مالک بن عبد اللہ بن سریع ہمدانی

ویکی شیعہ سے
مالک بن عبد اللہ ہمدانی
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
کوائف
نام:مالک بن عبداللہ بن سریع ہمدانی
نسبقبیلہ ہمدان کی قوم بنی جابر
مقام سکونتکوفہ
شہادت61ھ
مقام دفنحرم امام حسین(ع)


مالک بن عبد اللہ بن سریع ہمدانی (شہادت: 61ھ) کربلا کے شہیدوں میں سے ایک ہیں جو اپنے چچازاد بھائی اور سوتلے بھائی سیف بن حارث بن سریع کے ساتھ عاشورا کے دن شہید ہوئے۔ مالک کا تعلق قبیلہ ہَمْدان کی بنی جابر شاخ سے تھا۔

مآخذ میں مالک کا سیف اور امام حسینؑ سے ایک مکالمہ بیان ہوا ہے؛ وہ دونوں روتے ہوئے امامؑ کے پاس آئے اور امام کے جواب میں اپنے رونے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں: وہ دشمن کے مقابلے میں امام کے لئے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

نسب

مالک بن عبداللہ کا تعلق شہدائے کربلا میں سے ہے[1]وہ قبیلہ ہَمْدان[2] کی بنی جابر شاخ سے[3] تھے۔ آپ اور آپ کے چچازاد بھائی سیف جو آپ کا سوتیلا بھائی بھی تھا،[4] کو شہدائے جابری کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[5]

زیارت الشہدا (زیارت ناحیہ غیر مشہور) میں آپ کو مالک بن عبداللہ بن سریع کے نام سے سلام دیا گیا ہے۔[6] اور زیارت رجبیہ امام حسین(ع) میں مالک بن عبداللہ حائری کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[7] بعض محققین ان دونوں کو ایک آدمی سمجھتے ہیں۔[8]

شہادت

امام حسینؑ کی دو جابری شہید جوانوں سے گفتگو

«(امام حسین) نے ان سے کہا: میرے بھتیجے کیوں رو رہے ہو؟ خدا کی قسم یہ یقین ہے کہ بہت جلد خوشحال ہوجاؤگے۔ آنھوں نے کہا: اللہ ہمیں آپ پر قربان کرے، خدا کی قسم اپنے لئے نہیں روتے ہیں، آپ پر رو رہے ہیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا محاصرہ کیا ہے اور ہم آپ کا دفاع نہیں کر سکتے ہیں۔ امام نے کہا: میرے بھتیجو! میرے بارے میں غم اور دفاع کرنے پر اللہ تعالی متقین کو بہترین جزا دے گا۔[9]

مالک بن عبد اللہ بن سریع ہمدانی اور ان کے بھائی سیف بن حارث بن سریع ہمدانی اپنے غلام شبیب بن عبداللہ نَہٌشَلی کے ساتھ امام حسینؑ سے ملحق ہوئے۔[10] کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں کوفہ سے امام کے پاس آئے۔[11] اہل سنت مورخ محمد بن جَریر طبری (متوفی: 310ھ) کے مطابق مالک اور سیف کی شہادت عاشورا کے دن بعد از ظہر واقع ہوئی ہے۔ طبری کا کہنا ہے کہ جب امام حسینؑ کے اصحاب نے دیکھا کہ دشمنوں پر کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے تو امام پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کی۔[12]

کہا جاتا ہے کہ مالک بن عبداللہ اور سیف نے جب دیکھا کہ دشمن امام حسینؑ کے خیمگاہ کے قریب پہنچے ہیں تو دونوں روتی آنکھوں کے ساتھ امام کے قریب آئے۔[13] امامؑ نے رونے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے امام کی حالت اور اصحاب کی کمی کو بیان کیا تو امام نے ان کے حق میں دعا کی اور ان کی ستائش کی۔[14]

مآخذ کا کہنا ہے کہ مالک اور سیف کی امام سے اس گفتگو کے بعد میدان کی جانب بڑھے جبکہ ایک دوسرے سے سبقت لے رہے تھے۔[15] اور ایک دوسرے کی حمایت کر رہے تھے۔[16] مالک اور سیف نے مختصر وقت کے بعد امام حسین کو سلام دیا اور امام نے بھی ان کے سلام کا جواب دیا۔[17]

اس جیسی گفتگو غفاری دو جوان یعنی عبد اللہ اور عبد الرحمن بن عُروَہ غفاری کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے[18] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ مقتل الحسین خوارزمی جیسے مآخذ میں دو جابری جوان اور دو غفاری جوانوں میں اشتباہ ہوا ہے۔[19] مقتل خوارزمی میں اس گفتگو کی نسبت غفاری جوانوں کی طرف دی گئی ہے اور جابری دو جوانوں کے بارے میں امام حسینؑ کو سلام اور امام کا ان کو جواب دینا ذکر ہوا ہے۔[20]

بعض سیرہ نگار نے مالک اور سیف کے اخلاص کی تمجید و تعریف کی ہے۔[21] یہ دونوں سخت مقابلہ اور کئی دشمنوں کو زیر کرنے کے بعد[22] تیروں اور تلواروں کی زخمی سے تاب نہ لاتے ہوئے امام کے نزدیک[23] دونوں ایک ہی جگہ[24] جام شہادت نوش کر گئے۔ امام نے ان کی نعش کو دیکھ کر اشکبار ہوئے اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کی اور اللہ کے سامنے تسلیم ہوتے ہوئے ہر ایک کا اللہ کی طرف رجوع کرنا ناگزیر قررا دیا۔[25]

مالک اور سیف کی شہادت کے وقت کے بارے میں مختلف رائے بتائے گئے ہیں؛ بعض نے ان کی شہادت کو حَجّاج بن مَسْروق کے بعد[26] اور بعض نے حَنظلہ بن قیس کی شہادت کے بعد [27] یا حنظلہ بن اَسعد[28] کی شہادت کے بعد قرار دیا ہے۔ بعض نے ان کی شہادت کو عبد اللہ اور عبد الرحمن بن عروہ غفاری کی شہادت کے بعد قرار دیا ہے۔[29]

حوالہ جات

  1. ابی مخنف، وقعہ الطف، 1417ھ، ص234؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج5، ص442.
  2. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج34، ص273.
  3. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج7، ص325.
  4. ابی مخنف، وقعہ الطف، 1417ھ، ص234؛ ابن اثیر، الکامل، 1965م، ج4، ص72.
  5. قرشی، حیاہ الامام الحسین(ع)، 1413ھ، ج3، ص235.
  6. ابن مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص495.
  7. مجلسی، بحار الانوار، 1363ش، ج98، ص340.
  8. جمعی از نویسندگان، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، 1385ش، ص325، پانویس4.
  9. پایندہ، ترجمہ تاریخ طبری، 1375ش، ج7، ص3047.
  10. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ج1، ص132؛
  11. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج34، ص273؛ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص236-237، 243.
  12. طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج5، ص442.
  13. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص236-237، 397.
  14. ابی مخنف، وقعہ الطف، 1417ھ، ص235؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج5، ص443.
  15. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ج1، ص133.
  16. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج34، ص273-274.
  17. ابی مخنف، وقعہ الطف، 1417ھ، ص235؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج5، ص443.
  18. جمعی از نویسندگان، موسوعہ کلمات الامام الحسین(ع)، 1416ھ، ص448-449.
  19. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، 1388ش، ج6، ص223.
  20. خوارزمی، مقتل الحسین، 1423ھ، ج2، ص27-28.
  21. قرشی، حیاہ الامام الحسین(ع)، 1413ھ، ج3، ص235.
  22. کاشفی، روضہ الشہداء، 1382ش، ص384.
  23. قرشی، حیاہ الامام الحسین(ع)، 1413ھ، ج3، ص236.
  24. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج34، ص274.
  25. کاشفی، روضہ الشہداء، 1382ش، ص384.
  26. کاشفی، روضہ الشہداء، 1382ش، ص383-384.
  27. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص237.
  28. طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج5، ص443.
  29. ابی مخنف، وقعہ الطف، 1417ھ، ص234.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1965ء.
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • ابی مخنف، لوط بن یحیی، وقعة الطف، تصحیح محمدہادی یوسفی غروی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ سوم، 1417ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • پایندہ، ابوالقاسم، ترجمہ تاریخ طبری، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، 1375ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، قم، زمزم ہدایت، 1385ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی من المدینة الی المدینہ، قم، تحسین، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، موسوعہ کلمات الامام الحسین(ع)، قم، نشر معروف، چاپ سوم، 1416ھ۔
  • سماوی، محمد بن طاہر، اِبصار العین فی انصار الحسین(ع)، تحقیق محمدجعفر طبسی، قم، دانشگاہ شہید محلاتی، 1419ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1967ء۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاہ الامام الحسین(ع)، قم، مدرسہ علمیہ ایروانی، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • کاشفی، ملا حسین، روضة الشہداء، تحقیق عقیقی بخشایشی، قم، نوید اسلام، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محی الدین و محمدرضا مامقانی، قم، موسسة آل ابیت لاحیاء التراث، 1431ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1363ہجری شمسی۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین(ع) بر پایہ قرآن حدیث و تاریخ، با ہمکاری محمود طباطبایی نژاد و روح اللہ سیدطبایی، ترجمہ عبدالہادی مسعودی، قم، موسسہ دار الحدیث، 1388ہجری شمسی۔