اللّہ خدا کا مخصوص نام ہے جو تمام اوصاف کمالیہ رکھنے والی ذات کیلئے بولا جاتا ہے ۔ یہ لفظ جو خدا کا سب سے مشہور نام ہے عربی زبان کا لفظ ہے۔ شریعت میں اس لفط مخصوص احکام ہیں جن میں بیغر وضو اور غسل کے اس لفظ کو چھونا حرام ہونا ہے۔ کلمۂ توحید میں اس لفظ کا ذکر ہونا اور کسی دوسرے کیلئے اس کا استعمال جائز نہ ہونا اس لفظ کے اہم ترین خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔

حرم امام حسین(ع) کے منقوشی آثار

معنا

واجب‌ الوجود اور تمام صفات کمالیہ کی جامع صفات ذات کیلئے اللّه اسم عَلَم (نام) ہے ۔[1] دوسری زبانوں میں اس کے معادل الفاظ :

  • اردو: «خدا»
  • عبرانی: «الوہیم» (تعظیم کیلئے جمع) یا «یہوہ» (Y.H.W.H)
  • سریانی: «الوہو»
  • کلدانی: «الاہا»
  • یونانی: «ثاؤس»
  • لاطین: «داؤس»
  • فرانسوی اور ایٹالین: «دیو» (Dieu)
  • انگلش: «گاد»(GOd).[2]

تحقیق لفظ

حقیقت میں یہ لفظ عربی زبان کا ہے ۔[3] بعض اسے عبرانی کلمات کے مشابہ اور «ایل» سے یا سریانی اور کلدانی کے مشابہ کلمات اور «الاہا» سے ماخوذ سمجھتے ہیں ۔[4] البتہ صرف مشابہت عربی کے نہ ہونے اور کسی دوسرے سے ماخوذ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔[5]

اس لفظ کے اشتقاق کے متعلق صاحبان نظر میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اسکے متعلق قائل ہیں کہ یہ لفظ کسی سے مشتق نہیں ہے لیکن مشہور قول اسکے مشتق ہونے کا ہے ۔اس لفظ کے اشتقاق کے قائلین میں پھر اختلاف ہے کہ یہ کس لفظ سے مشتق ہے ۔ بعض علما نے اس اختلاف کی تعداد ۲۰ یا ۳۰ سے زیادہ تک ذکر کی ہے ۔[6] ان اقوال میں سے شاید صحیح ترین قول یہ ہو : الله اصل میں "الإلہ" ہے اور "اَلَہ یأْلَہ اُلوہۃ" سے عَبَد کے معنا میں ہے ۔[7]؛ ہمزه کو تخفیف کی بنا پر حذف کر دیا گیا ہے ۔[8] اس بنا پر اللہ کا معنا ایسا معبود ہے کہ تمام شائستیوں کا حق دار اور وہی عبادت کے لائق ہے ۔ البتہ اس سلسلے میں دیگر اقوال بھی موجود ہیں ۔[9]

عربی ادبیات کے لحاظ سے بعض اوقات لفظ اللہ اگر منادا واقع ہو تو اسکے ہمزہ کو حذف کر کے آخر میں میم بڑھا دی جاتی ہے جیسے یا اللہ کی بجائے اللہم کہا جاتا ہے ۔[10]؛ بعض علما اللّہم کے متعلق دیگر رائے رکھتے ہیں ۔ [11]

فقہی احکام

بعض احکام اور آثار کے لحاظ سے لفظ اللہ دیگر صفاتی اسمائے خداوندی کی مانند ہے جیسا کہ تمام فقہا کا اجماع ہے کہ طہارت کے بغیر انسانی بدن کے کسی حصے کو ان ناموں کو چھونا حرام ہے ۔ [12]

خصوصیات

خدا کے اسمائے حسنی میں سے اس لفظ کو چند خصوصیات حاصل ہیں :

  1. مشہور ترین اسم الہی ہے.
  2. قرآن کے لحاظ سے مقام والا رکھتا ہے ۔
  3. اللہ سے دعا اور مناجات میں اسے بلند مقام حاصل ہے ۔
  4. تمام اسمائے الہی کا پیشوا ہے ۔
  5. کلمۂ توحید اور کلمۂ اخلاص اسی سے مخصوص ہے ۔[13]
  6. شہادتین میں خدا کی وحدانیت کی شہادت اسی نام کے ساتھ دی جاتی ہے۔[14]
  7. ذات مقدس خداوند متعالی کیلئے عَلم اور اسم خاص ہے اور معبود برحق کیلئےمخصوص ہے کسی دوسری کیلئے حقیقی یا مجازی طور پر اسکا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
  8. یہ لفظ تمام صفات جمال و جلال الہی کی ذات مقدس پر دلالت کرتا ہے ۔
  9. کسی دوسرے اسم کیلئے صفت واقع نہیں ہو سکتا ہے ۔
  10. دیگر تمام اسمائے الہی اس اسم کے ساتھ پکارے جا تے ہیں اور اس کا عکس کرنا درست نہیں ہے ۔[15]

قرآن میں استعمال

بعض مآخذوں کے بیان کے مطابق ضمیر اور اس جیسے دیگر استعمالات کا محاسبہ کئے بغیر قرآن کریم میں یہ لفظ ۲۶۹۹ مرتبہ[16] آیاہے ۔اللّہم کے لفظ کو بھی شامل کریں تو ۲۷۰۴ اور بعض اسکے مشتقات اور بسم‌اللّه کی تعداد کے اضافے کے ساتھ ۲۸۰۷ ذکر کرتے ہیں ۔[17]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. میبدی، کشف‌الاسرار، ج ۱، ص ۶ ؛ البیہقی، الاسماء والصفات، ج ۱، ص ۴۷.
  2. البستانی، دائره المعارف بستانی، ج ۴، ص ۲۸۶.
  3. فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج ۱، ص ۱۶۳.
  4. فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج ۱، ص ۱۶۳؛ صادقی، الفرقان، ج ۱، ص ۸۲ ۸۳.
  5. محقق، اسماء و صفات الہی، ج ۱، ص ۳۱؛ سبحانی، مفاہیم‌القرآن، ج ۶، ص ۱۱۰.
  6. فیروز آبادی، القاموس المحیط، ج ۲، ص ۱۶۳۱، «الہ».
  7. میبدی، کشف‌الاسرار، ج۱، ص۶ ؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ج۱، ص۹۰؛ مصطفوی، التحقیق، ج ۱، ص ۱۱۹.
  8. شرطونی، اقرب‌الموارد، ج ۱، ص ۶۶ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ۱، ص ۱۸۸ ۱۹۰.
  9. رازی، روض‌الجنان، ج ۱، ص ۵۷ ؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج ۱، ص ۱۵۹؛ بستانی، دائره‌المعارف بستانی، ج ۴، ص ۲۸۶.
  10. ابن منظور، لسان العرب، ج ۱، ص ۱۹۱؛ رازی، روض الجنان، ج ۴، ص ۲۵۱؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ج ۴، ص ۳۵.
  11. رازی، روض‌الجنان، ج‌۴، ص‌۲۵۱؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ج‌۴، ص‌۳۵؛ طبرسی، مجمع البیان، ج ۲، ص ۷۲۶؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج ۸، ص ۳؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ۱، ص ۱۹۰.
  12. نجفی، جواہر الکلام، ج ۳، ص ۴۶.
  13. یعنی "لا الہ الا الله"
  14. یعنی "اشہد ان لاالہ الا الله"
  15. الکفعمی، المقام الاسنی، ص ۲۵ و۲۶.
  16. روحانی، المعجم‌ الاحصائی، ج ۲، ص ۲۴۴، ۲۵۲، ۲۶۲.
  17. آشتیانی، تفسیر سوره فاتحہ الکتاب، ص ۶۳.

کتابیات

  • ابن منظور.لسان العرب. کوشش علی شیری. بیروت:‌دار احیاء التراث العربی. ۱۴۰۸.
  • آشتیانی، جلال الدین.تفسیر سوره فاتحہ الکتاب. قم: دفتر تبلیغات اسلامی. ۱۳۷۷.
  • البستانی، المعلم بطرس.دائره المعارف بستانی. بیروت: دارالمعرفہ. بی‌تا.
  • البیہقی، احمد بن حسین.الاسماء والصفات. بیروت:‌دار احیاء التراث العربی. بی‌تا.
  • الشرتونی اللبنانی.اقرب‌الموارد فی فصح العربیہ و الشوارد. تہران:‌دار الاسوه. ۱۴۱۶.
  • الطبرسی، فضل بن الحسن.مجمع البیان فی تفسیر القرآن. بیروت: دارالمعرفہ. افست. تہران: ناصرخسرو. ۱۴۰۶.
  • القرطبی، محمد بن احمد.تفسیر قرطبی(الجامع لاحکام القرآن). بیروت: دارالکتب العلمیه. ۱۴۱۷. چ پنجم.
  • الکفعمی، تقی الدین ابراهیم.المقام الاسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی. کوشش فارس الحسون. بی‌جا: موسسه قائم آل محمد(عج). بی‌تا.
  • رازی، ابوالفتوح.روض الجنان و روح الجنان. کوشش یاحقی وناصح. مشہد: آستان قدس رضوی. ۱۳۷۵.
  • روحانی، محمود.المعجم‌الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم. مشہد: آستان قدس رضوی. ۱۳۶۶.
  • سبحانی، جعفر.مفاہیم‌ القرآن فی معالم الحکومہ. کوشش جعفر الہادی. قم: موسسہ امام صادق(ع). ۱۴۱۳. چ چہارم.
  • صادقی، محمد.الفرقان فی تفسیر القرآن. تہران: فرہنگ اسلامی. ۱۳۶۵. چ دوم.
  • فخر رازی، محمد عمر.التفسیرالکبیر. قم: انتشارات دفتر تبلیغات. ۱۴۱۳. چ چہارم.
  • فیروز آبادی، مجدالدین.القاموس المحیط. کوشش محمد المرعشلی. بیروت:‌دار احیاء التراث العربی. ۱۴۱۷.
  • محقق، محمد باقر. اسماء و صفات الهی در قرآن. تہران: اسلامی. ۱۳۷۲.
  • مصطفوی، حسن.التحقیق فی کلمات القرآن الکریم. تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی. ۱۳۷۴.
  • میبدی، رشید الدین.کشف‌الاسرار و عدة الابرار. کوشش علی اصغر حکمت. تہران: امیر کبیر. ۱۳۶۱. چ چہارم.
  • نجفی، محمد حسن.جواہر الکلام فی شرایع الاسلام. بیروت:‌دار احیاء التراث العربی. چ ہفتم.