سوید بن عمرو بن ابی مطاع
کوائف | |
---|---|
نام: | سوید بن عمرو بن ابی مطاع |
نسب | قبیلہ بنی خثعم |
شہادت | 61ھ |
شہادت کی کیفیت | واقعہ عاشورا کے آخری شہید |
مقام دفن | کربلا حرم امام حسینؑ |
اصحاب | امام حسینؑ |
سوید بن عمرو بن ابی مطاع کا نام 61 ہجری کی 10 محرم کو یزید بن معاویہ اور امام حسین ؑ کی فوجوں کے درمیان ہونے والی کربلا کی جنگ میں آخری شہید کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ آپ کو شہید کرنے والے عروہ بن بطان ثعلبی اور زید بن رقاد جنبی ہیں۔ آپ اشقیا کی فوج کے پہلے حملے میں زخمی ہوئے۔
تعارف
سوید بن عمرو بن ابی المطاع قبیلہ بنی خثعم سے تھے[1]بنی خثعم یمن کے قبیلۂ قحطانیہ کی شاخ خثعم بن انمار بن اراش کو کہتے ہیں۔ تصحیف کی وجہ سے ابن شہر آشوب نے ان کا نام عمرو بن ابی مطاع جعفی ذکر کیا ہے۔[2] ابن طاووس نے انہیں شریف اور زیادہ عبادت گزار کی صفات سے تعبیر کیا ہے۔[3]
آخری شہید
شیخ طوسی نے انہیں حضرت امام حسین ؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے[4] اور طبری کی گزارش کے مطابق سوید بن عمرو بن ابی مطاع کربلا کے میدان میں شہید ہونے والے آخری شخص ہیں۔[5] ۔
شہادت
نماز ظہر کے بعد سوید بن عمرو آگے بڑھے اور درج ذیل رجز پڑھے:
اقدم حسين اليوم تلقى احمد | وشيخك الحبر عليا ذا الندى | |
وحسنا كالبدر وافي الا سعدا | وعمك القرم الهام الارشدا | |
حمزة ليث الله يدعي اسدا | وذا الجناحين تبوا مقعدا | |
في جنة الفردوس يعلو صعدا | {{{2}}} |
ترجمہ: اے حسین ؑ ! میں نے آج کے دن اپنے قدم بڑھائے ہیں تا کہ میں آپ کی جد احمد ؐ، آپ کے والد حضرت علی ؑ، چودھویں کے چاند کی مانند آپ کے بھائی حضرت امام حسن، شیر خدا کی مانند آپ کے چچا حمزہ اور بہشت میں دو پروں کے ساتھ پرواز کرنے والے حضرت جعفر طیار کا دیدار کر سکوں۔
یہ رجز پڑھتے ہوئے حملہ آور ہوئے اور بڑی بہادری سے جنگ کی اور آخر کار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ یہانتک کہ لوگوں کی آواز سنی کہ حسین قتل ہو گئے تو اپنا چاقو نکال کر دوبارہ حملہ آور ہوئے عروہ بن بطار تغلبی اور زید بن رقاد جنبی نے انہیں شہید کیا۔[6]
حوالہ جات
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (ج۳)، تحقیق: محمد باقر محمودی، بیروت، دار التعارف للمطبوعات،، ۱۹۷۷ء/۱۳۹۷ق.
- سماوی، محمد، إبصار العین فی أنصار الحسین، قم، زمزم هدایت، ۱۳۸۴ش.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، ۱۴۰۳ق.
- لبیب بیضون، موسوعة کربلاء، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۴۲۷ق.
- نویری، نهایة الأرب فی فنون الأدب، قاهره، دار الکتب و الوثائق القومیة، ۱۴۲۳ق.