تباکی

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


تباکی کے معنی رونے جیسی صورت یا حالت بنانے کے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں عبادت اور اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں گریہ و تباکی کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسین (ع) کی عزاداری، دعا، نماز، حج، قرآن کی تلاوت کرنے یا سننے میں، اگر کسی کو گریہ نہیں آتا ہے تو اس کے لئے تباکی کرنا مستحب ہے۔ شیخ جعفر شوستری کہتے ہیں: تباکی اور گریہ میں ریاکاری کے اعتبار سے فرق ہے اور اگر تباکی صرف اخلاص کے ساتھ انجام پائے تو قابل قبول ہے۔

معنی و مفہوم

تباکی لغت میں رونے جیسی صورت بنانے اور سختی و مشقت کے ساتھ گریہ کرنے کے معنی میں ہے۔[1] تباکی شیعہ ثقافت میں ایک مستحسن عمل ہے اور اس کی فضلیت اور ثواب گریہ کی طرح ہے۔[2] روایات کے مطابق، اگر انسان کو گریہ نہیں آتا ہو تو بہتر ہے کہ وہ کوشش کرے کہ قطرہ اشک اس کی آنکھوں سے جاری ہو یا وہ اپنی شکل رونے والے افراد جیسی بنائے تا کہ ان کے ثواب میں شریک ہو سکے۔[3] شیخ جعفر شوستری کہتے ہیں: تباکی اور گریہ میں ریاکاری کے اعتبار سے فرق ہے اور اگر تباکی صرف اخلاص کے ساتھ انجام پائے تو قابل قبول ہے۔[4]

تباکی کے موارد

امام حسین (ع) کی عزاداری میں

احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کے لئے روئے یا رلائے یا تباکی کرے تو اس کے اوپر جنت واجب ہے۔[5] امام حسین (ع) کی عزاداری میں گریہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر گریہ و غم و اندوہ کی حالت طاری کرے تا کہ اس کا شمار عزاداروں میں ہو اور وہ اس کے معنوی ثواب کو حاصل کر سکے۔[6]

عبادات کے وقت

روایات کے مطابق، دعا کے موقع پر حاجات کی قبولیت کے لئے یا کسی چیز کے واقع ہونے کے خوف سے وقت بہتر ہے کہ انسان گریہ یا تباکی کرے۔[7] اسی طرح سے حدیث میں آیا ہے کہ تباکی کریں یا سعی کریں کہ آپ کی آنکھوں سے قطرہ اشک خارج ہو جائے، اگر چہ ایسا اپنے کسی قریبی کی یاد سے ہو جس کا انتقال ہو چکا ہو۔[8] پیغمبر اکرم (ص) کی ایک روایت کے مطابق، اگر کوئی شخص قرآن کی تلاوت یا اس کی سماعت کے وقت گریہ و تباکی کرے تو جنت اس پر واجب ہے۔[9] اسی طرح سے احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ خوف خدا سے یا محبت خدا کو حاصل کرنے کے لئے یا بہشت کے اشتیاق اور جہنم کے خوف سے تباکی کرنا، خاص طور پر نماز، تعقیبات نماز، دعا اور ذکر کے وقت اور اسی طرح سے حج کے مناسک کو اعمال جیسے سعی، وقوف عرفہ، مروہ کی پہاڑی کے اوپر مستحب ہے اور اس کے بہت سے آثار پائے جاتے ہیں۔[10]

حوالہ جات

  1. دهخدا، فرهنگ لغت، ۱۳۷۷ش، ج۵، ذیل واژه تباکی.
  2. مکارم شیرازی، عاشورا ریشه‌ها انگیزه‌ها رویدادها، ۱۳۸۷ش، ص۸۱.
  3. مجلسی، مرآة العقول، ۱۳۶۳ش، ج۱۲، ص۵۶.
  4. احمدوند، حدیث بوی سیب، ۱۳۸۱ش، ص۹۹.
  5. حسن‌ زاده آملی، نامه‌ها برنامه‌ها، ۱۳۸۶ش، ص۲۸۴.
  6. مکارم شیرازی، عاشورا ریشه‌ها انگیزه‌ها رویدادها، ۱۳۸۷ش، ص۸۱.
  7. غفاری ساروی، آییین بندگی و نیایش، ۱۳۷۵ش، ص۲۸۹؛ مجلسی، مرآة‌العقول، ۱۳۶۳ش، ج۱۲، ص۵۷.
  8. نوری طبرسی، مستدرک ‌الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۰۵.
  9. مؤدب، اعجاز قرآن در نظر اهل بیت، ۱۳۷۹ش، ص۱۸۴؛ محمودی، ترتیب‌الأمالی، ۱۴۲۰ق، ص۳۶۹.
  10. وسایل الشیعه، حر عاملی، ج۶، باب جواز القنوت بغیر العربیه، ص۲۸۹؛ فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۳۲۶؛ صادقی اردستانی، حج از میقات تا میعاد، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.

مآخذ

  1. احمدوند، محسن، حدیث بوی سیب، قم، نشر میثم تمار، ۱۳۸۱ش.
  2. حسن‌ زاده آملی، حسن، نامه‌ها برنامه‌ها، قم، نشر الف لام میم، ۱۳۸۶ش.
  3. دهخدا، علی اکبر، فرهنگ لغت دهخدا، تهران، مؤسسه لغت نامه دهخدا، ۱۳۷۷ش.
  4. صادقی اردستانی، احمد، حج از میقات تا میعاد، تهران، نشر مشعر، ۱۳۸۵ش.
  5. غفاری ساروی، حسین، آییین بندگی و نیایش، قم، بنیاد معارف اسلامی، ۱۳۷۵ش.
  6. فرهنگ فقه فارسی، قم، مؤسسه دایرة‌المعارف فقه اسلامی، ۱۳۸۵ش.
  7. مجلسی، محمد باقر، مرآة‌ العقول، تهران، دارالکتب اسلامیه، ۱۳۶۳ش.
  8. محمودی، محمد جواد، ترتیب‌الأمالی، قم، بنیاد معارف اسلامی، ۱۴۲۰ق.
  9. مکارم شیرازی، ناصر، عاشورا ریشه‌ها انگیزه‌ها، رویدادها، قم، نشر مؤلف، ۱۳۸۷ش.
  10. مؤدب، رضا، اعجاز قرآن در نظر اهل بیت، قم، انتشارات احسن الحدیث، ۱۳۷۹ش.
  11. نوری طبرسی، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، موسسه آل‌البیت لاحیاءالتراث، ۱۴۰۸ق.