ابو بکر بن حسن بن علی

ویکی شیعہ سے
ابو بکر بن حسنؑ بن علیؑ
نامابو بکر بن حسنؑ بن علیؑ
جائے پیدائشمدینہ
شہادت10 محرم سنہ 61 ہجری
وجہ شہادتواقعہ عاشورا
مدفنکربلا، حرم امام حسینؑ
والدامام حسن مجتبی علیہ السلام
مشہور اقاربامام حسین علیہ السلام، قاسم بن حسن
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


ابو بکر بن حسن بن علی (شہادت 10 محرم سنہ 61 ھامام حسن مجتبی علیہ السلام کے فرزبد ہیں۔ روز عاشورا، قاسم بن حسن کے بعد عبد اللہ بن عقبہ غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

نام و نسب

ابوبکر بن حسن، امام حسن مجتبی (ع) کے فرزند ہیں۔ ان کی والدہ ام ولد تھیں۔[1] بعض اس بات کے قائل ہیں کہ ابوبکر اور قاسم بن حسن ایک ماں سے ہیں۔[2] جن کا نام رملہ ذکر ہوا ہے۔[3] وہ روز عاشورا اپنے بھائیوں عبد اللہ بن حسن اور قاسم بن حسن کے ہمراہ شہید ہوئے۔[4] بعض کتابوں میں تصحیف کی بنا پر ابو بکر بن حسین نقل ہوا ہے۔[5]

واقعۂ کربلا

عاشورا کے دن عبد اللہ بن عقبہ غنوی [6] کے تیر سے آپ کی شہادت قاسم بن حسن[7] کے بعد ہوئی۔ زیارت ناحیہ اور زیارت رجبیہ میں آپ کا نام ذکر ہوا ہے اور زیارت ناحیہ میں آپ کے قاتل پر لعنت بھیجی گئی ہے۔[8] سلیمان بن قتہ کے شہدائے کربلا کے بارے میں نظم کئے گئے مرثیہ کے ایک شعر[9] میں طائفہ غنوی کے ایک شخص کی طرف امام حسین کے ایک سپاہی کو شہید کرنے کی نسبت دی گئی ہے شاید اس سے مراد ابو بکر بن حسن بن علی ہوں چونکہ وہ ہی عبد اللہ بن عقبہ غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں:

و عند غنيٍّ قطرة من دمائنا سنجزیهم یوما بها حیث حلت
قبیلہ غنی پر ہمارے خون کے ایک قطرہ حساب باقی ہے مناسب موقع پر ہم اس کا انتقام لیں گے۔

بعض نے ان کے قاتل کا نام حرملہ بن کاہل اسدی لکھا ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۶۸؛ اصفہانی، مقاتل‌ الطالبیین، ص۹۲
  2. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل‌ الطالبیین، دار المعرفة، ص۹۲.
  3. سماوی، إبصار العین، ۱۴۱۹ق، ص۷۲.
  4. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۶۱-۶۲؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۶۸.
  5. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل‌ الطالبیین، دار المعرفة، ص۹۲؛ ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۴، ص۷۵؛ ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۴ق، خامسہ ۱، ص۴۷۶، ۴۷۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۴۸.
  6. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۵۷؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، ج۳، ص۲۰۱؛ طبری تاریخ، ج۵، ص۴۶۸؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۸؛ طبرسی، اعلام‌الوری، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۶.
  7. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۵۷؛ اصفہانی، مقاتل‌ الطالبیین، ص۹۲.
  8. مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۶۵، ج۹۸، ص۲۶۹؛ سید بن طاووس، اقبال، ص۵۷۴.
  9. بلاذری، انساب‌ الاشراف، ج۳، ص۲۲۰؛ ابن‌ سعد، الطبقات، (طبقہ خامسہ)، ج۱، ص۵۱۱.
  10. ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۹۲.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری(طبقہ خامسہ ج۱)، تحقیق: محمد بن صامل السلمی، مکتبہ الصدیق، الطائف، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م.
  • اصفہانی، ابوالفرج علی بن الحسین، مقاتل‌الطالبیین،، تحقیق: سید احمد صقر، دارالمعرفہ، بیروت، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الأشراف(ج۳)، تحقیق: محمد باقر المحمودی، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۹۷۷ق/۱۳۹۷م.
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبارالطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال‌الدین شیال، منشورات الرضی، قم، ۱۳۶۸ش.
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصارالعین فی أنصارالحسین علیه‌السلام، دانشگاه شہید محلاتی، قم، ۱۴۱۹ق.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اقبال‌الأعمال، دارالکتب الإسلامیہ، تہران، ۱۳۶۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری،‌دار الکتب الإسلامیہ، تهران.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج‌الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالہجرة، چ دوم، ۱۴۰۹ق.
  • مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسoہالوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • مفید، الإرشاد، انتشارات کنگره جہانی شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.