بلوغ
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بلوغ (بلوغت) فقہی اصطلاح میں انسانی عمر کے اس مرحلے کو کہتے ہیں جس پر پہنچنے کے بعد اس پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں اور وہ دینی احکام کا پابند ہوجاتا ہے۔ فقہاء نے ائمہ معصومینؑ سے منقول روایات کی بنیاد پر بلوغت کی چند نشانیاں ذکر کی ہیں۔ شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق، لڑکے پندرہ سال قمری مکمل کرنے کے بعد اور لڑکیاں نو سال قمری مکمل کرنے کے بعد بالغ ہوجاتی ہیں۔ البتہ بعض فقہاء کے نزدیک لڑکیاں 13 سال میں سنِ بلوغ پر پہنچ جاتی ہیں۔
احتلام اور ناف کے نیچے سخت بال اگنا لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے بلوغت کی طبیعی اور مشترک علامات میں سے ہیں۔ لڑکیوں کی بلوغت کی خاص علامت حیض (ماہواری) کا خون دیکھنا ہے۔ بلوغت کی مذکورہ علامات میں سے جو بھی نشانی سب سے پہلے ظاہر ہوجائے وہ فرد بالغ شمار ہوگا۔ بلوغ کے بعد انسان عبادی، حقوقی، جزائی اور مالی تمام قسم کے دینی احکامات کا مخاطب قرار پاتا ہے لہذا اس پر ہرقسم کی دینی ذمہ داریاں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مفہوم اور اہمیت
فقہی اصطلاح میں بلوغت کا مطلب انسانی عمر کا وہ مرحلہ ہے جس پر پہنچنے کے بعد فرد شرعی طور پر مکلف بن جاتا ہے اور اس پر احکامِ الٰہی کی پیروی فرض ہو جاتی ہے۔[1] چونکہ بلوغ شرعی ذمہ داری کا آغاز ہے، اس لیے فقہ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور فقہاء نے اس کی حقیقت، نشانیاں اور احکام پر تفصیل سے بحث کی ہے۔[2] فقہاء کے نزدیک، بلوغت، عقل اور احکام الہی انجام دینے کی طاقت؛ یہ تین بنیادی شرائط ہیں جو ہر دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔[3] اسی وجہ سے فقہ کے زیادہ تر ابواب میں بلوغت کا ذکر ملتا ہے۔[4]
بلوغت کی نشانیاں
ائمہ معصومینؑ سے منقول روایات کی بنیاد پر فقہاء نے بلوغت کے لیے عمر کی حد اور قدرتی علامات دونوں کو معیار قرار دیا ہے۔ لہذا ان میں سے کسی ایک علامت کے پائے جانے سے بلوغت ثابت ہوگی: شیعہ فقہاء کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ لڑکے پندرہ سال قمری (عسیوی سال کے حساب سے تقریباً 14 سال، 6 ماہ اور 12 دن) مکمل کرنے کے بعد جبکہ لڑکیاں نو سال قمری (عیسوی سال کے حساب سے تقریباً 8 سال، 8 ماہ اور 20 دن) مکمل کرنے کے بعد بالغ ہوجاتی ہیں۔[5] بعض فقہاء جیسے محمد اسحاق فیاض[6] اور یوسف صانعی[7] کے نزدیک بعض احادیث کی بنیاد پر [8] لڑکیوں کا سنِ بلوغت تیرہ سال ہے۔
منی نکلنا (احتلام)[9] اور ناف کے نیچے سخت بال اگنا[10] لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے بلوغت کی مشترکہ طبیعی علامتیں ہیں۔ لڑکیوں کے لیے خاص علامت حیض (ماہواری) کا خون دیکھنا۔[11] البتہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ نو سال سے پہلے آنے والا خون حیض شمار نہیں ہوگا، چاہے اس کی علامات حیض کی ہوں؛ پس صرف نو سال یا اس کے بعد آنے والا خون ہی حیض کا حکم رکھتا ہے لہذا لڑکیوں کی بلوغت کا معیار 9 سال پورا ہونا ہے۔[12]
بلوغت ثابت ہونے کے طریقے
اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ سنِ بلوغت کو پہنچ چکا ہے تو اس کا دعویٰ درج ذیل تین صورتوں میں قبول کیا جا سکتا ہے:
- اگر وہ احتلام (لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے) یا حیض (لڑکیوں کے لیے) کو اپنی بلوغت کی دلیل بنائے، تو یہ بات اس کے بارے میں ممکن اور قابلِ تصور ہونی چاہیے۔[13]
- اگر وہ ناف کے نیچے سخت بال اگنے کو اپنی بلوغت کی دلیل بنائے، تو یہ مشاہدے کے بعد ثابت ہوگی۔[14]
- اگر وہ عمر (سن) کو دلیل کے طور پر بیان کرے، تو یہ صرف اسی صورت میں قبول ہوگی جب وہ شرعی اعتبار سے معتبر گواہ (بیّنہ) پیش کرے۔[15]
بلوغت کے فقہی اور قانونی اثرات
جب انسان سنِ بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو وہ الٰہی احکام اور دینی ذمہ داریوں کا مخاطب قرار پاتا ہے؛ خواہ یہ ذمہ داریاں عبادی، حقوقی، جزائی، اقتصادی، سماجی یا سیاسی ہوں۔[16] البتہ تیرہویں صدی ہجری کے فقیہ میر عبد الفتاح مراغی نے اپنی کتاب العناوین میں نقل کیا ہے کہ بہت سے احکامِ وضعی (مثلاً میراث، دیت، ضمان، حیازت اور اس نوع کے دیگر احکام) میں بلوغت شرط نہیں ہے اور یہ احکام نابالغ افراد پر بھی جاری ہوتے ہیں۔[17]
وقت سے پہلے یا بعد کی بلوغت
بلوغِ زودرس یعنی وقت سے پہلے کی بلوغت ایک جسمانی (فزیولوجیکل) کیفیت ہے جو بعض لڑکوں اور لڑکیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس حالت میں وراثت، آب و ہوا، حفظان صحت اور خوراک جیسے عوامل کے نتیجے میں بلوغت کی نشانیاں اور علامات اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں فرد میں پہلے ظاہر ہو جاتی ہیں۔[18] بلوغ دیررس یا دیر کی بلوغت؛ یہ کیفیت لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں پائی جاتی ہے، لیکن اس کا تناسب لڑکوں میں زیادہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی فرد میں سترہ (17) سال کی عمر تک بلوغت کی علامات ظاہر نہ ہوں تو اسے "بلوغ دیررس"(مقررہ وقت کے بعد کی بلوغت) کا شکار سمجھا جاتا ہے۔[19]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، ص135۔
- ↑ سبحانی، البلوغ حقيقتہ، علاماتہ وأحكامہ، ص6۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص472؛ منتظری، نہایۃ الاصول، 1415ھ، ص174۔
- ↑ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395شمسی، ص20۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363شمسی، ج 20، ص348۔
- ↑ «تغییر فتوای یکی از مراجع تقلید دربارہ سن تکلیف دختران»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386شمسی، ص35-36۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص168۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص84؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص144؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص185؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج2، ص14۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص84؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص144؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص185؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج2، ص14۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، المبسوط، ج2، ص282؛ محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص191۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج4، ص146؛ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص175۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج35، ص117۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج35، ص118۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج35، ص118۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، ص136؛ مہریزی، «بلوغ دختران»، ص127-128۔
- ↑ حسینی مراغی، العناوین الفقہیۃ، 1417ھ، ج2، ص660۔
- ↑ محمدیان، بلوغ تولدی دیگر، 1371شمسی، ص47۔
- ↑ محمدیان، بلوغ تولدی دیگر، 1371شمسی، ص49۔
مآخذ
- ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، چاپ عبد السلام محمد ہارون، قم 1404ھ۔
- ابن قدامہ، المغنی، بیروت 1403/1983ھ۔
- ابن منظور، لسان العرب، چاپ علی شیری، بیروت 1412/1992ھ۔
- مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب الصّوم، قم 1413ھ۔
- مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب المکاسب، چاپ افست قم 1416ھ۔
- یوسف بن احمد بحرانی، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم 1363ـ1367ہجری شمسی۔
- حسین بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، قم 1399ہجری شمسی۔
- عبد الرحمان جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، استانبول 1404/1984ھ۔
- محمد ابراہیم جنّاتی، «بلوغ از دیدگاہ فقہ اجتہادی”، کیہان اندیشہ، ش 61 (مرداد و شہریور 1374ہجری شمسی)۔
- محمد بن حسن حر عاملی، وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم 1409ـ1412ھ۔
- روح اللہ خمینی، رہبر انقلاب و بنیانگذار جمہوری اسلامی ایران، تحریر الوسیلۃ، قم 1363ہجری شمسی۔
- ابو القاسم خوئی، مصباح الفقاہۃ، قم 1371ہجری شمسی۔
- ابو القاسم خوئی، منہاج الصالحین، نجف 1397ھ۔
- حسین بن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت ( بیتا.)
- وہبہ مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق 1409/1989ھ۔
- مصطفی احمد زرقاء، المدخل الفقہی العام، دمشق 1387/1968ھ۔
- محمود بن عمر زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت بیتا۔
- جعفر سبحانی، البلوغ والتلیہ رسالۃ فی تأثیر الزمان و المکان الی استنباط الاحکام، قم 1418ھ۔
- زین الدین بن علی شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، چاپ محمد کلانتر، بیروت 1403/1983ھ۔
- محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت 1390ـ1394/ 1971ـ1974ء۔
- محمد کاظم بن عبد العظیم طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، بیروت 1404/1984ھ۔
- فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسول محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبائی، بیروت 1408/1988ھ۔
- فخر الدین بن محمد طریحی، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تہران 1362ہجری شمسی۔
- محمد بن حسن طوسی، کتاب الخلاف، قم 1407ـ1411ھ۔
- محمد بن حسن طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیہ، ج 2، چاپ محمد تقی کشفی، تہران 1387ھ۔
- یوسف فقیہ، الاحوال الشخصیۃ فی فقہ اہل البیت(ع)، بیروت 1409/1989ھ۔
- محمد بن یعقوب فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت 1407/1987ھ۔
- محمد بن شاہ مرتضی فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، چاپ مہدی رجائی، قم 1401ھ۔
- احمد بن محمد فیومی، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، بیروت بیتا۔
- محمد علی گرامی، «پژوہش در بلوغ دختران”، کیہان اندیشہ، ش 66 (خرداد و تیر 1375ہجری شمسی)۔
- محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، بیروت 1403/1983ھ۔
- جعفر بن حسن محقق حلّی، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم 1408ھ۔
- عبدالفتاح بن علی مراغی، العناوین (عناوین الاصول)، قم 1418ھ۔
- احمد بن محمد مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، ج 9، چاپ مجتبی عراقی، قم 1414ھ۔
- مہدی مہریزی، بلوغ دختران: مجموعہ مقالات، قم 1376ہجری شمسی۔
- محمد حسن بن باقر نجفی، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت 1412/1992ھ۔
- احمد صبور اردو بادی، بلوغ۔
- سید احمد احمدی، روان شناسی نوجوانان و جوانان۔
- محمد تقی فلسفی، بزرگسال و جوان۔
- جان براد شاد، من ـ کودک ـ من، ترجمہ دکتر داود محب علی۔