شہدائے کربلا امام حسینؑ کے ان ساتھیوں کو کہا جاتا ہے جو سن 61ھ روز عاشورا کو واقعہ کربلا میں لشکر عمر سعد کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے۔ شہدائے کربلا کی دقیق تعداد معلوم نہیں لیکن مشہور قول کی بنا پر ان کی تعداد 72 تھیں۔ دوسرے اقوال میں ان کی تعداد 78، 87 اور 145 تک ذکر کی گئی ہیں۔ شہدائے کربلا میں سے 18 شہداء بنی‌ہاشم سے تھے۔ بنی ہاشم میں امام حسینؑ، عباس بن علی اور علی اکبر جبکہ اصحاب میں حر بن یزید ریاحی، حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ کا نام شہدائے کربلا میں نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔

حرم امام حسین میں آپؑ کے بعض اصحاب کی جائے دفن
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس

شہدائے کربلا کو بنی اسد کے کچھ افراد نے دفن کیا۔ حر کے علاوہ باقی تمام شہداء کربلا میں ہی مدفون ہیں۔

تعداد

شہدائے کربلا کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر تاریخی منابع میں روز عاشورا امام حسینؑ کے ساتھیوں کی مجموعی تعداد 72 افراد ذکر کرتے ہیں۔[1] مشہور قول کی بنا پر ان میں سے 18 افراد بنی ہاشم سے جبکہ باقی افراد دوسرے قبائل سے تھے۔[2]اسی طرح اس واقعے سے مربوط منابع کے مطابق اس جنگ میں امامؑ کی فوج کے سوارہ نظام کی تعداد 32 اور پیادہ نظام کی تعداد 40 تھی۔[3]

انکے علاوہ دوسرے منابع میں درج ذیل تعداد بیان ہوئی ہے:

  • مسعودی: عاشورا کے روز امام حسین ؑ کے ساتھ شہید ہونے والے افراد کی تعداد 87 تھی۔[4]
  • بعض نے اس دن کے شہدا کی تعداد 61 افراد لکھی ہے[5] لیکن ممکن ہے کہ اس تعداد میں اہل بیت اور بنی ہاشم کے شہدا شامل نہ ہوں کیونکہ انہیں شامل کیا جائے تو بعد والے قول کی تعداد حاصل ہوتی ہے۔
  • سید بن طاووس: اصحاب حسین ؑ، 78 نفر تھے۔[6] اور خود امام حسین ؑ کے ساتھ 79 نفر ہونگے۔
  • مجلسی نے محمد بن ابی‌ طالب سے نقل کیا: انکی تعداد 82 افراد تھے۔[7]
  • امام باقر ؑ سے منقول ہے کہ 45 سوار اور 100 نفر پیاده تھے۔[8]

سروں کی تعداد

عمر سعد اور شمر کے حکم پر امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کے سروں کو ان کے بدن سے جدا کیا گیا۔[9] شیخ مفید کتاب ارشاد میں شہدائے کربلا کے سروں کی تعداد 72 سر ذکر کرتے ہیں۔[10] بَلاذُری انساب الاشراف میں بدن سے جدا کئے گئے سروں کی تعداد 72 سر ذکر کرتے ہیں؛ لیکن وہ أَبی مِخْنف سے نقل کرتے ہیں کہ قبیلہ کندہ نے 13 سر، قبیلہ ہوازن نے 20 سر، قبیلہ بنی‌تمیم نے 17 سر، قبیلہ بنی‌اسد نے 17 سر، قبیلہ مذحج نے 7 سر اور قبیلہ قیس نے 9 سر اپنے ساتھ ابن زیاد کے پاس لے کر گئے تھے۔[11] بعض مورخین نے شہداء کے سروں کی تعداد 78 ذکر کی ہیں۔[12]

شہدائے بنی ہاشم کی تعداد

معتبر مآخذ میں امام حسینؑ کے علاوہ بنو ہاشم کے 18 افراد نے کربلا میں جام شہادت نوش کیا۔

اولاد امام علیؑ

اولاد امام حسنؑ

اولاد امام حسینؑ

  1. على بن‌ حسین جو حضرت علی اکبرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
  2. عبداللہ بن‌ حسین جو حضرت علی اصغرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔

بنی ہاشم کے دیگر شہداء

نادر اسما

بعض کتب میں صرف ناموں کی حد تک بنی ہاشم کے 42 افراد کے نام شہدائے کربلا کے عنوان سے نقل ہوئے ہیں:

  1. ابراہیم بن على
  2. عبّاس اصغر بن على
  3. جعفر بن علی
  4. عبد اللہ اکبر بن على
  5. عبد اللہ اصغر بن على
  6. عبید اللہ بن على
  7. عمر بن على
  8. عتیق بن على
  9. قاسم بن على
  10. بشر بن حسن
  11. عمر بن حسن
  12. ابو بکر بن حسین
  13. ابو بکر بن قاسم بن حسین
  14. ابراہیم بن حسین
  15. جعفر بن حسین
  16. حمزۃ بن حسین
  17. زید بن حسین
  18. قاسم بن حسین
  19. محمّد بن حسین
  20. عمر بن حسین
  21. محمّد بن عقیل
  22. محمّد بن عبد اللہ بن عقیل
  23. حمزۃ بن عقیل
  24. على بن عقیل
  25. عَون بن عقیل
  26. جعفر بن محمّد بن عقیل
  27. ابو سعید بن عقیل
  28. ابراہیم بن مسلم بن عقیل
  29. محمّد بن مسلم بن عقیل
  30. عبد الرحمان بن مسلم بن عقیل
  31. عبیداللہ بن مسلم بن عقیل
  32. ابو عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
  33. على بن مسلم بن عقیل
  34. ابراہیم بن جعفر
  35. ابوبکر بن عبد اللہ بن جعفر
  36. عون اصغر بن عبد اللہ بن جعفر
  37. حسین بن عبد اللہ بن جعفر
  38. عبیداللہ بن عبد اللہ بن جعفر
  39. عون بن جعفر بن جعفر
  40. محمّد بن جعفر
  41. محمّد بن عبّاس
  42. احمد بن محمّد ہاشمى

اصحاب

اصحاب رسول(ص)

ابن حجر عسقلانی کے مطابق حبیب بن مظاہر اسدی بھی صحابہ میں سے ہیں.[13]

اصحاب امام علیؑ

اصحاب امام حسینؑ

  1. ابراہیم بن حُصَین اسدى
  2. حُذَیفۃ بن اَسید غِفارى کا ایک بھتیجا
  3. ابو ہیّاج
  4. اَدہم بن امیّہ
  5. انیس بن مَعقِل اَصبَحى
  6. بُرَیر بن خُضَیر
  7. بشیر بن عمرو حَضرَمى
  8. جابر بن حَجّاج
  9. جَبَلۃ بن على شیبانى
  10. جُنَادۃ بن حارث
  11. جُندَب بن حجیر
  12. جون بن حوی غلام ابوذر
  13. جوین بن مالک تیمی
  14. حارث بن اِمرؤ القیس
  15. حارث بن نَبہان حمزۃ بن عبدالمطّلب کا غلام
  16. ابو الحتوف بن حرث انصاری
  17. حَجّاج بن زید
  18. حَجّاج بن مَسروق
  19. حر بن یزید ریاحی
  20. حلّاس بن عمرو
  21. نُعمان بن عمرو
  22. حَنظَلۃ بن اسعد
  23. رافع، یہ قبیلۂ بنی شندہ کے حلیف تھے
  24. رُمَیث بن عمرو
  25. زُہیر بن بِشْر خَثعَمى
  26. زُہیر بن سلیم اَزْدى
  27. زہیر بن قین بجلی
  28. زید بن مَعقِل
  29. سالم، حلیفِ ابن مدنیّہ
  30. سعد بن حنظلہ تمیمى
  31. سعید بن عبداللہ حنفى
  32. سعید بن کَردَم
  33. سلیمان، غلامِ امام حسینؑ
  34. سلیمان بن ربیعہ
  35. سوّار بن ابى حِمیَر
  36. سُوَید بن عمرو بن ابى مُطاع
  37. سیف بن حارث جابرى
  38. شَبیب بن عبداللہ نَہشَلى
  39. سیف بن مالک
  40. ضَرغامۃ بن مالک
  41. شوذَب، حلیفِ بنى شاکر
  42. ضُباب بن عامر
  43. عابِس بن ابى شَبیب شاکرى
  44. عامر بن مسلم
  45. سالم، غلامِ عامر بن مسلم
  46. عباد بن ابى مہاجر
  47. عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی (یَزَنى)
  48. عبداللہ بن قیس غِفارى
  49. عبد الرحمان بن قیس غِفارى
  50. عُقْبۃ بن صَلت
  51. عمّار بن حسّان طایى
  52. عمران بن کعب
  53. عمر بن اَحدوث حَضرَمى
  54. عمر بن خالد صَیداوى
  55. سعد، غلامِ عمر بن خالد صَیداوى
  56. عمرو بن خالد اَزْدى
  57. خالد بن عمرو اَزْدى
  58. عمرو بن ضَبیعہ
  59. عمرو بن عبد اللہ جُندَعى
  60. عمرو بن قَرَظَہ انصارى
  61. غلامِ ترک
  62. قارِب، غلامِ امام حسینؑ
  63. قاسم بن حبیب اَزْدى
  64. قَعنَب بن عمرو نَمِرى
  65. کِنانۃ بن عتیق
  66. مالک بن عبد بن سَریع جابرى
  67. مُجَمِّع بن زیاد
  68. مُجَمّع بن عبد اللہ عائِذى
  69. پسر مُجَمّع بن عبد اللہ عائذى
  70. مسعود بن حَجّاج
  71. عبد الرحمان بن مسعود
  72. مسلم بن عوسجہ
  73. مسلم بن کثیر ازدی
  74. مُنجِح ، غلامِ امام حسینؑ
  75. نَعیم بن عَجْلان
  76. ہفہاف بن مُہنَّد راسِبى
  77. ہمّام بن سَلَمہ قانِصى (قائضى)
  78. وَہب بن وہب
  79. یحیى بن سلیم مازِنى
  80. یزید بن زیاد بن مُہاصِر ابو شعثاء کندی
  81. یزید بن ثبیط عبدی
  82. عبیداللہ بن ثبیط عبدى[14]

حوالہ جات

  1. البلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵؛ الطبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۲؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۶؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۵، ص۵۹۔
  2. گروہی از تاریخ‌پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہداء(ع)، ۱۳۹۱ش، ج۲، ص۴۸۵۔
  3. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۳۹۵؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۲۲؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۶؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۵، ص۵۹۔
  4. مروج الذہب، ج۳، ص۶۱ ؛ البدء و التاریخ ۶/۱۱.
  5. اثبات الوصیہ ۱۲۶.
  6. الملہوف ۶۰.
  7. بحار الانوار ۴۵/۴.
  8. نفس المہموم ۲۳۶.
  9. خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، مکتبۃ المفید، ج۲، ص۳۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۵۶؛ مسعودی، مروج‌الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۵۹۔
  10. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۳۔
  11. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ۱۹۷۷م، ص۲۰۷۔
  12. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۹۳ش، ص۳۵۔
  13. عسقلانی، ابن حجر، الاصابۃ فی تمییزالصحابہ، ج2، ص142.
  14. محمدی ری‌شہری، شہادت‌نامہ امام حسین، صص650-659.

مآخذ

  • منبع اصلی این مقالہ کتاب شہادت نامہ امام حسین علیہ السلام ہے۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، تحقیق احسان عباس، بیروت: جمیعہ المتشرقین الامانیہ، ۱۹۷۹؛ انساب الاشراف، ج۳ و ۱، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت: دارالتعارف، چاپ اول، ۱۹۷۷۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: دارالتراث، ۱۹۶۷۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم: دارالہجره، ۱۴۰۹۔
  • موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسینؑ، بیروت: دارالکتاب الاسلامیہ۔