ام البنین

ویکی شیعہ سے
(فاطمہ بنت حزام سے رجوع مکرر)
ام البنین
جنت البقیع میں ام البنین کی قبر
جنت البقیع میں ام البنین کی قبر
کوائف
پورا نامفاطمہ بنت حزام
لقب/کنیتام البنین
شہرتعلمدار عباسؑ کی ماں
مشہور اقاربامام علیؑ، حضرت عباس
جائے پیدائشمدینہ
آرامگاہمدینہ، جنت البقیع
علمی معلومات
دیگر معلومات


اُمّ البَنین کے لقب سے مشہورفاطمہ بنت حِزام ( 64ھ) امیرالمؤمنینؑ حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ اور عباسؑ، عبدالله، جعفر و عثمان کی والدہ ہیں۔ چاروں بیٹے عاشورا کے دن امام حسینؑ کے ساتھ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ ام البنین روزانہ جنت البقیع جاکر امام حسینؑ اور ان کی آل پر ماتم کرتی تھیں۔آپ کا مدفن جنت البقیع میں ہے۔

شیعہ علماء نے آپ کی شجاعت، فصاحت اور اہل‌ بیتؑ خاص کر امام حسینؑ کے ساتھ والہانہ محبت کی تعریف کی ہیں۔ شہید ثانی و عبدالرزاق مُقَرَّم کے مطابق ام‌البنین نے اپنے آپ کو خاندان رسالتؑ کی خدمت کے لئے وقف کر رکھی تھی اسی بنا پر اہل بیتؑ بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھےاور عید کے ایام میں آپ سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے۔

نسب اور سوانح حیات

ام البنین کے والد گرامی ابوالمجْل حزام بن خالد یا حرام بن خالد[1] قبیلہ بنی کلاب سے ان کا تعلق تھا۔[2] آپ کی مادر گرامی لیلی یا ثمامہ بنت سہیل بن عامر بن مالک تھیں۔[3]

مورخین کے مطابق بنی‌ کلاب شجاعت و بہادری اور اخلاقی فضائل میں مشہور تھے اور یہی خصوصیات حضرت علیؑ کے ساتھ آپ کی شادی میں موثر ثابت ہوئے۔[4]

ام البنین کی ولادت اور وفات کی تاریخ کے بارے میں تاریخ میں کوئی تحقیقی معلومات میسر نہیں ہیں لیکن بعض مورخین نے مختلف تاریخی شواہد کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت کو 5 سے کے درمیان قرار دیا ہے۔[5] آپ کی تاریخ وفات بعض مورخین نے 13 جمادی الثانی 64ھ[6] جبکہ بعض دوسرے مورخین نے 18 جمادی‌الثانی 64ھ قرار دیا ہے۔[7]اسی طرح بعض مورخین کے مطابق واقعہ کربلا کے بعد آپ کے زندہ ہونے کی کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے۔[8] مورخین کے مطابق آپ کا محل دفن جنت البقیع ہے۔[9]

حضرت علیؑ کے ساتھ ازدواج

حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کے بعد حضرت علیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے جو نسب شناسی[یادداشت 1] میں مشہور تھے، ایک نجیب خاندان سے بہادر، شجاع اور جنگجو اولاد جنم دینے والی زوجہ کے انتخاب کے بارے میں مشورہ کیا[یادداشت 2] تو عقیل نے فاطمہ بنت حزام کا نام تجویز کیا اور کہا عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی دلیر مرد نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں حضرت علیؑ نے آپ سے شادی کی۔ [11] کہا جاتا ہے کہ ام‌البنین نے حضرت علیؑ سے پہلے کسی سے شادی نہیں کی تھی۔[12]

حضرت فاطمہؑ کی شہادت کے بعد ام البنین کے ساتھ امام علیؑ کی پہلی شادی تھی یا دوسری، اس میں اختلاف ہے۔[13] بعض تاریخی شواہد کی بنا پر امام علیؑ نے حضرت فاطمہؑ کے کہنے پر آپ کی شہادت کے بعد امامہ سے شادی کی[14] لیکن اس کے باوجود بعض مورخین امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کی رو سے اس بات کے معتقد ہیں کہ ام‌البنین حضرت فاطمہؑ کے بعد امام علیؑ کی پہلی زوجہ ہیں۔[15] بعض مورخین اس بات کے پیش نظر کہ حضرت ام‌البنین کے پہلے بیٹے کی پیدائش 26ھ میں ہوئی، امام علیؑ کے ساتھ ام‌البنین کی شادی کو سنہ 23 ہجری سے پہلے قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض امام علیؑ کے ساتھ آپ کی شادی کو 13 یا 16ھ میں قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آپ کی شادی اور پہلے بیٹے حضرت عباسؑ کی ولادت کے درمیان 10 سال کا عرصہ گزرا تھا۔[16] [یادداشت 3] ‌ کہا جاتا ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ نے حضرت علیؑ کو یہ تجویز دیا کہ آپ کو "فاطمہ" سے نہ پکارا جائے تاکہ حسنینؑ کو فاطمہ کا نام سن کر اپنی والدہ ماجدہ کی یاد تازہ نہ ہو۔ اسی بنا پر امام علیؑ نے آپ کو "ام‌البنین" [بیٹوں کی ماں] نام دیا۔[17]

امام علیؑ کو ام‌البنین کے بطن سے اللہ نے چار بیٹے عطا کئے جن کا نام عباسؑ، عبد اللہ، جعفر اور عثمان ہیں۔[18] سہل بن عبد اللہ بخاری کے مطابق ام‌البنین نے حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی۔[19]

بیٹوں کی شہادت پر عکس العمل

ام البنین واقعہ کربلا میں حاضر نہیں تھی لیکن آپ کے چار بیٹے عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔[20] جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ پہنچا تو آپ کو کسی نے آپ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی لیکن آپ نے امام حسینؑ کے بارے میں پوچھا اور جب امام حسینؑ کی شہادت کی خبر سنی تو کہا:«اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے میرے حسینؑ پر فدا ہوتے اور وہ زندہ رہتے»۔ یہ جملے آپ کی امام حسینؑ اور اہل بیتؑ کے ساتھ شدیدمحبت کے عکاس ہیں۔.[21]

تاریخی منابع میں ہے کہ حضرت زینب(س) مدینہ پہنچنے کے بعد "ام البنین" سے ملنے گئیں اور انہیں ان کے بیٹوں کی شہادت کے حوالے سے تعزیت و تسلیت پیش کی۔[22]

بقیع کے نقشے میں ام البنین کی مزار کی جگہ

ام البنین کا اپنے بیٹوں کیلئے عزاداری

مقاتل الطالبین کے مطابق ام البنین اپنے بیٹوں کی شہادت سے باخبر ہونے کے بعد ہر روز اپنے پوتے عبیداللہ (فرزند عباس) کے ساتھ جنت البقیع جایا کرتی تھی اور وہاں پر اپنے اشعار پڑھا کرتی تھیں اور نہایت دلسوز انداز میں گریہ کرتی تھیں۔ اہل مدینہ ان کے ارد گرد جمع ہوکر ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ مدینہ کا حاکم مروان بن حکم بھی رویا کرتا تھا۔[23] آپ ایک فصیح و بلیغ ادیب و شاعر اور اہل فضل و دانش سمجھی جاتی تھی۔[24]آپ حضرت عباسؑ کیلئے مرثیے کے یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں:

جناب عباسؑ کے سوگ میں ام البنین کے اشعار:
یا من رَاَی العباس کرّعلی جماهیر النقد
و وراه من ابناء حیدرکل لیث ذی لبد
انبئت اَنّ ابنی اصیببراسه مقطوع ید
ویلی علی شبلی امال براسه ضرب العمد
لو کان سیفک فی یدیک لما دنا منک احد[25]
اب مجھے ام البنین نہ کہنا:
لا تدعُوَنِّی وَ یَک ام البنینتُذکِّرینی بلیوث العرین
کانت بنونَ لی اُدعَی بهِمو الیومَ اَصبَحتُ و لا من بَنین
اَربعۀٌ مِثلَ نسُورُ الرّبیقد وَاصلُوا الموتَ بقَطعِ الوَتینِ
تنازَعُ الحِرصانَ اَشلائَهُمفَکُلّهُم اَمسُوا صَریعاً طَعین
یا لَیتَ شِعربی اَکَما اَخبَروابِاَنَّ عبّاساً مَقطُوعَ الیَدَین[26]

شیعوں کی نظر میں ام البنین کا مقام

قبرستان بقیع میں ام البنین کی قبر

شیعہ علما ام البنین کی فصاحت و بلاغت اور امام حسینؑ و اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت کے مداح ہیں اور انہیں نیک اور بزرگی سے یاد کرتے ہیں۔[27] دسویں صدی ہجری کے فقیہ شہید ثانی اور شیعہ مقتل نگار سید عبدالرزّاق مُقَرَّم (متوفی 1391ھ) کا کہنا ہے کہ ام البنین کی خاندان نبوت سے خاص محبت اور شدید و خالص دلبستگی تھی اور اپنے آپ کو ان کی خدمت کیلئے وقف کی ہوئی تھی۔ خاندان نبوت کے ہاں بھی آپ کو ایک اعلی مقام حاصل تھا اور آپ کا خصوصی احترام کرتے تھے۔ عید کے ایام میں ان کی خدمت میں تشریف لے جاتے تھے اور ان کا خاص احترام کرتے تھے۔[28] شیعہ تاریخ کے محققباقر شریف قرشی (متوفی1433ھ) کا بھی کہنا ہے کہ تاریخ میں ام البنین جیسی دوسری ایسی خاتون نہیں دیکھی گئی ہے جو اپنی سوکن کی اولاد سے اس قدر خالص محبت کرے اور اپنی اولاد پر ان کو برتری دے۔[29]

شیعہ مرجع تقلید سید محمود حسینی شاہرودی (متوفی 17 شعبان ۱۳۹۴ ہجری قمری) کہتے ہیں: میں مشکلات میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی ماں ام البنینؑ کیلئے 100 مرتبہ صلوات ہدیہ کرتا ہوں اور اپنی مشکلات سے بخوبی باہر آتا ہوں۔[30] ایرانی خواتین اپنی حاجات لینے اور صبر و تحمل زیادہ کرنے کے لئے ام البنین سے متوسل ہوتی ہیں اور ان کے نام پر نیاز دیتی ہیں۔[31] اسی طرح بعض علاقوں میں «دسترخوان مادر حضرت ابوالفضل» یا «دسترخوان ام البنین» بچھایا جاتا ہے۔[32]

نوٹ

  1. حضرت عباس علمدارؑ کے ننیال میں بھی عظیم پہلوانوں کا نام دیکھا جا سکتا ہے جن کی شہرت عرب میں زبان زد عام و خاص تھے۔ اسی بنا پر عقيل نے حضرت علیؑ کو شادی کے لئے حضرت امّ‌البنين کا نام دیا۔ اور امام علیؑ نے بچے کی روح اور نفسیات پر میراث کے اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شادی پر رضایت مندی کا اظہار فرمایا؛حضرت عباسؑ کے ننھیال سے عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب جن کا لقب مُلاعب الاسنۃ ہے ان کے بارے میں زمانہ جاہلیت کے شاعر اوس بن حجر کہتا ہے: یُلاَعِبُ اَطْرَافَ الاْسِنَّةِ عَامِرٌ/فَرَاحَ لَهُ حَظُّ الْکَتَائِبِ اَجْمَعِ (ترجمہ: عامر نیزے کی نوک کو مزاق سمجھتا تھا اور اکیلاایک لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا) [10]
  2. امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے یوں فرمایا: انظر الى امرأة قد ولدتها الفَحولة من العرب لِأتزوّجها فتلد لي غلاما فارساً (ترجمہ: عرب کی کوئی ایسی خاتون کی تلاش کر جو پہلوانوں کو جنم دیتی ہو تاکہ اس سے میرے لئے بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو)۔ ابن عنبہ، عمدۃ الطّالب في أنساب آل أبي طالب، منشورات الشريف الرضي، ج۱، ص۳۵۷.
  3. اگر ام‌البنین کی ولادت سنہ 5 یا 9 ہجری کو ہوئی ہو تو امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ ان کی شادی 13 یا 16 ہجری میں ہونا بہت بعید ہے۔ اس بنا پر معقول یہی لگتا ہے کہ امام علیؑ کے ساتھ آپ کی شادی سنہ 23 ہجری کے آس پاس ہوئی ہے۔

حوالہ جات

  1. بطل العلقمی کے مصنف کے بقول ام البنین فاطمہ کے باپ کا نام اگرچہ اکثر حزام لکھا گیا ہے لیکن یہ یقینی طور پر غلط ہے۔ ان کے باپ کا نام حرام ہے۔مظفر،الموسوعہ بطل العلقمی،ج1 ص
  2. طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۸.
  3. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب،‌ ص۳۵۶؛ غفاری، تعلیقات بر مقتل الحسین، ص۱۷۴.
  4. مسعودی، مروج الذهب و معادن الجواهر، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۶۷.
  5. آقاجانی قناد، مادر فضیلت ہا، ۱۳۸۲ش، ص۲۰ش.
  6. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم،‌ ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۷۶.
  7. زہیری، أم البنین سیرتہا وکراماتہا، ۲۰۰۶م، ص۱۶۹-۱۷۰۔
  8. مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۶ق، ص۳۵۵-۳۵۷۔
  9. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم،‌ ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۷۶.
  10. الاغانی الاصبهانی، ابوالفرج، الاغانی، بیروت، داراحیاءالتراث‌العربی، ج۱۵، ص۵۰.
  11. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۷.
  12. رجوع کریں: اردوبادی، موسوعه العلامة الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۷، ص۴۷-۴۹.
  13. زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹، ص۸۳.
  14. رجوع کریں: ابن‌اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۲.
  15. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۵.
  16. محمودی، ماہ بی‌غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.
  17. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم،‌ ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۶۹.
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۵۳.
  19. بخاری، سرّالسلسلہ العلویۃ، ص۸۸.
  20. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۵۳.
  21. حسون، اعلام النساء، ۱۴۱۱ھ، ص۴۹۶-۴۹۷؛ محلاتی، ریاحین الشریعه، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۲۹۳؛ ملاحظہ کریں: دخیل، العباس، ۱۴۰۱ھ، ص۱۸.
  22. موسوی، قمر بنی‌هاشم، ص۱۶.
  23. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۵.
  24. حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷.
  25. شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۱.
  26. شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۱.
  27. دخیل، العباس(ع)، ۱۴۰۱ق، ص۱۸.
  28. ربانی خلخالی، ستاره درخشان مدینه حضرت ام البنین، ۱۳۷۸ش، ص۷؛ مقرم، قمر بنی‌هاشم، ۱۳۶۹ق، ص۱۸.
  29. شریف القرشی، العباس بن علی، ۱۳۸۶ش، ص۲۸.
  30. ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس(ع)، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۴۶۴.
  31. بلوکباشی، «ام البنین در فرهنگ عامه»، ص۱۸۶-۱۸۸.
  32. بلوکباشی، «ام البنین در فرهنگ عامه»، ص۱۸۶-۱۸۸.

مآخذ

  • آقاجانی قناد، علی، مادر فضیلت ها، قم، مرکز پژوهش های صدا و سیما، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابه، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء۔
  • ابن عنبه، احمد، عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ء۔
  • اردوبادی، محمدعلی، موسوعة العلامة الاردوبادی، تحقیق السید محمد آل المجدد الشیرازی، کربلا،‌دار الکفیل، ۱۴۳۶ھ۔
  • اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، به کوشش احمد صقر، قاهره، ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۹ء۔
  • امّ البنین علیهاالسلام النّجم الساطع فی مدینة النبی الأمین، کتابخانه مدرسه فقاهت، تاریخ اخذ: ۳۰ دی ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • بخاری، سهل بن عبدالله، سرّالسلسلۀ العلویۀ، قم، چاپخانه نهضت.
  • بلوکباشی، علی، «ام البنین در فرهنگ عامه»، دایره المعارف بزرگ اسلامی، ج ۱۰، تهران، مزکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • حسون، محمد و ام‌علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، تهران، ۱۴۱۱ھ۔
  • دُخَیّل، علی محمد علی، العباس بن امیرالمؤمنین علیه‌السلام، بیروت، مؤسسة اهل البیت، ۱۴۰۱ھ۔
  • ربانی خلخالی، علی، چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس، قم، مکتب الحسین، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • ربانی خلخالی، علی، ستاره درخشان مدینه؛ حضرت ام البنین(س) همسر باوفای امیر المومنین(ع)، قم، مکتب الحسین، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • زجاجی کاشانی، مجید، سقای کربلا، تهران، نشر سبحان، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • زهیری، داود بن عبد الله بن أبی الکرام الجعفری، السیدة أم البنین(ع) سیرتها - کراماتها، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، بیروت، ط۱، ۲۰۰۶ء۔
  • ستاره درخشان مدینه، شبکه جامع کتاب گیسوم، تاریخ بازدید: ۳۰ دی ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • شبر، جواد، أدب الطف أو شعراء الحسین علیه‌السلام من القرن الأول الهجری حتی القرن الرابع عشر، بیروت، دارالمرتضی، ۱۴۰۹ھ۔
  • شریف القرشی، باقر، العباس بن علی، ترجمه سید حسن اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، الطبعة الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء۔
  • کلباسی، محمدابراهیم، خصائص العباسیه، تحقیق و ترجمه محمد اسکندری، تهران، انتشارات صیام، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • محلاتی، ذبیح‌الله، ریاحین الشریعة، تهران، ۱۳۶۴ہجری شمسی۔
  • محمودی، عباسعلی، ماه بی‌غروب؛ زندگی‌نامه ابوالفضل العباس، تهران، فیض کاشانی، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • مظفر، عبدالواحد، موسوعة بطل العلقمی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۹ھ/۲۰۰ء۔
  • مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین(ع) أو حدیث کربلاء، بیروت، انتشارات مؤسسة الخرسان للمطبوعات، ۱۴۲۶ھ۔
  • مقرم، عبدالرزاق، قمر بنی‌هاشم، نجف، ۱۳۶۹ھ/۱۹۵۰ء۔