا"بےشک خدا کی بارگاہ میں عباسؑ کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرتے ہیں [اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں]۔[92]بعض نے نقل کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد بنی اسد نے امام سجادؑ کے ساتھ شہدائے کربلا کی تمام لاشوں کو دفنایا لیکن صرف امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی لاشوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان دو شہیدوں کو دفن کرنے کے لیے میری کچھ اور لوگ مدد کرینگے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔[93]

امام صادقؑ سے منقول ہے کہ ہمارے چچا عباس بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کا حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کرنے والا۔ اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ہمارے چچا عباس، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے اور امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔[94]آپ سے ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے: « اللہ رحمت کرے میرے چچا عباس بن علیؑ پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی (امام حسینؑ) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چنانچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انھیں دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں»۔[95]

بعض کا کہنا ہے کہ زیارت ناحیہ مقدسہ میں آپ کے بارے میں جو کلمات موجود ہیں وہ امام زمانہ کی نظر میں آپ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔[96]

زیارت‌ نامے

«پژوہشی در سیرہ و سیمای عباس بن علی» نامی کتاب اور بعض دیگر کتابوں کے مطابق حضرت عباس کے لیے 11 زیارت نامے ذکر ہوئے ہیں۔[97]البتہ ان میں سے بعض زیارت نامے باقی زیارت ناموں کو خلاصہ کر کے لکھا ہے۔[98] ان میں سے تین زیارت امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[99]اور بعض کا کسی معصوم سے نقل ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔[100]

ان زیارت ناموں میں سے بعض میں آپ کی تعریف و تمجید کے کلمات آئے ہیں جیسے عبد صالح، پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کا مطیع اور ان کی تصدیق کرنے والا اور وفادار نیز اللہ، رسولؐ اور ائمہ کا مطبع قرار دیا ہے۔ اور بدریوں اور مجاہدوں کی طرح اللہ کی راہ میں کام کیا ہے۔[101]

کرامات

حضرت عباسؑ کی بہت ساری کرامات شیعوں کے ہاں مشہور ہیں اور آپ سے متوسل ہوکر بیماروں کی شفایابی اور دیگر مشکلات حل ہونے کے بارے میں متعدد واقعات لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ "در کنار علقمہ کرامات العباسیہ" نامی کتاب میں آپ کی کرامات کے بارے میں 72 قصے جمع کیا ہے۔[102] ربانی خلخالی نے بھی کتاب «چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم» میں حضرت عباسؑ کی تقریبا 800 کرامات جمع کیا ہے۔ انھوں نے کتاب کی ہر جلد میں 250 واقعات نقل کی ہے۔ (البتہ ان میں سے بعض واقعات مکرر نقل ہوئی ہیں۔) ان واقعات کے درمیان بعض واقعات شیعوں کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں جیسے اہل سنت، مسیحی، کلیمی اور زرتشتیوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں[103]ان کرامات میں سے بعض کرامات مختلف لوگوں کا آپ سے متوسل ہونے اور برجستہ علماء کرام کا متوسل ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔[104]

شیعہ ثقافت اور عباسؑ

بعض کا کہنا ہے کہ شیعہ عشق و محبت کے حوالے سے جناب عباسؑ کے ساتھ ایک خاص عقیدت رکھتے ہیں اور 14 معصومینؑ کے بعد ان کے لیے ایک عظیم مقام کے قائل ہیں۔[105]اسی وجہ سے شیعہ ثقافت اور تہذیب میں انکو بڑا مقام حاصل ہے۔

آپ سے توسل

بعض کا کہنا ہے کہ حضرتؑ عباس کے ساتھ شیعوں کی شدید محبت اور عشق واضح ہے اور اسی وجہ اکثر لوگ اپنی حاجات پوری ہونے کے لیے ائمہؑ سے بھی زیادہ عباسؑ سے متوسل ہوتے ہیں۔.[106] بعض نے آپؑ کی اہل سنت، مسیحی، کلیمی اور ارمنی لوگوں کو ہونے والی بعض کرامات بیان کر کے یہ دعوا کرتے ہیں کہ وہ لوگ بھی آپ سے متوسل ہوتے ہیں۔[107]

آپ سے منسوب عزاداری

محرم الحرام کے ابتدائی دس دنوں میں جہاں عزاداری ہوتی ہے ان میں سے ایک دن آپؑ کی عزاداری سے خاص ہے۔ اکثر جگہوں پر نو محرم کو روز تاسوعا کے عنوان سے حضرت عباس کے لیے عزاداری کے ساتھ مختص کرتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے بعض علاقوں میں آٹھ محرم الحرام کا دن آپ کے ساتھ خاص ہے۔ [108]

  • یوم العباس زنجان: ہر سال آٹھ محرم کے عصر کو بہت سارے عزادار حسینیہ اعظم زنجان سے امامزادہ سید ابراہیم تک ایران کے شہر زنجان میں جمع ہوتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کو 9700 دنبے اور 2015ء کو 12000 دنبے ذبح ہوگئے جنہیں لوگوں نے نذر کیا تھا بعض کا ادعا ہے کہ اس عزاداری میں تقریبا 5 لاکھ لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ عزاداری ایرانی ایک معنوی میراث کے نام سے ثبت ہوچکی ہے۔ [109]

کاشف الکرب کا ذکر

«یا کاشفَ الکَرْبِ عنْ وَجهِ الْحُسَین اِکْشِفْ کَرْبی بِحَقِّ أَخیکَ الحُسَین» کا ذکر حضرت عباس سے متوسل ہونے کے لیے مشہور ذکر ہے اور بعض دفعہ اس ذکر کو 133 مرتبہ پڑھنے کی تجویز دی جاتی ہے۔[110] یہ ذکر حدیث کی شیعہ کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے۔

دیگر رسومات

  1. علم نکالنا: امام حسین کی عزاداری میں جناب عباس کی یاد میں علم نکالا جاتا ہے۔[111]
  2. سقایی: جسے اردو میں سبیل کہا جاتا ہے اور عزاداری کے ایام میں جلوس میں آنے والوں کو پانی اور شربت سے سیراب کیا جاتا ہے۔[112] اور سبیلیں لگانا ان ممالک میں رائج ہے جہاں شیعہ بستے ہیں اور عزاداری برپا کرتے ہیں۔[113]
  1. حضرت عباس کی قسم کھانا: عباس کے نام کھانا شیعہ اور بعض اہل سنت کے ہاں بھی مرسوم ہے یہاں تک کہ بعض نے نقل کیا ہے کہ بعض شیعہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے حضرت عباس کی قسم کھاتے ہیں۔ اور بعض شیعہ اپنی قرارداد، عہد و پیمان کو حضرت عباسؑ کی قسم سے تضمین کرتے ہیں۔ بعض نے آپ کے نام قسم کھانے کی وجہ آپؑ کی شجاعت، وفاداری، غیرت، ادب اور جوانمردی بیان کیا ہے۔[114] البتہ آپ کے نام قسم کھانا عراق کے بعض اہل سنت کے ہاں بھی بہت رائج ہے، کہا جاتا ہے کہ حردان تکریتی سابق وزیر دفاع عراق سے نقل کیا ہے کہ احمد حسن البکر (عراق کا سابق صدر)، صدام اور بعض دیگر لوگ ایک عہد باندھنا چاہتے تھے اور اس عہد و پیمان کو مضبوط کرنے اور خیانت سے بچنے کے لیے قسم کھانے کو کہا۔ اور قسم کھانے کے لیے بعض نے ابو حنیفہ کے محل دفن کی تجویز دی لیکن آخر کار قسم کھانے حضرت عباس کے حرم جاکر وہاں قسم کھانا طے ہوا۔[115]
  1. نذر عباس: نذر عباس اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام دیا جاتا ہے جس میں بعض جگہوں پر مخصوص ذکر بھی پڑھتے ہیں۔[116]
  1. عباسیہ یا بیت العباس: اس مکان کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام پر بنایا جاتا ہے اور وہاں عزاداری کی جاتی ہے۔ اور یہ جگہے امام بارگاہ اور حسینیہ کی طرح عزاداری سے مخصوص ہیں۔[117]
  1. روز جانباز: یا (غازیوں کا دن) ایرانی کلینڈر میں سوم شعبان روز ولادت حضرت عباسؑ کو غازیوں اور جنگی زخمیوں کا دن کا نام دیا ہے۔[118]
  1. پنجہ: بعض شیعہ علاقوں میں پنجہ کو علم کے اوپر رکھا جاتا ہے جو حضرت عباسؑ کے کٹے ہوئے ہاتھوں کی نشانی ہے لیکن چونکہ پنجے میں پانچ انگلیاں ہیں تو بعض علاقوں میں اسے پنجتن پاک کی علامت سمجھتے ہیں۔[119]

آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں

ایران اور عراق میں بہت ساری جگہیں ہیں جو تاریخ میں لوگوں کے ہاں قابل احترام رہی ہیں اور نذر و نیاز کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہاں سے متوسل ہو جائیں اور نذر دیں تو حاجت پوری ہوتی ہے۔

حرم حضرت عباس

کربلا کے شہر میں حرم امام حسینؑ کے شمال مشرق میں 372 میٹر کے فاصلے پر حضرت عباس کا محل دفن ہے جو شیعوں کی اہم زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ اور ان دو حرموں کے درمیانی فاصلے کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔ [120]

بہت سارے مورخین کی نظر کے مطابق حضرت عباسؑ جو کہ نہر علقمہ کے کنارے شہید ہوئے تھے وہیں پر ہی دفن ہوئے ہیں۔ [121] کیونکہ امام حسینؑ نے دیگر شہدا کے برخلاف آپ کی محل شہادت سے نہیں اٹھایا گنج شہدا نہیں لے گیا۔

بعض مصنفین جیسے مقرم کا کہنا ہے کہ حضرت عباس کے بدن کو خیموں میں نہ لے جانے کی وجہ ان کی امام سے کی جانے والی درخواست یا عباسؑ کے بدن کو اٹھانے لیے امام کے بدن میں زخموں کی وجہ سے طاقت کا نہ ہونا نہیں تھی بلکہ امام چاہتے تھے کہ آپ کی الگ بارگاہ بنے اور ایک الگ حرم بنے۔[122] مقرم نے اپنی اس بات کے لیے کوئی مستند ذکر نہیں کیا ہے۔

مقام کف العباس

مقام کف‌العباس ان دو جگہوں کا نام ہے جہاں حضرت عباسؑ کے بازو بدن سے جدا ہوکر زمین پر گرپڑے۔ یہ دونوں مقام حضرت عباس کی حرم کے شمال مشرق اور جنوب مشرق میں بازار کی دو گلیوں کی ابتدا میں واقع ہیں۔ ان دونوں مقامات پر مختصر مکان بنا ہے جہاں زوار زیارت کرنے جاتے ہیں۔[123]

قدم‌گاہ‌، سقاخانہ و سقانفار

خلخالی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں جناب عباسؑ کے مختلف قدمگاہ ہیں جو آپ سے منسوب ہیں اور ہمیشہ لوگ وہاں نذر و نیاز کرتے ہیں اور اپنی حاجات لینے جاتے ہیں اور اللہ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ [124] ان قدمگاہوں میں ایران کے مختلف شہر جیسے سمنان، ہویزہ، بوشہر اور شیراز کے قدمگاہ شمار کئے جاتے ہیں۔ [125] خلخالی کا کہنا ہے کہ ایران کے شہر لار میں نظرگاہ پایا جاتا ہے جہاں پر وہاں کے اہل سنت باشندے ہر منگل کو اپنے گھروالوں کے ساتھ جاتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کی نیت سے نذر و نیاز دیتے ہیں۔ [126]

  • سقاخانہ:ایران کے بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور امام حسینؑو حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ [127] بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ [128]
  • سَقَّانِفار: یا ساقی‌ نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ مازندران میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے مسجد، امام بارگاہ اور حسینیہ کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار‌ حضرت عباسؑ سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انہیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔[129]

آپ سے منسوب تصویر

حضرت عباسؑ سے منسوب تصویر

بعض علاقوں میں کچھ ایسی تصاویر پائی جاتی ہیں جو عباس ابن علیؑ سے جانی جاتی ہیں۔بہت سارے امامبارگاہوں میں یہ تصاویر نظر آتی ہیں لیکن بہت سارے فقہا نے ان تصاویر کو آپ سے منسوب کرنے کو نہیں مانا ہے لیکن اس کے باوجود ان تصاویر کا ماتمی دستوں میں یا امام بارگاہوں میں نصب کرنا اگر کسی حرام کام میں پڑنے کا موجب نہ بنے اور بے احترامی بھی نہیں ہوتی ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود تاکید کی ہے کہ ایسی تصاویر کو ان جگہوں پر نصب نہ کیا جائے۔[130]

آخری سالوں میں دو فلمیں واقعہ عاشورا کی محوریت میں بنی «مختارنامہ» اور «رستاخیز»۔ مختارنامہ میں مراجع کی مخالفت کی وجہ سے آپ کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔[131]اور رستاخیز فیلم کی اصلاحات کے باوجود اب تک ریلیز ہونے کی اجازت حاصل نہیں کر سکی ہے۔[132]

کتابیات

حضرت عباسؑ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے فارسی زبان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. زندگانی قمر بنی ہاشم، ظہور عشق اعلی، حسین بدرالدین، تہران ، مہتاب، ۱۳۸۲ش.
  2. ساقی خوبان، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، محمد چقایی اراکی، قم، نشر مرتضی،۱۳۷۶ش.
  3. زندگانی حضرت ابوالفضل العباس علمدار کربلا، رضا دشتی، تہران ، موسسہ پازینہ، ۱۳۸۲ش.
  4. چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس، علی ربانی خلخالی، قم، مکتب الحسین، ۱۳۷۸ش.(۳جلد)
  5. ابوالقربہ، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل(ع)، مجید زجاجی مجرد کاشانی، تہران ، سبحان، ۱۳۷۹ش.
  6. عباس(ع) سپہ سالار کربلا، زندگینامہ، عباس شبگاہی شبستری، تہران، حروفیہ، ۱۳۸۱ش.

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸.
  2. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ قمی، نفس المہموم، ۱۳۷۶ش، ص۲۸۵.
  3. خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.
  4. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.
  5. الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاردوبادی، موسوعۃ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.
  6. الاردوبادی، موسوعۃ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.
  7. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲؛ ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۸۹.
  8. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.
  9. عمدۃ الطالب، ص‏280
  10. بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.
  11. مجلسی، بحارالانوار، ج 101، ص 330
  12. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۴۹۷.
  13. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۹۱؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۳؛ ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۳۵۸ق، ص۵۵؛بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳
  14. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۰۳۷.
  15. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.
  16. مراجعہ کریں: المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴- ۲۰؛ بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۵-۵۰؛ ہادی منش، «کنیہ‌ہا و لقب‌‌ہای حضرت عباس(ع)»، ص۱۰۶.
  17. ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص90/
  18. باقرشریف قرشى، زندگانى حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام، فارسی ترجمہ از سید حسن اسلامی۔
  19. العباس بن ‏علیؑ، ص 30
  20. بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۸؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۳۶-۳۷.
  21. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲-۴۱۳؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۷-۱۱۸
  22. طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۳۸.
  23. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۰۸-۱۰۹
  24. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، مطبعہ العلمیہ، ج۴، ص۱۰۸؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴۰عمدۃ الطالب، ص‏280۔
  25. باقرشریف قرشى، زندگانى حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام، فارسی ترجمہ از سید حسن اسلامی۔
  26. بطل العلقمی، ج 2، ص 108 -109
  27. قمر بنی ‏ہاشم، ص‏19/ مولد العباس بن‏ علیؑ، ص 60
  28. ابوالفرج الاصفہانی، وہی ماخذ، ص 124۔
  29. شیخ عباس قمی، مفاتيح الجنان، الْمَطْلَبُ الثّاني في زِيارَۃ الْعَبّاسِ بْن عَلىّ بْن اَبي طالِب(عليہم السلام)۔
  30. باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔
  31. باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔
  32. بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸
  33. الاردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.
  34. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰
  35. الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲
  36. زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹
  37. الاردو بادی، حیاۃ ابی‌ الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴
  38. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.
  39. دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰
  40. الزبیری، نسب قریش، ۱۹۵۳م، ج۱، ص۷۹؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۹۸.
  41. ملاحظہ کریں: بغدادی، المحبر، دار الاآفاق الجدیده، ص۴۴۱؛ تلمسانی، الجوہرہ، انصاریان، ص۵۹.
  42. ملاحظہ کریں: ابن صوفی، المجدی، ۱۴۲۲ق، ص۴۳۶.
  43. بغدادی، المحبر، دار الاآفاق الجدیده، ص۴۴۰-۴۴۱.
  44. ابن صوفی، المجدی، ۱۴۲۲ق، ص۴۳۶.
  45. بغدادی، المحبر، دار الاآفاق الجدیدہ، ص۴۴۱.
  46. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۴۲۹.
  47. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۳
  48. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.
  49. ہادی‌ منش، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»
  50. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸
  51. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۶
  52. حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.
  53. الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.
  54. الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.
  55. اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵
  56. شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.
  57. بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵
  58. یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.
  59. یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.
  60. یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.
  61. جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.
  62. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.
  63. الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳.
  64. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ۱۶۲؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۴.
  65. الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.
  66. الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.
  67. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۷۶.
  68. الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛ میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶.
  69. الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.
  70. الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.
  71. مراجعہ کریں:کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱-۱۸۸؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶-۱۱۲؛الاردوبادی،موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶.
  72. ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶.
  73. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵؛ کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷؛ الاردوبادی،موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۰.
  74. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.
  75. خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں: بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌ جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.
  76. اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴
  77. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.
  78. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳.
  79. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۱-۱۲؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۸؛ وہی حوالہ، ۱۲۳؛ وہی کتاب، ۲۰۳؛ الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۱۳۰
  80. زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۶۶.
  81. مراجعہ کریں: کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۳؛ بہشتی، قہرمان علقمہ،‌۱۳۷۴ش، ص۱۰۳؛ وہی کتاب، ۱۰۷.
  82. مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۹۷.
  83. مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۱-۷۳.
  84. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۹؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴
  85. طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴.
  86. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹.
  87. طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶.
  88. خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۹.
  89. مراجعہ کریں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.
  90. مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۰
  91. المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴.
  92. شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸
  93. بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۶۵.
  94. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. ابن عنبہ، عمدہ الطالب ۱۳۸۱ق، ص ۳۵۶.
  95. شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹.
  96. دیکھیں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.
  97. مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۱۸۱-۳۲۱
  98. مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۲۱
  99. مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۲، ۳۰۴، ۳۰۵
  100. مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۱۷
  101. رک:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۳
  102. مراجعہ کریں: محمودی، در کنار علقمہ، ۱۳۷۹ش
  103. مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.
  104. مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.
  105. بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۹.
  106. بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۹؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۳-۲۱۴.
  107. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۴
  108. حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۱۱۰-۱۱۱
  109. باشگاہ خبرنگاران جوان، ۱۳۹۶/۷/۷، خبر شمارہ ۶۲۵۸۱۱۷
  110. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ ہاشم، ج۲، ص۳۲۶
  111. حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۵۴-۳۵۶.
  112. حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۱-۲۸۳؛ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.
  113. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.
  114. میر دریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۱-۱۱۳.
  115. التكريتي، مذكرات حردان التكريتي،۱۹۷۱م، ص۵.
  116. حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۴-۲۷۵.
  117. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۳-۲۵۸.
  118. مصوب جلسہ ۳۸۵ شورای عالی انقلاب فرہنگی در تاریخ ۱۳۷۵/۷/۱۰.
  119. بلوکباشی، «مفاہیم و نمادگارہا در طریقت قادری»، ص۱۰۰.
  120. حرم حضرت ابوالفضلؑ
  121. زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵
  122. الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۲۶۲-۲۶۳؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵-۱۳۷
  123. علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ۱۳۹۱ش، ص۳۰۰
  124. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.
  125. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.
  126. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷.
  127. اطیابی، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.
  128. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱‍.
  129. حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.
  130. محمودی، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع، ۱۳۸۸ش، ۴، ص ۱۰۵-۱۰۷
  131. دقیقہ از "مختارنامہ" سانسور شد، سایت خبری فرارو.
  132. اظہارات احمدرضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا.

مآخذ

  • اظہارات احمد رضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ خبر: ۱۳۹۴/۰۴/۲۴، کد خبر: ۹۴۰۴۲۴۱۳۸۸۰، تاریخ بازدید:۱۳۹۶/۱۰/۰۴۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۶ھ۔
  • ابن اعثم الکوفی، احمد بن علی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱ء۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، النجف، مطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۷۶ھ۔
  • ابن طاووس، رضی‌ الدین علی بن موسی بن جعفر، اللہوف، قم، انتشارات الشریف الرضی، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن عنبہ، احمد، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ء۔
  • ابن قولویہ قمی، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، ترجمہ محمد جواد ذہنی تہرانی، تہران، انتشارات پیام حق، چاپ دوم، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • ابن‌ جوزی‌، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی، تذكرۃ الخواص، قم، الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
  • ابو مخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق ہادی یوسفی غروی، قم، مجمع جہانی اہل البیت، ۱۴۳۳ق-۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • ابو الفرج الاصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷ء۔
  • اطیابی، اعظم، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، مجلہ‌ی فرہنگ مردم، تابستان ۱۳۸۳-شمارہ ۱۰۔
  • الاورد بادی، محمد علی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، در موسوعۃ العلامۃ الاردوبادی، ج۷، دار الکفیل، کربلا، ۱۴۳۶ھ۔
  • البغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، بیروت، منشورات دار الآفاق الجدیدۃ، بی تا۔
  • التكريتي، عبد اللہ طاہر، مذكرات حردان التكريتي، بی جا، بی مکان۔
  • الحائری الشیرازی، سید عبد المجید، ذخیرہ الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین، نجف، مطبعۃ المرتضویۃ، ۱۳۴۵ھ۔
  • الخوارزمی، الموفق بن احمد، مقتل الحسین (ع)، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم، انوار الہدی، الاولی، ۱۴۱۸ھ۔
  • الدینوری، ابو حنیفہ احمد بن داوود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات رضی، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • الزبیری، المصعب بن عبداللہ بن المصعب، نسب قریش، دارالمعارف للطباعۃ والنشر، ۱۹۵۳ء۔
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ طبری)، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷ء۔
  • المظفر، عبد الواحد بن احمد، موسوعہ بطل العلقمی، نجف، مطبعہ الحیدریہ، ۱۴۲۹ھ۔
  • الموسوي المُقرّم، السيّد عبد الرزّاق، العبّاس (عليہ السلام)، تحقيق: سماحۃ الشيخ محمّد الحسّون، نجف، مكتبۃ الروضۃ العبّاسيّۃ، ۱۴۲۷ھ۔
  • الناصری، محمد علی، مولد العباس بن علی (ع)، قم، انتشارات شریف الرضی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ھ۔
  • باشگاہ خبرنگاران جوان
  • بغدادی، محمد، العباس بن علي (ع)، کربلا، العتبۃ الحسينيۃ المقدسۃ، ۱۴۳۳ھ۔
  • بلاذری، أحمد بن يحيى، جمل من انساب الأشراف، تحقيق سہيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى، ۱۴۱۷ق-۱۹۹۶ء۔
  • بلوکباشی، علی، «مفاہیم و نمادگارہا در طریقت قادری»، مردم‌ شناسی و فرہنگ عامہ ایران، تہران، ۱۳۵۶ش،
  • بہشتی، احمد، قہرمان علقمہ، تہران،‌ انتشارات اطلاعات، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • بیرجندی، محمد باقر، کبریت احمر، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • جہان‌ بخش، جویا، گنجی نویافتہ یا وہمی بربافتہ؟، در مجلہ آينہ پژوہش، شمارہ ۱۱۸، مہر و آبان ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • حائری مازندرانی، محمد مہدی، معالی السبطین، بیروت، موسسہ النعمان، ۱۴۱۲ق،
  • حسام مظاہری، محسن، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، خیمہ، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
  • خراسانی قاینی بیرجندی، محمد باقر، کبریت الاحمر (فی شرائط المنبر)، تہران، اسلامیہ، ۱۳۸۶ھ۔
  • دبیرخانہ شورای عالی انقلاب فرہنگی
  • دہخدا، علی اکبر، لغت‌ نامہ دہخدا، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • ربانی خلخالی، علی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابو الفضل العباس علیہ السلام، انتشارات مکتب الحسین علیہ السلام، قم، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • زجاجی کاشانی، مجید، سقای کربلا، تہران، نشر سبحان، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، یوسف بن حسام الدین، تذکرۃ الخواص، تحقیق حسین تقی زادہ، قم، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لاہل البیت، الطبعۃ الاولی، ۱۴۲۶ھ۔
  • شریف قرشی، باقر، زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، ترجمہ سید حسن اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، تحقیق علی اکبرغفاری، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، الناشر سعید بن جبیر، الاولی، ۱۴۲۸ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشادفی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ترجمہ حسن موسوی‌ مجاب، ‏قم، انتشارات سرور‏‫، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔‮‬‮‬
  • طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، موسسۃآل البیت لاحیا التراث، ۱۴۱۷ھ۔
  • طعمہ، سلمان ہادی، تاريخ مرقد الحسين و العباس، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١۴١۶ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسۃ الوفاء، ۱۴۰۳ھ۔
  • علوی، سید احمد، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم، نشر معروف، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ترجمہ ابوالحسن شعرانی، قم، ہجرت، چاپ سوم، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • کلباسی نجفی، محمد ابراہیم، الخصائص العباسیہ، المکتبۃ الحیدریۃ، قم، ۱۴۲۰ھ۔
  • کلباسی نجفی، محمد ابراہیم، خصائص العباسیہ، ترجمہ و تحقیق: محمداسکندری، انتشارات صیام، تہران، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • محمودی، عباس علی، ماہ بی غروب؛ زندگی‌ نامہ اوالفضل العباس، تہران، فیض کاشانی، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • محمودی، سید محسن، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع، وارمین، موسسہ علمی فرہنگی صاحب الزمان(عج)،۱۳۸۸ش،
  • محمودی، سید محمد حسین، در کنار علقمہ کرامات العباسیہ، انتشارات نصایح، قم، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • مہدوی، سید مصلح‌الدین، اعلام اصفہان، تحقیق: غلا م رضا نصر‌اللہی، سازمان فرہنگی تفریحی شہرداری اصفہان، اصفہان، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • میر دریکوندی، رحیم، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا(نگاہی بہ زندگانی علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس (ع))، قم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • ہادی‌ منش، ابو الفضل، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»، نشریہ فرہنگ کوثر، قم، انتشارات آستانہ مقدسہ حضرت معصمومہ، ش ۶۴، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • ہادی‌ منش، ابو الفضل، «کنیہ‌ہا و لقب‌ہای حضرت عباس(ع)»، نشریہ مبلغان، شمارہ ۱۰۶۔
  • ہادی‌ منش، ابوالفضل، «نگاہی بہ شخصیت و عملکرد حضرت عباس(ع)پیش از واقعہ کربلا»، نشریہ مبلغان، شمارہ ۵۸۔
  • يونسيان، على اصغر، خطيب كعبہ، تہران، آيينہ زمان، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • ۱۸ دقیقہ از مختار نامہ سانسور شد، سایت خبری فرارو، تاریخ خبر: ۱۳۸۹/۰۹/۱۴ ، کد خبر: ۶۲۷۰۲، تاریخ بازدید: ۱۳۹۶/۱۰/۰۴۔