بریر بن خضیر ہمدانی
کوائف | |
---|---|
نام: | بریر بن حضیر ہمدانی |
لقب: | سیدالقّراء |
نسب | قبیلہ ہمدانی |
شہادت | 61ھ |
مقام دفن | حرم امام حسینؑ |
اصحاب | امام علیؑ اور امام حسینؑ |
سماجی خدمات | قرآن کی تعلیم و تدریس اور کربلا میں شہادت |
تالیفات | کتاب القضایا و الاحکام |
بُرَیر بن خُضَیر ہَمْدانی مِشْرَقی شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ کوفہ کے معروف ترین قاری تھے جو کوفہ کی مسجد میں قرآن پڑھانے میں مشغول رہتے اور اہل بیت سے خصوصی محبت رکھتے تھے. تابعین اور امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے تھے. جنگ سے پہلے عمر بن سعد، ابوحرب، یزید بن معقل اور کوفیوں سے مجادلہ اور جرات مندانہ گفتگو بہادری اور خاندان اہل بیت سے دفاع کو ظاہر کرتا ہے.
تعارف
بریر بن خضیر کا تعلق یمن کے ہمدانی خاندان کی ایک ذیلی شاخ مشرق سے ہے. یہ کوفے کے ساکنین میں سے تھے بعض کتابوں میں ان کے باپ کا نام اشتباہ کی بنا پر حصَین ذکر ہوا ہے کیونکہ بریر نے اپنے رجز میں اپنے باپ کا نام خضیر پڑھا ہے. [1] تاریخ اور مقتل نگاروں نے ان کا نام بریر بن خضیر،[2] بریر بن حضیر،[3]، بدیر بن حفیر،[4]، بریر بن حصین،[5] ذکر کیا ہے. دیگر بعض کتابوں میں یزید یا زیدبن حصین کے نام سے بھی مطالب ذکر ہوئے ہیں. [6].
بُرَیر بن خُضَیر زاہد ، عابد ، کوفہ کی جامع مسجد کے بزرگ قاری، مفسر اور پرہیزگاروں میں سے شمار ہوتے تھے.
لقب
طبری[7] و ابن اثیر[8] نے ان کا لقب سیدالقّراء و ابن بابویہ[9] و فتال نیشابوری[10] نے اپنے زمانے کے معروفترین قاریوں میں سے گردانا ہے.
تالیف کتاب
مامقانی[11] کے بقول بریر القضایا و الاحکام کے نام سے ایک کتاب کے مؤلف ہیں کہ جس کے مندرجات امام علی ؑ اور امام حسن ؑ سے منقول ہیں.وہ اسے ایک معتبر کتاب سمجھتے ہیں ، لیکن سیدمحسن امین[12] و تستری[13] نے ان کے اس قول کو رد کیا ہے کہا ہے کہ اس کتاب کا نام کسی جگہ مذکور نہیں ہے.
امام حسین(ع) کے ہمراہ
حضرت امام حسین کے مدینے سے مکہ آنے سے جب بریر با خبر ہوئے تو کوفہ سے مکہ عازم سفر ہوئے اور یوں مکہ میں کاروان امام حسین میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے [14]
جب حضرت امام حسین کربلا میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوئے تو بریر نے کہا:
- خداوند کریم نے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم آپ کے سامنے جہاد کریں اور آپ کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو جائیں، یہ کس قدر سعادت ہے کہ آپ کے جد قیامت کے روز ہمارے شفیع ہونگے. [15].
روایت میں منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد حضرت امام حسین ؑ نے خطبہ دیا تو اس کے بعد اصحاب امام میں سے ہر ایک نے تجدید بیعت کیا اور کھڑے ہو کر کلام کیا تو بریر زہیر بن قین کے بعد کھڑے ہوکر امام سے یوں مخاطب ہوئے:
- یابن رسول اللہ (ص) ! لقد منّ الله بک علینا ان نقاتل بین یدیک، تقطّع فیک اعضائنا، ثمّ یکون جدّک شفیعنا یوم القیامة. فرزند رسول!خدا نے آپ کے وجود مبارک کے توسط سے ہم پر احسان کیا کہ ہم آپ کے سامنے قتال کریں، آپ کے دفاع میں ہمارے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں پھر قیامت کے روز آپکے جد (رسول اللہ) ہمارے شفیع ہونگے.
روز تاسوعا
طبری کے بقول نویں محرم کو بریر بن خضیر نے عبد الرحمان بن عبد رب سے مزاح میں کچھ کہا تو عبد الرحمان نے جواب دیا: یہ وقت مزاح کا نہیں۔ بریر نے جواب میں کہا: برادر! میرے اقربا اور اقوام جانتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو اہل مزاح نہیں تھا چہ جائیکہ اس بڑھاپے میں مزاح کروں لیکن میں اسے جانتا ہوں کہ جسے میں جلد دیکھنا والا ہوں. خدا کی قسم !حور العین اور ہمارے درمیان صرف اس قوم کی تلواروں کا فاصلہ ہے اور میں اس بات کو کس قدر دوست رکھتا ہوں کہ وہ زمانہ ابھی آجائے.[16]
بریر اور یزید بن معقل
یزید بن معقل نے کہا: تم نے اپنی نسبت خدا کو کیسا پاتے ہو۔ بریر نے جواب دیا: اپنی نسبت خدا کی طرف سے خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا اور تمہاری نسبت خدا سے بدی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔ یزید نے کہا: تم اس سے پہلے تو اس طرح جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے، کیا تمہیں یاد ہے بنی لوذان میں چہل قدمی کرتے ہوئے تم نے عثمان کے بارے میں کہا: عثمان نے اپنے بارے میں ظلم کیا ہے اور معاویہ ضال و مضل ہے جبکہ حق و ہدایت کا امام علی بن ابی طالب ہے۔ بریر نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ ہی میرا اعتقاد ہے. یزید نے جواب میں کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہوں میں سے ہو۔ بریر نے اسے مباہلے کی پیش کش دی کہ آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ کاذب پر لعن کرے اور مبطل کو قتل کرے۔ دونوں نے خدا کے حضور ہاتھ بلند کئے اور دعا کی کہ اللہ کاذب پر لعنت کرے اور صاحب حق صاحب باطل کو قتل کرے۔ دعا مانگ کر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کرنا شروع کئے یزید کی خفیف ضرب بریر کو لگی جس سے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ بریر نے وار کیا تو اس کا وار اسکے خود کو چیرتے ہوئے دماغ کو پارا کر گیا اور اس کا کام اسی وار سے تمام ہو گیا۔ وار اتنا شدید تھا کہ تلوار اس کے سر میں پھنس گئ. بریر نے مشکل سے اسے باہر نکالا۔ اسی دوران رضی بن منقذ عبدی نے اس پر حملہ کیا دونوں گتھم گتھا ہوئے. بریر نے اسے پچھاڑ لیا اور اس کے سینے پر سوار ہو گیا۔ رضی نے اپنی مدد کیلئے ساتھیوں کو پکارا۔ کعب بن جابر عمرو ازدی نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو میں (راوی) نے کہا یہ تو بریر بن خضیر قارئ قرآن ہے جو ہمارے لئے مسجد میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ کعب نے نیزے کے ساتھ اس کی پشت پر وار کیا. وار کے اثر سے رضی کے سینے پر گر گیا تو اس نے اپنے دانتوں سے رضی کی ناک کو کاٹ ڈالا۔ کعب نے وار کیا یہاں تک کہ نیزہ اس کی پشت میں رہ گیا۔ پھر تلوار کے وار سے اسے شہید کر دیا۔ عفیف نے کہا ہے: گویا میں نے دیکھا۔ رضی اپنی قبا کی مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوا اور کعب سے یوں مخاطب ہوا: یا اخا! تو نے مجھ پہ ایسا احسان کیا ہے جسے میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا ۔۔۔۔۔۔ کعب جب گھر واپس آیا تو اس کی بیوی یا بہن نوار بنت جابر نے اسے کہا: تو فرزند زہرا پر حملہ ور ہوا اور تو نے سید القرا کو شہید کیا خدا تجھے اس (برے) کام کا اجر عطا کرے گا نیز کہا: خدا کی قسم! میں تجھ سے کبھی کلام نہیں کروں گی .....۔ [17]
حوالہ جات
- ↑ ابن بابویہ ص137
- ↑ الکامل فی التاریخ ج۴، ص۶۵؛ مقتل الحسین، خوارزمی ج۲، ص۱۴؛ مقتل الحسین، کاشف الغطاء، ص۴۱.
- ↑ تاریخ طبری ج۴، ص۳۲۱؛ الفتوح ج۵، ص۱۸۱.
- ↑ بحار الانوار ج۴۴، ص۳۲۰.
- ↑ انصار الحسین، شمس الدین، ص۷۷؛ معجم رجال الحدیث ج۴ ص۲۰۳.
- ↑ دیکھئے: رجال کشّی، ص۷۹؛ ابن صباغ، ص۱۸۹.
- ↑ ج ۵، ص۴۳۳.
- ↑ ج ۴، ص۶۷.
- ↑ ابن بابویہ، امالی الصدوق، ص۱۳۷.
- ↑ محمدبن حسن فتال نیشابوری، روضہ الواعظین، ج۱، ص۱۸۷.
- ↑ ج ۱، بخش ۲، ص۱۶۷.
- ↑ سیدمحسن امین ۱۴۰۳، ج۳، ص۵۶۱.
- ↑ ج ۲، ص۱۷۶.
- ↑ مامقانی، ایضا.
- ↑ امین، ۱۴۰۳، ایضا.
- ↑ طبری ،تاریخ طبری ج 4 ص 321۔
- ↑ طبری،تاریخ طبری ج4 ص 329
مآخذ
- ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، دار الأضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱ع
- شیخ صدوق؛ الامالی (شیخ صدوق)|الامالی، کتابخانہ اسلامیہ، 1362ش
- طبری ، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷
- محمد باقر مجلسی، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار الأئمہ الاطہار، تہران، اسلامیہ، بی تا
- محسن الامین، اعیان الشیعہ؛ تحقیق حسن الامین، بیروت، دار التعارف، بی تا
- عبدالله المامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال. تحقیق محیی الدین المامقانی و محمدرضا المامقانی، قم، آل البیت(ع)، لاحیاء التراث، چاپ اول، 1430
- علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر-دار بیروت، 1965 ع
- الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم، مکتبہ المفید، بی تا
- خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ السلام، انوار الہدی، قم، ۱۴۲۳ق
- كاشف الغطاء، مقتل الحسين
- محمد بن حسن فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین