عمار بن حسان طائی

ویکی شیعہ سے
عَمّار بن حَسّان طائی
حرم امام حسینؑ میں شہدائے کربلا کی آرامگاه
کوائف
نام:عَمّار بن حَسّان بن شُریح طائی
شہادتسنہ 61 ہجری 10 محرم الحرام
شہادت کی کیفیتلشکر عمر سعد کا حملہ
مقام دفنحرم امام حسینؑ


عَمّار بن حَسّان طایی امام حسینؑ کے اصحاب اور شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ زیارت شہداء (غیر مشہور زیارت ناحیہ) میں آپ کا نام لیا گیا ہے۔ تاریخی نقل کے مطابق آپ سنہ61 ہجری کو امام حسینؑ کی ہمراہی میں مکہ سے بسوئے کربلا آئے اور عاشورا کے دن کربلا میں امام کی معیت میں شہادت پائی۔

نام اور شجرہ نسب

عَمّار بن حَسّان کا تعلق قبیلہ طی سے تھا۔[1] آپ کو پہلی صدی ہجری کے شیعوں میں شمار کیا جاتا ہے اور امام حسینؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔[2]بعض تاریخی منابع میں آپ کو «عامِر بن حسان» کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعض محققین نے یہ قرین قیاس جانا ہے کہ یہ نام شاید کربلا کے ایک اور شہید عامر بن مسلم کے نام سے مشابہت کی وجہ سے مشہور ہوا ہے، یا یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے دو طریقوں سے نام لکھے جانے کی وجہ سے ہیں اور ایک دوسرے سے مشابہ قرار پائے ہیں۔[3] کتاب "قاموس الرجال" کے مصنف محمد تقی شوشتری نے بھی یہی احتمال دیا ہے کہ «عمار بن حسان» اور «عمار بن ابی‌ سلامہ» ایک شخص کے دو نام ہیں اور شہدائے کربلا میں سے ہیں۔[4]

کہا جاتا ہے کہ عمار کے والد «حسان بن شریح» بھی امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے جو کہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں لشکر امام علیؑ میں شامل تھے اور جنگ صفین میں شہید ہوئے۔[5] شیعہ راوی اور کتاب «قضایا امیرالمؤمنین» کے مصنف عبد الله بن احمد کے مطابق عمار بن حسان عمّار کے پوتے ہیں۔[6]

کربلا میں شہادت

نجاشی نے رجال نجاشی میں عمار بن حسان کو سنہ 61 ہجری کو روز عاشورا کربلا میں شہید ہونے والوں میں شمار کیا ہے۔ [7] محققین کے مطابق جب امام حسینؑ نے مکہ سے خروج کیا اس وقت عمار بھی امامؑ کی معیت میں مکہ سے خارج ہوا۔[8] تاریخی منابع کے مطابق واقعہ کربلا میں امام حسینؑ نے اس امید سے کہ لشکر عمر سعد جنگ سے دستبردار ہوگا، اس کے لشکر سے مخاطب ہوکر نصیحت آمیز گفتگو کی۔ لیکن انہوں نے امامؑ کی نصیحت قبول نہیں کی۔ اس خطاب کے بعد شمر نے اپنے لشکر کے ذریعے اصحاب امام حسینؑ کے خیمہ گاہ پر دائیں اور بائیں طرف سے حملہ کیا اور ان پر تیروں کی بارش برسائی۔ اس حملے کو تاریخ کی کتابوں میں "پہلا حملہ" کہا جاتا ہے۔[9] مورخین عمّار بن حسان کو اس پہلے حملے میں شہید ہونے والوں میں شمار کرتے ہیں۔[10] البتہ بعض دیگر تاریخی منابع کے مطابق شہادت عمار کی کیفیت یوں بیان کی گئی ہے کہ انہیں میدان کربلا میں امام حسینؑ کے سامنے شہید کیا گیا۔[11]

زیارت شہداء میں اس عبارت «اَلسّلامُ عَلَی عَمّار بنِ حَسّان» کے ساتھ عمار بن حسان پر سلام بھیجا گیا ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: الصمیانی، موسوعۃ فی ظلال شہداءالطف، 1434ھ، ج1، ص214.
  2. جمع نویسندگان، ذخیرۃ الدارین، 1379ہجری شمسی، ص416.
  3. الصمیانی، موسوعۃ فی ظلال شهداء الطف، 1434ھ، ج1، ص227.
  4. شوشتری، قاموس الرجال، 1417ھ، ج8، ص7.
  5. الصمیانی، موسوعۃ فی ظلال شهداء الطف، 1434ھ، ج1، ص217.
  6. سماوی، ابصارالعین، 1419ھ، ج1، ص197؛ نجاشی، رجال نجاشی، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص229.
  7. نجاشی، رجال نجاشی، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص229.
  8. جمع نویسندگان، ذخیرۃ الدارین، 1379ہجری شمسی، ص416.
  9. الصمیانی، موسوعۃ فی ظلال شهداء الطف، 1434ھ، ج1، ص235.
  10. ابن‌شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، المکتبۃ الحیدریۃ، ج3، ص259.
  11. جمع نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، 1381ہجری شمسی، ص207.
  12. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارلانوار، 1368ہجری شمسی، ج98، ص273.

مآخذ

  • ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبی‌طالب، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، بی‌تا.
  • الصمیانی، حیدر، موسوعۃ فی ظلال شهداء الطف، کربلا، العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، 1434ھ.
  • جمع نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، قم، یاقوت، 1381ہجری شمسی.
  • جمع نویسندگان، ذخیرۃ الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین(ع)، قم، تحسین، 1379ہجری شمسی.
  • سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین، مرکز الدراسات الإسلامیۃ لحرس الثورۃ، 1419ھ.
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس‌الرجال، قم، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، 1417ھ.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارلانوار، بیروت،‌ دار الاحیاء التراث العربی، 1368ہجری شمسی.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا.