تعزیہ

ویکی شیعہ سے
تعزیہ
تعزیہ
شاگرد کا تعزیہ(ملتان کا قدیمی تعزیہ)
شاگرد کا تعزیہ(ملتان کا قدیمی تعزیہ)
معلومات
زمان‌روز عاشورا
مکانامام بارگاہ، عاشورا کے جلوس
جغرافیائی حدودبرصغیر، ایران، عراق
منشاء تاریخی9ویں صدی ہجری
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


تعزیہ شیعوں کا ایک رسم ہے جو امام حسینؑ کے جنازے یا ان کے روضے کی شبیہ بناکر عاشورا کے دن عزاداری کے جلوس میں نکالے جاتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں تعزیوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑے، اسٹیل اور کاغذ سے تیار کیا جاتا ہے۔ عراق میں تعزیہ کو شبیہ اور ایران میں نخل گردانی کہا جاتا ہے۔

شیعہ تعزیہ کو غم کی علامت کے طور پر نکالتے ہیں۔ ہندوستان میں لکھنو اور پاکستان میں ملتان کے تعزئے مشہور ہیں۔ برصغیر کے شیعہ اور اہل سنت دونوں مذاہب کے محب اہل بیتؑ تعزیہ نکالتے ہیں۔ تعزیے بنانے میں شیعہ سنی کے علاوہ ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ تعزیہ کا آغاز نویں صدی ہجری کی ابتدا میں ہوا۔ ملتان کا شاگرد اور استاد کا تعزیہ اور ایران میں رائج تعزیوں میں نخل گردانی یا علم کشی زیادہ مشہور ہیں۔

تاریخچہ

برصغیر کے بہت سارے شہروں میں تعزیے نکالے جاتے ہیں لیکن لکھنؤ اور ملتان تعزیہ سازی میں مشہور ہیں۔[1] تعزیہ کا آغاز لکھنو سے ہوا۔ [2] کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی روایت مغل بادشاہ تیمور کے دور ( 1370ء – 1405ء ) میں قائم ہوئی۔[3] تیمور ہر سال عاشورا کےلئے کربلا جایا کرتا تھااور چودہویں صدی عیسوی میں کربلا سے واپسی پر امام حسینؑ کی ضریح کی شبیہ لیکر آیا۔[4] لیکن تیمور کی برصغیر پر حملے کے دوران ہندوستان میں محرم کا چاند نمودار ہوااور یوں سنہ 803 ہجری کو عاشورا کے لئے تیمور کربلا نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے وہیں پر امام حسینؑ کے روضے کی شبیہ بنوائی اور عزاداری کی۔[5]اس شبیہ کو بعد میں مغلیہ طرز پر تعمیر کیا گیاجو وقت گزرتے سائز اور شکل تبدیل ہوتی رہی۔[6] پہلے پہل مٹی کا تعزیہ بنایا گیا اور پھر لکڑی کے تعزیے بنے اور شاید اسی لئے ایک خاص قسم کے تعزیے کو تیموری تعزیہ کہا جانے لگا۔[7]
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں تعزیوں کی تعمیر کا رواج ہوگیااور آج بھی یہ رسم جاری و ساری ہے۔لکڑی کے ساتھ ساتھ کھجور کے تنے ، گتوّں اور پلاسٹک کین کے ساتھ بھی تعزئے بنائے جانے لگے جن کو عاشور کے دن دریا میں ڈال دیا جاتا تھا اور اسے تعزیہ ٹھنڈا کرنے کی رسم بھی کہتے ہیں۔[8]لکھنو میں کچھ تعزئے دفن بھی ہوتے تھے۔[9]
تعزیہ بنانے میں شیعوں کے علاوہ سنی، ہندو اور سکھ بھی پیش پیش تھے۔[10]برصغیر میں تعزیہ کا پہلا لائسنس برطانوی حکومت کی طرف سے 1860ء میں جاری کیا اور یہ لائسنس ملتان میں استاد کے تعزیے کو جاری ہوا تھا ۔[11] ایران میں تعزیے کا سلسلہ صفوی دور سے شروع ہوا ہے۔[12] بعض محققین نخل‌ گردانی کی رسم کو حکومت صفویہ کی بدعتوں میں سے قرار دیتے ہیں۔[13] ہر علاقے میں تعزیہ اٹھانے کے اپنے آداب ہوا کرتے ہیں۔[14] بعض اہل سنت تعزیہ کو بدعت سمجھتے ہیں۔[15] فاضل ہنسوی نے تعزیہ کے جواز میں اہل سنت کے مختلف علما کے نظریات کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔[16]

مشہور تعزئے

ملتان کا دو سو سال پرانا استاد کا تعزیہ

لکھنو میں عاشورہ کے دن مختلف تعزیے نکلتے تھے۔[17]ان تعزیوں میں «رانگے کا تعزیہ»، «جو کا تعزیہ»، «موم کا تعزیہ»،« انڈوں کا تعزیہ»،« نوگزہ تعزیہ» سمیت بعض دیگر تعزئے مشہور ہیں۔[18] لاکھوں تعزیے لکھنو میں تال کٹورے کی کربلا میں دفنائے جاتے تھے۔[19]

اسی طرح لکھنؤ کے آصفی امام باڑے کا ‘‘لاڈو ساقن کا تعزیہ، ریاست جاورہ اور حسین ٹیکری کا تعزیہ، روہڑی کا چار سو سال پرانا تعزیہ، باون ڈنڈوں کا تعزیہ، چالیس منبروں کی زیارت جبکہ پاکستان میں ملتان شہر کے تعزیے تاریخی اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔[20] بنگال میں موم کے تعزیے، صندل کی لکڑی کے تعزیے، جو اور چاول کے تعزیے، مور کے پروں کے تعزیے، سنگ مر مر، کاغذ، ابرق، کپڑے اور پھلوں سے تیار کئے جانے والے تعزیے شامل ہیں۔[21] برصغیر میں ملتان تعزیوں میں مشہور ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد تعزیے کے جلوسوں کی ہوتی ہے۔[22]ان جلوسوں میں اندرونِ شہر کے پاک گیٹ سے برآمد ہونے والے قدیمی «اُستاد اور شاگرد کے تعزیوں» کو خاص مقام حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملتان میں دس محرم الحرام کونکالے جانے والے تعزیوں میں بیشتر تعزئے اہل سنت کے ہیں۔ [23] ملتان میں اب سب سے قدیم تعزیہ کوڑے شاہ کا ہے اور یہ 300 سال قدیم تعزیہ ہے ۔آستانہ عبداللہ والا محلہ لودھی پورہ کا تعزیہ اور تعزیہ امیر شاہ و تعزیہ عظیم شاہ قدیم تعزیے ہیں-[24] تعزیہ پیر لعل شاہ 200 سال قدیم ہے-تعزیہ کاشی گراں 150 سال پرانا ہے-[25]تعزیہ حیدری کمیٹی،تعزیہ امام بارگاہ جوادیہ ،وارث شاہ والا اور کمنگراں بھی قدیمی تعزیوں میں شمار ہوتے ہیں-استاد کا تعزیہ محلہ پید قاضی جلال اندرون پاک گیٹ میں اور شاگرد والا آستانہ خونی برج میں رکھا-[26]

ایران میں نخل گردانی کا تعزیہ

ایران کے شہر یزد میں نکالا جانے والا مشہور تعزیہ جسے نخل گردانی کہا جاتا ہے جو ساڑھے تین میٹر اونچا ہے۔[27] البتہ ایک اور تعزیہ بھی ایران میں نکالا جاتا ہے جس علَم کشی سے یاد کرتے ہیں یہ تعزیہ جلوس کے ہر دستے کےآگے ہوتا ہے۔ [28]

ایران کے شہر یزد کا مشہور تعزیہ (نخل گردانی)
شاگرد کا تعزیہ

استاد اور شاگرد کے تعزئے

ملتان میں دو تعزیے استاد اور شاگرد کے تعزئے سے مشہور ہیں۔ استاد اور شاگرد دونوں کا تعلق سنی مذہب سے تھا۔[29] استاد کا نام پیر بخش بتایا جاتا ہے۔[30] لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے 1812ء میں بنانا شروع کیا اور 22 ساتھیوں کی مدد سے 13 سال کے عرصے میں 1825ء میں مکمل ہوئی۔[31]استاد کا تعزیہ 27 فٹ لمبا، 8 فٹ چوڑا اور سات منزلوں پر مشتمل ہے۔[32] ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوئی۔[33]یہ تعزیہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس کو 150 افراد اٹھاتے ہیں۔[34]

شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش بتایا جاتا ہے[35] الہی بخش اپنے استاد کا تعزیہ بنانے والے گروہ کا حصہ تھے جو دن کو استاد کے پاس کام کرتا تھا اور رات میں ایک خفیہ جگہ اپنا الگ تعزیہ بنانے مشغول رہا۔[36] اور 1854ء میں اسے مکمل کردیا۔[37] شاگرد کا تعزیہ 32 فٹ لمبا تھا۔ شاگرد کا موجودہ تعزیہ مشین کی مدد سے تیار کردہ ہے جو انُیس سو چوالیس میں اُس وقت بنایا گیا جب شاگرد کے تعزّیے کو آگ لگی[38] اور ملتان کے گردیزی خاندان نے اس کی مرمت کرائی۔[39] شاگر کا تعزیہ اٹھانے کے لئے 200 افراد درکار ہوتے ہیں۔ ہر سال دس محرم کواستاد کا تعزیہ ملتان میں محلّہ پیر قاضی جلال اندرون پاک گیٹ سے جبکہ شاگرد کا تعزیہ خونی برج ملتان سے برآمد ہوتا ہے۔استاد کا تعزیہ جلوس کے آگے اور شاگرد کا تعزیہ جلوس کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔استاد اور شاگرد دونوں کے تعزیہ کا لائسنس سنّی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کےنام ہے۔[40]

لکھنو کے تعزئے

مرزا جعفر حسین نے اپنی کتاب میں لکھنو کے بعض تعزیوں کااس طرح سے ذکر کیا ہے:[41]

لال تعزیہ، اس تعزیے کے ہمراہ راجہ مہرا کے خاندان کے ایک فرد لالہ ہرپرشاد نوحے مرثئے پڑھا کرتے تھے۔[42]

چٹائی کے تعزیئے، چٹائی والے اپنے اپنے تعزیے کھجور کے پتوں اور رنگ برنگ تاگوں سے بڑی صنعت گری سے بناتے تھے۔[43]

نوگزا تعزیہ۔ یہ تعزیہ ضریح کی شکل کا ہوتا تھا۔ اس تعزیے کے بانی مسلمان کمہار تھے جو یوم عاشور ڈھول تاشے کے ساتھ تعزیے کے ساتھ تعزیے کو دفن کرنے کے لیے تال کٹورہ کی کربلا میں لے جاتے تھے۔ چونکہ یہ تعزیہ نوگز بلند ہوتا تھا اس لیے دوسرے تعزیوں سے اونچا نظر آتا تھا۔[44]

چوڑیوں کا تعزیہ۔ یہ تعزیہ صنعتی اعتبار سے بہت اعلیٰ صفت کا حامل تھا۔ اس کے بنانے والے ایک حکیم صاحب تھے جو مختلف رنگ اور وضع کے شیشے کی چوڑیاں پہلے تیار کر لیتے تھے۔ پھر جو چوڑی جس جگہ زیب دیتی تھی اس جگہ اسے چڑھا دیتے تھے۔

مٹی کا تعزیہ۔ ٹیکا رام نام کے ایک کمہار نے مٹی کا ایک تعزیہ بنایا تھا جو ضریح سے مشابہہ تھا۔[45]

روئی کا تعزیہ۔ ایسے دو تعزیوں نے بہت شہرت پائی۔ یہ تعزیے مختلف رنگوں میں رنگی ہوئی روئی سے بڑی فن کاری سے تیار کیے جاتے تھے۔ ان میں ایک کمال یہ دکھایا جاتا تھا کہ کپاس کے نقلی پودوں کو جو بالکل اصلی پودے نظر آتے تھے تخت کے چاروں گوشوں پر بطور گلدستہ لگایا جاتا تھا۔[46]

سفید تعزیہ۔ شہر میں بے شمار سفید تعزیے نکلتے تھے۔ دو تعزیے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں تعزیوں کے تختوں اور مونڈھوں پر مختلف رنگوں کے تال میل سے ابرق کے پتر پر دیدہ زیب قلم کاری ہوتی تھی جو رات کے وقت جگمگ جگمگ کر کے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرتی تھی۔[47]

چپ تعزیہ برصغیر کے مختلف شہروں میں 8 ربیع الاول کو امام حسن عسکری کی یاد میں چپ کا قدیمی تعزیہ کا جلوس بھی برآمد ہوتا ہے۔ ناصر آباد امام بارگاہ جھک ملتان سے نکلتا ہے ، امام حسن عسکری امام مہدی کے والد تھے جن کو 28 سال کی عمر میں زھر دے کر شہید کردیا گیا تھا اور وہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا اور اس دن کی مناسبت سے چپ کا تعزیہ سب سے پہلے لکھنؤ ميں نکلا تھا

حوالہ جات

  1. «Ustad and Shagird Tazia - Multan's Ancient Tradition of Muharram Mourning» العتبۃ الحسینیہ المقدسہ
  2. «پاک و ہند کے عزاخانے اور تعزیوں کی روایت» اسلام ٹائمز۔
  3. «ہندوستان میں تعزیہ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟،»آج کی دنیا ویب سائٹ
  4. «ہندوستان میں تعزیہ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟،»آج کی دنیا ویب سائٹ
  5. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340
  6. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340-349
  7. «پاک و ہند کے عزاخانے اور تعزیوں کی روایت» اسلام ٹائمز۔
  8. ڈاکٹر مبارک علی، "جہانگیر کا ہندوستان"، ص 87۔
  9. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340-349
  10. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340-349
  11. «Ustad and Shagird Tazia - Multan's Ancient Tradition of Muharram Mourning» العتبۃ الحسینیہ المقدسہ
  12. خاکی، «ریخت‌شناسی آیین نخل‌گردانی»، ص۱۰.
  13. آیتی، تاریخ یزد، ۱۳۱۷ش، ص۲۴۴.
  14. سید علی‌زاده، «نخل‌گردانی»، ص۴۷.
  15. «دار الافتاء، دارالعلوم دیوبند الہند، سوال نمبر 605590» دارالافتاء دیوبند
  16. سید سبط الحسن فاضل ہنسوی، عزاداری کی تاریخ اور اس کا اثبات سنی نقطہ نظر سے، ص169 تا 204
  17. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340
  18. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340
  19. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 340
  20. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  21. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  22. ملتان اور عزادری امام حسین علیہ السلام،شفقنا ویب سائٹ۔
  23. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  24. ملتان اور عزادری امام حسین علیہ السلام،LUBP website
  25. ملتان اور عزادری امام حسین علیہ السلام،LUBP website
  26. ملتان اور عزادری امام حسین علیہ السلام،LUBP website
  27. جمشیدی گوهرریزی، «نخل و نخل‌گردانی در استان یزد»، ص۶۰.
  28. آنچہ دربارہ علم کشی شاید نمی دانستید، مہر نیوز ایجنسی
  29. تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس، شیعہ سنی مشترکہ روایت،LUBP website
  30. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  31. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  32. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  33. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  34. تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس، شیعہ سنی مشترکہ روایت،LUBP website
  35. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  36. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  37. تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس، شیعہ سنی مشترکہ روایت،LUBP website
  38. «پاک و ہند عزاخانے اور تعزیوں کی روایت » اسلام ٹائمز
  39. تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس، شیعہ سنی مشترکہ روایت،LUBP website
  40. تعزیہ سازی اور محرم کے جلوس، شیعہ سنی مشترکہ روایت،LUBP website
  41. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349
  42. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343
  43. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349
  44. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349
  45. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349
  46. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349
  47. مرزا جعفر حسین، قدیم لکھنو کی آخری بہار ص 343-349

مآخذ