عبد الله بن عباس

ویکی شیعہ سے
عبد الله بن عباس
کوائف
مکمل نامعبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب
محل زندگیمدینہمکہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربپیغمبر(ص)امام علی • عباس • قثم
وفات۶۸ یا ۶۹ ھ
مدفنطائف
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتصفینجملنہروان
ہجرتمدینہ
وجہ شہرتاصحاب امام علی (ع)
دیگر فعالیتیںمفسر قرآن


عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب (سنہ 3 قبل ہجرت۔ سنہ 68 ھ)، ابن عباس کے نام سے مشہور ہیں، آپ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے، پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کے چچا زاد بھائی، آنحضرت (ص) کے صحابی اور شیعوں کے پہلے تین اماموں کے اصحاب میں سے ہیں۔

ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کو منصب خلافت کا اہل سمجھتے تھے اور تینوں خلفاء کے ساتھ بھی تعاون کرتے تھے؛ انہوں نے جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں امام علی (ع) کی طرف سے شرکت کی تھی اور انہیں امام کی طرف سے بصرہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔

ابن عباس سے شیعہ و سنی سلسلہ سند میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان کی طرف منسوب تفسیر کی کتاب کئی بار طبع ہو چکی ہے۔ ان کا شمار خلفائے بنی عباس کے جد کے طور بھی کیا جاتا ہے۔

نسب و ولادت

ان کا نام عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف اور ابو العباس ان کی کنیت تھی۔ انہیں حبر الامۃ (عالم امت) اور بحر (سمندر) کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔[1] عبد اللہ، پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کے چچا زاد بھائی تھے۔

ان کے والد عباس، پیغمبر (ص) کے چچا اور قریش کے سرداروں میں سے تھے جن کے پاس زمانہ جاہلیت میں مدتوں حاجیوں کی سقایت اور مسجد الحرام کی نظارت کی ذمہ داریاں رہیں۔ ان کی والدہ لبابہ کبری، حارث بن حزن ہلالی کی بیٹی اور رسول اکرم (ص) کی زوجہ میمونہ کی بہن تھیں، ام الفضل ان کا لقب تھا۔ وہ مکہ میں حضرت خدیجہ کے بعد مسلمان ہونے والی پہلی خاتون تھیں اور پیغمبر (ص) کی نظر میں قابل احترام تھیں۔

ام الفضل نے حسنین کو دودھ پلایا ہے اس اعتبار سے قثم[2] اور عبد اللہ، حسنین (ع) کے رضاعی بھائی شمار ہوتے ہیں۔ ابن عباس خالد بن ولید کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔[3]

مشہور ہے کہ ابن عباس کی ولادت ہجرت سے تین سال پہلے شعب ابی طالب میں ہوئی[4] [5] اور ایک دوسرے قول کے مطابق، ان کی ولادت ہجرت سے ۵ سال پہلے ہوئی ہے۔

زندگی نامہ

رسول خدا (ص) کے صحابی

پیغمبر اکرم (ص) نے ابن عباس کی ولادت کے بعد انہیں اپنا لعاب دہن دیا اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔[6] پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے وقت ان کی عمر تاریخی کتابوں میں 10 یا 15 سال ذکر ہوئی ہے۔[7]

دور خلفا

خلفائے راشدین ابن عباس کا احترام کرتے تھے۔ انہیں خلفا کے دور میں منصب افتاء حاصل تھا اور ان کا شمار خلیفہ دوم اور سوم کے نزدیک ان لوگوں میں سے ہوتا تھا جن کے نظریات سے خلیفہ استفادہ کرتے تھے۔[8] عبد اللہ نے سنہ 35 ہجری میں جس وقت عثمان بن عفان محصور تھے، ان کی طرف سے لوگوں کے ساتھ حج انجام دیا۔[9]

دور امام علی (ع)

ابن عباس نے جمل و صفین اور نہروان کی جنگوں میں شرکت کی تھی۔[10] آپ جنگ صفین میں امام کے لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔[11] حکمیت کے واقعہ میں امام نے آپ کا نام اپنی طرف سے حکم کے طور پر پیش کیا تھا لیکن خوارج نے قبول نہیں کیا۔ انہیں امام (ع) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔[12] حضرت علی (ع) نے آپ کو خطوط لکھے ہیں جن میں سے دو خطوں کا ذکر نہج البلاغہ کے 18 اور 66 نمبر خطوط میں ہوا ہے۔[13] بعض نقل قول کے مطابق امام علی (ع) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔[14] بعض منابع کے مطابق یہ باتیں صحت پر مبنی نہیں ہیں۔[15]

دور حسنین

ابن عباس نے امام علی (ع) کی شہادت کے بعد لوگوں کو امام حسن (ع) کی بیعت کی طرف دعوت دی۔ جس وقت امام حسن (ع) کا خطبہ ختم ہوا، ابن عباس آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا: اے لوگو، یہ تمہارے پیغمبر کے فرزند اور تمہارے امام کے جانشین ہیں؛ ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔[16]

امام حسن (ع) کی تشییع جنازہ میں، جب بنی امیہ نے آپ کو پیغمبر (ع) کی قبر میں ان کے پہلو میں دفن ہونے سے روکا تو ابن عباس نے مروان بن حکم سے بات کی اور بنی ہاشم اور بنی امیہ کی جنگ میں مانع ہوئے۔[17] ابن عباس امام حسین (ع) کے اصحاب میں سے بھی تھے۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام نے عراق کا قصد کیا وہ مکہ میں تھے۔ انہوں نے دو بار امام حسین (ع) سے ملاقات کی اور آپ کو عراق کے سفر سے منع کیا۔

معاویہ کے دور میں

ابن عباس نے معاویہ کے زمانہ میں یزید کی بیعت سے پرہیز کیا۔[18] لیکن بعد میں انہوں نے اس کی بیعت کر لی۔[19] البتہ انہوں نے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت نہیں کی۔[20]

علمی مقام

ابن عباس پہلی صدی ہجری کے سب سے مشہور مفسر قرآن ہیں۔ ان سے تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں۔ بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر (ص) نے ابن عباس کے لئے دعا کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کی تھی کہ اللہ انہیں تاویل قرآن کا علم عطا کرے۔[21] ذہبی نے ان کا شمار منابع فقہ، حدیث اور تفسیر کے بزرگان میں سے کیا ہے۔[22]

ذہبی اور زرکلی کے قول کے مطابق ابن عباس نے 6601 حدیثٰیں نقل کی ہیں[23] جس میں ۱۲۰ احادیث بخاری اور 9 حدیث مسلم نے ان سے نقل کی ہیں۔ بنی عباس کی خلافت بننے کے سلسلہ میں بیان کی جانے والی احادیث کا بڑا حصہ ان سے منسوب ہے۔[24]

ابن عباس نے پیغمبر (ص) امام علی (ع)، عمر، معاذ بن جبل اور ابوذر سے روایات نقل کی ہیں۔ اور بہت سارے افراد نے آپ سے روایات نقل کی ہیں جیسے:

اولاد

  • علی: ابن عباس کی اولاد میں علی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ عبد الملک بن مروان اور عبد اللہ بن زبیر کے جھگڑے میں اس نے اپنے والد کی نصیحت کے مطابق عبد الملک بن مروان کا ساتھ دیا۔[26] خلیفہ کے ساتھ اس کے اچھے روابط تھے۔[27] البتہ بعد میں عبد الملک اس سے ناراض ہو گیا تھا۔[28] ولید بن عبد الملک نے ایک کنیز زادہ کے قتل کے الزام میں اس سے اس بات کا انتقام لیا۔[29] خلفائے بنی عباس انہیں کی نسل میں سے ہیں۔[30]
  • عباس: ان کی ماں حبیبہ، زبیر[31] کی بیٹی ہیں۔
  • اسماء[32]
  • فضل
  • محمد
  • عبید اللہ
  • لبابہ

آثار

اس کے باوجود کہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں ابن عباس سے کثرت سے تفسیری اقوال نقل ہوئے ہیں، تفسیر کے بارے میں ان کی تالیف کے سلسلہ میں شک پایا جاتا ہے۔ ان مطالب سے جو ان کے بعض شاگردوں کے بارے میں نقل ہوئے ہیں،[33] سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کے بعد ان کے اقوال کو تدوین کیا گیا ہے۔[34] مندرجہ ذیل آثار کی نسبت ان کی طرف دی جاتی ہے:

  • تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: فیروز آبادی، صاحب قاموس، نے اس تفسیر کو چار جلدوں میں تالیف کیا ہے جسے انہوں نے تفسیر طبری اخذ کیا ہے اور جس کی بنیاد ابن عباس کی روایت ہے۔ یہ کتاب پہلے بمبئی اور اس کے بعد بولاق مصر میں طبع ہوئی ہے۔
  • تفیسر ابن عباس: عیسی بن میمون و ورقاء نے اسے ابو نجیح اور اس نے اور حمید بن قیس نے اسے مجاہد سے نقل کیا ہے۔
  • تفسیر جلودی: عبد العزیز جلودی نے اسے ابن عباس کی روایات سے جمع کیا ہے۔

تاریخی روایات کے درمیان ایک مکتب کی تاسیس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، جس کی نسبت تفسیر قرآن کے سلسلہ میں ابن عباس کی طرف دی گئی ہے۔ اس مکتب تفسیر کے نامور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:

  • مجاہد
  • عکرمہ مولی ابن عباس
  • سعید بن جبیر
  • عطا بن یسار و ۔۔۔

مستشرقین کے نظریات

بعض مستشرقین جن میں گولڈ تزیہر شامل ہے، وہ دعوی کرتے ہیں کہ ابن عباس سے منقولہ روایات، مجہول ہونے اور شک و تردیدی کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہیں۔[35] کتاب مستشرقین اور ابن عباس نے اس سلسلہ میں مستشرقین کے نظریات پر تنقید اور ان کا تجزیہ پیش کیا ہے۔[36]

وفات

ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے[37] اور مکہ میں زندگی بسر کرتے تھے، انہیں عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک بن مروان کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ عبد اللہ بن زبیر نے آپ سے بیعت طلب کی لیکن ابن عباس نے انکار کر دیا؛ لہذا ابن زبیر نے انہیں طائف جلا وطن کر دیا۔ مشہور یہ ہے کہ ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات سن 69 ہجری میں نقل ہوئی ہے۔[38] ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے لہذا ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے:

ان یاخذ اللہ من عینی نورھماففی لسانی و قلبی منھما نور
اگر خدا نے میری آنکھوں کی بینائی لے لی ہےتو میری زبان اور کان کا نور تو ابھی باقی ہے۔
قلبی ذکی و عقلی غیر ذی دخلو فی فمی صارم کالسیف ماثور
میرا دل ذکی اور عقل سالم ہےمیرے منہ میں تیز شمشیر کی مانند زبان ہے۔

حوالہ جات

  1. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷، البدایۃ والنہایۃ، جلد ۸، صفحہ ۲۹۵۔
  2. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۸۵، ابن عبد البر، جلد ۲، صفحہ ۸۱۱۔
  3. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷
  4. انساب الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۲۷۔
  5. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷
  6. انساب الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۲۸۔
  7. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۰۔
  8. المنتظم، جلد ۶، صفحہ ۷۲۔
  9. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۰۔
  10. اعلام، جلد ۴، صفحہ ۹۵۔ اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۸۔
  11. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۸۔
  12. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۸۔ بلاذری، جمل من انساب الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹۔ طبری، جلد ۴، صفحہ ۵۴۳۔
  13. نہج البلاغہ، صفحہ ۴۹۸۔۴۹۹ (خط ۱۸) صفحہ ۶۰۷۔۶۰۸ (خط ۶۵)
  14. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹۔
  15. محمد تقی شوشتری، قاموس الرجال، جلد ۶، صفحہ ۴۴۱، خویی، معجم الرجال الحدیث، جلد ۱۰، صفحہ ۲۳۸۔
  16. معجم الرجال الحدیث، جلد ۱۰، صفحہ ۲۳۴۔
  17. شیخ مفید، الارشاد، جلد ۲، صفحہ ۱۸۔
  18. طبری، جلد ۵، صفحہ ۳۰۳۔
  19. طبری، جلد ۵، صفحہ ۳۴۳۔
  20. طبری، جلد ۵، صفحہ ۳۸۴۔ بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۷۰۔۷۱۔ ذہبی، جلد ۳، صفحہ ۳۵۶۔۳۵۹
  21. مقدمتان فی علوم القرآن، صفحہ ۵۳۔۵۴
  22. رجوع کریں: ذہبی، جلد ۳، صفحہ ۳۳۱۔
  23. زرکلی، جلد ۴، صفحہ ۹۵۔
  24. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۶۳۔
  25. اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۸۔
  26. اخبار، صفحہ ۱۳۱، ۱۵۴۔
  27. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۷۰۔
  28. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۱۰۱۔۱۰۲۔
  29. بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۱۰۳۔
  30. ابن سعد، طبقات الکبری، جلد ۵، صفحہ ۲۴۱۔
  31. انساب الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۷۰۔
  32. ابن سعد، طبقات الکبری، جلد ۵، صفحہ ۲۴۱۔
  33. سلقینی، صفحہ ۱۵۴۔ ۱۵۵
  34. رجوع کریں: گولڈ فیلڈ، صفحہ ۱۲۸۔
  35. ابن عباس کے بارے میں مستشرقین کے نظریات کی تحقیق
  36. میراث مکتوب
  37. ابن اثیر، اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۰۔
  38. ابن اثیر، اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۰۔

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ ۔ ۱۹۸۹ ع۔
  • زرکلی، خیر الدین، اعلام قاموس تراجم لاشھر الرجال والنسائ من العرب والمستعرین والمستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین طبع ۸، ۱۹۸۹ ع۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساف الاشراف، طبع سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷ ع۔
  • دشتی، محمد، ترجمہ نہج البلاغہ، انتشارات مشرقین، طبع ۴، قم، ۱۳۷۹ ش۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، طبع اول، ۱۴۲۰ ق۔ ۱۹۹۹ ع۔
  • ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، طبع علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲ ق۔ ۱۹۹۲ع۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، بیروت ۱۴۱۲ ق۔ ۱۹۹۲ ع۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم والملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، طبع اول، ۱۴۱۲ ق۔ ۱۹۹۲ ع۔
  • خویی، ابو القاسم، معجم الرجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ ق۔ ۱۳۶۹ ش۔
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، شیخ مفید کانفرنس، قم، ۱۴۱۳ ق۔
  • جفری و صاوی، آرتور و عبد اللہ اسماعیل، مقدمتان فی علوم القرآن، طبع قاہرہ (مصر) ۱۳۹۲ ق۔ ۱۹۷۲ ع۔
  • سلقینی، عبد اللہ بن محمد، حبر الامۃ، عبد اللہ بن عباس و مدرسۃ فی التفسیر، بیروت، ۱۴۰۷ ق۔ ۱۹۸۶ ع۔
  • طبری، محمد بن جریر، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، طبع دوم، ۱۳۸۷ ق۔ ۱۹۶۷ ع۔